”ہار مت ماننا۔ میں ایک غدار کی بیوی کی بجائے ایک بہادر کی بیوہ کے طور پر زندہ رہنا چاہوں گی۔“ یہ الفاظ ہیں اکتالیس سالہ روپلو کولہی کی بیوی مینا وتی کے، جو اس نے شوہر کے کان میں اس وقت کہے جب انہیں جیل میں اپنے شوہر سے ملنے کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ وہ انہیں قابض انگریزوں کے خلاف مزاحمت ترک کرنے اور ساتھیوں کے نام بتانے پر قائل کریں گی
تھرپارکر میں مٹھی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر نگر پارکر کا قصبہ ہے، جو اپنی فطری خوبصورتی اور ہندوؤں کے مذہبی مقامات کی وجہ سے معروف ہے۔ اس علاقے میں کئی تاریخی مقامات سمیت جین مت کا قدیم جین مند، درگا ماتا مندر واقع ہیں۔ ویسے تو یہ ریگستانی علاقہ ہے، لیکن برسات کے دنوں میں اس خطےکا منظر انتہائی دل فریب ہوتا ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں کے علاوہ بیرونِ ممالک سے بڑی تعداد میں سیاح اور ہندو یاتری تھرپارکر کی سیر کے لیے آتے ہیں
تاریخِ سندھ کے اہم کردار ’روپا جی گوہل‘ المعروف روپلو کولہی اسی خطے سے تعلق رکھتے تھے، جنہیں اسی مقام پر، جہاں آج کل ’روپلو کولہی‘ کے نام سے موسوم ریزورٹ بنا ہوا ہے، تختہ دار پر چڑھایا گیا تھا
اس کہانی کی شروعات 1843 سے ہوتی ہے، جب ایسٹ انڈیا کمپنی سندھ کے بڑے حصے پر قابض ہو چکی تھی، لیکن سندھ کے جنوب مشرقی صحرا تھرپارکر میں اسے شدید مزاحمت کا سامنا تھا، جس کی قیادت روپلو کولہی کر رہے تھے
خوبصورت کارونجھر اور تھرپارکر دنیا کا بیسواں سب سے بڑا صحرا ہے، جو ہندوستان اور پاکستان میں بائیس ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے
1843 سے 1858 تک یہ حیدر آباد کلکٹریٹ کا حصہ تھا۔ 1858 میں سر چارلس نیپیئر نے اس علاقے کو کَچھ پولیٹیکل ایجنسی میں شامل کر دیا۔ اس تمام عرصے میں سندھ کے اس حصے میں انگریزوں کے قدم نہ جم سکے
انگریزوں نے پورے برصغیر کو اپنا زیرِ نگین بنانے کے لیے مختلف علاقوں میں فوج کشی کی۔ 1840ء میں انہوں نے سندھ اور پنجاب کا رخ کیا۔ سندھ میں چارلس نیپئر کی فوجوں اور سندھ کے تالپور حکمرانوں کے درمیان دُبی اور میانی کی جنگیں لڑی گئیں۔ 1843ء میں انگریزوں نے حیدرآباد پر قبضہ کر کے پکا قلعہ پر اپنا جھنڈا لہرانے کے بعد، تمام سندھ پر اپنا تسلط مکمل کرنے کا اعلان کر دیا تھا، لیکن سندھ پر قبضہ ہونے کے بعد بھی انہیں صحرائے تھر میں کولہی برادری کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا، جس کی قیادت تھرپارکر کے باغیوں کے تین کمانڈر کر رہے تھے۔ ان میں روپلو کوہلی بھی شامل تھے
محققین کے مطابق انگریز جدید ہتھیاروں، فریب اور تفرقہ انگیز حربوں سے سندھ پر قبضہ کر چکے تھے لیکن انہیں تھرپارکر کو فتح کرنے میں سولہ سال لگے۔ وہاں انہیں راجپوت فوج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس فوج میں روپلو کولھی کی کمان میں زیادہ تر کولھی برادری (آج کل سندھ کی ایک شیڈول ہندو ذات) کے جنگجو شامل تھے
