بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث ایسے ملبوسات کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، جو سستے بھی ہوں اور فیشن کے مطابق بھی ہوں۔ کچھ لوگ اس لیے بھی سستے ملبوسات کو ترجیج دیتے ہیں کیونکہ انہیں مختلف مواقعے کے لیے نیا لباس درکار ہوتا ہے
سستے اور فیشن کے مطابق کپڑے محدود مدت کے استعمال کے لیے خریدے جاتے ہیں، اور جیسے ہی فیشن بدلتا ہے، یا وہ کچھ پرانے محسوس ہونے لگتے ہیں تو انہیں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایسے ملبوسات کے لیے ، لباس تیار کرنے والی کمپنیوں کی دنیا میں ’فاسٹ فیشن‘ کا نام دیا جاتا ہے
فاسٹ فیشن کے ملبوسات کی سلائی زیادہ تر چین، بنگلہ دیش، انڈونیشا، بھارت، تھائی لینڈ، ویت نام اور ترکی جیسے ممالک میں ہوتی ہے اور یہ روزانہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں تیار کر کے دنیا بھر کی مارکیٹوں میں پھیلا دیے جاتے ہیں
فاسٹ فیشن کے سستے ملبوسات آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں، لیکن اکثر لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی تیاری زیادہ تر ایسے خام مال سے کی جاتی ہے جو ہمارے قدرتی ماحول کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلانے کا سبب بنتا ہے
واشنگٹن میں قائم ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ میں پائیدار کاروباروں اور جدت طرازی کے شعبے کے ڈائریکٹر ایلیٹ میٹزگر کہتے ہیں کہ فاسٹ فیشن کے، ماحول پر وسیع تر اثرات مرتب ہوتے ہیں
انہوں نے ملبوسات کی تیاری کے عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ایک ٹی شرٹ بنانے کے لیے کتنا پانی اور توانائی صرف ہوتی ہے اور جب اسے کچرے میں پھینک کر دوسری ٹی شرٹ خرید لی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم مزید توانائی اور پانی ضائع کرنے میں حصے دار بن گئے ہیں۔ یہ فاسٹ فیشن کے نقصانات کا صرف ایک پہلو ہے
سستے فیشن کے اثرات کا دائرہ صرف ترقی یافتہ ملکوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایسے انتہائی غریب ممالک بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں، جہاں امیر ملکوں کے عطیہ کیے ہوئے استعمال شدہ کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ وہاں ان کپڑوں کا بڑے پیمانے پر کاروبار ہوتا ہے۔ انہیں بیچا اور خریدا جاتا ہے، پہنا جاتا ہے اور پھر جب وہ استعمال کے قابل نہیں رہتے تو کچرے میں پھینک دیے جاتے ہیں
یہاں سے فاسٹ فیشن کا ایک نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ چونکہ ان کی تیاری میں ایسا خام مواد استعمال کیا جاتا ہے جو زمین کا حصہ نہیں بنتا اس لیے وہ ماحول میں آلودگی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں
ٹیکسٹائل کی آلودگی کے مناظر غریب ملکوں میں جا بجا نظر آتے ہیں، جن میں اکثریت افریقی ملکوں کی ہے۔ ان ممالک میں کینیا اور گھانا سر فہرست ہیں کیونکہ فاسٹ فیشن کے ملبوسات سب سے زیادہ یہی دو ملک منگواتے ہیں
واشنگٹن میں ’پلاسٹک پولیوشن کولیشن‘ کے ایک عہدے دار ایریکا سیرینو کہتے ہیں کہ ان افریقی ملکوں میں ٹیکسٹائل کا فضلہ اس قدر زیادہ ہے کہ ندی نالے اور پانی کے دیگر وسائل بھی اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں
ملبوسات کا یہ کچرا یا فضلہ صحت اور صفائی کے مسائل پیدا کرنے کی وجہ بن رہا ہے
فاسٹ فیشن کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کا آغاز 1990 کی دہائی میں اس وقت ہوا، جب ملبوسات تیار کرنے والے کچھ کمرشل ذہنوں میں یہ خیال آیا کہ سستے مٹیریل سے فیشن ایبل لباس بنا کر، اور انہیں بڑے پیمانے پر پھیلا کر زیادہ منافع کمایا جا سکتا ہے
