ایک استاد کی خودکشی، جس نے ’اساتذہ کے لیے اذیت گاہ‘ بنے جنوبی کوریا کا پردہ چاک کیا

ویب ڈیسک

جنوبی کوریا میں لاکھوں اساتذہ ایک استاد کی خودکشی کے بعد احتجاج کر رہے ہیں، جنوبی کوریا پہلے ہی ہائی پریشر تعلیمی نظام کے لیے بدنام ہے۔

اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہیں بہت زیادہ سخت مطالبات اور یہاں تک کہ والدین کی طرف سے ہراساں کئے جانے کا سامنا ہے، اور وہ قانونی اصلاحات اور زیادہ تحفظات کا مطالبہ کر رہے ہیں

گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران دسیوں ہزار اساتذہ نے سیئول میں احتجاج کیے ہیں اور ریلیاں نکالی ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ اب ان پر بچوں کو ہراساں کرنے کا لیبل لگنے والا ہے اور وہ اس بات سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں، حتیٰ کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے والے بچوں کو بھی روکنے سے ڈرنے لگے ہیں کہ کہیں اُن ہر ہراسانی کا الزام نہ لگا دیا جائے

کورین فیڈریشن آف ٹیچرز ایسوسی ایشنز کے مطابق ہفتے کے روز ایک ریلی میں دو لاکھ مظاہرین نے شرکت کی۔ اور پیر کے روز، ایک اندازے کے مطابق پچاس اساتذہ نے کام روک دیا اور دارالحکومت میں مرنے والے استاد کی یاد میں جمع ہوئے۔ جنوبی کوریا کے حکام نے خبردار کیا کہ ہڑتال کو “غیر قانونی” تصور کیا جائے گا

ملک کی وزارتِ تعلیم اور سیول میٹروپولیٹن آفس آف ایجوکیشن کے مطابق، استاد نے سیئول کے سیوئی ایلیمنٹری اسکول میں پہلی جماعت کے ہوم روم میں پڑھایا تھا، اور 18 جولائی کو کیمپس میں ہی اس کی موت ہوئی۔

اس کی موت کے دو دن بعد، میٹرو پولیٹن ایجوکیشن آفس کے سپرنٹنڈنٹ، چو ہی-یون نے کہا کہ ٹیچر نے “انتہائی انتخاب کا فیصلہ” کیا تھا، جو جنوبی کوریا میں خودکشی کے لیے ایک عام فہم محاورہ ہے

خودکشی کرنے والی ٹیچر نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے ”مجھے بہت گھٹن محسوس ہو رہی تھی، مجھے لگ رہا تھا کہ میں کہیں گر جاؤں گی۔ حتیٰ کہ میں یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ میں کہاں ہوں۔۔“

”میں اپنے کام سے اُکتا چُکی ہوں اور اب اس چکر سے نکلنا چاہتی ہوں۔“

ان کے یہ الفاظ اس خوف اور دباؤ کو بیان کرتے ہیں، جو انہوں نے اس وقت محسوس کیا جب وہ کلاس روم میں بچوں کو پڑھانے کے لیے داخل ہوئیں

اور پھر دو ہفتے بعد تیئیس سالہ لی من سو (فرضی نام) نے خودکشی کر لی، ان کے ساتھیوں نے انہیں اپنے کلاس روم کے اسٹور میں موجود ایک الماری میں مردہ پایا

من سو کے کزن، پارک ڈو یونگ، اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کے ساتھ ان کے فلیٹ میں بکھری اشیا کو سمیٹنے کی کوشش میں تھے، یہ کمرہ اب خالی ہے، لیکن وہاں اب بس مو سو کی ایک گولڈ فش موجود ہے۔ ان کا بستر بکھرا ہوا تھا، اور اس کے ساتھ ہی ان کے پہلی جماعت کے طالب علموں کی ہاتھ سے بنی تصاویر اور ڈرائنگ کا وہ ڈھیر تھا، جس میں اُن بچوں نے من سو کو کہنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اُن سے کتنا پیار کرتے ہیں

