بلوچستان میں طاقتور زلزلے کی پیشنگوئی خوف اور بحث کا باعث بن گئی۔۔ معاملہ کیا ہے؟

ویب ڈیسک

نیدر لینڈز کے تحقیقی ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے نے پیشنگوئی کی ہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن کی فالٹ لائن میں لرزش پیدا ہوئی ہے، لہٰذا آئندہ دو روز میں یہاں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے، جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر چھ یا اس سے زیادہ ہو سکتی ہے

پیر کو پاکستان کے سوشل میڈیا پر یہ معاملہ موضوعِ بحث بنا رہا، اس پیشنگوئی کے بعد جہاں سوشل میڈیا پر اس دعوے کی صداقت پر بحث جاری ہے، وہیں یہ سوال ایک بار پھر گردش کرنے لگا ہے کہ آیا زلزلوں کی پیشنگوئی کرنا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ دوسری جانب حکام کی جانب سے شہریوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہا جا رہا ہے

کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات نے بھی پیر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنی پوسٹ میں شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے

اس کے باوجود کہ سائنس کے شعبے سے وابستہ افراد نے اصرار کیا کہ اس طرح زلزلوں کی پیشنگوئی کرنا ممکن نہیں ہے، لیکن ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق سرحد پار بھی اس پیش گوئی کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے

ادہر بلوچستان میں طاقتور زلزلے کے امکانات ظاہر کرنے کے بعد صوبے کے مختلف علاقوں بشمول کوئٹہ، چمن، نوشکی اور پشین کے لوگوں میں خوف و ہراس بدستور قائم ہے اور گزشتہ رات بہت سے لوگوں نے رات گھروں سے باہر گزاری

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ زلزلے کی قبل از وقت پیشن گوئی نہیں کی جا سکتی کہ زلزلہ کب اور کہاں آئے گا تاہم قدرتی آفات ایک مسلمہ حقیقت ہیں۔

انہوں نے شہریوں سے کہا کہ ’وہ پُر سکون رہیں اور مستند ذرائع سے خود کو باخبر رکھیں اور ایمرجنسی کی صورت میں حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے حفاظتی اقدامات پر عمل کریں۔‘

سولر سسٹم جیومیٹری سروے (ایس ایس جی ایس) کی جانب سے یکم اکتوبر کو دعویٰ کیا گیا ہے کہ چمن فالٹ لائن میں تیز لرزش ریکارڈ کی گئی ہے اور اس علاقے میں دو دن میں ایسا زلزلہ آ سکتا ہے، جس کی شدت ریکٹر سکیل پر چھ یا اُس سے زیادہ ہو سکتی ہے

ایس ایس جی ایس کا کہنا ہے کہ ادارہ سطح سمندر کے قریب فضا میں برقی چارج کے اتار چڑھاؤ کو ریکارڈ کرتا ہے اور زمین کے محور کی گردش کے سلسلے میں یہ اتار چڑھاؤ ان خطوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں ایک سے نو دن کے اندر طاقتور زلزلے جیسی سرگرمی ہو سکتی ہے

تاہم ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے اور اس کے درست مقام کا تعین کرنے کا فی الحال کوئی قابلِ اعتماد طریقہ نہیں ہے

اس پیشنگوئی کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک بار پھر نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والے محقق فرینک ہوگریٹس کا تذکرہ ہو رہا ہے، جنہوں نے رواں برس ترکیہ، شام، پاکستان اور بھارت میں زلزلے کی پیش گوئی کی تھی، جو درست ثابت ہوئی تھی

یاد رہے کہ انہوں نے رواں برس کے آغاز میں ترکی اور شام میں آنے والے زلزلے سے تین روز قبل کہا تھا کہ جلد یا بدیر 7.5 شدت کا ایک زلزلہ جنوبی و وسطی ترکی، اردن، شام، اور لبنان میں تباہی مچا سکتا ہے۔ ان کی اس پیشنگوئی کے چند دن بعد ترکی اور شام میں 7.8 شدت کا زلزلہ آیا تھا، جس میں پچاس ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی تھیں

محقق فرینک ہوگریٹس کے ادارے کی جانب سے رواں برس 30 جنوری کو ایک ٹویٹ میں بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ پاکستان و افغانستان کے متعدد علاقوں میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا امکان بھی ظاہر کیا تھا اور پھر سات فروری کو پاکستان میں 6.8 شدت کے زلزلے کے باعث صوبہ خیبرپختونخوا میں کم سے کم نو افراد ہلاک جبکہ 46 زخمی ہوئے تھے۔ اس زلزلے کا مرکز افغانستان میں ہندوکش سلسلہ میں بتایا گیا تھا

واضح رہے کہ چمن فالٹ لائن جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی فالٹ لائن ہے، جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گزرتی ہے۔ اس کی حد میں پاکستان کے علاوہ افغانستان کا بھی علاقہ آتا ہے۔ نو سو کلومیٹر طویل اس فالٹ لائن پر ہی مئی 1935 میں کوئٹہ میں ایک تباہ کن زلزلہ آنے کی وجہ سے ہزاروں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے

ایس ایس جی ایس کی چمن فالٹ لائن پر زلزلے کی پیشنگوئی کے بارے میں پاکستان کے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ تاحال زلزلے کی پیشنگوئی کرنے والا کوئی سائنسی طریقہ موجود نہیں ہے

محکمہ موسمیات کے نجیب احمد کے مطابق زلزلہ پیما مراکز کی جانب سے چمن فالٹ لائن میں کوئی غیرمعمولی حرکت نہیں دیکھی کی گئی ہے

تاہم ان کا کہنا تھا کہ زلزلوں کا ایک ’ریٹرن پیریڈ‘ ضرور ہوتا ہے اور سنہ 1931 اور سنہ 1935 میں بھی چمن فالٹ لائن پر زلزلے آ چکے ہیں تاہم مستقبل میں یہ ’ریٹرن پیریڈ‘ کب آ سکتا ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جا سکتا

واضح رہے کہ زلزلے کی پیشنگوئی کرنے والے ہوگریٹس ماہرِ ارضیات نہیں ہیں، بلکہ وہ سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر امکانات ظاہر کرتے ہیں کہ کس علاقہ میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے

فرینک ہوگریٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے

ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق سولر سسٹم میں سیاروں کے ایک خاص پوزیشن پر آنے کے بعد زلزلے آتے ہیں، جن کے بارے میں بتایا جا سکتا ہے

اس رپورٹ کے آخر میں ہم اینڈرائڈ فون پر زلزلے سے متعلق گوگل الرٹ کے بارے میں بتائیں گے، لیکن آئیے پہلے ایک اہم سوال کے بارے میں ماہرین کی رائے جانتے ہیں کہ کیا سیاروں کی گردش زلزلوں کا پتا دے سکتی ہے؟

جیسا کہ فرینک ہوگربیٹس کا دعویٰ ہے کہ آسمان میں سیاروں کا محلِ وقوع زلزلوں کی وجہ بن سکتا ہے۔ تاہم سائنسی برادری میں اس حوالے سے اتفاق موجود ہے کہ زلزلوں کی پیشنگوئی کرنے کا کوئی طریقہ فی الوقت سائنس کے پاس موجود نہیں اور نہ ہی ان کے مطابق ایسا کوئی طریقہ مستقبل میں تیار ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے

امریکی جیولوجیکل سروے دنیا میں زلزلوں پر نظر رکھنے اور تحقیق کرنے والے صفِ اول کے اداروں میں سے ایک ہے اور اس ادارے کا کہنا ہے کہ اس نے اور نہ دیگر سائنسدانوں نے کبھی کسی بڑے زلزلے کی پیشنگوئی کی ہے

ادارے کے مطابق ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ پیشنگوئی کیسے کی جائے بلکہ اس کے صرف امکان کا حساب لگایا جا سکتا ہے کہ فلاں علاقے میں اتنے برس میں ایک بڑا زلزلہ آنے کا کتنا امکان ہے

جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کی پیشنگوئی میں تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے، یعنی وقت اور تاریخ، مقام، اور شدت۔ اگر کوئی ’پیشنگوئی‘ ان میں سے تینوں چیزیں فراہم نہیں کرتی تو اسے ایک غلط پیشنگوئی تصور کیا جائے گا

فرینک ہوگربیٹس جس ادارے سولر سسٹم جیومیٹری سروے کے ساتھ وابستہ ہیں، وہ باقاعدگی سے سیاروں کی پوزیشنز کا جائزہ لے کر کچھ امکانات ظاہر کرتا ہے کہ کس علاقے میں ارضیاتی سرگرمی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ترکی میں آنے والے زلزلے سے قبل جب اس ادارے نے اپنی ایک وڈیو جاری کی تھی تو انہوں نے مغربی چین، پاکستان، افغانستان، انڈیا اور مشرقی چین کے درمیان کے علاقے میں ارضیاتی سرگرمی میں اضافے کا کہا تھا مگر ترکی میں زلزلے کے امکان کے حوالے سے کوئی تاریخ نہیں دی گئی تھی، چنانچہ اسے امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ’پیشنگوئی‘ نہیں کہا جا سکتا اور سائنسدان زلزلے کے ’امکان‘ اور ’پیشنگوئی‘ میں فرق کرنے کے قائل ہیں

امریکی جیولیوجیکل سروے کے مطابق حالیہ کئی تحقیقی مطالعوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چاند کی وجہ سے زمین کی سطح اور سمندر کی لہروں کے بلند ہونے اور کچھ طرح کے زلزلوں کے درمیان ایک تعلق موجود ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جو امکان بڑھتا ہے، وہ تب بھی بے حد کم ہی رہتا ہے

اسی طرح امریکہ کی برکلے یونیورسٹی کے مطابق اِجرامِ فلکی کے محلِ وقوع کی وجہ سے زلزلوں کی شرح اور ٹیکٹونک پلیٹس کی حرکت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا

پاکستان میں محکمہ موسمیات کے چیف سیسمک آفیسر ڈاکٹر زاہد رفیع کہتے ہیں کہ زلزلے کی پیشنگوئی موسم کی طرح ہو سکتی ہے تو یہ بالکل غلط ہے

اُن کا کہنا تھا کہ ڈچ سائنسدان کی پیش گوئی ستاروں کے علم کی بنیاد پر ہے۔ اب ستاروں کے ذریعے اُنہوں نے زمین پر آنے والے زلزلے کی پیش گوئی کیسے کی، یہ وہی بتا سکتے ہیں

انہوں نے کہا کہ ہر ملک ریٹرن پیریڈ کا اندازہ لگاتا ہے زلزلہ وہاں آتا ہے جہاں فالٹ لائن ہوتی ہے، ان فالٹ لائن پر مانیٹرنگ اسٹیشن قائم کیے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں آنے والے زلزلوں کی بنیاد پر ایک بڑے زلزلے کے ریٹرن پیریڈ کا اندازہ لگایا جاتا ہے، پوری دنیا میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ارضیات سے منسلک ڈاکٹر سلمان زبیر بھی اس بات سے متفق ہیں کہ اب تک زلزلوں کی مکمل پیش گوئی کرنا ممکن نہیں

ان کا کہنا تھا کہ موسم یا سیلاب کی پیش گوئی ممکن ہے، لیکن زلزلے کے لیے اب تک ایسی کوئی مشین نہیں ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکے

ڈاکٹر سلمان کہتے ہیں کہ زلزلہ آنے سے کچھ دیر قبل کچھ ایسی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں، جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ شاید زلزلہ آجائے۔ ان میں سے ایک حشرات الارض کا زمین سے باہر آجانا ہے

واضح رہے کہ زلزلوں کی پیشنگوئی کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر کام جاری ہے، جن میں زلزلے سے پہلے جانوروں کے رویے کا جائزہ لینا اور اس کی بنیاد پر زلزلے کی پیشنگوئی کرنا شامل ہے۔ کچھ مطالعوں میں ان کے درمیان تعلق تو پایا گیا ہے مگر اب بھی اس حوالے سے سائنسی برادری کسی حتمی اور ٹھوس نتیجے پر نہیں پہنچی ہے، چنانچہ جانوروں کا پہلے ہی محفوظ ٹھکانے کی جانب چلے جانا اب بھی سائنسی طور پر ثابت شدہ نہیں ہے

ڈاکٹر سلمان کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں زلزلہ آنے کا امکان ہو، وہاں غیرمعمولی بادل بھی بن سکتے ہیں کیوں کہ زمین کے اندر پلیٹوں کے ٹکرانے سے حدت پیدا ہوتی ہے اور اس حدت کی وجہ سے تبخیر کا عمل تیز ہوتا ہے اور فضا میں غیرمعمولی بادل بنتے ہیں

لیکن یہ سب عمل کچھ دیر پہلے کا ہوتا ہے۔ ایسا عمل چین میں بھی دیکھا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اب تک کوئی ایسی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو تین یا چار دن پہلے کسی زلزلے کی پیشنگوئی کر دے

’پاکستان زلزلے کے حوالے سے ہائی رسک ملک ہے‘

زاہد رفیع کا کہنا تھا کہ پاکستان کا مکران کوسٹ کا علاقہ رسک کا علاقہ ہے، اب سے کچھ عرصہ قبل پسنی میں زلزلہ آیا، کوئٹہ، ہرنائی، سبی آوران، چترال ، کاغان، بھارتی کشمیر اور دیگر علاقے ہائی رسک ایریاز ہیں، ان میں زلزلہ آسکتا ہے لیکن کب آئے گا یہ نہیں بتایا جا سکتا

ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ پاکستان ایک ایسے ریجن میں ہے، جہاں یوریشین پلیٹس اور ایرانین پلیٹس مل رہی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان ہمیشہ سے ہائی رسک ملک ہے۔ پاکستان میں ہمالیہ کی پہاڑیاں بنی ہی پلیٹس کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ایک خاص بلندی تک چلی گئی ہیں

انہوں نے کہا کہ زمین کی پلیٹس میں سے ایک کا دوسری پلیٹ پر پریشر جب بڑھتا ہے تو اس پریشر کو ریلیز کرنے کے نتیجے میں زلزلہ پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہنا کہ یہاں زلزلہ آسکتا ہے تو یہ کوئی ناممکن بات نہیں، ایسا کسی بھی وقت ممکن ہے

پاکستان کے ہائی رسک علاقوں کے بارے میں ڈاکٹر سلمان زبیر نے کہا کہ پاکستان کے شمالی اور مغربی علاقے سب سے زیادہ رسک پر ہیں۔ ہمالیہ، قراقرم کی پہاