یہ کراچی کے علاقے اولڈ سٹی کا ایک منظر ہے، جب محلے کے مختلف گھروں سے بچے لٹو ہاتھ میں گھماتے ہوئے کھیل کے میدان کی جانب جا رہے تھے۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا، وہ کھیل کے میدان میں پہنچے تو غالباً لٹو کو تیز گھمانے کے لیے اس میں چاک نما پاؤڈر مسل کر ڈالنے لگتے پھر لٹو کو ہلاتے اور سگریٹ کی طرح اسے منہ کے قریب لے جاتے اور دھواں نکالتے
یہ ایک عجیب طرح کا پریشان کن اور تشویش ناک منظر تھا۔ دھواں نکل بھی رہا تھا اور بچے اب لٹو سے زیادہ سے زیادہ دھواں نکالنے کا مقابلہ کر رہے تھے
اگرچہ بچوں کے لیے بظاہر یہ ایک معصومانہ کھیل ہے، لیکن وہ نشے کی ایک ایسی دلدل میں پھنس سکتے ہیں، جس سے نکلنا ان کے لیے ہی نہیں بلکہ ان کے خاندان کے لیے بھی زندگی بھر کا روگ بن جائے گا، کیوں کہ بچوں کے مطابق لٹو میں ڈالے جانے والے پاؤڈر میں مختلف فلیورز شامل ہیں۔ وہ اسے کھا بھی سکتے ہیں اور مسل کر لٹو میں ڈال کر مختلف ذائقوں کا مزہ بھی لے سکتے ہیں اور منہ سے دھواں بھی نکلتا ہے۔
اردو نیوز میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق کراچی شہر کے مختلف علاقوں میں خوبصورت اور جاذبِ نظر پیکنگ میں اس قسم کی عجیب و غریب اشیا اب عام فروخت ہو رہی ہیں جو دیکھنے میں خوبصورت اور کھانے میں ذائقہ دار ہیں لیکن ان کی قیمت بہت زیادہ نہیں ہے۔ بچوں کے لیے فلیورڈ چاک پانچ سے دس روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے جب کہ پلاسٹک کا لٹو بھی بآسانی اور کم قیمت میں دستیاب ہے
بچوں کے اس کھیل کو انسدادِ منشیات پر کام کرنے والے ماہرین خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ بچوں کو منشیات کی طرف دھکیلنے کی ایک گھناؤنی سازش ہو سکتی ہے
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سماجی بہبود کی سربراہ ڈاکٹر نسرین اسلم، جو گذشتہ کئی برسوں سے بچوں میں منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خلاف کام کر رہی ہیں، کہتی ہیں ”اس طرح کے کھلونوں اور مصنوعات سے بچے بری عادات کا شکار ہو سکتے ہیں۔“
ڈاکٹر نسرین کا کہنا ہے ”بچے عام طور پر بڑوں کو دیکھ کر اس نوعیت کی حرکتیں کرتے ہیں۔ وہ کم عمری میں ہی سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں اور اس کھلونے سے سگریٹ کی طرح ہی دھواں نکلتا ہے، جس کے باعث یہ بچوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے“
انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ان اشیا کا لیبارٹری ٹیسٹ کروائے اور متعلقہ کمپنی کے خلاف کارروائی کی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ بچوں کو نشے کے قریب لانے والی اشیا کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے اور اس نوعیت کی چیزوں کی فروخت پر فی الفور پابندی عائد کی جائے
تیئیس سالہ محمد حمید کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے رہائشی ہیں، وہ حال ہی میں انسدادِ منشیات کے ایک مرکز میں اپنا علاج کروا کر گھر واپس آئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”کالج میں دوستوں کے ساتھ شوق شوق میں شیشہ پینا شروع کیا تھا۔ ابتدائی طور مختلف فلیورز کے شیشے پینے میں مزہ آتا تھا، لیکن ہم دوست زیادہ سے زیادہ مزے کے لیے شیشے سے منشیات کی جانب بڑھ گئے۔ پھر آہستہ آہستہ گھر والوں کو شک ہونے لگا اور ایک دن مجھے گلستان جوہر میں واقع ایک بحالی مرکز میں داخل کروا دیا گیا، جہاں میرا آٹھ مہینے تک علاج جاری رہا۔ میں نے ان دنوں جو تکلیف برداشت کی وہ میرے لیے لفظوں میں بیان کرنا آسان نہیں“
حمید کہتے ہیں ”میں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ نشے کی لعنت سے دور رہوں گا کیوں کہ میں اب ایک بار پھر اپنے ماضی کی زندگی کی جانب لوٹ رہا ہوں۔ مجھے اب سکون کے لیے نہ نیند کی گولیاں کھانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے نہ ہی مجھے کسی نشے کی طلب ہو رہی ہے“
کراچی یونیورسٹی کے کرمنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر ڈاکٹر نائمہ شہریار کا کہنا ہے ”سوشل میڈیا پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچے چاک اور پاؤڈر سے دھواں نکالتے ہوئے وڈیو بنا رہے ہوتے ہیں۔ یہ بچوں کو ایک منظم انداز میں نشے کے قریب لے جانے کی کوشش ہو سکتی ہے“
ڈاکٹر نائمہ ان اشیا کے استعمال کو نشے کی جانب معصوم بچوں کا پہلا قدم قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا ”نوجوان نسل میں نشے کا بڑھتا ہوا استعمال بھی اس وقت ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے“
ڈاکٹر نائمہ کہتی ہیں ”کراچی سمیت ملک بھر میں نشے کے استعمال کو روکنے کے لیے کوششیں کرنے کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، لیکن جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں ان کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں منشیات کی کھپت بڑھ رہی ہے۔ اور اب بچوں کو ٹارگٹ کرنے کے لیے چاک پاؤڈر اور لٹو کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بچے کھیل کھیل میں ان چیزوں کو الیکٹرک سگریٹ اور شیشے کی طرح استعمال کررہے ہیں اور انہیں اندازہ بھی نہیں ہو رہا کہ انہیں کس طرح تباہی کی تاریک دلدل کی طرف دھکیلا جارہا ہے“
ڈاکٹر نائمہ نے بھی حکومت سے اس طرح کی مصنوعات بنانے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ساتھ ہی انہوں نے والدین پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کیوں کہ مارکیٹ میں بہت سی ایسی چیزیں دستیاب ہیں، جو بچوں کے لیے ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہیں
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کی جاری کردہ 2022 کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد سڑسٹھ لاکھ ہے۔ ان میں سے تقریباً بیس لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں
کراچی میں پرائس اینڈ کوالٹی کنٹرول سمیت اس نوعیت کے معاملات کے خلاف کریک ڈاون کرنا ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے کمشنر اور اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کی ذمہ داری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس ضمن میں متعلقہ محکموں اور حکام کی طرف سے کسی قسم کی کوششیں نظر نہیں آتیں۔