سکھ رہنما کے قتل پر کینیڈا اور انڈیا آمنے سامنے۔۔ مقتول رہنما کون تھے اور معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

بھارت نے کینیڈا کے سفارتکار کو پانچ روز کے اندر ملک چھوڑنے کے نوٹس کے ساتھ ملک بدر کر دیا ہے، جب کہ اس سے چند گھنٹے قبل ہی کینیڈا نے جنوبی ایشیائی ملک کے اعلیٰ انٹیلیجنس ایجنٹ کو ملک بدر کرتے ہوئے اس پر ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں کردار کا الزام لگایا تھا

کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کو صوبے برٹش کولمبیا میں رواں برس 18 جون کو سکھ گرودوارہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق یہ پیشرفت دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی تازہ ترین مثال ہے، جب کہ کینیڈا نے پیر کے روز کہا کہ اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں جون میں برٹش کولمبیا میں سکھ رہنما کے قتل اور بھارتی حکومت کے ایجنٹوں کے درمیان ممکنہ تعلق کے ’قابل اعتماد الزامات‘ سے متعلق تحقیقات کر رہی ہیں

کینیڈین وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اس معاملے میں ملک بدر کیے گئے انڈین سفارتکار پون کمار کینیڈا میں انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ تھے

کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کو کینیڈا کی پارلیمان میں اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہردیپ سنگھ کے قتل میں انڈیا ملوث ہو سکتا ہے اور ملک کے انٹیلیجنس کے اداروں نے سکھ رہنما کی موت اور انڈین ریاست کے درمیان ایک ’قابل اعتماد‘ تعلق کی نشاندہی کی ہے

ان کا کہنا تھا ’کینیڈا کی سرزمین پر کسی کینیڈین شہری کے قتل میں کسی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی ناقابل قبول خلاف ورزی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’یہ آزاد، کھلے اور جمہوری معاشروں کے بنیادی اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘

اس بیان کے جواب میں منگل کو انڈین وزارتِ خارجہ نے کہا کہ ’ہم کینیڈا کے وزیر اعظم اور ان کے وزیر خارجہ کے بیانات کو مسترد کرتے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’کینیڈا میں تشدد کی کسی بھی کارروائی میں انڈین حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات مضحکہ خیز ہیں۔ اسی طرح کے الزامات کینیڈا کے وزیر اعظم نے ہمارے وزیراعظم پر لگائے تھے اور انھیں مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا تھا۔‘

انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے پر کینیڈا کی حکومت کی جانب سے اقدامات نہ اٹھائے جانا ایک طویل عرصے سے تشویش کا باعث ہے۔‘

اس سے قبل انڈین وزارت خارجہ نے انڈیا میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کو طلب کیا تھا جس کے بعد کینیڈین ہائی کمشنر کیمرون میکی نئی دہلی کے جنوبی بلاک میں وزارت خارجہ کے ہیڈ کوارٹر پہنچے اور چند منٹ تک جاری رہنے والی کی ملاقات کے بعد کیمرون میکی وزارت خارجہ کے دفتر سے واپس چلے گئے۔ اس دوران انھوں نے میڈیا سے بات نہیں کی تھی

ورلڈ سکھ آرگنائزیشن سمیت کینیڈا میں کچھ سکھ گروپوں نے کینیڈین وزیر اعظم کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جسٹن ٹروڈو نے اس بات کی تصدیق کی جس پر سکھ برادری پہلے سے ہی بڑے پیمانے پر یقین کرتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 1.4 سے 1.8 ملین کے قریب انڈین نژاد کینیڈین شہری ہیں۔ انڈیا میں پنجاب سے باہر سکھوں کی سب سے زیادہ آبادی کینیڈا میں ہی ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے انڈیا آنے والے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے کینیڈا پہنچنے کے فوراً بعد یہ خبر آئی تھی کہ کینیڈا نے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدے پر پہلے سے جاری بات چیت کا عمل معطل کر دیا ہے۔

جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے درمیان مبینہ طور پر گرما گرم بات چیت ہوئی۔

نریندر مودی کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی بڑھتی مقبولیت اور انڈین سفارتکاروں کے خلاف ’تشدد کو ہوا دینے‘ جیسے واقعات پر ناراض تھے۔ جبکہ جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان معاملات کو ہوا دے کر انڈیا ’کینیڈا کی ملکی سیاست میں مداخلت‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔

درحقیقت سکھ علیحدگی پسند تحریک کی وجہ سے ہی انڈیا اور کینیڈا کے مابین تعلقات خراب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے کینیڈا میں خالصتان کی حامی تنظیموں کی سرگرمیوں کی وجہ سے کینیڈا اور انڈیا کے تعلقات میں تناؤ ہے۔

جون 2023 میں برطانیہ میں مقیم اوتار سنگھ کھنڈا کی پراسرار حالات میں موت ہو گئی تھی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ تھے۔

سکھ علیحدگی پسندوں نے الزام عائد کیا کہ انھیں زہر دے کر مارا گیا ہے۔

علیحدگی پسند سکھ تنظیموں نے اسے ’ٹارگٹ کلنگ‘ قرار دیا اور الزام عائد کیا کہ انڈین حکومت سکھ علیحدگی پسند رہنماؤں کو قتل کروا رہی ہے۔

جبکہ پرمجیت سنگھ پنجوار، جسے انڈیا نے دہشت گرد قرار دیا تھا کو رواں برس مئی میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

تاہم انڈین حکومت نے ابھی تک ان الزامات پر سرکاری سطح پر کچھ نہیں کہا ہے۔

انڈیا میں سکھوں کی آبادی دو فیصد ہے اور کچھ سکھ علیحدگی پسند سکھوں کے لیے ایک علیحدہ ملک ’خالصتان‘ بنانے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

اس وقت انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں جو تناؤ نظر آ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہیں۔

کینیڈا میں خالصتان کی حامی تحریک اتنی زور و شور سے چل رہی ہے کہ سکھوں کے لیے الگ ملک خالصتان کے حوالے سے ریفرنڈم بھی کرایا جا چکا ہے۔

اس بار بھی جس دن جی 20 کانفرنس کے دوران نئی دہلی میں ٹروڈو اور مودی کی مختصر ملاقات ہوئی، سکھ علیحدگی پسندوں نے کینیڈا کے شہر وینکوور میں انڈین پنجاب کو انڈیا سے الگ کروانے کے لیے ریفرنڈم کروایا۔

انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات میں تلخی اس وقت مزید بڑھ گئی جب جی 20 کانفرنس کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سکھ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں پر کُھل کر ناراضگی کا اظہار کیا۔

کانفرنس کے دوران سرکاری سلامی کے دوران ٹروڈو کو نریندر مودی سے جلد بازی میں مصافحہ کرتے اور تیزی سے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس تصویر کو دونوں ملکوں کے تعلقات کے درمیان ’کشیدگی‘ کے طور پر دیکھا گیا۔

ہردیپ سنگھ نجر کون تھے؟

وہ 18 جون 2023 کی ایک عام سی اتوار کی شام تھی۔ دنیا بھر میں اور سوشل میڈیا پر ‘فاردز ڈے’ منایا جا رہا تھا جبکہ کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے سرے قصبے میں گرودوارہ نانک صاحب میں شام کی پراتھنا (عبادت) کے لیے معمول کے مطابق عقیدت مند جمع تھے کہ اچانک پارکنگ کے حصے سے فائرنگ کی آواز آنا شروع ہو گئی۔

کینیڈا کی پولیس کے مطابق دو نامعلوم نقاب پوش افراد نے ایک شخص کو نشانہ بنایا اور ان پر پے در پے کئی گولیاں داغ دیں۔ پولیس نے مرنے والے شخص کی شناخت گرودوارے کے صدر ہردیپ سنگھ نِجر کے طور پر کی۔

کینیڈا کی سکھ برادری میں ان کے قتل پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان کے قتل کو کینیڈا میں بسنے والی سکھ برادری نے ‘سیاسی قتل’ قرار دیا اور ٹورنٹو اور وینکوور سمیت متعدد شہروں میں اس کے خلاف مظاہرے ہوئے۔

جولائی کے اوائل میں لندن، میلبرن اور سین فرانسسکو میں بھی اس قتل کے خلاف انڈین حکومت کے خلاف مظاہرے ہوئے کیونکہ مظاہرین کا خیال ہے کہ ہردیپ کی موت کا ذمہ دار انڈیا ہے۔

تین ماہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے قاتلوں کا تو پتا نہیں چل سکا لیکن ان کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کے بارے میں مستقل الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔

بہرحال پیر کو ٹھیک تین مہینے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے جب ان کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے کینیڈا سے انڈیا کے سفارتکار کو رخصت کر دیا تو یہ معاملہ بین الاقوامی سطح کی حیثیت اختیار کر گیا۔

45 سالہ ہردیپ سنگھ نِجر انڈیا کو کئی کیسوں میں مطلوب تھے کیونکہ وہ انڈیا کی مغربی ریاست پنجاب میں ایک علیحدہ سکھ ریاست کے حامی تھے اور وہ دنیا بھر میں اس کی حمایت میں آن لائن ریفرینڈم میں پیش پیش رہتے تھے۔

نجر نے ایک آزاد سکھ ریاست خالصتان کے لیے تحریک چلائی تھی اور جولائی سنہ 2020 میں انڈیا نے انھیں ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا اور ان کی گرفتاری کے لیے دس لاکھ روپے کی انعامی رقم رکھی گئی تھی۔

انڈیا کے ان الزامات کو نِجر نے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے کینیڈا میں پلمبنگ کا کام کرتے ہیں لیکن انھیں وہاں لوگ سکھ رہنما کے طور پر دیکھتے تھے۔

کینیڈا کی ورلڈ سکھ آرگنائزیشن کے مطابق انھیں ’ٹارگٹڈ شوٹنگ میں قتل‘ کيا گيا۔ انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ کینیڈا کی انٹیلیجنس ایجنسی نے ان کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔

انڈیا کی ریاست پنجاب میں تقریباً 58 فیصد سکھ اور 39 فیصد ہندو ہیں۔ 1980 اور 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایک پرتشدد خالصتان علیحدگی پسند تحریک نے انڈیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے۔

انڈیا میں وہ تحریک اب بظاہر دم توڑ چکی ہے لیکن اس تحریک کے زیادہ تر حامی بنیادی طور پر بیرون ملک آباد پنجابی ہیں اور کینیڈا میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔

ہردیپ سنگھ نِجر کا تعلق انڈین ریاست پنجاب کے جالندھر ضلع کے گاؤں بھرا سنگھ پورہ سے تھا۔ انڈین حکومت کے مطابق نِجر علیحدگی پسند تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس کے سربراہ تھے اور خالصتان ٹائیگر فورس کے ماڈیول ارکان کو آپریشن، نیٹ ورکنگ، تربیت اور مالی مدد فراہم کرنے میں سرگرم تھے۔

پنجاب حکومت کے مطابق نیشنل انوسٹیگشن ایجنسی (این آئی اے) نے جالندھر کے پھیلور سب ڈویژن میں ان کے آبائی گاؤں بھرا سنگھ پورہ میں واقع نجر کی کل 11 کنال 13.5 مرلہ اراضی میں ضبط کر لی تھی۔

پنجاب میں نجر کی جائیدادیں 2020 میں ان کی آن لائن مہم ’سکھ ریفرنڈم 2020‘ کی وجہ سے ضبط کی گئی تھیں۔ یہ مقدمہ آن لائن مہم کی جانب سے ایک علیحدہ سکھ ریاست خالصتان کے لیے سکھ فار جسٹس کے خلاف دائر کیا گیا تھا۔

نجر سنہ 1997 میں کینیڈا چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کینیڈا آنے کے بعد کبھی انڈیا واپس نہیں گئے لیکن ان کے والدین کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے پہلے آبائی گاؤں ضرور آئے تھے۔ نجر شادی شدہ تھے اور انھوں سوگواروں میں اپنے والدین کے ساتھ اپنی اہلیہ اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔

انڈیا کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے الزام عائد کیا تھا کہ نجر مبینہ طور پر سنہ 2013-14 میں خالصتان ٹائيگر فورس (کے ٹی ایف) کے سربراہ جگتار سنگھ تارا سے ملنے کے لیے پاکستان گئے تھے۔

تارا کو سنہ 2015 میں تھائی لینڈ سے گرفتار کر کے انڈیا لایا گیا تھا۔

ایجنسی کے مطابق نجر کا تعلق انڈیا میں کالعدم تنظیم سکھ فار جسٹس سے بھی تھا۔ نجر کو حال ہی میں آسٹریلیا میں خالصتان ریفرنڈم کے لیے ووٹنگ کے دوران دیکھا گیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close