رواں ہفتے سندھ کے شہر رانی پور میں پیر کی حویلی میں کم سن بچی کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کا معاملہ منظرعام پر آ چکا ہے۔ یہ اور آئے دن ہونے والے ایسے ہی دیگر واقعات پاکستانی معاشرے کی زبوں حالی کی نشاندہی کر رہے ہیں۔
گزشتہ روزاسلام آباد پولیس نے محنت کش بچی عندلیب فاطمہ پر تشدد کے الزام میں ایک خاتون کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا، ملزمہ کو جوڈیشل کسٹڈی میں دے دیا گیا ہے۔
معمولی تنازعات پر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے میں عدم برداشت اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا سبب ہیں۔ دوسری جانب گھروں میں ’ڈومیسٹک وائلنس‘ (گھریلو تشدد) میں بھی خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرسٹریشن ہر جگہ نظر آ رہی ہے اور کمزور طبقہ اس کا سب سے زیادہ نشانہ بن رہا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی محنت کش خواتین اوربچیاں اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثرہونے والا طبقہ ہے۔ انہیں ناصرف گالم گلوچ اور تضحیک آمیز رویوں کا شکار بنایا جاتا ہے بلکہ انہیں جسمانی طور پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ قدرے معمول سمجھا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے رہنما اور قانونی ماہر ایڈوکیٹ ضیا اعوان کا کہنا ہے کہ گھریلو ملازمین کو ذہنی اور جسمانی تشدد اور جنسی حراسانی کا شکار بنانے کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں تاہم بیشتر واقعات رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ متاثرہ افراد کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔ تشدد سے کسی بچی کی ہلاکت کا معاملہ سامنے آنے پر ہی ان واقعات کی سنگینی کا احساس کیا جاتا ہے جو معاشرے کی اجتماعی بے حسی کا نتیجہ ہے۔
عموماً شہروں میں اشرافیہ کے گھروں میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کم سن لڑکیوں کو ملازمت پر رکھنے کا رجحان ہے اور بڑی عمر کی خواتین کی بجائے چھوٹی لڑکیوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ان بچیوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا نہ ہونا ہے۔ ایسی بچیاں نہ تو کسی بھی رویے کی شکایت کرتی ہیں اور نہ ہی ان کی جانب سے کسی جوابی ردعمل کا امکان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے بچوں کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ گھر کے اور بھی کام لیے جاتے ہیں۔ گھر میں ہی مستقل رکھی جانے والی ان بچیوں کے کام کے اوقات مقرر نہیں ہوتے جس کی وجہ سے انہیں آرام کرنے کے لیے مناسب وقت بھی نہیں ملتا۔
ماہرنفسیات انیلہ امبرملک کہتی ہیں کہ محنت کش بچیوں کی اپنے گھروالوں سے کئی کئی ماہ ملاقات نہیں ہو پاتی اور اسے چھٹی بھی نہیں ملتی کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ دن گزار سکے۔ ایسی صورتحال میں کئی کئی ماہ بچی کسی اپنے کی عدم موجودگی کے باعث عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہو چکی ہوتی ہے اور ماں باپ سے ملاقات کے باوجود بھی وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و زیادتی کی شکایت نہیں کر پاتی کہ اگر ماں باپ نے کوئی بات یا شکایت کردی تو اس کا خمیازہ اسے بعد میں بھگتنا پڑے گا۔ ایسی بچیاں عموما خود کو غلام تصورکرنے لگتی ہیں اورشعورنہ ہونے کے باعث انہیں اپنے حقوق کا علم نہیں ہوتا۔
ماہر نفسیات انیلہ امبرملک کا کہنا تھا کہ محنت کش بچیوں پر تشدد میں گھر کی خواتین ہی ملوث ہیں اور اس رجحان کے کئی اسباب ہیں۔ عموماً اشرافیہ اور پڑھے لکھے گھرانوں میں خواتین کو وہ مقام حاصل نہیں۔ کہیں گھریلو تشدد کے مسائل ہیں تو کہیں مساوی حقوق اور برابری کے برتاؤ کا مسئلہ۔۔ ایسے میں خواتین فرسٹریشن کا شکار ہوجاتی ہیں اور وہ فرسٹریشن یا تو ان کی اپنی اولاد پر پٹائی اور ڈانٹ ڈپٹ کی صورت میں نکلتی ہے نہیں تو پھر اس کا شکار گھر میں کام کرنے والی کم سن بچیاں ہوتی ہیں، جنہیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے
ایڈووکیٹ ضیا اعوان نے بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے لیے والدین کو بھی قصوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو احساس کیسے دلائیں کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کے والدین عموماً کم ہی ملنے آتے ہیں بعض واقعات میں صرف تنخواہ لینے آنے والے باپ کو دروازے سے ہی رخصت کر دیا جاتا ہے یہ کہہ کر کہ اس کی بچی ابھی بازار گئی ہے۔ والدین اپنی بیٹی کی تنخواہ تو وصول کر لیتے ہیں لیکن وہ کس حال میں ہے اور کیسی ہے یہ جاننے کی زحمت نہیں کرتے یا پھر انہیں اس نام نہاد پڑھی لکھی فیملی پر بھروسہ ہوتا ہے کہ وہ اتنے پیسے والے ہیں تو ہمارے بچے کو اچھا کھلاتے پلاتے ہونگے اور اس کی اچھی دیکھ بھال ہوتی ہوگی
ایسی ہی ایک لاچار ماں شمیم نے بتایا کہ اس نے بھی بچپن سے اسی طرح گھروں میں کام کیا حالات سے مجبور ہو کر اپنی بچی کو جہاں رکھا، وہ پہلے تو بہت اچھے سے رکھتے تھے پھر انہوں نے تشدد کرنا شروع کر دیا اور مکان بدل لیا، جس کے بعد بچی کو بازیاب کرانے کے لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
متاثرہ بچی کی ماں شمیم کا کہنا تھا کہ خراب معاشی صورتحال میں نو بچوں کی کفالت بہت مشکل ہے، اسی لیے مجبوراً بیٹی کو گھر پر کام کرنے کے لیے رکھوایا تھا
سماجی کارکن شہزاد رائے کا کہنا ہے کہ حکومتی سرپرستی میں ایسے بچوں کے لیے شیلٹرز قائم کیے جائیں اور انہیں جبری مشقت کی بجائے تعلیم اور ہنر کے زیور سے آراستہ کرکے معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکتا ہے۔ ایڈووکیٹ ضیا اعوان نے بھی ایسی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس بیت المال اور بینظیر انکم سپورٹ جیسے پروگرام ہیں، جن کے تحت بچوں کو شیلٹرز فراہم کیے جا سکتے ہیں یہ انہیں گھر پر وظیفہ مقرر کر کے جبری مشقت سے بچایا جا سکتا ہے۔
سماجی رہنما اور قانونی ماہر ایڈووکیٹ ضیا اعوان کا کہنا تھا کہ یہ کم سن محنت کش بچیوں سے مشقت لینا غلامی کی مختلف شکلوں میں سے ایک ہے اور اس کے خلاف لڑنے کے لیے گورنمنٹ کا متحرک ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا، ”پچیس تیس جو انسٹیٹیوشنز بنے ہوئے ہیں، کوئی چائیلڈ رائٹس، کا کوئی ہیومن رائٹس کا کوئی ویمن رائٹس کا کمیشن۔۔ یہ سب کس کام کے ہیں، حکومت کو ایک ہی بااختیار ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے۔‘‘
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)