قائد اعظم یونیورسٹی میں طلبہ یونین بحالی کا فیصلہ، دیگر یونیورسٹیوں میں اطلاق ہوگا؟

ویب ڈیسک

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے ہفتے کو جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ادارے میں طلبہ یونین کی بحالی کا فیصلہ لیا ہے

اس ضمن میں سال 1993 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا تذکرہ بھی ہوا، جس میں طلبہ کی سیاست میں شمولیت کو ناپسند کیا گیا تھا تاہم منتخب باڈیز کے وجود کی اجازت دی گئی تھی اور طلبہ کے مسائل کو حل کرنے میں غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد کرنے پر زور دیا گیا تھا

جہاں اس فیصلے کو جہاں پذیرائی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے وہاں یہ مطالبات بھی زور پکڑ رہے ہیں کہ دیگر یونیورسٹیوں بھی اسی طرز پر طلبہ یونین کو متحرک کیا جائے

یاد رہے کہ سال 1984 میں اس وقت کے فوجی صدر ضیاءالحق نے طلبہ مزاحمت کے پیش نظر طلبا یونین پر پابندی لگا دی تھی۔ پانچ سال گزرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دور حکومت میں پارلیمان کے ایکٹ کے ذریعےاس پابندی کو 1989 میں منسوخ کر دیا گیا تھا۔ پابندی منسوخ تو ہو گئی لیکن محض ایکٹ کی حد تک، جب کہ عملی اقدامات کا ہمیشہ فقدان ہی رہا

طلبہ یونینز پر پابندی کے بعد کئی مظاہرے ہوئے اور ’طلبہ مانگیں یونین‘ کے نعرے بھی لگتے رہے لیکن ان احتجاجوں کا کوئی حل نہ نکل سکا

ملک بھر کی سیاسی و نجی یونیورسٹیز میں طلبہ یونینز تو کام نہیں کر رہیں، تاہم اسٹوڈنٹ باڈیز/ اسٹوڈنٹ کونسلز اور مختلف غیر نصابی سرگرمیوں سے متعلق سوسائیٹیز کام کر رہی ہیں

ایسے میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی کے فیصلے سے طلبہ کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ کیا ملک بھر میں طلبہ یونینز کو متحرک کیا جانا چاہیے؟

سال 1983 میں گورنمنٹ کالج جھنگ میں طلبہ یونین کا حصہ رہنے والے ظفر اللہ خان، جنہوں نے اس دور میں یونین انتخابات میں حصہ لیا تھا،

قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ظفر اللہ خان پیپلز اسٹوڈنٹ فیڈریشن (پی ایس ایف) کے چیئرمین بنے اور اس وقت تک طلبہ یونین پر پابندی لگائی جا چکی تھی

یونیورسٹی سنڈیکیٹ کے حالیہ فیصلے پر بات کرتے ہوئے ظفر اللہ خان کا کہنا ہے کہ بظاہر جامعات خود مختار ہوتی ہیں لیکن جس انداز سے یونینز پر پابندی لگائی گئی یا بحال کی گئیں وہ قانونی یا عدالتی راستے سے ہوا

وہ کہتے ہیں ”ہماری تربیت طلبہ یونینز نے کی اور ان کا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ نشونما، مکالمہ، لکھنے پڑھنے، جمہوریت سیکھنے اور پر امن انداز میں تنازعہ حل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ اور یہ جب نہیں رہیں تو ہم نے دیکھا کہ ہر شعبے میں زوال آیا“

ظفر اللہ خان، جو آئینی امور کے ماہر بھی ہیں، کہتے ہیں ”اگر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنا ہے تو یہ کام عدالت عظمیٰ کو ہی کرنا ہوگا۔ اگر حکومت یونینز کی بحالی کے حق میں ہے تو آئین کے آرٹیکل 17 رائیٹ ٹو ایسوسی ایشن کے تحت ان کی بحالی ضرور ہونی چاہیے۔ اس کا ضابطہ اخلاق ہو جس پر سختی سے عمل درآمد ہو سکتا ہے“

اگر آئینِ پاکستان پر نظر ڈالیں تو آرٹیکل 17 اسٹوڈنٹ یونینز اور ایسوسی ایشنز قائم کرنے کا طلبہ کو آئینی اور قانونی حق دیتا ہے

صوبہ سندھ میں طلبہ یونین کی بحالی سے متعلق قانون کا حوالہ دیتے ہوئے ظفر اللہ خان نے کہا اس کی منظوری وہاں بھی دی گئی، لیکن طلبہ یونینز پھر بھی بحال نہیں ہوئیں انہوں نے کہا ”بلکہ ہمیں تعلیمی منظر نامہ دیکھنا ہوگا جہاں سرکاری و نجی جامعات ہیں۔ اگر قانون ہوگا تو اس کا اطلاق سب پر ہوگا ورنہ نجی یونیورسٹیاں طلبہ کے حقوق کو اتنی اہمیت نہیں دیتیں“

سال 2019 میں لاہور سمیت پاکستان بھر میں سینکڑوں طلبہ نے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے مارچ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا۔ جس کے بعد سماجی کارکن عمار علی جان سمیت اس مارچ میں شامل کچھ سماجی کارکنان اور متعدد طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا

اس مارچ کے کئی مطالبات میں سے ایک مطالبہ طلبہ یونینز کی بحالی کے بعد انہیں متحرک کرنے کا تھا

عمار علی جان کہتے ہیں ”سنڈیکیٹ نے ایک بہتر فیصلہ کیا ہے کیونکہ کافی عرصہ سے طلبہ یونینز کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جس میں ریاست سب سے بڑی رکاوٹ تھی، یہ ایک ایسا قدم ہے جو باقی جامعات کے لیے مثال بن سکتا ہے“

انہوں نے طلبہ یونینز کی بحالی کے حوالے سے درپیش آنے والے کچھ مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا ”انہیں بہتر کرنے میں پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے، جس نے اپنی پسند کے گروپس کو فروغ دیا ہے۔ ان میں ایجنسیاں، سیاسی جماعتیں اور تھانے ملوث رہے ہیں۔ یہ کرنے کے بجائے ریاست کو جامعات کو تحفظ دینا چاہیے اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں“

انہوں نے کہا کہ دوسری ذمہ داری انتظامیہ کی ہے کہ وہ طلبہ کو نہ دبائیں بلکہ انہیں کھل کر بات کرنے کا موقع دیں۔ لیکن اس سب میں قواعد و ضوابط سخت ہونے چاہییں۔ بغیر کسی خوف یا احسان کے تمام طلبہ کو قواعد پر عمل درآمد کروانا چاہیے

عمار علی جان کے مطابق تیسری ذمہ داری طلبہ کی ہے کہ وہ بحالی کے بعد جامعہ میں سیاست اور نظریاتی پرچار کر سکیں۔ طلبہ کو لڑائی جھگڑے اور اسلحہ کلچر سے دور رہنا چاہیے

’اگر تنظیم کے اندر اس طرح کے افراد گھسنے کی کوشش کریں تو انتظامیہ کے ساتھ مل کر ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنے چاہیے۔‘

طلبہ یونین کی بحالی کے لیے ایوان بالا میں بھی کئی مرتبہ مطالبات سامنے آتے رہے، نہ صرف سندھ نے قانون منظور کیا بلکہ سینیٹ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے قرارداد بھی منظور کر چکا ہے۔ اور کئی مرتبہ وقتاً فوقتاً طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے پارلیمان کے اندر بھی آواز اٹھتی رہی ہے

اب دیکھنا یہ ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کے اس اقدام کے بعد ملک میں قائم دیگر یونیورسٹیاں بھی اس فیصلے کی طرف جاتی ہیں یا نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close