جب انگریزوں کے پاس توپیں، رائفلیں، بندوقیں، گولہ بارود اور جدید ہتھیار تھے۔ اس وقت ہمالیہ سے لے کر بحیرہ سندھ تک انگریزوں کا راج قائم تھا لیکن سندھ کے نقشے پر کارونجھر پہاڑ اور تھرپارکر 16 سال تک ایک آزاد خطہ کے طور پر آباد تھے۔ بغاوت کا جھنڈا اٹھانے والے روپلو کولہی نے فیصلہ کیا تھا کہ انگریزوں کو کسی بھی حالت میں کارونجھر کے دستے تک نہیں پہنچنا چاہیے
سندھ کے پارکر اور انڈین راجستھان کے تھر کے علاقے میں کولھیوں کو یہاں کے قدیم باشندے تسلیم کیا جاتا ہے، جن کی روزی روٹی تھر کے حیوانات، پھلوں اور جنگلی مصنوعات جیسے شہد پر قائم ہے۔ کولھیوں کی ایک شاخ گویل ہے۔ اسی شاخ کے کارونجھر کے پاس کنبھاری گاؤں میں رہنے والے شامتو رام کے ہاں روپلو سنہ 1818 میں پیدا ہوئے، جن کا پورا نام روپا تھا
اس زمانے میں ہندوستان کا مشہور ڈاکو بلونت سنگھ چوہان، نگرپارکر میں روپوشی کی زندگی گزار رہا تھا، روپلو کی ماں کیسر بائی بھی چوہان تھیں، اس لیے بلونت انہیں اپنی بہن سمجھتا تھا، یہی وجہ تھی کہ بلونت سنگھ نے روپلو کو فنونِ حرب سے آشنا کیا۔ بلونت سنگھ برطانوی فوج کے ساتھ ایک معرکے میں ہلاک ہوا تھا
ظلم و جبر کے خلاف روپلو کولھی کی جدوجہد کا آغاز پارکر کے سوڈھوں (ٹھاکروں) کے خلاف آواز اٹھانے سے ہوا۔
ٹھاکر لدھو سنگھ نگر پارکر کا جاگیردار تھا۔ اس کے بیٹوں نے اپنی جاگیر کے علاوہ آس پاس کے گاؤں میں بسنے والے تمام افراد کو حکم نامہ بھیجا کہ وہ اپنے جانوروں سے حاصل ہونے والے دودھ کا ایک حصہ ان کے دربار میں بھیجا کریں۔ افیم کھاتے ٹھاکروں کو دودھ اور دہی کی بہت زیادہ طلب ہوتی تھی۔ ان کے خوف سے لوگوں نے دودھ بچانا شروع کر دیا تھا، جس کے بعد ان کے گھروں میں لسی بلونا بند ہوگئی۔ اس حکم کی شکایت لے کر علاقہ مکین روپلو کولہی کے پاس پہنچے اور انہیں اپنی بپتا سنائی۔ روپلو نے تمام فریادیوں سے کہا کہ وہ سوڈھوں کو دودھ کی فراہمی بند کر دیں اور اگر اب وہ اس پر ان سے بازپرس کریں ، تو ان سے کہیں کہ دودھ کی فراہمی روپلو نے بند کروائی ہے
اس واقعے کی خبر جب سوڈھوں (ٹھاکروں) کو ہوئی تو وہ مشتعل ہو گئے اور اپنے حواریوں کے ساتھ روپلو کے گاؤں کنبھاری جا پہنچے۔ روپلو ان کے ردعمل کے لیے پہلے ہی سے تیار تھا، وہ بھی کنبھاری سے کچھ فاصلے پر اپنے مسلح ساتھیوں سمیت ان کے مدِمقابل آ گیا۔ روپلو نے ٹھاکروں سے کہا کہ آپ لوگوں نے معصوم بچوں کو دودھ اور لسی سے محروم کرکے قہر برپا کر دیا ہے۔ اس ظلم کے سبب رعایا مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ ٹھاکروں نے عقل مندی سے کام لیتے ہوئے روپلو کو گلے لگایا اور اپنی غلطی تسلیم کر کے واپس لوٹ گئے۔ اس واقعے کے بعد روپلو کی قدر و منزلت میں مزید اضافہ ہو گیا اور مقامی لوگ اسے کولہی برادری کا قومی سردار کہنے لگے۔
سندھ پر برطانوی فوج کے قبضے اور 1857ء کی جنگ کے بعد انگریزوں نے پورے سندھ پر قبضہ کرتے ہی، تھرپارکر میں بھی اپنی عمل داری قائم کرلی۔ اُدھر وطن پرستوں کے دلوں میں بھی انگریزوں کے خلاف نفرت کی آگ بجھی نہیں تھی، بلکہ وقتاً قوقتاً یہ چنگاریاں بھڑکتی رہتی تھیں۔ تھرپارکر کے مقامی سردار برٹش اہل کاروں کے احکامات کی پروا نہیں کرتے تھے۔ گجرات کی طرف آنے، جانے والوں سے ٹیکس ٹھاکروں کی جانب سے کولہی برادری کے افراد وصول کرتے تھے۔ انگریزوں نے ان کے یہ حقوق ختم کر دیئے تھے، جس پر ٹھاکر مشتعل ہو گئے اور رانپور کے راجہ رانا سنگھ کے بُلاوے پر تمام سوڈھے (ٹھاکر) اور کولہی انگریز سرکار کے خلاف بغاوت پر اتر آئے۔ ٹھاکروں کے پاس منظم فوج نہیں تھی، ان کی قوت کا سارا دارومدار کولہی سپاہیوں پر تھا۔
