جھوٹ کی سرزمین (عبرانی ادب سے منتخب افسانہ)

ایٹگر کریٹ (ترجمہ: قیصر نذیر خاورؔ)

رَوبی نے پہلا جھوٹ تب بولا تھا، جب وہ سات سال کا تھا۔ اس کی ماں نے اسے شِکنوں سے بھرا ایک پرانا نوٹ دیا اور اسے کہا کہ وہ کریانے والی دکان پر جائے اور اس کے لیے کنگ۔سائز ’کینٹ‘ سگریٹوں کا ایک پیکٹ لائے۔ رَوبی نے اس کی بجائے ایک آئس کریم کون خریدی۔ دکاندار سے باقی پیسے لیے اور ان سکّوں کو اپنے اپارٹمنٹ والی عمارت کے پچھلے صحن میں ایک پتھر تلے چھپا دیا۔ اس کی ماں نے جب اس سے پوچھا کہ کیا ہوا، تو اس نے اسے بتایا کہ لال بالوں والا ایک بڑی عمر کا لڑکا، جس کا سامنے والا ایک دانت ٹوٹا ہوا تھا، اسے گلی میں ملا اور اس نے اسے تھپڑ مارا اور نوٹ چھین لیا۔ ماں نے اس کی بات پر یقین کر لیا۔۔ اور تب سے رَوبی نے جھوٹ بولنا نہ چھوڑا۔

وہ ، جب ہائی اسکول میں تھا تو اس نے پورا ہفتہ ایلات کے ساحل پر سستاتے ہوئے گزارا اور طلباء کے کاﺅنسلر کو یہ کہانی پیل دی کہ اس کی، بیرشیبا میں رہنے والی خالہ کو کینسر تشخیص ہوا تھا۔ اور جب وہ فوج میں تھا تو یہی خیالی خالہ اندھی ہو گئی تھی اور اس کی جان بچ گئی، اس بار بھی وہ اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہا تھا اور یہ اس کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی، اسے حراست میں نہ لیا گیا، یہاں تک کہ اسے بیرکوں تک بھی محدود نہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ نہ ہوا۔ ایک بار جب وہ کام پر دو گھنٹے دیر سے پہنچا تو اس نے ایک جرمن شیفرڈ کتے کے حوالے سے جھوٹ بولا جو اسے سڑک پر ادھ مُوا پڑا ملا تھا۔ اس کو کسی نے روند ڈالا تھا اور اسے، اِس کو ڈنگر ڈاکٹر پر لے جانا پڑا، کیونکہ اس کی دو ٹانگیں مفلوج ہو چکی تھیں، جس نے اسے بتایا کہ کتے نے اپنی پچھلی ٹانگوں کو کبھی بھی حرکت نہ دے پانی تھی۔ اس نے کہا تھا اور یہی فریب اسے بچا گیا۔

رَوبی کی زندگی اس طرح کے بہت سے جھوٹوں اور فریبوں سے بھری تھی۔ بازو نہ ہونے کے حوالے سے جھوٹ، بیماروں کے حوالے سے جھوٹ، ایسے جھوٹ جن میں لوگوں کو زخمی کیا گیا تھا اور ایسے جھوٹ بھی جن میں لوگوں کو مار دینے سے بھی گریز نہیں کیا گیا تھا۔ پیروں کے حوالے سے جھوٹ، پہیہوں کے پیچھے چھپے جھوٹ، کالی ٹائی جیسے سجے سجائے جھوٹ اور ایسے جھوٹ بھی جن میں چوری کے واقعات بھی ہوتے۔ وہ یہ سارے جھوٹ تیزی سے یوں گھڑتا اور اسے کبھی خیال ہی نہ آتا کہ اسے ان کا کبھی سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا۔

اس کا آغاز ایک خواب سے ہوا۔ ایک مختصر اور دھندلے خواب سے، جو اس کی ماں کی موت کے بارے میں تھا۔ اس خواب میں وہ دونوں ایک اجلی سفید سطح، جس کا نہ کوئی آغاز تھا نہ اختتام، پر تنکوں سے بنی ایک چٹائی پر بیٹھے تھے۔۔ اور اس لامتناہی سفید سطح پر، ان کے پاس ایک ’گَم بال‘ (چیونگم) والی مشین پڑی تھی جس کی اوپر والی سطح پر بلبلہ سا بنا تھا۔ یہ ایک قدیمی فیشن کی مشین تھی جس کے سوراخ میں سکہ ڈال کر دستہ گھمانے پر ایک چیونگم باہر نکل آتی تھی۔ اور اس خواب میں، رَوبی کی ماں نے اسے بتایا کہ موت کے بعد کی دنیا والے، اسے بھی دیوار پار کرا کر اوپر لے جانا چاہتے تھے، جہاں لوگ تو اچھے تھے لیکن وہاں سگریٹ نہیں تھے، صرف سگریٹ ہی نہیں بلکہ کافی بھی نہیں اور نہ ہی لوگوں کے لیے کوئی ریڈیو بلکہ کچھ بھی نہیں تھا۔

”رَوبی، تمہیں میری مدد کرنا ہو گی۔“ ، اس نے کہا، ”تمہیں مجھ کو ایک چیونگم لے کر دینا ہوگی۔ بیٹے، میں نے تمہاری پرورش کی ہے۔ اس سارے عرصے میں، میں نے تمہیں سب کچھ دیا ہے اور بدلے میں کچھ نہیں مانگا۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ تم اپنی بوڑھی ماں کو کچھ لوٹاﺅ۔ مجھے ایک چیونگم لے دو۔ اگر تم لے کر دے سکتے ہو تو مجھے لال والی چاہیے، ویسے تو نیلی والی بھی چلے گی۔۔“

اور اس خواب میں، رَوبی اس امید میں کہ اسے کچھ سکے مل جائیں، اپنی جیبیں ٹٹولتا رہا۔۔ لیکن ان میں کچھ نہیں تھا۔ ”ماں، میرے پاس نہیں ہیں۔“ ، اس نے جواب دیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔۔ ”میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں نے اپنی ساری جیبیں دیکھ لی ہیں۔“

یہ سوچتے ہوئے کہ جب وہ جاگ رہا ہوتا تھا تو وہ کبھی نہیں رویا تھا، اسے یہ عجیب لگا کہ وہ خواب میں کیوں رو رہا تھا۔۔

”کیا تم نے پتھر کے نیچے دیکھا؟“ اس کی ماں نے پوچھا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما، ”شاید وہاں ابھی بھی سکے پڑے ہوں؟“

اور پھر اس کی آنکھ کھل گئی۔۔ یہ ہفتہ تھا اور صبح کے پانچ بجے تھے اور باہر ابھی اندھیرا تھا ۔ رَوبی گاڑی میں بیٹھا اور اس جگہ گیا جہاں اس نے اپنا بچپن گزارا تھا ۔ سڑک پر چونکہ ٹریفک نہیں تھی اس لیے، اسے وہاں پہنچنے میں بیس منٹ سے بھی کم وقت لگا۔ عمارت کی زمینی سطح پر، جہاں کبھی ’پلیسکِن‘ کی کریانے کی دکان تھی، وہاں اب ’ڈالر‘ شاپ (کرنسی ادلی بدلی کرنے والی دکان) تھی اور اس کے ساتھ جو جوتے مرمت کرنے والا بندہ بیٹھتا تھا، وہاں اب موبائل فون والوں کا کھوکھا تھا جو ان فونوں کے اَپ گریڈ یوں آفر کر رہے تھے جیسے اگلا دن آنا ہی نہ ہو۔

لیکن عمارت میں بذات خود کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ انہیں اس جگہ کو چھوڑے بیس سے زیادہ برس بیت چکے تھے لیکن اس پر دوبارہ سے رنگ و روغن نہیں ہوا تھا۔ صحن بھی ویسا ہی تھا، کچھ پھول، ایک نلکا، پانی کا زنگ آلود میٹر، جھاڑیاں اور گھاس پھوس سب ویسے ہی، جیسے اس کے بچپن میں تھے۔۔ اور ایک کونے میں الگنی کے پاس سفید پتھر بھی پڑا تھا۔

وہ ہاتھ میں پلاسٹک کی ایک بڑی فلیش لائٹ لیے، لمبا کوٹ (پارکا) پہنے، عمارت کے پچھلے صحن میں کھڑا تھا جہاں وہ پلا بڑھا تھا۔ یہ ہفتہ تھا اور صبح کے ساڑھے پانچ بجے تھے م۔ اگر کوئی ہمسایہ آ جاتا۔۔۔ تو وہ اسے کیا کہتا؟ میری، مری ماں خواب میں آئی تھی اور اس نے مجھے ایک چیونگم خرید کر دینے کے لیے بولا تھا اور وہ اس لیے وہاں سکوں کی تلاش میں آیا تھا؟

