مجھے معلوم نہیں کہ میرا اس کہانی سے کیا تعلق ہے اور یہ کہانی کس نے مجھے سنائی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں اس کہانی کے ایک ایک منظر سے واقف ہوں اور اس لمحے کو بھی دیکھ سکتا ہوں، جب ایک روز گزرتے ہوئے بادشاہ کی نظر ایک درویش پر پڑی، بادشاہ نے گھوڑے کی لگام کھینچی اور درویش کو مخاطب کر کے کہا، ’’اے شیخ! کیا تو جانتا ہے کہ میں شاہِ وقت ہوں؟‘‘
درویش نے یہ سن کر خندہ کیا۔۔
بادشاہ نے پوچھا، ’’تم ہنسے کیوں؟‘‘
درویش بولا، ’’تیری کم عقلی اور تیرے جہل اور تیرے نفس اور تیرے حال پر۔۔‘‘
یہ سن کر بادشاہ پر ایسی کپکپی طاری ہوئی کہ وہ رونے لگا اور گھوڑے سے نیچے اتر آیا۔ وہیں کھڑے کھڑے بادشاہی سے ہاتھ کھینچا اور درویش کی خدمت میں داخل ہو گیا۔ تین روز تک درویش نے اسے اپنی نگاہ میں رکھا، تیسرا دن گزرنے پر اس کے لیے تھوڑی سی رسی کا بندوبست کیا اور کہا، ’’اے شخص! مہمانی کے دن پورے ہو گئے، اب لکڑی کاٹنے کا کام کر۔‘‘
درویش کے حکم کے مطابق بادشاہ، جو اب ایک عام شخص تھا، اس کام میں مشغول ہو گیا۔ لکڑیوں کا گٹھڑ سر پر دھر کے بازار میں آیا، لوگ اسے دیکھتے اور روتے تھے۔ اس نے گٹھڑ بیچا اور اس کے مول میں سے اپنی روکھی سوکھی کے لیے کچھ گرہ میں ڈالا اور باقی صدقہ کیا۔
اب یہی معمول ٹھہرا اور یونہی یہ درویش بادشاہ دربدر کی خاک چھانتا ایک روز خود رزقِ خاک ہوا۔ بعد ایک مدت کے اسی خاک سے ایک اور درویش نے جنم لیا اور صدیوں کی مسافتیں طے کرتا اس شہرِ نا پرساں میں وارد ہوا۔ جس روز وہ شہر کی فصیل سے اندر آیا، اتفاق سے وہی دن تھا، جب اس شہرِ نا پرساں کا بادشاہ جلوس کرتا شہر کی سڑکوں سے گزر رہا تھا۔ درویش بھی ایک طرف کھڑا ہو گیا، بادشاہ کی نظر اس پر پڑی تو پوچھا، ’’اے شخص تو نووارد لگتا ہے اور صورت سے فقیر دکھائی دیتا ہے، کیا تو جانتا کہ میں شاہ وقت ہوں؟‘‘
درویش ہنسا۔۔
بادشاہ نے پوچھا ’’تو ہنسا کیوں؟‘‘
درویش نے کہا، ’’حالات کے تغیّر پر۔۔ کہ جو بادشاہ تھا، وہ حقیقت آشنا ہو کر فقیر بنا اور فقیر نے اپنا منصب کھویا تو بادشاہ ہوا۔‘‘
یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا، اس نے حکم دیا کہ درویش کو شہر کے بڑے چوراہے میں کوڑے لگائے جائیں تا کہ وہ جان لے کہ بادشاہ کون ہے اور فقیر کون؟
شہر کے بڑے چوراہے میں ٹکٹکی پہلے سے موجود تھی، درویش کو وہاں لائے۔ تماشا دیکھنے کو سارا شہر امڈ آیا کہ شہر کے لوگ تماش بین تھے۔ خود بھی تماشا بنتے اور دوسروں کو بھی تماشا بناتے۔
یہ روز کا معمول تھا کہ اس بڑے چوراہے میں کسی ایک کو کوڑے لگائے جاتے۔ ہجوم میں سے آدھے خوش ہوتے اور تالیاں بجاتے اور آدھے افسوس کرتے۔ افسوس کرنے والوں میں، مَیں بھی شامل ہوں، لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ یہ تماشا ہے کیا؟
’’تمہیں معلوم ہے؟‘‘ میں ساتھ والے سے پوچھتا ہوں۔
وہ خالی نظروں سے مجھے دیکھے جاتا ہے، پھر کندھے اچکائے ہوئے کہتا ہے، ’’بس یہ ایک تماشا ہے، ایک منظر اور ہم سب اس کا حصہ ہیں۔ وہ جو ٹکٹکی پر بندھا ہے اور ہم جو یہ سب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
’’تو کیا دیکھتے جانا ہی ہمارا مقدر ہے؟‘‘