دوسری جانب لدھو سنگھ خود کنبھاری پہنچا اور روپلو سے انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے مدد مانگی۔ روپلو نے ایک شعر پڑھا اور اپنے برادر نسبتی ڈجی مکوانی سے مشورہ کیا۔ یہ پُرجوش شعر سنتے ہی ڈجی فوراً گھوڑے پر سوار ہو گئے اور دو دن کے اندر اندر تیروں، بھالوں، چھریوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہزاروں کولھی افراد اکٹھے کر لیے
ٹھاکر لدھو سنگھ، لدھو کے بیٹا ادے سنگھ، سوڈھا کلجی، روپلو کولھی، شادی خان کھوسو، کاپڑی خاں کھوسو، راجہ خاں کھوسو اور بہار خاں کھوسو اس تحریک ِمزاحمت کے روح ِرواں تھے۔ کولھی قبیلے کے آٹھ ہزار لڑاکا جوان اس جنگ میں شریک تھے جن کے لیڈر روپلو کولہی، مادو کولہی اور چھترو کولہی تھے
جب جنرل ٹِروِٹ کو باغیوں کی تیاری کا احوال معلوم ہوا، تو اس نے اپنی فوج کے ساتھ نگر پارکر کی طرف پیش قدمی کی۔ کولہیوں کا لشکر اونٹوں، گھوڑوں اور پیادوں پر مشتمل تھا، وہ کنبھاری سے انگریزوں کے خلاف نعرے بلند کرتے ہوئے رانپور کی جانب روانہ ہوئے۔ انھوں نے علاقے سے رلیاں (روایتی سندھی چادریں) جمع کیں۔ وجہ یہ تھی کہ کرنل ٹِروِٹ نے اپنے کیمپ کے باہر مضبوط باڑ لگائی ہوئی تھی۔ ارادہ یہ تھا کہ باڑ پر رلیاں بچھا کر پھر حملہ کیا جائے گا
15 اپریل 1859ء کی شب روپلو نے جنرل ٹِروِٹ کے لشکر پر اچانک حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں انگریز فوج کے بے شمار سپاہی ہلاک ہوئے جب کہ بچنے والے فوجی فرار ہو گئے۔ جنرل ٹِروِٹ وہاں سے فرار ہو کر نگر پارکر کے شمال میں گوٹھ پورن واہ کے موچی لادھو مینگھواڑ کے گھر میں ایک بہت بڑے مٹی کے برتن میں جاکر چھپ گیا۔ اس برتن میں گائے کے چمڑے کو جوتا بنانے سے قبل بھیگنے کے لیے رکھا جاتا تھا، جس کی وجہ سے اس میں شدید بدبو آ رہی تھی۔ کولہی باغی اس کی تلاش میں اس گھر میں بھی پہنچے، تمام گھر کی تلاشی لی، لیکن وہ تعفن کے سبب اس برتن کی جانب نہیں گئے۔
اگلی شب، لدھو نے ایک اونٹ پر سوار کرا کے جنرل ٹائر کو حیدرآباد روانہ کیا۔ روپلو کے سپاہیوں نے مختیار کار کے دفتر میں گھس کر سارا خزانہ لوٹ لیا۔ پولیس کے باغی سپاہی بھی ان کی فوج میں شامل ہو گئے۔ تھانے پر حملہ کیا گیا، کچہری (عدالت) کو آگ لگا دی گئی، محکمہ مال کا ریکارڈ جلادیا گیا، ٹیلی گراف کی تاریں کاٹ کر پول گرا دیئے، یہاں تک کے گجرات اور سندھ کی جانب جانے والے راستے بھی بند کر دئیے گئے۔
ان اقدامات کے بعد تھرپارکر پر ٹھاکروں کی دوبارہ حکم رانی قائم ہو گئی۔ ٹھاکر لدھو سنگھ راجپوت باغیوں کا سردار تھا، جب کہ سوڈھو کلجی کولہیوں اور روپلو کولہی کی متحد سپاہ کا کمانڈر تھا، روپلو کے ساتھ آٹھ ہزار جنگجو تھے۔ نگر پارکر پر قبضے کے بعد کولہی یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے انگریزوں کو مکمل طور سے علاقے سے بے دخل کر دیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ جنرل ٹائر وائٹ نے حیدرآباد پہنچتے ہی کرنل ایونز کو پکا قلعہ میں طلب کیا اور اسے ایک بڑی چھاپہ مار فوج تیار کرنے کا حکم دیا، اس نے کراچی سے توپ خانہ بھی طلب کرلیا