ساتھ ہی ایک جانب لائبریری سے حاصل کردہ متعدد ایسی کتابیں تھیں کہ جن سے جاننے کی کوشش کی جاتی رہی کہ ذہنی تناؤ یا ڈپریشن سے کیسے بچا یا نکلا جا سکتا ہے؟

پارک ڈو یونگ کا کہنا ہے ”میری کزن کو پڑھاتے ہوئے ابھی ایک سال مکمل نہیں ہوا تھا، انھوں نے اس پیشے کو اس وجہ سے اپنایا کیونکہ اُن کی والدہ بھی اُستاد تھیں اور دوسرا یہ کہ اُن کا بھی یہی خواب تھا۔ وہ بچوں کو پسند کرتی تھی“

حکام کا کہنا ہے کہ پولیس تفتیش کر رہی ہے، لیکن انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اساتذہ کی تعلیمی سرگرمیاں محفوظ نہیں۔ انہوں نے اساتذہ کو مزید قانونی اور ادارہ جاتی تحفظات فراہم کرنے کے لیے ’خصوصی اقدامات‘ پر زور دیا۔

تحقیقات شروع کرنے کے بعد، تعلیمی حکام نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کئی افواہوں کا ازالہ کیا، جن میں یہ دعویٰ بھی شامل تھا کہ دو طالب علموں کے درمیان جھگڑے نے استاد کی موت میں اہم کردار ادا کیا تھا

چنانچہ ان کی کزن کی موت کے بعد کے دنوں میں، جہاں پولیس نے اس معاملے کو فوری طور پر بریک اپ قرار دے کر بند کر دیا، وہیں ان کے کزن پارک نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کا تہیہ کر لیا۔ انہوں نے من سو کی ڈائری کے سینکڑوں صفحات کو کھنگالنا شروع کیا، بہت سے تحریریں پڑھیں حتیٰ کہ بہت سے ٹیکسٹ میسجز کا بھی پتہ لگایا

انہوں نے انکشاف کیا کہ من سو کی خودکشی سے قبل کئی مہینوں تک انہیں والدین کی جانب سے متعدد شکایات کا سامنا رہا۔ اسی سب کے دوران ایک دن وہ اسکول میں بھی والدین کے ساتھ کسی معاملے پر بحث اور میسجز پر مصروف تھیں کہ کلاس میں ایک بچے نے اُستاد کی توجہ نا ہونے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسرے بچے کو سر پر پنسل سے گہری ضرب لگا دی

دونوں طلباء کے والدین نے استاد کے ساتھ ایک میٹنگ کی تھی، استاد کو والدین کی طرف سے متعدد فون کالز موصول ہوئی تھیں، اور انہوں نے اس بارے میں بے چینی اور بے چینی محسوس کی تھی کہ والدین کو ان کا ذاتی موبائل نمبر کیسے معلوم ہوا

استاد کی ڈائری اور ان کے ساتھیوں کے انٹرویوز کے نتائج کی بنیاد پر، تحقیقات کے دوران پتہ چلا کہ استاد کے پاس ایک مشکل طالب علم تھا اور اسے ہوم روم چلانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، اور استاد کے پاس بہت زیادہ کام تھا

استاد کی موت پورے جنوبی کوریا میں بہت سے اساتذہ اور تعلیمی عملے کے غصے کو ہوا دی ہے، سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جنوبی کوریا میں سرکاری اسکولوں کے 100 اساتذہ، زیادہ تر ابتدائی اسکول کے اساتذہ ، نے جنوری 2018 سے جون 2023 تک خود کو ہلاک کیا۔

اعداد و شمار میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ ان کی موت میں کن عوامل نے کردار ادا کیا، اور یہ واضح نہیں ہے کہ ان خودکشیوں میں سے کتنے افراد کی خودکشی کی وجہ ان کی ملازمتوں سے متعلق تھی لیکن تعلیمی برادری میں بہت سے لوگوں نے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ایک متنازع قانون کو مورد الزام ٹھہرایا ہے، جو 2014 میں متعارف کرایا گیا تھا