یہ بات عجیب تھی کہ کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی پتھر اپنی جگہ موجود تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ ایسا تو نہیں ہوتا کہ پتھر خود اٹھے اور وہاں سے چل دے ۔ اس نے ڈرتے ہوئے احتیاط سے اسے اٹھایا کہ کہیں اس کے نیچے کوئی بچھو نہ چھپا بیٹھا ہو۔۔ لیکن وہاں نہ تو بچھو تھا ، نہ سانپ اور نہ ہی سکے تھے ۔ وہاں چکودرے جتنا بڑا ایک سوراخ تھا، جس میں سے روشنی پھوٹ رہی تھی ۔
رَوبی نے اس سوراخ میں جھانکنے کی کوشش کی لیکن روشنی نے اس کی آنکھیں چندھیا دیں ۔ وہ ایک لمحے کے لیے ہچکچایا اور پھر دوبارہ اس تک پہنچا ۔ اس نے لیٹ کر کندھے تک اپنا بازو اس میں ڈالا اور کوشش کی کہ وہ اس کی تہہ کو چُھو لے ۔ لیکن سوراخ کا پیندا تھا ہی نہیں ، اس کا ہاتھ بس ٹھنڈی دھات سے ہی ٹکڑا کر رہ گیا ، اسے یہ کسی شے کا دستہ لگا ۔ یہ چیونگم والی مشین کا دستہ تھا ۔ رَوبی نے اسے ، اپنے پورے زور سے گھمایا اور محسوس کیا کہ دستے نے اس کے ہاتھ کو رد عمل دکھایا تھا ۔ اتنا گھمانے پر ایک چیونگم باہر نکل آنی چاہیے تھی ۔ پہلے تو ایسا ہی ہوتا تھا جب یہ دستہ کسی ننھے لڑکے یا لڑکی کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ بے صبری سے چیونگم کا منتظر ہوتا تو یہ مشین کے اندر سے باہر آ جاتی تھی ۔ یہ وہی لمحہ تھا کہ یہ سب ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا البتہ رَوبی نے جیسے ہی دستہ گھمایا وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچ گیا ۔

”ایسی جگہ“، جو بالکل ہی مختلف تھی ، لیکن مانوس بھی تھی ۔ یہ وہی جگہ تھی جو اس نے ماں والے خواب میں دیکھی تھی ۔ اجلی سفید ، نہ دیواریں ، نہ فرش ، نہ چھت اور نہ ہی سورج کی روشنی۔۔۔ ہر طرف بس اجالا ہی اجالا تھا اور ایک چیونگم مشین ۔ ایک چیونگم مشین اور ایک پیارا لیکن بھدے لال سر والا لڑکا ، جسے رَوبی کسی وجہ سے پہلے دیکھ نہیں سکا تھا ۔ اور جیسے ہی رَوبی نے اسے دیکھ کر مسکرانا یا کچھ کہنا چاہا ، لال سر والے نے اس کی ٹانگ پر گھٹنے کے پاس پوری طاقت سے ایسا ٹھڈا مارا کہ رَوبی نیچے گرا اور درد سے بے حال ہو گیا ۔ گھٹنوں پر گرے رَوبی اور اس لڑکے کا قد اب برابر تھا ۔ بچہ رَوبی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا اور گو کہ رَوبی کو یہ پتہ تھا کہ وہ پہلے کبھی نہیں ملے تھے ، لیکن وہ اسے کچھ مانوس سا لگا ۔

”تم کون ہو؟“ ، اس نے اپنے سامنے کھڑے بچے سے پوچھا۔

”میں؟“ ، بچے نے کمینگی سے مسکراتے اور اسے اپنے دانت دکھاتے ہوئے ، جن میں سامنے کا ایک دانت نہیں تھا ، جواب دیا ، ”میں تمہارا پہلا جھوٹ ہوں۔“

رَوبی نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کی ۔ اس کی ٹانگ میں بہت تکلیف تھی ۔ بچہ غائب ہو چکا تھا ۔ رَوبی نے چیونگم مشین کو غور سے دیکھا ۔ اس میں چیونگم کے چھوٹے چھوٹے گولوں کے ساتھ نیم شفاف پلاسٹک کے گیندیں بھی تھیں، جن میں معمولی نوعیت کے تحائف بند تھے ۔ اس نے سِکوں کے لیے اپنی جیبیں پھرولیں اور تب اسے یاد آیا کہ وہ بچہ غائب ہونے سے پہلے اس سے بٹوہ چھین چکا تھا ۔

رَوبی لنگڑاتا ہوا وہاں سے چل پڑا ۔ کسی خاص سمت میں نہیں ، کیونکہ اس سفید سطح پر سوائے چیونگم مشین کے اور کچھ موجود نہیں تھا ، اس لیے اس کی کوشش تھی کہ وہ اس سے جتنا دور جا سکے ، چلا جائے ۔ وہ چند قدم اٹھانے کے بعد مڑ مڑ کر دیکھتا کہ مشین دِکھنے میں چھوٹی ہوئی تھی یا نہیں ۔

