میاں نواز شریف کا پچھلا بیانیہ ’ووٹ کو عزت دو‘ تو ان کے برادرِ خورد میاں شہباز شریف کے دورِ حکومت میں کمر توڑ مہنگائی کے بلڈوزر نے اسٹیکر بنا کے رکھ دیا۔ آخری دنوں میں کتری ہوئی پارلیمنٹ نے جس تیزی سے ’بوٹ کو عزت دو‘ پر کام کیا، اس کے فوراً بعد 90 دن کی آئینی مدت میں انتخابات کا انعقاد اور کسی جماعت کو وارا کھاتا ہو، مگر مسلم لیگ نون کو ہرگز نہیں جچتا تھا۔
لہٰذا نہ تو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات ہونے دیے گئے اور نہ ہی اب ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ بھولے بھالے ووٹروں کو شرطیہ نئی کاپی بنا کے بیچا جا سکتا ہے۔
چنانچہ اب ایک انقلابی لائن ڈالی گئی ہے کہ جب تک سابق سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کو ایک منتخب حکومت برطرف کرنے کی سازش رچانے کے جرم میں کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا، ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔
آدھی نون لیگ سمجھتی ہے کہ یہی لائن انتخابی گیم چینجر ثابت ہوگی، جبکہ میاں شہباز شریف سمیت باقی نون لیگ کا خیال ہے کہ میاں صاحب، جن کی 1992 سے آج تک ازخود نامزد کردہ کسی بھی سپاہ سالار سے نہیں بنی، ایک بار پھر پارٹی کو چوڑے میں مروائیں گے۔
پیپلز پارٹی، جس نے ضیا دور میں ماریں کھا کھا کے عملیت پسند سیاست سیکھ لی، اس کا بھی یہی خیال ہے، جو پھونک پھونک کے قدم رکھنے کے عادی نون لیگیوں کا ہے۔ یعنی یہ وقت مولا جٹ بننے کا نہیں۔
مگر میاں صاحب ان سردار جی کی طرح ثابت قدم ہیں، جو صبح ہی صبح رنگروٹوں کی ڈرل لیڈ کر رہے تھے کہ راستے میں دایاں پاؤں کیلے کے چھلکے پر پڑنے سے پھسل گئے۔ اگلی صبح پھر ڈرل کو لیڈ کرتے کرتے سردار جی نے عین سامنے کیلے کا ایک اور چھلکا پڑے دیکھا تو بڑبرائے ’اج آپاں فیر ڈگاں گے۔‘
اصولی طور پر میاں صاحب کا یہ موقف درست ہے کہ جب تک ریاستی نظام پر بالائے آئین قوتوں کا تسلط ہے، نہ ملک آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی جمہوریت۔۔ مگر کوئی بھی مقصد محض نعرہِ مستانہ بلند کرنے سے تو حاصل نہیں ہوتا، جب تک اس کے پیچھے طویل صبر، حقیقت پسند حکمتِ عملی اور عوامی تیاری نہ ہو۔
رجب طیب اردوغان سے میاں برادران کے اچھے تعلقات ہیں۔ اردوغان جب 2003 میں پہلی بار وزیرِ اعظم بنے تو انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ ان کے پیشرو نجم الدین اربکان نے ملک کی طے شدہ سیکولر کمالسٹ پالیسیوں سے زرا سے بھی انحراف کی کوشش کی تو کس طرح ترکی کی نظریاتی محافظ فوج نے ان کا بوریا گول کر دیا۔
چنانچہ اردوغان نے وزیرِ اعظم بننے کے بعد خامخواہ کا محاذ کھول کے وقت ضائع کرنے کے بجائے ملک کی زوال پذیر معیشت کو سدھارنے اور عام آدمی تک بنیادی سہولتیں پہنچانے پر بھرپور توجہ دی۔