مکمل تیاری کے بعد وہ میرپورخاص، مٹھی اور اسلام کوٹ فتح کرتے ہوئے ویراواہ پہنچا۔ وہاں پہنچ کر اس نے ٹھاکر لادھو سنگھ کے لشکر میں شامل راجپوت سپاہیوں سے رابطہ کیا اور انہیں جاگیر و مال و دولت کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور نگر پارکر پر حملہ آور ہو گیا۔
کولہی سپاہ کو دو طرفہ حملوں کا سامنا تھا، ایک جانب راجپوتوں نے ان پر یورش کی تھی دوسری طرف برطانوی فوج جدید ہتھیاروں اور توپ خانے سے لیس ان پر حملہ آور ہوئی تھی۔ حریت پسندوں نے روایتی اسلحہ، تلوار، تیر، نیزوں، بھالوں کی مدد سے کافی دیر تک انگریز فوج کا مقابلہ کیا، سوڈھو کالجی، اس لڑائی میں مارا گیا، جب کہ ٹھاکر لدھو سنگھ کو گرفتار کر کے قید کر لیا گیا۔ روپلو کولہی اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے فرار ہوکر کارونجھر کی پہاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔ رانا کرن سنگھ اور روپلو نے روپوش ہو کر گوریلا جنگ جاری رکھی۔ وہ چھپ کر دشمن پر حملہ کرتے اور کارونجھر پہاڑ کی پناہ میں چلے جاتے
جنرل ٹِروِٹ نے نگرپارکر کے قریب چندن گڑھ پر توپ خانے کے ساتھ حملہ کیا اور اسے تباہ و برباد کرنے کے بعد وہاں کی آبادی کو حراست میں لے کر روپلو کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
ٹِروِٹ نے توپوں کی مدد سے پارکر پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ پریمی کے مطابق ’اس جنگ میں آٹھ ہزار کولھی جان سے گئے۔ بے شمار گھر اجڑ گئے، عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے۔‘
کارونجھر کے 144 مربع میل پر پھیلے پہاڑی سلسلے میں رانا کرن سنگھ اور ان کے اہلِ خانہ جو روپلو کی نگرانی اور پناہ میں تھے، کو ٹِروِٹ آسانی سے گرفتار نہیں کر سکتے تھے۔ لہٰذا ٹھاکروں کی مدد سے رشوت اور لالچ کے عوض لوگ خریدے گئے۔ چند مقامی افراد کو اپنے مخبروں کے ساتھ روپلو اور اس کے ساتھیوں کی تلاش پر مامور کیا۔
آغا نیاز مگسی کی تحقیق کے مطابق جب انگریز سرکار روپلو کولھی سے شکست کھا گئی تو اس نے مقامی افراد کو پیسوں کی لالچ دے کر ان کو استعمال کیا۔ ساڑدھری مندر کے پجاری سیٹھ مہاوجی لوہانو اور ہنس پوری باؤ نے جاسوسی کر کے روپلو کولھی کو گرفتار کروایا
کچھ دنوں بعد چند برہمنوں نے انہیں اطلاع دی کہ روپلو کولہی رات کے وقت کارونجھر کی پہاڑی کے پاس ’پگ وول‘ کنوئیں پر پانی لینے آتا ہے۔ جنرل ٹائر نے کنوئیں کے پاس اپنے چند سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دی، جو خفیہ طور پر اس کنوئیں کی نگرانی کرنے لگے۔ ایک شب جب وہ پانی لینے کے لیے کنوئیں پر پہنچا، تو برطانوی فوجیوں نے اپنے ٹھکانوں سے باہر آ کر اسے گرفتار کرلیا اور اسے جنرل ٹِروِٹ کے سامنے پیش کیا
روپلو سے کہا گیا کہ اگر وہ انگریز سرکار کی اطاعت کریں تو انھیں رہا کر دیا جائے گا اور انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے گا لیکن روپلو نے صاف انکار کر دیا