ایک جگہ پہنچ کر جب اس نے مڑ کر دیکھا تو جرمن شیفرڈ کتے کو ایک پتلے دُبلے بوڑھے آدمی کے پاس کھڑا پایا ۔ اس بوڑھے کی ایک آنکھ کانچ کی تھی اور وہ بازوﺅں سے محروم تھا ۔ اس نے کتے کو فوراً پہچان لیا کیونکہ وہ اپنی اگلی ٹانگوں سے اپنے پیڑو کو کھینچتے ہوئے رینگ رہا تھا ۔ یہ اس کے ایک جھوٹ کا وہ کتا تھا، جسے کسی نے روند ڈالا تھا ۔ اس ساری کوشش کی وجہ سے وہ ہانپ رہا تھا لیکن رَوبی کو دیکھ کر خوشی سے جوشیلا ہو رہا تھا ۔ اس نے رَوبی کے ہاتھ کو چاٹا اور اس کی طرف نم آلود نظروں سے دیکھا ۔ رَوبی البتہ دبلے پتلے بوڑھے کو نہ پہچان سکا ۔

”میں رَوبی ہوں۔“ اس نے کہا

”میں ایگور ہوں۔“ بوڑھے نے اپنا تعارف کرایا اور اپنے ٹُنڈے بازوﺅں میں سے ایک سے رَوبی کو تھپتھپایا ۔

”کیا ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں؟“ کچھ دیر کی خجالت بھری خاموشی کے بعد رَوبی نے پوچھا

”نہیں۔“ ایگور نے اپنے ایک ٹنڈے بازو سے کتے کا پٹہ اوپر کرتے ہوئے جواب دیا ، ”میں یہاں اس کتے کی وجہ سے ہوں ۔ اس نے تمہاری باس میلوں دور سے ہی سونگھ لی تھی اور یہ بیتاب ہو گیا ۔ یہ چاہتا تھا کہ میں اِسے لیے تم تک پہنچوں۔“

”تو مطلب یہ ہوا کہ ہم دونوں میں۔۔۔ کوئی تعلق واسطہ نہیں؟“ رَوبی نے پوچھا ۔ یہ کہہ کر اسے سکون کا احساس ہوا

”میرے اور تمہارے درمیان؟ نہیں، کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ میں کسی اور کا جھوٹ ہوں۔“

رَوبی نے اس سے یہ پوچھنا چاہا کہ وہ کس کا جھوٹ تھا لیکن یہ سوچ کر چپ رہا کہ کہیں اس طرح کی جگہ پر یہ سوال کرنا بُرا نہ سمجھا جائے ۔ اسی طرح وہ اس سے یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ یہ جگہ کیا تھی اور کیا کہلاتی تھی اور کیا وہاں اس کے علاوہ اور بھی لوگ تھے یا اور بھی جھوٹ یا وہ جو بھی خود کو کہلاتے تھے۔۔ لیکن اس نے ان موضوعات کو بھی حساس جانا اور یہی مناسب سمجھا کہ وہ ان پر اس وقت گفتگو نہ کرے۔ وہ ، چنانچہ ، گفتگو کرنے کی بجائے ایگور کے کتے تھپکی دینے لگا ۔ یہ ایک اچھا کتا تھا اور وہ رَوبی سے مل کر خوش تھا اور رَوبی کے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ کاش اس کے جھوٹ میں کم تکلیف اور اذیت ہوتی ۔

”چیونگم مشین“ اس نے کچھ منٹوں بعد ایگور سے پوچھا، ”یہ کون سے سکے لیتی ہے؟“

”لیرے*۔“ بوڑھے نے جواب دیا

”کچھ دیر پہلے یہاں ایک بچہ تھا ۔ وہ میرا بٹوا اڑا کر لے گیا ہے ۔ ویسے اگر وہ نہ بھی اُچکتا ، تب بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا ، اس میں بھی لیرے کے سکے نہیں تھے۔“ رَوبی نے کہا

