پاکستان چائلڈ اسٹریٹ فٹبال ٹیم نے گزشتہ سال قطر میں منعقدہ عالمی ورلڈکپ سے پہلے اسٹریٹ فٹبال ورلڈکپ میں شرکت کی اور پھر حال ہی میں ناروے میں منعقدہ عالمی اسٹریٹ فٹبال ٹورنامنٹ میں دوسری پوزیشن حاصل کی ہے
پاکستان ناروے کپ 2023 کا فائنل سولا ایف کے کے خلاف پنالٹیز پر 10-9 سے ہارا گیا۔ اضافی وقت کے بعد میچ 1-1 سے برابر تھا۔ ٹیم نے آخر تک سخت مقابلہ کیا لیکن پورے کھیل اور ٹورنامنٹ میں بہادری سے کھیلنے کے بعد پنالٹی پر ٹائی ہار گئی۔ فائنل سے پہلے، پاکستانی ٹیم نے لگاتار سات فتوحات حاصل کیں اور 28 گول اسکور کیے
واضح رہے کہ پاکستان ٹیم قطر میں ہونے والے اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ورلڈ کپ میں بھی رنر اپ رہی ہے اور ناروے کپ 2015 میں دوسری جبکہ ناروے کپ 2016 میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی
پاکستانی اسکواڈ میں طفیل شنواری، فیصل، شامیر علی، سعود، عبدالوہاب، محمد علی، علی آصف، احمد رضا، محمد عدیل، عابد علی، عبید اللہ، اسد ناصر، عبداللہ اور ساحل شامل تھے
پاکستان اسٹریٹ فٹبال کے نوجوان لڑکے کسی عام فٹ بال ٹیم کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی مراعات یافتہ پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ میں حصہ لیا، جو سڑکوں سے جڑے بچوں کے لیے ہے، جو مشکلات کا سامنا کر رہے تھے
ٹیم میں شامل محمد علی کا تعلق کراچی کی قدیم بستی ٹیکری ولیج ماڑی پور سے ہے۔ انہوں نے صرف حالیہ ورلڈکپ بلکہ گزشتہ برس قطر میں منعقد ہونے والے اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ورلڈ کپ میں بھی پاکستان اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے عمدہ کارکردگی پیش کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا
محمد علی کی یہ کامیابی اس لیے بھی باعث فخر ہے کہ
ان کے لیے کچھ کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ دگرگوں مالی حالات سے جُوجھتے محمد علی بتاتے ہیں ”میں نے تعلیم چھوڑی تو میرے والد صاحب حیات تھے۔ ہم پانچ بہن بھائی ہیں۔ گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے تو میں نے ایک چھوٹی سی ملازمت کرلی۔ ملازمت سے جب وقت ملتا تو فٹبال کھیلتا تھا۔ یہ تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں ایک دن فٹ بال کھیلنے قطر اور ناروے جاؤں گا اور واپسی پر میرا شاندار استقبال ہوگا“
کھیل کی سہولیات سے محروم محمد علی فٹبال کے لیے مخصوص جوتوں کے بغیر کھیلا کرتے تھے۔ ”میرے پاس عام جوگر ہوتے تھے جنہیں پہن کر میں فٹبال کھیلا کرتا تھا۔ مجھے ساتھی کھلاڑی کہتے کہ یہ جوتے پہن کر فٹبال نہیں کھیلا جا سکتا۔ ان سے پاؤں زخمی کرنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میں ان کی بات سن کر چپ ہو جاتا، مگر گراؤنڈ میں جانا نہیں چھوڑتا تھا“
ملیر میں مقیم شامیر شریف کا تعلق ضلع بھکر سے ہے جو قطر اور ناروے میں عالمی اسٹریٹ فٹ بال مقابلوں میں ٹیم کے فل بیک کی حیثیت سے شرکت کر چکے ہیں۔ جب وہ ٹیم کا حصہ بنے تو اس وقت درزی کا کام کر رہے تھے