اس تصور نے چند ہی برسوں میں دنیا بھر میں سستے فیشن ایبل ملبوسات کی بھرمار کر دی۔ ان ملبوسات میں استعمال ہونے والا کپڑا زیادہ تر پولی ایسٹر، نائیلون، ایکریلک اور اسی طرح کی دوسری اشیا کے دھاگوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ ان دھاگوں کا مواد عموماً پیٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ پٹرولیم کا بڑھتا ہوا استعمال گلوبل وارمنگ میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے
یوں فیشن ایبل ملبوسات سب کی دسترس میں تو آ گئے لیکن اس کا خمیازہ ماحول کو بھگتنا پڑا
حالیہ برسوں کے دوران آلودگی پر ہونے والی سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ برف پوش پہاڑوں کی بلندیوں سے لے کر سمندروں کی تہوں تک، فضا میں اڑتے پرندوں سے لے کر مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کے جسموں میں پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات، جنہیں مائیکرو فائبر کہا جاتا ہے، موجود ہیں اور ان کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے
مچھلیاں، دیگر آبی حیات اور پرندوں کی کئی اقسام انسانی خوراک میں شامل ہیں، اس طرح یہ مائیکرو فائبر ہمارے جسم میں صحت کے کئی پیچیدہ مسائل کو بھی جنم دے رہا ہے
نقصان دہ مواد سے متعلق ایک سائنسی جریدے ’جرنل آف ہیزرڈس میٹریلز‘ کی ایک اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں ہر سال تقریباً پینسٹھ لاکھ میٹرک ٹن مائیکرو فائبر ہمارے ماحول میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ کتنی بڑی مقدار ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے بتیس ارب ٹی شرٹس بن سکتی ہیں!
مصنوعی ریشوں سے بننے والے کپڑے ہر وقت آلودگی پھیلاتے رہتے ہیں۔ کیونکہ چلنے پھرنے اور حرکت کرنے سے ان ملبوسات کے ریشے آپس میں رگڑ کھا کر ٹوٹتے اور ہوا میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ذرّات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہم انہیں خوردبین کے بغیر دیکھ بھی نہیں سکتے۔ پھر یہ اڑتے ہوئے ذرات نہ صرف ہمارے پھیپھڑوں میں اتر رہے ہیں بلکہ پانی میں شامل ہو کر اسے بھی آلودہ کر رہے ہیں
ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں کپڑے دھونے اور سکھانے کے لیے واشنگ مشینوں کا استعمال بڑے پیمانے پر فضا اور پانی میں مائیکروفائبرز پھیلانے کا سبب بن رہا ہے کیونکہ ان مشینوں میں نصب فلٹر انتہائی باریک ذرات کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں
امریکہ میں ماحولیات کے تحفظ کے ادارے ’یو ایس انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی‘ کی عہدے دار سوروپا گنگولی کہتی ہیں ”کاغذ، شیشے، پلاسٹک وغیرہ کو ری سائیکل کرنے کے انتظامات تو موجود ہیں لیکن ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں کہ کپڑوں کے مائیکروفائبرز کو ری سائیکل کیسے کیا جا سکتا ہے؟“
اس کی آلودگی پر قابو پانے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ مصنوعی ریشوں سے بننے والے ملبوسات سے اجتناب کیا جائے۔ ملبوسات کو جلد پھینکنے کی بجائے ان کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ ملبوسات کا کچرا کم کرنے میں مدد مل سکے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قلیل وقفوں سے یعنی جلدی جلدی فیشن بدلنے کے رجحان کو روکا جائے، کیونکہ ہم اپنے بے ہودہ شوق کی وجہ سے اپنے ماحول کو تباہ کر رہے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لیے اسے غیر محفوظ بنا رہے ہیں۔