”وہ بچہ جس کا ایک دانت ٹوٹا ہوا ہے؟“ ایگور نے پوچھا، ”وہ ننھا بدمعاش تو سب کے ہاں چوری کرتا ہے ۔ وہ تو کتوں کا ’کین ۔ ایل راشن‘ * بھی کھا جاتا ہے ۔ روس میں ، جہاں سے میں آیا ہوں ، وہاں اس طرح کے بچے کو لوگ اس طرح سزا دیتے ہیں کہ جانگیے کے سوا سارے کپڑے اتار کر برف میں لے جا کر کھڑا کر دیتے ہیں اور تب تک گھر واپس نہیں لاتے جب تک اس کا سارا بدن نیلا نہ پڑ جائے۔“ ، اس نے اپنے ایک ٹنڈے بازو سے اپنی پچھلی جیب کی طرف اشارہ کیا۔ ”اس میں کچھ لیرے ہیں ۔ خود ہی نکال لو ۔ یہ میری طرف سے ہیں۔“

رَوبی پہلے تو ہچکچایا لیکن پھر اس نے ایگور کی جیب سے ایک لیرے کا سکہ نکالا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بدلے میں اسے اپنی ’سواچ ‘ گھڑی دینا چاہی ۔

”شکریہ۔“ ایگور نے سر ہلایا ۔”میں پلاسٹک کی گھڑی لے کر بھلا کیا کروں گا؟ دوسرے مجھے یہاں سے کہیں اور جانے کی کوئی جلدی بھی نہیں ہے کہ مجھے گھڑی درکار ہو۔“

اور پھر جب اس نے رَوبی کو دینے کے لیے کسی اور شے کو تلاش کرتے دیکھا تو اس نے ، اسے منع کیا اور کہا ”یہ مجھ پر قرض ہے۔ اگر تم نے اس کتے کے بارے میں جھوٹ نہ بولا ہوتا تو میں بالکل ہی اکیلا رہتا ۔ اس لیے اب حساب برابر ہو گیا ہے۔“

رَوبی چیونگم مشین کی طرف لنگڑاتا ہوا گیا۔ اس کی کوشش تھی کہ وہ جلد وہاں پہنچ جائے ۔ وہ ابھی تک لڑکے کے ٹھڈے کی وجہ سے درد محسوس کر رہا تھا گو اب یہ کچھ کم تھا۔ اس نے مشین کی جھری میں لیرے کا سکہ ڈالا ، ایک گہری سانس لی اور اپنی آنکھیں بند کر کے مشین کا دستہ گھما دیا۔

اس نے خود کو اپنے پرانے گھر کی عمارت کے پچھلے صحن میں لیٹا پایا ۔ پَو پھٹ چکی تھی اور اس نے آسمان کے کالے رنگ کو نیلا کر دیا تھا ۔ رَوبی نے زمین کے سوراخ سے اپنا ہاتھ باہر نکالا۔۔ اور جب اس نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں لال رنگ کی چیونگم تھی ۔

اس نے وہاں سے جانے سے پہلے پتھر کو اپنی جگہ پر واپس رکھا ۔ اس نے خود سے بالکل نہ پوچھا کہ یہ سوراخ کیا تھا اور نیچے جا کر اصل میں کیا ہوا تھا ۔ وہ بس گاڑی میں بیٹھا ، اسے الٹا چلا کر پیچھے کیا اور پھر وہاں سے چلا گیا ۔ گھر جا کے اس نے ، یہ سوچتے ہوئے ، لال رنگ کی چیونگم اپنے تکیے کے نیچے رکھی کہ اس کی ماں اگر دوبارہ خواب میں آئے تو اسے دے سکے ۔

رَوبی نے پہلے تو اس سب کے بارے میں بہت سوچا ۔ اس جگہ کے بارے میں ، کتے کے بارے میں ، ایگور کے بارے میں اور اس ہر ایک جھوٹ کے بارے میں ، جن کے متعلق وہ خوش قسمت رہا تھا کہ ان سے اس کا ٹاکرا نہیں ہوا تھا ۔ ان میں ایک انوکھا جھوٹ بھی تھا جو اس نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ ، روتھی ، سے تب بولا تھا جب وہ اس کے والدین کے گھر جمعہ کی شب رات کے کھانے پر نہیں جا سکا تھا۔۔۔ یہ اس کی اپنی بھتیجی کے بارے میں تھا جو ’نتانیا‘ میں رہتی تھی اور جس کا خاوند اسے مارا کرتا تھا اور یہ کہ اس نے اسے کس بری طرح سے قتل کرنے کی دھمکی دی تھی ، جس کی وجہ سے رَوبی کو اس کے ہاں جانا پڑا تھا تاکہ ان دونوں کے درمیان لڑائی کو ٹھنڈا کر سکے ۔ اسے ، اس دن تک یہ معلوم نہ ہو سکا تھا کہ اس نے اتنی پُر پیچ کہانی کیوں بُنی تھی ۔ اُس وقت ، شاید اس کا خیال تھا کہ اس نے کہانی کو جتنا زیادہ پُر پیچ اور پیچیدہ بنانا تھا ، روتھی نے اس پر اتنا ہی زیادہ یقین کرنا تھا ۔ کچھ لو گ جب جمعے کی رات والے ایسے کھانوں سے بچنا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں انہیں سر درد یا ایسا ہی کچھ ہو گیا تھا ۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ اس کے برعکس ، اس کی ہی وجہ سے اور اس کی ہی کہانیوں کی وجہ سے ، ایک پاگل خاوند اور اس کی مار سہتی بیوی ، وہاں موجود تھے ، زمین کے اس سوراخ میں ، جو اس سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا ۔