جب اس سے کہا گیا کہ دیگر لوگوں نے تعاون کرکے جاگیریں لے کر بھرپور جائیدادیں بنائی ہیں تو تم بھی ایسا ہی کرو، روپلو نے کہا کہ مجھے اپنی سرزمینِ تمہارے ناپاک قدم گوارا نہیں۔ میں اپنے لازوال شہیدوں کے خون کا سودا نہیں کروں گا اور میں آپ سے کبھی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ کیسر کولہن کا بیٹا روپلو مرنے کو تیار تھا لیکن اس نے کبھی برطانوی سامراج کے سامنے جھکنا قبول نہیں کیا۔
تھر اور پارکر کی پتھریلی زمین پر انگریزوں کے خلاف لڑنے والے بہادر پارکریوں نے سامراج کو للکارا، ان لوگوں میں صف اول کے جنگجو روپلو کولہی سامراج کی قید کے دوران بھی بہادری اور حوصلے کی مثال تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے انگریز فوج کو نیزوں، کلہاڑیوں اور تلواروں جیسے سادہ ہتھیاروں سے لڑنے پر مجبور کیا وہ دھرتی کے قابل فخر فرزند تھے
آخرکار روپلو کی اہلیہ مینا وتی کو بلایا گیا کہ وہ اپنے شوہر کو سمجھائیں۔ مینا وتی بھی اپنے شریک حیات کی طرح بہادر نکلیں۔ انھوں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ’روپلو اپنی دھرتی سے غداری نہ کرنا ورنہ لوگ مجھے لعن طعن کریں گے۔ اگر آپ اپنی دھرتی پر اپنی جان قربان کریں گے تو میں اپنے بہادر شوہر کی بیوہ کہلاتے ہوئے فخر محسوس کروں گی۔‘
جنرل نے اس سے اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا، یہاں تک کہ برطانوی افواج نے روپلو کولہی پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی، اس کی انگلیوں پر روئی لپیٹ کر انہیں تیل میں بھگو کر آگ لگا دی گئی، جس سے اس کی انگلیاں بری طرح جھلس گئیں، لیکن اس پر بھی اس نے اپنے ساتھیوں کے بارے میں کچھ نہ بتایا۔ آخر تھک ہار کرجنرل ٹِروِٹ نے روپلو کے مستقبل کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے رائے طلب کی۔ راجپوت سردار، مہاوجی لہانہ، جو کچھ عرصے قبل تک روپلو کے ساتھ شامل تھا، اس نے جنرل کو مشورہ دیا کہ روپلو کو فی الفور پھانسی دے۔ جنرل کو اس کی تجویز پسند آئی اور اس نے بغیر مقدمہ چلائے روپلو کو سزائے موت سنا دی اور ساتھ دینے والے میگھواڑ کو پورن واہ، پنڈت ہنس پوری کو کارونجھر اور لوہانو کو کاسبو میں جاگیریں دی گئیں
22 اگست 1859ع کو اسے سخت فوجی پہرے میں نگر پارکر کے جنوب مشرقی علاقے سوئی گام کے مقام پر لایا گیا اور گردھارو ندی کے کنارے لگے ببول کے درخت کی ڈال پر لٹکا کر پھانسی دے دی گئی۔
اختر بلوچ نے لکھا ہے کہ ببول کے جس درخت پر روپلو کو پھانسی دی گئی تھی وہ تو باقی نہیں رہا لیکن وہاں پیلو کے ایک درخت نے جنم لے لیا، جو اب بھی وہاں موجود ہے
روپلو کولہی کی موت کے بعد اس کی لاش غائب کر دی گئی، اس کی والدہ کیسر بائی، بیوی ہمیناوتی اور دیگر لواحقین ہجرت کر کے کنری آ گئے۔
پاکستان بننے کے بعد اس کے پوتے دوبارہ نگرپارکر میں مقیم ہو گئے، جہاں وہ غربت کی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی پڑ پوتی، کرشنا کولہی عرف کشو بائی، 12 مارچ 2018 میں پاکستان کی پہلی ہندو دلت خاتون سینیٹر منتخب ہوئیں۔ روپلو کولہی کا یوم وفات ہرسال 22 اگست کو منایا جاتا ہے۔ آج نہ صرف کولہی قبیلے میں، بلکہ انہیں سندھ اور ہند میں قومی ہیرو سمجھا جاتا ہے۔