شامیر بتاتے ہیں ”میرے والد سیکورٹی گارڈ کے طور پر نوکری کرتے تھے۔ گھر میں مالی مسائل کے باعث میں نے نویں کلاس میں اسکول چھوڑ کر درزی کا کام سیکھنا شروع کر دیا“
شامیر کی کہانی بھی محمد علی سے مختلف نہیں ہے۔ دراصل یہ باصلاحیت نوجوانوں اور بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے حکومت کے بے حسی پر مبنی رویے کی کہانی ہے، جو ہمیشہ صلاحیت کا گلا گھونٹتا آیا ہے
شامیر بتاتے ہیں ”مجھے فٹبال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہاں تک کہ میرے پاؤں میں جوگر یا فٹبال والے جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔ عام چپل پہن کر گراونڈ میں فٹبال کھیلا نہیں جاسکتا تھا، اس لیے ننگے پاؤں کھیلتا تھا جو بھاگنے سے زخمی بھی ہو جاتے تھے۔ میں عموماً صبح کے وقت جلدی کام پر پہنچ جاتا تھا تاکہ اپنا کام ختم کر کے شام کے وقت کھیل سکوں۔“
اب یہ دونوں کھلاڑی محنت مزدوری کرنے کے بجائے کسی حد تک اپنے کھیل سے پیسے کمانے میں کامیاب ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کو قدرے بہتر بنا لیا ہے
2018ع میں روس میں منعقدہ اسٹریٹ فٹ بال ورلڈکپ میں پاکستان کی ٹیم کی قیادت کرنے والے عبداللہ اس وقت ترکیہ میں اسکالر شپ پر اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں
عبداللہ کا تعلق لاہور سے ہے۔ 2022 میں قطر میں منعقدہ چائلڈ اسٹریٹ بال ورلڈکپ میں انہیں ان مقابلوں کے سفیر کا درجہ دیا گیا تھا
محمد علی اور شامیر کی طرح ان کا بچپن بھی مشکلات میں گزرا۔ تاہم فٹبال کے میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کے بعد انہیں ’مسلم ہینڈ‘ نامی ادارے نے ترکی میں تعلیمی اسکالرشپ دلا دی۔ مسلم ہینڈ ہی وہ ادارہ ہے، جو پاکستان میں اسٹریٹ چائلڈ فٹبال ورلڈکپ کے لیے کھلاڑیوں کو تیار کرتا ہے۔ عبداللہ ترکی میں پڑھائی کے ساتھ فٹبال بھی کھیلتے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ جلد وہ ترکی کے کلب میں شمولیت اختیار کر لیں گے
لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے سترہ سالہ فٹبال کھلاڑی طفیل شنواری بتاتے ہیں، ”اسٹریٹ چائلڈ ورلڈ کپ ان بچوں کے لیے ہے، جن کے پاس بہت زیادہ ٹیلنٹ ہے لیکن ان کے پاس کھیلنے کی سہولیات نہیں ہیں“
طفیل کہتے ہیں ”میں چھ سال کا تھا جب میں نے لیونل میسی کو خواب میں دیکھا۔ ہم بطور اسٹرائیکر ساتھ تھے۔ ہم نے گول کے بعد گول کرنے کے لیے تعاون کیا‘‘
محمد طفیل خان شنواری کہتے ہیں کہ جب سے اس نے یہ خواب دیکھا تھا، فٹبال جیسے ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا ”میں نے گلیوں اور سڑکوں پر فٹ بال کھیلا، میں نے خالی پلاٹوں پر، ناہموار اور پتھریلی زمینوں پر، گاؤں کے کھیتوں میں، اسکول سے پہلے، اسکول کے بعد فٹبال کھیلا“
پاکستان کی اسٹریٹ فٹبال کی کارکردگی نے صرف خیبر پختونخواہ (کے پی) بلکہ پوری قبائلی پٹی کے اسکولوں میں کھیل کی ایک نئی روح کو جگایا ہے۔ اب سب نے اپنی اپنی فٹ بال ٹیمیں بنا لی ہیں