وہ دوبارہ اس سوراخ کے پاس نہیں گیا لیکن اس جگہ کے بارے میں کوئی شے اس کے دماغ میں چپک کر رہ گئی ۔ اس نے بہرحال جھوٹ بولنا جاری رکھا ، لیکن اب یہ اچھے والے جھوٹ تھے ، جن میں کسی کی پٹائی نہیں ہوتی تھی ، کوئی لنگڑاتا نہیں تھا یا کسی کو کینسر نہ ہوتا ۔ مثال کے طور پر : وہ کام پر دیر سے اس لیے پہنچا تھا کیونکہ اس نے اپنی ایک خالہ ، جو اپنے کامیاب بیٹے کو ملنے کے لیے جاپان گئی ہوئی تھی ، کے پودوں کو پانی دینا تھا ۔ یا : ایک بلی نے اس کے گھر کی سیڑھیوں پر بچے دئیے تھے اور اسے ان بچوں کی دیکھ بھال کرنی اور انہیں نہلانا پڑا تھا ۔ اب وہ اسی طرح کے جھوٹ بولتا ۔

لیکن ، اس طرح کے مثبت جھوٹ بنانا بہت مشکل کام تھا ۔ خاص طور پر ، جب آپ یہ چاہتے ہوں کہ یہ دلیل کے اعتبار سے وزنی بھی لگیں ۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جب آپ لوگوں کو کچھ بُرا بتاتے ہیں تو وہ اس پر فوراً یقین کر لیتے ہیں کیونکہ یہی انہیں عمومی لگتا ہے ۔ لیکن جب آپ ان کے لیے کوئی اچھی کہانی گھڑتے ہیں ، تو وہ شک میں پڑ جاتے ہیں ۔ یوں رَوبی نے خود کو اپنے جھوٹوں کو لپیٹتے ہوئے پایا ۔ اور اپنے کم جھوٹ بولنے کی وجہ سے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس اُجلی سفید جگہ اور سوراخ کے بارے میں کم کم ہی سوچتا ۔ لیکن پھر ایک صبح اس نے شعبہ حساب کتاب کی نتاشا کو اپنے باس سے بات کرتے ہوئے سنا ؛ اس کے چچا ایگور کو دل کا دورہ پڑا تھا اور اسے کچھ دنوں کے لیے چھٹی درکار تھی ۔ بیچارا۔۔۔۔ ایک رنڈوا ، جو روس میں ایک حادثے میں اپنے دونوں بازو گنوا چکا تھا اور اب دل کا دورہ۔۔۔ وہ اکیلا تھا اور بے یار و مددگار تھا ۔ شعبہ حساب کتاب کے سربراہ نے ، کوئی سوال کیے بغیر ہی اسے فوراً ہی چھٹی دے دی ۔ وہ اپنے دفتر میں گئی ، اپنا بیگ اٹھایا اور عمارت سے نکل گئی ۔ رَوبی نے کار تک اس کا پیچھا کیا ۔ جب وہ رُک کر اپنے بیگ میں سے چابیاں نکال رہی تھی تو رَوبی بھی رک گیا ۔ وہ مڑی۔

”تم شعبہ اکتساب سے ہونا ، کیا ایسا نہیں؟“ ، اس نے پوچھا، ”کیا تم ’زیگوری‘ کے اسسٹنٹ نہیں ہو؟“

”ہاں“ رَوبی نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ”میرا نام رَوبی ہے۔“

”اچھا نام ہے، رَوبی۔“ نتاشا نے ایک اضطراری روسی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ”ہاں تو کیا بات ہے؟ تمہیں کچھ چاہیے؟“

”یہ اس جھوٹ کے بارے میں ہے، جو تم نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی اپنے باس سے بولا ہے۔“ رَوبی نے ہکلا کر کہا ، ”میں اُسے جانتا ہوں۔“