قانون کے تحت، کوئی بھی شخص جسے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملے پر شبہ ہے وہ ثبوت فراہم کیے بغیر حکام کو رپورٹ کر سکتا ہے۔ اس کے بعد حکام اس دعوے کی چھان بین کر سکتے ہیں

وہ والدین پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سنہ 2014 میں منظور ہونے والے ’بچوں کی بہبود‘ کے قانون کا غلط استعمال کر رہے ہیں، جو یہ حکم دیتا ہے کہ جن اساتذہ پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام ہے وہ خود بخود اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا معطل ہو جاتے ہیں

اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہیں والدین کی طرف سے غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جو محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچے کو نظرانداز کیا گیا ہے – بعض اوقات ان کی ملازمتوں کو خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے

کورین ٹیچرز اینڈ ایجوکیشن ورکرز یونین کے ایک سروے میں، 6,243 جواب دہندگان میں سے 60% سے زیادہ نے کہا کہ انہیں ذاتی طور پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی پر رپورٹ کیا گیا یا وہ کسی دوسرے استاد کو جانتے ہیں جس کے متعلق رپورٹ کی گئی۔

“بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی روک تھام کا موجودہ ایکٹ کلاس روم میں اساتذہ کی تدریس اور رہنمائی کو محدود کرتا ہے،“ ہڑتال میں شریک ایک خاتون نے کہا

”بلاشبہ، اساتذہ اور والدین کی اکثریت اچھی ہوتی ہے، لیکن کچھ والدین اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے لیے اساتذہ پر مقدمہ کرتے ہیں،” اس خاتون نے کہا، جس نے کہا کہ وہ ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہیں

ہڑتال میں شامل ایک اور خاتون، جس نے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کیا، کہا کہ وہ دس سال سے پڑھا رہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ”کلاس روم میں بچوں کو پڑھانے میں بہت سی مشکلات ہیں کیونکہ اساتذہ کو اختیار نہیں دیا جاتا۔ اگرچہ بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی روک تھام کا ایکٹ بچوں کی حفاظت کے لیے اچھے ارادوں کے ساتھ بنایا گیا تھا، لیکن یہ بہت مبہم معیارات کے ساتھ مشروط ہے۔“

انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے اساتذہ ناراض والدین کی طرف سے رپورٹ کیے جانے کے خوف سے، یہاں تک کہ طالب علموں کو معمولی ڈانٹ ڈپٹ یا کلاس روم میں دیگر تادیبی کارروائیوں کے حوالے سے شدید دباؤ میں ہیں

من سو کی خودکشی کے اس واقعے کے بعد جنوبی کوریا میں پرائمری اسکول کے اساتذہ میں غم اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے، اور وہ والدین اور اسکول میں بچوں کی جانب سے ہراسانی کے اپنے تجربات شیئر کر رہے ہیں

ان میں سے دسیوں ہزار کام کے دوران تحفظ کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں اور انہوں نے ہڑتال بھی کر رکھی ہے

احتجاج کرنے والے اساتذہ نے والدین پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ بچوں کو اُنہیں تنہا کرنے اور دیوار سے لگانے کی وجہ بن رہے ہیں، وہ اپنے بچوں کو دن میں کئی کئی بار ان کے ذاتی فون پر کالز کرتے ہیں اور اُن سے غیر منصفانہ مطالبات اور شکایت کرتے ہیں جس کی وجہ سے بچے ذہنی دباؤ شکار ہو رہے ہیں اور اکثر تو انتہائی قدم بھی اُٹھا لیتے ہیں

کچھ شکایات میں خاص طور پر بہت سی خطرناک باتیں موجود ہیں۔ اساتذہ پر تو بچوں کے ساتھ بُرا رویہ رکھنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر وہ ایسا کرتے کیا ہیں؟ وہ کرتے یہ ہیں کہ وہ جذباتی اور پُرتشدد بچوں کو برے کاموں سے روکتے ہیں لیکن جواباً اُن پر ہراسانی کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جن میں اس طرح کے الزامات سامنے آنے کے بعد اساتذہ کو فوری طور پر ملازمتوں سے ہٹا دیا جاتا ہے

ایک اُستاد کے بارے میں یہ شکایت موصول ہوئی کہ اُنہوں نے طلبہ کے والدین کی اس درخواست کو ماننے سے انکار کر دیا، جس میں والدین کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ ٹیچر روزانہ صبح فون کر کے اُن کے بچے کو نیند سے اٹھانے کا کام کرے

ایک احتجاج میں، اٹھائیس سالہ ٹیچر کم جن سیو نے کہا ”میرے خلاف ایسی ہی ہراسانی کی دو شکایات کے بعد میں نے بھی خودکُشی کا سوچا اور اس کے بعد میں نے اپنے ان خیالات پر قابو پانے کے لیے خاص طور پر تین ماہ کی رخصت لی اور اپنے آپ کو نارمل کرنے کی کوشش کی۔“

ایک معاملے میں انھوں نے اپنے شاگرد کو یہ کہہ کر ٹوائلٹ میں بھیجا کہ وہاں تنہائی میں جا کر بیٹھو اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرو اور دوسرے معاملے میں انہوں نے کلاس میں لڑائی کرنے پر بچے کے والدین کو شکایت لگائی، دونوں صورتوں میں، اسکول نے انھیں معافی مانگنے پر مجبور کیا

کم جن سیو کہتی ہیں ”میں اس مقام پر پہنچ گئی کہ جہاں مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ بس اب میں اپنی کلاس کو مزید محفوظ طریقے سے نہیں پڑھا سکتی۔۔ ہم اساتذہ کو اپنا آپ انتہائی بے اختیار محسوس ہوتا ہے۔ جو لوگ پہلے سے ہی اس سب سے گزر چُکے ہیں، وہ تو شاید بدل گئے ہیں مگر جن کا ابھی اس طرح کے حالات سے خود تو واسطہ نہیں پڑا مگر انہوں نے یہ سب ہوتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔ تو دونوں معاملات میں یہ اساتذہ کو کمزور کر دیتا ہے اور اس سے اُن کے اعتماد کو ٹھیس پہنچتی ہے“

شکایت کرنے کا یہ کلچر جنوبی کوریا کے مسابقتی سمجھے جانے والے معاشرے میں پروان چڑھنے لگا ہے کہ جہاں تقریباً ہر چیز کا انحصار تعلیمی کامیابی پر ہے۔ طالب علم بہت کم عمری سے ہی بہترین گریڈز کے لیے سخت مقابلہ کرتے ہیں اور یہ مقابلہ بہترین یونیورسٹیوں میں داخل ہونے تک جاری رہتا ہے

اسکول کے بعد، والدین اپنے بچوں کو مہنگے غیر نصابی اسکولوں میں پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، جنہیں ’ہاگون‘ کہتے ہیں، جو صبح 5 بجے سے رات 10 بجے تک چلتے ہیں۔ زیادہ تر خاندانوں میں صرف ایک بچہ ہے، یعنی ان کے پاس کامیابی کے لیے زیادہ آپشن نہیں ہیں

سیئول نیشنل یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں مستقبل کے اساتذہ کو تربیت دینے والے پروفیسر کم بونگ جائی کا کہنا ہے ”بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی وجہ سے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں“

انہوں نے وضاحت کی کہ روایتی طور پر، کوریا میں اساتذہ کا احترام کرنے کا بہت مضبوط کلچر تھا، لیکن ملک کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کی وجہ سے، اب بہت سے والدین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اکثر اساتذہ کو حقیر نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ یہ سوچتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ٹیکسوں سے ان (اساتذہ) کی تنخواہوں کی ادائیگی کی ہے۔ اس سے استحقاق کا ایک مضبوط احساس پیدا ہوتا ہے“

