اشرافیہ کی مخالفت ترقی پسند بائیں بازو، لبرل ماہرین تعلیم اور دنیا کی ہر سماجی تحریک کا فکری حصہ رہی ہے اور پاکستان بھی اس گہری جڑیں موجود ہیں۔
انڈیا اور دیگر جنوبی ایشیائی ریاستوں سمیت بہت سے ترقی پذیر ممالک کے برعکس، پاکستان بنیادی طور پر جاگیردارانہ اور قبائلی ملک ہے۔ ایسا نہیں کہ دوسروں کے سماجی ڈھانچے اس سے مختلف ہیں، لیکن پاکستان کے معاملے میں، یہ غالب سماجی اور سیاسی تشکیل ہے۔
سماجی درجہ بندی میں نچلے درجے کے سمجھے جانے والے لوگ عام طور پر نرم مزاج اور غیر فعال ہوتے ہیں اور اپنی حالتِ زار کو اپنی قسمت سمجھتے ہیں جو کہ ایسی قوتیں طے کرتی ہیں، جن پر ان کا کنٹرول نہیں ہوتا۔
جاگیرداروں اور کسانوں، عام عوام اور حکمرانوں، بادشاہوں اور رعایا اور سیاسی طبقے اور عام آدمی کے درمیان تعلقات اس وقت تک مستحکم رہتے ہیں، جب تک انصاف، قانونیت اور عام قبولیت کا کچھ احساس رہتا ہے۔ اشرافیہ مخالف تمام بغاوتوں اور انقلابات کو بالآخر بنیادی سچائی یعنی حکمرانی کے حق کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جیسا کہ آج ہم پاکستان میں دیکھ رہے ہیں، سماجی، معاشی اور سیاسی نظام کا قانونی جواز ختم ہو گیا ہے۔
اب گلی کے کونے میں کھڑا کوئی دانشور نہیں ہے جو دولت کے ارتکاز، مراعات یافتہ افراد کی زندگی یا طاقتوروں کی طاقت پر سوال اٹھا رہا ہے۔ بلکہ یہ عام آدمی ہے جو سڑکوں پر بجلی کے بل پھاڑ رہا ہے، سبز نمبر پلیٹ والی سرکاری گاڑیوں کو آگ لگا رہا ہے اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر کا گھیراؤ کر رہا ہے۔
یہ احتجاج محض بجلی کے بلوں کے خلاف نہیں ہے۔ یہ پاکستان میں حکمران طبقے یا اشرافیہ کے خلاف گہرے غصے، مایوسی اور ناراضگی کی عکاسی ہے۔ یہ احتجاج جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے، اور یہ خطرناک ہے، کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی رہنما یا سیاسی جماعت کے بغیر خود بخود ہو رہا ہے۔
اس کی وجہ واضح ہے: سیاسی جماعتیں، جن پر ہر سطح پر موروثی سیاسی اشرافیہ کا غلبہ ہے، استحقاق، اقتدار اور عوامی وسائل کے حصول کے نظام کا حصہ ہیں۔
پاکستان جن مشکلات سے گزر رہا ہے، اس کی ایک وجہ اور بھی ہے، وہ ہے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے، غیر منصفانہ شرائط و ضوابط جن پر بڑی سیاسی جماعتوں نے دستخط کیے ہیں۔
قیاس ہے کہ بہت سے منصوبوں میں ان میں سے کچھ خاموش شراکت دار شامل ہیں، یا یہ کہ انہیں غیر منصفانہ طور پر فوائد دیے گئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مین اسٹریم میڈیا مشہور شخصیات کے سیاسی ٹاک شوز کا اہتمام تو کرتا ہے، مگر تنقیدی آوازوں کو شامل نہیں کرتا۔
دریں اثنا، متبادل ڈجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر، سرکاری اور اشرافیہ کے زیر کنٹرول سچائی ایک طویل عرصے سے مسلسل حملوں کی زد میں ہے اور اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔
حکمران طبقے عوام کے پیسوں پر مزید مراعات اور فوائد حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا رہے ہیں، اور بیوروکریسی، فوج اور سیاست دانوں نے عام لوگوں اور اپنے درمیان ایک خلیج پیدا کر لی ہے۔
معاشرے میں دولت کی تفریق کا ذکر بہت پرانا ہے، اور ایوب خان کے اس دور تک جاتا ہے، جب ملک کے سب سے مشہور سابق چیف اکانومسٹ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے ڈاکٹر محبوب الحق نے پاکستان کے صنعتی شعبے کا دو تہائی، بینکنگ کے 80 فیصد اور انشورنس کے 79 فیصد کو کنٹرول کرنے والے صرف 22 خاندانوں کے بارے میں بات کی تھی۔
اس نے ’ترقی کی دہائی‘ پر ایک بڑی سیاسی بحث کو جنم دیا تھا۔
اس وقت ایوب خان کے خلاف عوامی ناراضگی کو انتخابی کامیابی میں بدلنے کے لیے ایک رہنما اور ایک نئی جماعت موجود تھی، اس بار، دو بڑی تبدیلیاں ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی صنعتی طبقے کے بارے میں بات نہیں کر رہا بلکہ سیاسی طبقے کے متعلق بات ہو رہی ہے جس میں اس کی تمام جماعتیں، بیوروکریسی، سرکاری کمپنیاں اور اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔
ایک اور بھی تبدیلی ہے۔ ان سب کو ایک ہی حکمران طبقے کے حصے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کے مفادات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، اقربا پروری اور ہائبرڈازم کا حصہ ہیں، یعنی سیاست میں فوج کا غالب اثر و رسوخ۔
آپس میں ملی ہوئی اشرافیہ کے اس نظام نے دو پاکستان بنا دیے ہیں جن میں سے ایک وہ ہے جو اس سے جڑ کر مستفید ہو رہا ہے اور دوسرا عام لوگ ہیں جن کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔
حکمران طبقہ شہر کے بہترین حصے میں رہتا ہے، انہیں بڑے مالی فوائد حاصل ہیں، انہیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں جائیدادیں، مفت رہائش، مفت مہنگی گاڑیاں، مفت تیل، مفت بجلی اور بیرونی ممالک میں مفت علاج میسر ہے۔
علاوہ ازیں ریاست کے ہر محکمے کی اپنی ہاؤسنگ سوسائٹی بھی ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا اور واحد کاروبار ہے۔
پارلیمانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی کہ جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اس کے ارکان کو بھاری پنشن اور اہل خانہ کو بیرون ملک سفر میسر ہے۔
متبادل میڈیا کے ساتھ، اشرافیہ اور معاشرے میں ان کے مراعات یافتہ عہدوں کو نشانہ بنانے والے بیانیے تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ چونکہ تمام بریکنگ نیوز تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے، روپے کی قدر میں کمی اور افراط زر میں اضافے کے متعلق ہیں تو ان کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔
روزمرہ کی عام بات چیت میں حکمران طبقوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور یہ مزید جارحانہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس بار، وہ کسی کے منتظر نہیں ہیں، اور اگر انہوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے، تو بہت افراتفری، آگ، دھواں اور تباہی ہوگی۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)