بس دیکھتے جانا۔۔۔ لیکن میں صرف دیکھنا نہیں چاہتا کچھ جاننا بھی چاہتا ہوں۔
’’شش۔۔۔۔‘‘ وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کرتا ہے۔۔۔ ’’خاموش رہو۔۔۔ دیکھنے سے آگے جاننے کی حد شروع ہوتی ہے۔‘‘
ایک بادشاہ نے اپنے غلاموں سے کہا کہ ایک مہمان آنے والا ہے، تم سونے کا ایک ایک پیالہ پکڑے کھڑے رہو۔ ایک غلام اس بادشاہ کا خاص مقرب تھا، اسے بھی حکم دیا کہ ایک پیالہ پکڑے۔ جب بادشاہ نے صورت دکھائی تو وہ خاص غلام بادشاہ کے دیدار سے بےخود و سر مست ہو گیا۔ پیالہ اس کے ہاتھ سے جا گرا اور ٹوٹ گیا۔ دوسرے غلاموں نے یہ دیکھا تو سمجھے کہ شاید ایسا ہی کرنا چاہئے۔ انہوں نے بھی اپنے اپنے پیالے زمین پر دے مارے اور توڑ ڈالے۔ بادشاہ سخت برہم ہوا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی؟ وہ بولے جہاں پناہ کے مقرب خاص نے ایسا کیا تھا۔ بادشاہ بولا، بے وقوفو! وہ اس نے نہیں، میں نے کیا تھا۔
یہ سارا شہر ایک عجب سرمستی کے عالم میں ہے، میلے پر آئے ہوئے شخص کی طرح۔۔۔ ہر طرف ایک میلہ ہے، ٹکٹکی کے گرد بھی میلہ ہی ہے، اسی میلے کی ہو ہاؤ میں درویش کو ٹکٹکی سے اتارا گیا۔ بہت سے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ ایک نے پوچھا۔۔۔ ’’ہمیں بتاؤ، ہمیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘
درویش نے کہا، ’’تمھیں نسیان ہو گیا ہے اور سارا شہر ہی شہرِ نسیان ہے۔‘‘ پھر درویش نے انہیں ایک حکایت سنائی:
ایک قافلہ رات کے گھپ اندھیرے میں جنگل میں سفر کر رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں وہ ایک دوسرے کو صحیح طور پر دیکھ نہیں سکتے تھے چنانچہ وہ چلتے رہے اور اپنے اپنے منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے درمیان ایک خونخوار بھی موجود ہے۔ اسے دیکھ کر خوف سے ان کے قدم رک گئے اور آوازیں بند ہو گئیں۔ وہ اس کے سامنے ساکت و جامد ہو گئے۔
یہ حکایت سن کر ان میں سے ایک نے سر اٹھایا، ’’تو یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔‘‘
اور یہ سارا تماشا رات کا ہے۔ رات تو اپنے اندھیرے میں شکلیں بدل دیتی ہے۔ کیا معلوم وہ خونخوار جانور انہی میں سے کسی ایک کی بدلی ہوئی صورت ہو اور ایک ایک کر کے وہ سارے ہی اسی طرح کے جانوروں میں بدل جائیں۔
میرا نام کیا ہے۔۔۔ میں کون ہوں؟
ایک شخص راستہ بھٹک کر ایک بیاباں میں جا نکلا۔ بھوک اور پیاس سے اس کی حالت بری تھی۔ اتنے میں ایک خیمہ دکھائی دیا۔ مارا مارا وہاں پہنچا تو ایک عورت دکھائی دی۔ مسافر نے اس سے پانی مانگا۔ عورت نے مسافر کو پانی دیا جو آگ سے زیادہ گرم اور نمک سے زیادہ کھارا تھا۔
ہونٹوں سے گلے تک جہاں سے پانی گزرا، سب کچھ جلتا گیا۔ مسافر نے بڑی شفقت سے عورت کو کہا۔۔۔ ’تم نے مجھ پر بڑی مہربانی کی۔ میرا خیال ہے کہ شہر یہاں سے زیادہ دور نہیں ہوگا۔ تم نے خود کو کیوں مصیبت میں ڈال رکھا ہے۔ اگر کسی طرح راستہ تلاش کر کے وہاں پہنچ جاؤ تو وہاں میٹھا اور ٹھنڈا پانی ملے گا اور طرح طرح کی نعمتیں بھی میسر آئیں گی۔‘ اتنے میں اس عورت کا شوہر آگیا۔ وہ چند جنگلی چوہے شکار کر کے لایا تھا۔ اس نے عورت سے کہا کہ انہیں پکائے۔ اس میں انہوں نے کچھ مسافر کو بھی دئیے۔ مسافر مصیبت کا مارا بھوکا تھا مجبوراً انہیں بھی کھا گیا اور خیمہ کے باہر سو رہا۔ عورت نے اپنے شوہر سے کہا۔۔۔ ’تم نے سنا، اس مسافر نے شہر کی کیا کیا تعریفیں کیں اور کیا کیا قصے سنائے۔‘ پھر وہ تمام گفتگو جو مسافر نے کی تھی، خاوند کے سامنے دہرائی۔ خاوند نے سب کچھ سن کر کہا۔۔۔ ’ٹھیک ہے وہاں میٹھا پانی اور لذیذ کھانا ملتا ہے لیکن انسان، انسان نہیں رہتا۔‘
’کیا مطلب؟‘ عورت نے پوچھا۔
’وہ جانور بن جاتا ہے۔۔۔ خونخوار جانور۔‘
جنگل میں ایک میلہ ہے، جس میں ہر طرف ہو ہاؤ کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ کان پڑی صدا سنائی نہیں دیتی۔ چہرے کون یاد رکھے اور نام کون جانے۔۔۔ کوڑا لہراتے ہوئے ایک آتا ہے، اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے، پھر دوسرا۔۔۔ اس کے بعد تیسرا اور یہ سلسلہ۔۔۔ کون بادشاہ ہے، کون درویش؟ کبھی بادشاہ درویش بن جاتا ہے اور کبھی درویش بادشاہ، کیا کریں، کس کی سنیں، کس کے ساتھ چلیں؟
یہ تماشا ایک نسل کا ہے یا کئی نسلوں کا؟
جواب اگر کسی کے پاس ہے تو وہ بولتا نہیں۔ بس امڈتی اندھیری رات کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی رضا گھٹی میں پڑ چکی ہے تو پھر ایسی صورت میں چند لمحوں کے لیے سر اٹھا بھی لیا تو کیا اور نہ اٹھایا تو کیا؟
ایک شیر نے ایک ہرن کا پیچھا کیا، ہرن بھاگ کھڑا ہوا۔ اس وقت دو ہستیاں تھیں ، ایک شیر اور دوسرے ہرن، لیکن جب شیر نے اسے جا لیا اور وہ شیر کے پنجۂ اجل میں آ گیا تو شیر کی ہیبت نے اسے بےہوش کر دیا اور وہ بے خود ہو کر شیر کے سامنے گر گیا، اس لمحہ صرف شیر ہی ایک ہستی باقی رہ گیا۔
ایک لمحہ آیا، گزر گیا۔
کہتے ہیں، زمین میں ایک چھوٹا سا حیوان ہے جو زمین کے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اور ظلمت میں رہتا ہے۔ اس کی آنکھ اور کان نہیں ہیں ، اس لیے کہ جہاں وہ رہتا ہے وہاں آنکھ اور کان کی ضرورت نہیں، تو پھر جب اسے آنکھ اور کان کی ضرورت ہی نہیں تو اسے آنکھ اور کان کیوں دئیے جائیں۔
اس جنگل کے میلے میں آنکھ اور کان کی ضرورت کا احساس ہے بھی کسے؟
درویش سر نیوڑائے ٹکٹکی کے نیچے بیٹھا ہے۔ اس کے نتھنوں میں بادشاہ کے دستر خوان کی گرم گرم خوشبو ہلکورے لیتی ہے۔
’’میرا مقام بادشاہ کا دستر خوان ہے یا یہ ٹکٹکی؟‘‘ وہ اپنے آپ سے سوال کرتا ہے۔
دفعتاً اس اپنے آپ سے گھن سی آتی ہے۔
’’تف ہے مجھ پر کہ میں گرم خوشبوؤں کے حصار میں پھنس گیا۔ میرا مقام شاہی دستر خوان نہیں، یہ ٹکٹکی ہے۔‘‘
کہتے ہیں کہ اسی رات درویش نے شہر چھوڑ دیا۔ صبح بادشاہ کے جی میں جانے کیا آیا کہ بھرے دربار میں تخت سے اترا، شاہی چغہ اتار کر اپنے اجداد کا خرقہ پہنا اور ٹکٹکی کے پاس آ بیٹھا۔
آگے کی کہانی مجھے معلوم نہیں، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میرا اس کہانی سے کیا تعلق ہے اور یہ کہانی کس نے مجھے سنائی ہے۔۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ میں اس کہانی کے ایک ایک منظر سے واقف ہوں اور درویش اور بادشاہ دونوں کو اسی طرح جانتا ہوں، جیسے اپنے آپ کو۔