ایک اور استاد نوئن کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ دس برسوں سے پڑھا رہے ہیں اور اس دوران اُنہوں نے اُس ڈپریشن اور گھبراہٹ کے حملوں سے نمٹنے کے لیے دو مختلف وقتوں میں چھٹی لی، جس کی وجہ اُن کے شاگرد اور اُن کے والدین بنے۔

انہوں نے کہا ”چار سال پہلے تک آپ کلاس میں پڑھائی کے دوران خلل ڈالنے والے طالب علم کو باہر یا کمرے کے پیچھے بھیج سکتے تھے، لیکن پھر والدین نے بچوں کے ساتھ ہراسانی یا بدسلوکی کے مقدمات اور شکایات کرنی شروع کر دیں“

نوئن حال ہی میں ایک غریب علاقے میں قائم اسکول میں منتقل ہوئے، اور وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ متمول یا امیر علاقوں میں والدین کا رویہ اس سے کہیں زیادہ خراب تھا

انھوں نے کہا ”ان کی ذہنیت ’صرف میرا بچہ اہم ہے‘ والی ہے، اور جب آپ صرف اپنے بچے کو اچھے کالج میں بھیجنے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، تو آپ بہت خود غرض ہو جاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دباؤ بچوں پر اثر انداز ہوتا ہے، ان کے رویے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اس دباؤ کو کیسے ختم یا کیسے اس پر قابو پانا ہے، اس لیے وہ ایک دوسرے کو تکلیف دے کر یہ کام کرتے ہیں“

واضح رہے کہ جنوبی کوریا کے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کے درمیان غنڈہ گردی اور تشدد جیسے مسائل موجود ہیں۔ گذشتہ سال کا مقبول ڈرامہ ’دی گلوری‘ کی کہانی ایک ایسی خاتون کے گرد گھومتی ہے، جو اپنے بچوں کو ہراساں کرنے والوں سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں

اس ڈرامے کی کہانی سچے واقعات پر مبنی تھی، اور تشدد کے کُچھ پریشان کُن واقعات کو اس میں دکھایا گیا تھا۔ پلاٹ کے ایک موڑ پر شو کے ڈائریکٹر پر ہراسانی کا الزام لگایا گیا، جس پر اُنہیں معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا

فروری میں حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے دباؤ میں آ کر یہ اعلان کیا کہ طالب علموں کی ہراسانی کے ریکارڈ کو ان کی یونیورسٹی کی درخواستوں میں شامل کیا جائے گا

والدین میں سے ایک نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا ”میں فکر مند ہوں کہ شکایات ہاتھ سے نکل گئی ہیں۔“ ساتھ ہی انہوں نے ایک گروپ چیٹ کا مواد دکھایا، جس میں والدین ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے کہ وہ ایک استاد کو اس کے کیے گئے فیصلے پر ہراساں کریں

اس چیٹ میں مزید یہ ہدایات دی گئیں تھیں کہ ’اگر آپ کا نمبر بلاک ہو جاتا ہے، تو کال کرنے کے لیے اپنے خاندان اور دوستوں کے فون استعمال کریں۔‘

نامعلوم والدین نے بتایا کہ ’اگر اساتذہ کے پاس مشکلات کا شکار طلبا کے ساتھ مداخلت کرنے کا اختیار نہیں ہے، تو دوسروں پر منفی اثر پڑے گا۔‘

سنہ 2023 کے سروے کے مطابق ایک چوتھائی سے بھی کم اساتذہ اپنی ملازمت سے مطمئن تھے، جو کہ سنہ 2006 میں 68 فیصد سے کم ہے۔ ایک بڑی اکثریت نے کہا کہ انہوں نے پچھلے سال اس پیشہ کو چھوڑنے کے بارے میں سوچا تھا

حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ کلاس رومز میں ’تناؤ کی کیفیت‘ بڑھی ہے۔ حکومت کی جانب سے اساتذہ کو نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ خلل ڈالنے والے طلبا کو کلاس روم سے نکال سکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو انہیں روک سکتے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ والدین کو اساتذہ سے ملاقات کی تاریخ پر وقت سے پہلے ہی اتفاق کرنا چاہیے۔

جنوبی کوریا کے وزیر تعلیم لی جو ہو نے کہا ”ہمیں امید ہے کہ یہ اقدامات اسکولوں کو اُن کا کھویا ہوا مقام واپس دلوائیں گے۔“

وزیر تعلیم لی جو ہو نے گزشتہ ہفتے متنبہ کیا تھا کہ منصوبہ بند ہڑتال ایک “غیر قانونی اجتماعی کارروائی” تصور ہوگی جو طلباء کے تعلیم کے حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ لیکن انہوں نے اتوار کو ایک الگ بیان میں مزید مفاہمت آمیز لہجہ اپنایا، اور کہا کہ انہوں نے “اساتذہ کی مایوسی کی فریاد” سنی ہے اور یہ کہ وہ پیر کی ہڑتال کے دوران کسی بھی شرکاء کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائیں گے۔

لی نے لکھا کہ وزارت نے “تدریس کے حقوق کے تحفظ کو بحال کرنے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا ہے … وزارت نے حکومت سے کہا ہے کہ جلد قانون سازی کرے… تاکہ اساتذہ کی معقول تعلیمی سرگرمیوں کو بچوں سے بدسلوکی کے جرائم سے الگ کیا جا سکے۔

یہاں تک کہ صدر یون سک یول نے پیر کو ایک میٹنگ میں اپنے مشیروں سے کہا، “ہمیں گزشتہ ہفتے کے آخر میں اساتذہ کی طرف سے اٹھائی گئی آوازوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، اور ٹیچنگ اتھارٹی کے قیام اور تعلیمی میدان کو معمول پر لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔”

لیکن مظاہرین اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک بچوں سے زیادتی کے قانون میں ترمیم نہیں کی جاتی۔ احتجاجی گروپوں کا کہنا ہے کہ ہم اساتذہ کی حفاظت کریں گے اور تبدیلیاں کریں گے تاکہ ایک اور استاد اپنی جان لینے کا انتخاب نہ کرے۔

اسکول کے باہر، جہاں استاد کا انتقال ہوا، سوگواروں نے جنازے پر پھول چڑھائے اور سفید پھول چڑھائے، اور پیغامات لکھے۔

اساتذہ کی خودکشیوں پر مظاہرے اور توجہ جنوبی کوریا میں ذہنی صحت کے وسیع مسائل اور اس کے سخت تعلیمی نظام پر دیرینہ تنقید کی عکاسی کرتی ہے۔

جنوبی کوریا میں او ای سی ڈی ممالک میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے، ملک کی وزارت صحت کے مطابق، 20 سال کی عمر کے نوجوانوں اور نوجوان بالغوں میں اس شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

بہت سے نوعمر افراد تعلیم کو اپنی سب سے بڑی پریشانی کے طور پر بتاتے ہیں، زیادہ تر کوریائی طالب علم رات گئے تک خود پڑھائی جاری رکھتے ہیں، روزانہ باقاعدہ اسکول جانے کے ساتھ اضافی ٹیوشن لیتے ہیں۔

یہ تناؤ والدین تک پھیلا ہوا ہے، جن میں سے بہت سے اپنے بچوں کی تعلیم پر اس وقت سے پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں، جب وہ چلنا شروع کرتے ہیں۔ وزارت تعلیم کے مطابق، 2022 میں، جنوبی کوریا کے باشندوں نے نجی تعلیم پر کل 26 ٹریلین وان (تقریباً 20 بلین ڈالر) خرچ کیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close