غنی خان کی عمر اس وقت چالیس سال ہے۔ وہ پشاور میں حیات آباد کے رہائشی ہیں اور ایک اچھے کاروباری متمول شخص ہیں۔ شادی شدہ ہیں، بچوں والے ہیں اور والدین کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام میں ایک شاندار زندگی گزار رہے ہیں۔
ان کی عمر تقریبا بارہ سال تھی جب ان کے محلے میں کسی نے ان کو ایک ہیرے سے متعارف کروایا اور انہیں بتایا کہ یہ کہاں سے ملتے ہیں اور کیسے خریدے اور بیچے جا سکتے ہیں
وہ دن اور آج کا دن، غنی خان ہیروں کی تجارت کر رہے ہیں اور افغانستان سے امریکہ اور یورپ سے جنوبی افریقہ تک ہیرے منگواتے اور بھیجتے ہیں
ویسے تو ان کے کافی کاروبار ہیں اور تقریباً سارے ہی اچھے چل رہے ہیں، لیکن ہیرے اکٹھے کرنے اور خریدنے، بیچنے کے مشغلے سے شروع ہونے والے کاروبار سے بھی ان کو بہت مالی فائدہ ہوتا ہے۔
غنی خان بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہیروں کی تجارت کے دو طریقے ہیں۔ ایک قانونی اور ایک غیر قانونی
معروف نیوز ویب سائٹ ’اردو نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق غنی خان کا کہنا ہے ”قانونی طریقے سے ہیروں کا کاروبار کرنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں۔ کئی قسم کی دستاویزات تیار کرنا پڑتی ہیں۔ کاروبار کے لیے مناسب جگہ اور مارکیٹ کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور زیادہ تر پاکستان میں ملنے والے قیمتی پتھروں اور ہیروں کی چند اقسام پر انحصار کرنا پڑتا ہے، جو نسبتاً کم قیمت ہوتے ہیں۔ اور اگر آپ مہنگے ہیروں کا قانونی کاروبار کریں تو آپ کو آمدن کا ایک خطیر حصہ ٹیکس کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے“
غنی خان کہتے ہیں ”ہیروں کا غیر قانونی کاروبار کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کی بڑی مارکیٹ افغانستان میں ہے۔ وہاں سے ان کو پاکستان لانا اور پھر پاکستان سے باہر بھجوانا نسبتاً آسان ہے کیونکہ زیادہ تر لوگ ان کو زیورات کی شکل میں بین الااقوامی سطح پر لاتے، لے جاتے ہیں۔“
انہوں نے بتایا ”پاکستان میں جواہرات کی بنیادی طور پر تین قسمیں بہت مقبول ہیں جن میں روبی، نیلم اور یاقوت شامل ہے۔ ان کے زیادہ تر خریدار مرد ہیں کیونکہ وہ ان کو کاروبار کے لیے خریدتے ہیں۔ سب سے مہنگے ہیرے روبی ہیں اور عام ہیروں کی قیمت بھی تیس ہزار سے لے کر کروڑوں روپے تک جاتی ہے“
غنی خان کے مطابق پاکستان میں افغانستان، ایران، بھارت اور یورپ کے کئی ممالک سے بھی ہیرے منگوائے جاتے ہیں جو پھر یہاں سے جنوبی افریقہ، لاطینی اور شمالی امریکہ اور دیگر ممالک میں بھجوائے جاتے ہیں
وہ بتاتے ہیں ”پشاور میں ہیروں کی بڑی مارکیٹ نمک منڈی میں ہے جہاں افغانستان میں کابل کے علاقے شہر نو سے طرح طرح کے ہیرے آتے ہیں اور یہاں سے پھر لوگ خرید کر پاکستان کے دیگر شہروں اور بیرونی دنیا میں لے کر جاتے ہیں“
غنی خان کا کہنا ہے ”جو لوگ منی لانڈرنگ کرتے ہیں ان میں سے بیشتر ہیروں کے ذریعے ہی کرتے ہیں۔ آپ دس ہزار ڈالر باہر نہیں لے کر جا سکتے لیکن آپ پانچ ہزار ڈالر کی دو انگوٹھیاں ہاتھوں میں پہن کر بآسانی یہ رقم باہر منتقل کر سکتے ہیں“
غنی خان نے بتایا ”مہنگے زیوارات پہن کر سفر کرنا ممنوع نہیں ہے، اس لیے اپنی رقم کو ہیروں میں منتقل کر کے اس کو باہر لے جایا جا سکتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ زیورات وغیرہ سکینر میں نہیں آتے۔ اگر آ بھی جائیں تو کوئی آپ کو روکے گا نہیں کیونکہ انگوٹھی یا زیورات چاہے کتنے بھی مہنگے ہوں، اگر آپ نے پہنے ہوں تو ان کے ساتھ بیرون ملک سفر کی اجازت ہوتی ہے“
غنی خان کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ ہیروں کی تجارت کا ایک بہت بڑا مرکز ہے اور پاکستان کے ہیروں کے بڑے تاجر وہاں جا کر بھی خرید و فروخت کرتے ہیں
لیکن اندرونِ پاکستان بھی اب مختلف قسم کے ہیروں اور پتھروں کا قانونی کام بھی بہت زیادہ فروغ پا رہا ہے۔
واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہیروں کی فروخت
واٹس ایپ پر بنے مختلف گروپوں اور سوشل میڈیا کے دوسرے تجارتی پلیٹ فارمز پر لوگ قیمتی پتھر اور ہیرے بیچتے اور خریدتے نظر آتے ہیں
اویس خان پشاور میں قیمتی پتھروں کے ایک بڑے تاجر ہیں، جو ہر قسم کے نگینوں اور ہیروں کا کاروبار کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ”پاکستان میں جو لوگ ذاتی استعمال کے لیے ہیرے یا قیمتی نگینے خریدتے ہیں، وہ بہت چھوٹے سائز میں خریدتے ہیں۔ ایک ہیرا اپنے معیار کے لحاظ سے سات ہزار روپے سے لے کر اربوں روپے تک بکتا ہے۔ زیادہ تر پاکستان میں بکنے والے ہیرے بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ قیراط میں نہیں سینٹس میں بکتے ہیں۔ ایک قیراط میں سو سینٹس ہوتے ہیں، یہاں زیادہ سے زیادہ دو قیراط کا ہیرا بکتا ہوگا۔۔ بڑے ہیرے پاکستان سے باہر بکتے ہیں، جیسے کہ تھائی لینڈ میں جو کہ ہیروں کی دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے“
اویس طیب نے بتایا کہ ہیروں کی قیمت کے تعین کے لیے معیار، سائز، وزن، شفافیت اور صورت کے لحاظ سے تعین کیا جاتا ہے جتنے اچھے ہوں گے، اتنی ہی زیادہ قیمت ہو گی۔
’ہیروں کی قسمیں رنگ کے لحاظ سے ہوتی ہیں جیسے سفید ڈائمنڈ، فینسی ڈائمنڈ شیمپیئن کے رنگ میں، زرد رنگ میں، سرخ رنگ کا ڈائمنڈ، نیلے رنگ میں، لیکن رنگدار ہیروں کو رنگ زیادہ تر گرم کر کے دیا جاتا ہے۔ ہیروں کا قدرتی رنگ سفید ہوتا ہے دوسرے رنگوں میں قدرتی ہیرے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔‘
تاہم ان کے مطابق پاکستان میں جتنے بھی ہیرے آتے ہیں وہ باہر سے کٹ کر آتے ہیں، یہاں پر بہت کم کٹنگ اور پالشنگ کی جاتی ہے۔
اویس طیب نے کہا کہ ’ابھی تک پاکستان میں ہیروں کی کان کنی نہیں ہوئی لیکن تحقیقات کے مطابق جنوب مشرقی پاکستان میں ہیروں کی دریافت کے امکانات موجود ہیں۔‘
واضح رہے کہ امریکی جیالوجیکل سروے کی 2021 کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا کے ہیروں کی پیداوار کا سب سے زیادہ حصہ 28.5 فیصد روس، 20.6 فیصد کینیڈا، 19 فیصد بوٹسوانا، 11.2 فیصد انگولا، 10.9 فیصد جنوبی افریقہ اور 9.8 فیصد دنیا کے دوسرے ممالک میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہیروں کی تجارت اور در آمد اور بر آمد پر ٹیکس کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کا حکام نے جواب نہیں دیا۔