اگرچہ موجودہ نگراں حکومت کو گذشتہ پارلیمنٹ ناگزیر اقتصادی فیصلے کرنے کے اختیارات سے بھی مسلح کر گئی ہے، مگر اختیار کا ہونا اور اختیار استعمال کرنا دو الگ الگ باتیں ہیں
بچپن میں جب میں ایک روپے سے پانچ سو روپے تک کے کرنسی نوٹ دیکھتا تھا تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ ہر چھوٹے نوٹ پر اگر سیکرٹری وزارتِ مال اور بڑے نوٹ پر گورنر اسٹیٹ بینک دستخط کرتا ہے تو اتنے سارے کرنسی نوٹوں پر دستخط کر کے ان کے تو ہاتھ شل ہو جاتے ہوں گے۔۔ پھر وہ باقی کام کیسے کرتے ہوں گے؟
ایک دن جب میں نے اپنی پریشانی والد صاحب کے سامنے رکھی تو انہوں نے سر پے چپت لگاتے ہوئے کہا، بے وقوف وہ ہر نوٹ پر قلم سے تھوڑی دستخط کرتے ہیں۔ ان کے دستخط کا نمونہ لے کر نوٹ کے ڈیزائن میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر نوٹ چھاپا جاتا ہے۔ جب میں نے ان دستخطوں کو گیلے انگوٹھے سے رگڑ کے دیکھا تب یقین آیا کہ ابا جان سچ ہی کہہ رہے ہیں۔
2018 کے بعد سے بالخصوص ملک میں جو نظام نافذ ہے۔ اسے اب تک گذار کے جانے کیوں لگتا ہے کہ جتنے بھی قوانین، احکامات، پالیسی نکات، معاہدات، یاداشتوں اور فیصلوں پر آئینی عہدیداروں کے دستخط نظر آتے ہیں، وہ بھی سیکرٹری وزارتِ مال اور گورنر اسٹیٹ بینک کے دستخطوں کی طرح ایک ہی بار بطور نمونہ لے کے بار بار ہر مطلوبہ دستاویز پر پرنٹ ہو جاتے ہیں۔
آپ ان دستاویزات کو روشنی کی جانب کر کے دیکھیں تو ہر صفحے پر اسٹیشنری فراہم کرنے والی ایک ہی کمپنی کا واٹر مارک صاف دکھائی دے گا۔
اگر واقعی ایسا ہے تو پھر عوام کو بنیادی سہولتوں میں ریلیف دینے اور گورننس کے ڈھانچے کو مٹھی بھر اشرافیہ کے مفاداتی تحفظ کے بجائے اکثریتی مفادات کی پاسبانی کے لیے کھولنے کا جو کام پچھلی سیاسی و نیم سیاسی و آمرانہ حکومتیں نہ کر پائیں۔ ان کی توقع ایسی نگراں حکومت سے کرنا نرا بھول پن ہے کہ جس کو دیکھ کے پہلا تصور ہی چابی والے کھلونے کا آتا ہے۔
جن اصحاب سے ریاستی فلمی سیٹ پر اعلیٰ عہدیداروں کی اداکاری کروائی جا رہی ہے، وہ تو خود کام ڈھونڈنے کے لیے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے مرہونِ منت رہتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ ان کے ہاتھ میں جو اسکرپٹ تھمایا گیا ہے، اس میں بھی اتنے بڑے بڑے جھول اور جھٹکے ہیں کہ لگتا ہے اسکرپٹ بھی کسی خانہ ساز یا سستے رائٹر سے عجلت میں لکھوایا گیا ہے
نگراں کابینہ کو برا بھلا کہنا یا انہیں موجودہ اقتصادی، سیاسی و اسٹرٹیجک ابتلا کا ذمہ دار قرار دے کے سنگِ تنقید پر رکھنا ایسے ہی ہے، جیسے بجلی کے چھت پھاڑ بلوں کا غصہ واپڈا یا کے الیکٹرک کی گاڑیوں کے شیشے توڑ کے اور عملے کو لاتوں مکوں پر رکھ کے نکالا جائے
جنہوں نے پالیسی بنائی یا نافذ کی یا جو پتلی تماشہ ڈائریکٹ کر رہے ہیں، ان تک تو کسی کی رسائی ممکن نہیں۔ انہوں نے اونچی دیواروں پر برقی رو دوڑنے والی خاردار تاریں لگائی ہوئی ہیں۔ اپنی حفاظت کے لیے چھ چھ فٹ کے مسٹنڈے محافظ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ ریموٹ آپریٹڈ سیاہ شیشے والی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ لے دے کے عوام کے ہاتھ اپنے ہی جیسے مسکین ورکرز یا نچلے درجے کے اہلکار آتے ہیں کہ جو بے چارے خود حکم کے غلام ہیں۔
ان اہلکاروں اور نگراں حکومت کے اداکاروں میں بس لباس، صفائی ستھرائی، گاڑی کے ماڈل اور گھروں کی حالت کا فرق ہے۔ کچھ مشترک ہے تو بے اختیاری۔
اسلام آباد کے ایک اسٹرٹیجک تھنک ٹینک (پکس) کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق نومبر 2014 کے بعد اگست 2023 کے مہینے میں سب سے زیادہ (99) مصدقہ دہشت گرد کارروائیاں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ یہ حملے جولائی کے مقابلے میں 83 فیصد زیادہ ہیں۔
اس برس اب تک کے آٹھ ماہ میں 22 خودکش حملوں میں 227 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ سب سے زیادہ بارودی تپش خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں محسوس کی جا رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق جولائی کے مقابلے میں اگست میں سکیورٹی اہلکاروں کے جانی نقصان میں 51 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ یعنی دہشت گردوں کے زیرِ استعمال اسلحے اور پیشہ ور منصوبہ بندی کا معیار بہتر ہوا ہے۔
حالانکہ دہشت گردی ایک بار پھر پاکستان کے لیے سب سے بڑا بقائی خطرہ بن کے ابھر رہی ہے، مگر آج کے دن میں یہ کہنا مشکل ہے کہ ٹی ٹی پی زیادہ بڑا خطرہ ہے یا پی ٹی آئی؟ پی ٹی آئی زیادہ بڑا اندرونی خطرہ ہے یا ٹی ایل پی؟ چوہدری پرویز الہی یا ایمان مزاری زیادہ بڑے دشمن ہیں یا پھر نور ولی محسود؟
اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر کے مطابق اب جو اچانک سندھ میں چھاپوں کے دوران اربوں روپے کی کرنسی سابق حکومت سے جڑے بھانت بھانت کے لوگوں کے گھروں سے نکل رہی ہے۔ یہ کیا پچھلے 20 دن میں جمع ہونے والی لوٹ ہے، 16 ماہ میں جمع ہوئی یا پانچ برس میں؟ یہ آج ہی کیوں برآمد ہو رہی ہے؟ کیا یہ کرپشن کے خلاف نیا جہاد ہے یا پھر نئی صف بندی کے لیے تازہ مکینیکل انجنئیرنگ؟
اس گیم میں بچاری نگراں حکومت نہ تین میں نہ تیرہ میں؟
مگر عوام بھی کیا کریں۔۔ غلام کا بس غلام پر ہی چل سکتا ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)