بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے وڈھ کے رہائشی عبداللہ مینگل ان ہزاروں افراد میں شامل ہیں، جو گزشتہ پانچ دنوں سے وڈھ میں جاری قبائلی تصادم کی وجہ سے محصور ہونے کی وجہ سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں
عبداللہ مینگل کہتے ہیں ”گزشتہ پانچ دنوں سے کرفیو جیسی صورتحال ہے، ہم اپنے گھروں میں محصور ہیں لوگ گھر تو دور کمروں سے بھی نکلتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔ گھروں میں خوراک کا سامان ختم ہونے سے بچے بھوکے پیاسے ہیں۔ حاملہ خواتین، زخمیوں اور بیمار افراد کو ہسپتال لے جانا بھی جان جوکھوں میں ڈالنے جیسا ہے“
کلی پیر محمد کے رہائشی عبداللہ نے بتایا ”ہم بال بچوں کے ہمراہ کمروں کے اندر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو گولیاں اور گولے لگنے کا ڈر ہوتا ہے گزشتہ روز ایک گھر میں مارٹر گولہ گرا جس سے ایک بچی زخمی ہوئی۔ کئی گھنٹوں تک زخمی بچی درد سے کراہتی رہی مگر گھر والے انہیں ہسپتال لے جانے سے اس لیے قاصر تھے کہ مسلسل فائرنگ چل رہی تھی“
ان کا کہنا تھا ”جن لوگوں کے پاس کچھ رقم وغیرہ تھی وہ جنگ سے تنگ آکر خضدار اور وڈھ کے دوسرے پرامن علاقوں میں اپنے رشتہ داروں کے گھر چلے گئے ہیں۔ ہم جیسے لوگ یہاں محصور ہیں۔ نہ باہر جا سکتے ہیں نہ کوئی ہمارے پاس آ سکتا ہے“
ان کا کہنا ہے ”ایسے بھی گھر ہیں، جہاں ضرورت کا سامان آٹا وغیرہ ختم ہوگیا ہے۔ بچے بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں فاقے پڑ رہے ہیں لیکن کسی کو ہماری مشکلات کا احساس نہیں۔ ہم لڑائی سے تنگ آچکے ہیں“
واضح رہے کہ یہ قبائلی تصادم بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل اور سابق نگراں وزیراعلیٰ میر نصیر مینگل کے بیٹے شفیق مینگل کے حامیوں کے درمیان ہو رہا ہے، جس میں بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پانچ دنوں سے جاری لڑائی میں اب تک دو افراد ہلاک اور خواتین اور بچوں سمیت پانچ زخمی ہو چکے ہیں
خضدار پولیس کے ضلعی سربراہ ایس ایس پی فہد کھوسہ نے دو ہلاکتوں اور کئی افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی، تاہم انہوں نے زخمیوں کی صحیح تعداد نہیں بتائی۔ ایس ایس پی کے مطابق مرنے والے دونوں مورچوں پر بیٹھ کر لڑائی میں حصہ لینے والے افراد تھے جبکہ زخمیوں میں راہ گیر اور خواتین بھی شامل ہیں
اختر مینگل اور شفیق مینگل کے درمیان کافی عرصے سے تنازع چل رہا ہے تاہم گزشتہ دو ماہ سے حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ اس سے پہلے جولائی میں چاردن تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں لگ بھگ دس افراد زخمی ہوئے تھے، جس کے بعد قبائلی رہنماء سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی سربراہی میں قبائل اور علماء کے وفود نے مداخلت کر کے ’جنگ بندی‘ کرادی تھی، تاہم اگست کے وسط میں ایک بار پھر جھڑپوں کا آغاز ہوا جو پانچ دن گزرنے کے باوجود تھم نہ سکی
وڈھ لیویز کنٹرول کے مطابق دونوں جانب سے سینکڑوں مسلح افراد مورچہ زن ہوکر ایک دوسرے پر لائٹ مشین گن، مارٹر اور راکٹ جیسے بھاری ہتھیاروں سے حملے کر رہے ہیں
وڈھ کے صحافی جبار بلوچ کے مطابق اب تک متعدد مارٹر اور راکٹ گولے آبادیوں میں گر چکے ہیں، جس کی وجہ سے خواتین و بچے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ وڈھ کے سرکاری ہسپتال اور کالج میں بھی مارٹر گولے گرے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وڈھ میں کرفیو کی صورتحال ہے۔ بازار پانچ دنوں سے مکمل بند ہیں، اشیاء ضروریہ فروخت کرنے والی دکانیں حتیٰ کہ میڈیکل سٹور، کلینک اور ہسپتال بھی بند پڑے ہیں۔ لوگ زخمیوں کو خضدار یا کوئٹہ لے جانے پر مجبور ہیں
انتہائی کشیدہ صورتحال سے پریشان بعض لوگ سڑکوں پر بھی نکل آئے اور انہوں نے ہفتے کی صبح وڈھ کے علاقے وہیر کے مقام پر کوئٹہ کراچی شاہراہ بند کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا
احتجاج میں شریک عبدالطیف کا کہنا تھا ”ہم کسی فریق کے ساتھ ہیں اور نہ کسی جماعت کے ساتھ، ہم خونریزی کا خاتمہ، جنگ بندی اور امن چاہتے ہیں۔ ہمارا یہ احتجاج امن کے لیے ہے اگر یہ خونریزی بند نہ ہوئی تو تین دن بعد خواتین اور بچوں کے ساتھ سڑک پر بیٹھ کر دھرنا شروع کریں گے۔“
وقفے وقفے سے جاری جھڑپوں کے دوران کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی این 25 آرسی ڈی شاہراہ بھی روزانہ کئی کئی گھنٹے بند رہتی ہے۔ شاہراہ پر گزرنے والے افراد بھی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ روز فائرنگ کی زد میں آکر ایک کنٹینر ڈرائیور زخمی ہوا
سعید بلوچ ہفتے کو کراچی سے اپنی نجی گاڑی میں خضدار آتے ہوئے کئی گھنٹے وڈھ میں انتظار کرنا پڑا۔ سعید بلوچ نے بتایا کہ وڈھ کے قریب پہنچے تو شدید فائرنگ چل رہی تھی جس کی وجہ سے لیویز نے شاہراہ بند کردی تھی
ٹرانسپورٹرز کے مطابق کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی اس اہم شاہراہ کا وڈھ کے مقام پر فائرنگ کی وجہ سے بند رہنا اب معمول بن گیا ہے۔ چھوٹی گاڑیوں، ٹرکوں، کنٹینرز اور مسافر بسوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ روزانہ پانچ سے چھ گھنٹے لوگ شدید گرمی اور بھوکے پیاسے کھلی سڑک پر انتظار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہوٹل اور دکانیں بھی بند رہتی ہیں جس کی وجہ سے مسافروں کو خوراک اور پانی کے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا پڑا
ایس ایس پی خضدار فہد کھوسہ کا کہنا ہے کہ شاہراہ کو انتظامیہ حفظ ماتقدم کے طور پر بند کرتی ہے تاکہ فائرنگ کی زد میں آکر کسی کو نقصان نہ پہنچے
وڈھ کے صحافی جبار بلوچ کے مطابق فریقین نے پہاڑوں اور اونچے مقامات پر مورچے بنا رکھے ہیں ۔ پہاڑی علاقوں میں مسلسل لڑائی چل رہی ہے کبھی کبھی وڈھ بازار اور قومی شاہراہ سے ملحقہ علاقے بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں
ان کا کہنا ہے ”سنگوٹ، باڈڑی، زرچین، گورستانی، کلی صالح محمد اور کلی پیر محمد کے مقامات پر محاذ بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں میں رہائش پذیر پچاس سے ہزار سے زائد کی آبادی محصور ہوکر رہ گئی ہے۔ ان علاقوں کو جانے والی سڑکیں بند ہیں ۔ لوگ جاسکتے ہیں اور نہ آسکتے ہیں“
انہوں نے بتایا کہ آئے روز کی قبائلی جنگ سے تنگ آ کر سینکڑوں لوگ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں ان میں زمینوں پر کام کرنے والے غیر مقامی بزگر بھی شامل ہیں
جبکہ زمیندار ایکشن کمیٹی وڈھ کے رہنما حاجی امداد بخش کا کہنا ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے سینکڑوں ایکڑ پر کاشت کی گئیں زمینداروں کی تیار فصلیں تباہ ہو رہی ہیں۔ کپاس، مرچ اور ٹماٹر کی فصل تیار ہیں لیکن مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے لوگ اپنی زمینوں پر نہیں جا سکتے۔ پانچ دنوں سے ہم نے اپنی فصلوں کو پانی ہی نہیں دیا۔ بدامنی سے تنگ آکر پچاس سے زائد بزگر علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ فائرنگ کی وجہ سے کئی ٹرانسفارمرز خراب ہو گئے ہیں، بجلی کی تاریں بھی گر گئی ہیں، جس کی وجہ سے کچھ علاقوں میں دو دنوں سے بجلی بھی نہیں ہے۔ پچھلے ماہ بھی پندرہ دنوں تک کئی علاقوں کی بجلی خراب رہی۔ اب اگر رکھتی بھی ہے تو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے فصلوں کو پانی دینا مشکل ہو جائے گا
بلوچستان کے سیاسی و قبائلی معاملات پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ’فریقین گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی میدان میں بھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف انتخابات بھی لڑے۔ اس لیے جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں، تناؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ”یہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ قبائلی جنگ ہے۔ دونوں نے اس کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ جو لوگ فریقین میں سے کسی کے ساتھ ہیں، وہ تو اس لڑائی کا حصہ ہیں لیکن اس صورتحال سے وڈھ اور خضدار کے لوگ ہی نہیں بلکہ اس علاقے سے گزرنے والی قومی شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافر بھی متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ آئے روز کبھی ایک گروپ بازار یا سڑک بند کردیتا ہے کبھی دوسرا“
ایس ایس پی خضدار فہد کھوسہ کے بقول، پہلے تین دن صورتحال زیادہ خراب تھی اب بہتر ہو رہی ہے امید ہے حالات مزید بہتر ہوجائیں گے۔ انتظامیہ اور حکومت قبائلی تصادم کو رکوانے کے لیے کوشش کر رہی ہے
ان کا کہنا ہے کہ قبائلی معتبرین اور علماء بھی جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں گزشتہ روز سینیٹر مولوی فیض محمد اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا قمر الدین نے فریقین سے ملاقاتیں کیں
نگراں وفاقی وزیر داخلہ میر سرفرازاحمد بگٹی کا کہنا ہے کہ وڈھ کا مسئلہ بلوچستان حکومت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، تاہم صوبائی حکومت، پولیس یا لیویز کو نیم فوجی دستوں ایف سی سمیت کسی بھی فورس کی ضرورت پڑی تو ہم دیں گے
کوئٹہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ”نواب اسلم رئیسانی اور نوابزادہ لشکری رئیسانی نے گزشتہ بار بھی قبائلی طور پر مداخلت کرکے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ ہماری ایک بار پھر ان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں“
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ 18 جون سے شروع ہوا تھا۔ دونوں فریقین کو 18 جون سے پہلے والی پرانی پوزیشن پر جانا چاہیے
واضح رہے کہ سردار اختر مینگل خود اور ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں جبکہ ان کے مخالف شفیق مینگل تحصیل ناظم جبکہ ان کے والد میر نصیر مینگل بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں
مینگل قبیلے کےان دو خاندانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے رسہ کشی چلی آ رہی ہے تاہم اس میں شدت 20 سال قبل پرویز مشرف کے دور میں دیکھی گئی جب پہلی بار سردار اختر مینگل اور میر شفیق مینگل کے حامی زمین کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے تھے۔ اس وقت قبائلی عمائدین کی مداخلت کی وجہ سے معاملہ تصادم تک نہیں پہنچا
2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا۔ اسی طرح 2011ء جب کوئٹہ میں شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس کے مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو بھی نامزد کیا گیا
اختر مینگل اور شفیق مینگل خود اور ان کے حامی ایک دوسرے پر ڈیٹھ اسکواڈ چلانے، قتل، اغوا اور بھتہ خوری کا الزام لگاتے ہیں۔