”تم۔۔۔۔ یہاں کار تک میرا پیچھا کرتے ہوئے ، اس لیے آئے ہو کہ مجھ پر جھوٹے ہونے کا الزام لگاﺅ؟“

”نہیں“ رَوبی نے کہا، ”میں تم پر الزام نہیں لگا رہا ۔ سچ میں ۔ تمہارا جھوٹا ہونا مجھے اچھا لگا ہے ۔ میں بھی ایک جھوٹا ہوں ۔ لیکن تمہارے جھوٹ والے ایگور سے ، میں مل چکا ہوں ۔ وہ لاکھوں میں ایک ہے ۔ اور تم۔۔۔ اگر میرے کہے کا بُرا نہ مناﺅ تو۔۔۔ تم نے اُس کے لیے چیزیں اور مشکل کر دی ہیں ۔ میں اس لیے چاہتا ہوں۔۔۔۔“

”کیا تم میرا راستہ چھوڑو گے؟“ نتاشا نے سرد مہری سے اس کی بات کاٹی ، ”تم میرے اور میری کار کے دروازے کے درمیان حائل ہو۔“

”مجھے پتہ ہے کہ تمہیں میری بات پر یقین نہیں آ رہا لیکن میں اسے ثابت کر سکتا ہوں“ رَوبی نے کہا، اس کی بے چینی پڑھتی جا رہی تھی۔ ”اس ایگور کی ایک آنکھ نہیں ہے ۔ میرا مطلب ہے ، اس کی آنکھ ہے لیکن ایک ہی ہے ۔ کسی وقت تم نے کچھ ایسا بھی گھڑا ہوگا کہ اس کی ایک آنکھ کیسے ضائع ہوئی۔۔ ٹھیک؟“

نتاشا گاڑی میں تقریباً بیٹھ چکی تھی لیکن وہ رُکی ”تمہیں یہ بات کیسے پتہ چلی؟ کیا تم سلاوا کے دوست ہو؟“

”میں کسی سلاوا کو نہیں جانتا۔“ رَوبی نے آہستہ سے کہا، ”میں تو بس ایگور کو جانتا ہوں۔ اور اگر تم چاہو تو میں تمہیں اس تک لے جا سکتا ہوں۔“

وہ دونوں، اس کے پرانے گھر والی عمارت کے پچھلے صحن میں کھڑے تھے ۔ رَوبی نے پتھر ایک طرف کیا ، نم آلود مٹی پر لیٹا اور اپنا پورا بازو سوراخ میں گھسا دیا ۔ نتاشا اس کے پاس ہی کھڑی تھی ۔ رَوبی نے اپنا دوسرا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا اور کہا، ”اسے مضبوطی سے تھام لو۔“

نتاشا نے اپنے قدموں میں لیٹے بندے کو دیکھا ؛ تیس کے لگ بھگ ، دیکھنے میں بھلا ، استری شدہ صاف قمیض پہنے ہوئے ، جو اب کم صاف لگ رہی تھی اور جس کی استری بھی اب خراب ہو چکی تھی ، جس کا ایک ہاتھ سوراخ میں تھا اور جس کا ایک گال زمین سے چپکا ہوا تھا۔

”مضبوطی سے پکڑو۔“ ، اس نے کہا۔ اور جب نتاشا نے اس کو اپنا ہاتھ تھمایا ، تو وہ یہ سوچے بِنا نہ رہ سکی کہ وہ ہمیشہ نرالے لوگوں سے ہی کیوں ٹکرا جاتی تھی ۔ جب اس نے کار کے پاس اس سے یہ بکواس شروع کی تھی تو اس نے یہ سوچا تھا کہ شاید رَوبی نے اسے پٹانے کے لیے ایک نیا انداز اپنایا تھا ، لیکن اب اسے احساس ہوا تھا کہ نرم آنکھوں اور شرمیلی مسکراہٹ والا یہ چھینپو واقعی پاگل تھا ۔

رَوبی کی انگلیوں نے نتاشا کی انگلیوں کو جکڑ رکھا تھا ۔ وہ دونوں اسی حالت میں ساکت تھے ، وہ زمین پر لیٹا تھا اور وہ اس کے پاس قدرے جھکی کھڑی تھی اور اس کی آنکھوں میں حیرانی تھی ۔

”او کے“ نتاشا نے نرمی سے، پراسرار انداز میں سرگوشی کی، ”ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں ۔ اب کیا کرنا ہے؟“

”اب۔۔۔“ رَوبی نے کہا، ”میں دستہ گھماﺅں گا۔“

انہیں ایگور کو تلاش کرنے میں کافی وقت لگا ۔ پہلے تو ان کا سامنا ایک بالوں بھرے کبڑے سے ہوا ، جو غالباً ارجنٹینی تھا کیونکہ اسے ہسپانوی کے سوا اور کوئی زبان نہیں آتی تھی ۔ پھر نتاشا کے جھوٹوں میں سے ایک اور سامنے آیا۔۔۔ یہ ایک فرض شناس پولیس والا تھا جس نے ’یارمولکی‘ (کیپا) * پہن رکھی تھی ۔ وہ ان سے شناختی کاغذات مانگ رہا تھا اور انہیں حراست میں لینا چاہتا تھا ۔ وہ ایگور سے ناواقف بھی تھا ۔ آخر میں ، جو ان کے کام آئی ، وہ رَوبی کی ’نتانیا‘ میں رہنے اور مار کھانے والی بھتیجی تھی ۔ انہوں نے اسے آخری والے جھوٹ سے سامنے آئے بلی کے بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھا ۔ اس نے ایگور کو پچھلے کچھ دنوں سے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ یہ جانتی تھی کہ اس کا کتا کہاں مل سکتا تھا ۔ اور کتا جو پہلے ہی رَوبی کے ہاتھ اور چہرہ چاٹ چکا تھا ، کے لیے یہ خوشی کی بات تھی کہ وہ انہیں ایگور کے بستر تک لے جا سکے ۔

ایگور کی حالت بہت بُری تھی ۔ اس کی رنگت پھیکی پڑ چکی تھی اور وہ پسینے میں بری طرح شرابور تھا ۔ لیکن جب اس نے نتاشا کو دیکھا تو اس کے چہرے پر رونق آ گئی ۔ وہ اتنا جوشیلا ہوا کہ اٹھ کر اسے گلے لگا لیا ، گو وہ مشکل سے ہی کھڑا ہو پایا تھا ۔ اس سمے نتاشا نے بھی رونا شروع کر دیا اور اس سے معافی مانگنے لگی ، کیونکہ یہ اس کے جھوٹوں والا ایگور ہی نہیں تھا ، اس کا چچا بھی تھا ۔ ایک گھڑا ہوا چچا ، لیکن پھر بھی چچا تو تھا ۔ اور ایگور نے نتاشا کو کہا کہ وہ بُرا محسوس نہ کرے کیونکہ اس نے ایگور کے لیے جس زندگی کو گھڑا تھا ، اسے گزارنا گو آسان نہ تھا ، لیکن وہ اس کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہی ہوتا رہا تھا ، اس لیے اسے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ اس لیے بھی کہ یہ مِنسک* میں ٹرین حادثے ، اوڈیسا میں مسلح چوری کی واردات ، وَلاڈیووسٹوک میں گری بجلی اور سائیبریا میں پاگل بھیڑیوں کے ساتھ رہنے سے تو بہتر تھی اور یہ کہ دل کا دورہ تو اِن سب کے سامنے معمولی شے تھا ۔ اور پھر جب وہ چیونگم والی مشین پر پہنچے تو رَوبی نے ایک لیرے کا سکہ اس کی جھری میں ڈالا اور نتاشا کا ہاتھ تھام کر اس سے کہا کہ وہ اس کا دستہ گھمائے ۔
اور جب وہ واپس پچھواڑے والے صحن میں واپس پہنچے تو نتاشا نے اپنے ہاتھ میں پلاسٹک کی ننھی سی گیند پائی، جس کے اندر ایک بھدی بناوٹ والا ، سنہرے رنگ کا دل موجود تھا ۔

”تمہیں پتہ ہے۔۔“ ، اس نے کہا، ”میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ، کچھ دنوں کے لیے ، آج رات کو سینائی جانے والی تھی ۔ لیکن اب میں سوچتی ہوں کہ نہ جاﺅں اور کل ایگور کی تیمارداری کے لیے ، اس کے پاس واپس جاﺅں ۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟“

رَوبی نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ اسے ، البتہ ، یہ پتا تھا کہ نتاشا کے ساتھ جانے کے لیے اسے دفتر میں ایک اور جھوٹ گھڑنا پڑنا تھا ۔ اسے پکا پتہ نہ تھا کہ یہ کیا ہونا تھا ۔ اسے تو بس اتنا پتہ تھا کہ یہ ایک خوشی بھرا جھوٹ ہونا چاہیے ، جس میں روشنی ہو ، پھول ہوں ، چمکتا سورج ہو ۔ اور کون جان سکتا ہے۔۔۔۔ شاید اس میں ایک یا دو بچے بھی ہوں ، جو مسکرا رہے ہوں۔

Original Title: Lieland

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close