اگرچہ طفیل بہت زیادہ فٹ بال کھیلتا تھا، لیکن وہ ’مسلم ہینڈز‘ نامی خیراتی تنظیم کے ماہرین کے ایک گروپ کے نوٹس میں آنے کے بعد ہی اگلے درجے پر پہنچا، جنہوں نے اسے نوشہرہ میں اوپن ٹرائلز کے دوران دیکھا۔ اس وقت جب وہ، دیگر نو لڑکوں کے ساتھ – یعنی عبداللہ، عابد، عمران، جنید، عبدالوہاب، اسد، سہیل خان، عدیل اور محمد علی – کو ملک بھر کے 500 سے زائد نوجوان کھلاڑیوں میں سے انڈر 16 کے لیے منتخب کیا گیا۔ میرپور، آزاد کشمیر میں کیمپ، جہاں باصلاحیت کھلاڑیوں نے اعلیٰ معیار کی تربیت حاصل کی
یہ کوئی باقاعدہ کیمپ نہیں تھا۔ یہ ایک سال سے زیادہ عرصہ تک چلتا رہا۔ ”یہ اس تربیت کے دوران تھا کہ میں نے اپنے دوسرے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا“ طفیل کہتے ہیں، جو اب فٹ بال کو اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں
وہ کہتے ہیں ”میں اپنے پورے ملک میں سڑک کے دوسرے بچوں کے لیے ایک مثال قائم کرنا چاہتا ہوں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان جیسے محروم بچے، سڑکوں پر گھومتے پھرتے اور بہت سے خطرات سے دوچار ہونے والے بچوں میں بھی ٹیلنٹ ہو سکتا ہے اور وہ اس ٹیلنٹ کی بنیاد پر مواقع بھی حاصل کر سکتے ہیں تاکہ وہ زندگی میں جہاں تک پہنچنا چاہتے ہیں، ان کی مدد کر سکیں۔“
”میرا خواب تھا کہ میں ورلڈ کلاس کھلاڑی بنوں لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی کم عمر میں یہ میرے لیے اتنی جلدی ہو جائے گا“ طفیل مسکراتے ہیں، جو اب اپنی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ اسے کمپیوٹر سائنس پسند ہے اور اس نے حال ہی میں پشاور کے ایک نجی ادارے سے اسکالرشپ پر گریڈ 12 مکمل کیا ہے
پنجاب سے تعلق رکھنے والے سترہ سالہ فٹ بال کھلاڑی ساحل گل کا کہنا ہے کہ فٹبال کا ان کے دل سے خاص تعلق ہے۔ ”مجھے فٹ بال پسند ہے؛ جب میں نہیں کھیلتا ہوں تو خود کو بے چین محسوس کرتا ہوں۔ یہ اس قسم کا کھیل ہے جو مجھے خوشی کرتا ہے اگر میں پریشان ہوں“
سرفہرست مقام حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے باوجود، ساحل کو امید ہے کہ ٹیم کی کارکردگی غربت میں زندگی گزارنے والے پاکستان میں گلیوں سے منسلک دیگر بچوں کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ ”لوگوں کے لیے میرا پیغام ہے، محنت کرنا کبھی نہ چھوڑیں اور کبھی ہمت نہ ہاریں۔ اپنے جذبے کو سب سے بڑھ کر رکھیں اور اسے کبھی نہیں ہاریں“
مسلم ہینڈ کے مطابق پاکستان میں، 22 ملین سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اور 7.5 ملین سے زیادہ بچے سڑکوں پر ہیں
مسلم ہینڈز نوجوان فٹبالرز کو رہائش، رہنمائی، سامان اور کھانا فراہم کرتا ہے۔ مسلم ہینڈز کے مطابق ”یہ گلیوں کے بچے ہیں، اس لیے فٹ بال کے علاوہ، ہم ان کے روزمرہ کے رویے کا جائزہ لیا جاتا ہے اور انھیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنی زندگی کو کیسے بہتر بنایا جائے“
مسلم ہینڈ میں کھلاڑیوں کو تربیت دینے والے ریحان طاہر نے بتایا کہ کسی بھی کھیل کی اسٹریٹ ٹیم بنانے کی پہلی تجویز برطانیہ کے ایک غیر سرکاری ادارے ’اسٹریٹ چائلڈ یونائٹیڈ‘ نے دی تھی۔ اس کے بعد جب مختلف کھیلوں کے ورلڈکپ منعقد ہوتے ہیں تو ان سے پہلے اسٹریٹ ورلڈکپ منعقد کروایا جاتا ہے، جس میں دنیا کے بہت سے ممالک کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں
ریحان طاہر نے بتایا کہ ان کا ادارہ آخری تین ورلڈکپ مقابلوں میں پاکستان کی اسٹریٹ فٹ بال ٹیم کو شرکت کروا چکا ہے۔ اس سے پہلے وہ ٹیم کو صرف اسپانسر کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ کرکٹ بہت مقبول ہے مگر حقیقت میں پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ابھی بھی فٹبال بہت شوق سے کھیلا جاتا ہے کیونکہ یہ کھیل ایک گیند سے کھیلا جا سکتا ہے، جس میں شرکت کے لیے کھلاڑیوں کا زیادہ خرچہ نہیں ہوتا۔ تاہم اسٹریٹ فٹبال کے کھلاڑی عام طور پر اس قدر پسماندہ ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کھیل کے لیے معمولی سامان بھی نہیں ہوتا
ان کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے ٹیلنٹ کو تلاش کرتے ہیں اور اس میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان بچوں ہی کو موقع دیا جائے، جن سے کسی نہ کسی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے مواقع چھن چکے ہیں۔ یا جو کم عمری میں کام کرنے پر مجبور ہیں
ریحان طاہر کہتے ہیں ”جو بچے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں اور ٹیم کا حصہ بنتے ہیں، ان کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ عبداللہ کی طرح چند اور بھی ایسے بچے ہیں جو اب اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔“
پاکستان کی اسٹریٹ فٹ بال ٹیم نے اپنی صلاحتیوں سے دنیا کو ششدر کر رکھا ہے۔
فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے گزشتہ سال قطر میں فٹبال ورلڈکپ کے موقع پر پاکستان اسٹریٹ فٹ بال ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا تھا
فیفا کا کہنا تھا ”پاکستان کی فٹبال ٹیم کبھی بھی ورلڈکپ کے مقابلوں میں شرکت نہیں کر سکی، جبکہ ملک کی اسٹریٹ ٹیم ہر بین الاقوامی مقابلے میں متاثر کن کارگردگی دکھاتی ہے۔ یہ ایسے ملک کے کھلاڑی ہیں، جہاں غربت عام ہے، بچوں کو ان کے تمام حقوق میسر نہیں ہیں، ان کی بہت بڑی تعداد خستہ حال گھروں اور آبادیوں میں رہتی ہے اور انہیں جسمانی اور جنسی استحصال کا خطرہ درپیش ہوتا ہے“
فیفا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 3.3 ملین بچے نوعمری میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ پندرہ لاکھ بچے سڑک کنارے رہتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی اسٹریٹ فٹبال ٹیم تمام بچوں کے لیے امید کی کرن بن گئی ہے
فیفا کی جانب سے پاکستان میں ایک نگران کمیٹی مقرر کی گی ہے۔ اس کمیٹی کے ممبر محمد شاہد نیاز کہتے ہیں کہ اسٹریٹ فٹبال ٹیم کی کارکردگی پاکستان میں فٹبال کے مستقبل کے لیے امید کی کرن ہے۔ ٹیم کے بعض کھلاڑیوں نے قومی انڈر 16 ٹیم کے لیے ٹرائل دیا ہے اور ان میں چند کھلاڑی منتخب بھی ہو گئے ہیں
وہ توقع کرتے ہیں کہ یہ کھلاڑی مستقبل میں پاکستان فٹ بال کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور امکان ہے کہ آنے والے وقت میں یہ کھلاڑی ملک میں فٹبال کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