یوں رفتہ رفتہ ان کا ووٹ بینک وسیع اور مضبوط ہوتا گیا۔ زرا سے قدم جمے تو پھر صدارت سنبھال لی، مگر توجہ بظاہر ترقیاتی کاموں کی جانب ہی مرکوز رکھی۔ فوج کے اندرونی معاملات میں نہ تو مداخلت کی اور نہ ہی کوئی ایسی واضح نظریاتی لائن اختیار کی، جس سے فوج کے کان کھڑے ہو جائیں۔ یہ باریک کام اردوغان مسلسل 14 برس تک کرتے رہے اور آنکھیں بھی کھلی رکھیں۔
جب 2016 میں مذہبی رہنما فتح اللہ گولن کے حامی افسروں نے اردوغان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تو 14 برس کی ریاضت کے نتیجے میں جو ٹھوس عوامی حمایت تیار ہوئی تھی، وہ اردوغان کی ایک ہی پکار پر دیوار بن کے کھڑی ہو گئی اور جدید ترک تاریخ میں پہلی بار جنرلوں کو سیاسی محاذ پر پسپا ہونا پڑا۔
تب سے اب تک ناصرف اردوغان کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہے بلکہ موجودہ معاشی بحران اور شدید کساد بازاری کے باوجود حالیہ صدارتی انتخابات میں اسی وفادار ووٹ بینک نے روز مرہ مشکلات نظرانداز کرتے ہوئے اس امید پر ان کا ساتھ دیا کہ اردوغان انھیں اس بحران سے بھی نکال لے گا۔
اگر اردوغان بھی 2003 میں وزیرِ اعظم بنتے ہی بغیر کسی ٹھوس تیاری کے ٹن ہو کے نعرہ لگا دیتے کہ کہاں ہے وہ شیر، جس کے دانت نکالنے ہیں تو آج نہ اردوغان ہوتے اور نہ ان کے دانت، بس شیر ٹہل رہا ہوتا۔
سویلینز کے پاس نہ بندوق ہوتی ہے اور نہ ٹینک۔۔ ایک دماغ ہی ہوتا ہے اور اگر دماغ بھی زیرک نہ ہو تو پھر ہوم ورک کئے بغیر جس طرح جنرل پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کچا ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی اور انہیں جس چابکدستی سے انہی کا ادارہ میاں صاحب کی نظروں کے سامنے مکھن میں سے بال کی طرح نکال کے لے گیا، اس سے کچھ تو سبق حاصل کرنا چاہیے تھا۔
ضرور ایسے طالع آزماؤں کو انصاف کے کٹہرے میں ہونا چاہیے، جنہوں نے اس ملک کے ہر ادارے کو غریب کی جورو بنا کے رکھ دیا، لیکن اگر آپ جس سپاہ سالار کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے لیے پوری پارلیمانی پارٹی کو حمایت کا حکم دیتے ہیں اور پھر انہی جنرل صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنے برادرِ خورد کی وزارتِ عظمی کی مدت مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے بعد احتساب کا ’انقلابی‘ نعرہ لگاتے ہیں، تو سوائے اس کے اور کیا ہوگا کہ مسلم لیگ ن جو 16 ماہ کی فرشی وفاداری کے عوض پھر سے انتخابی گیم بنانے کی کوشش کر رہی ہے، اس پر بھی پانی پھر جائے۔
اگرچہ الیکشن کمیشن نے انتخابات جنوری میں کرانے کا عندیہ دیا ہے لیکن خوف ایسی نامراد شے ہے، جس نے ضیاءالحق کو بھی 90 دن کے پاجامے میں غیر جماعتی الاسٹک ڈال کے 10 برس تک کھینچنے پر مجبور رکھا۔
اس ملک کو یہاں تک پہنچانے میں جتنا کردار کورچشم طالع آزماؤں کا ہے، اس سے زیادہ بڑا کردار ’کامن سنس‘ کے قحط زدہ موقع پرست ملنگوں کا ہے!
جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں،
جو گھر کے نقشے میں پہلے دوکان رکھتے ہیں۔
(جمال احسانی)
بشکریہ: بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)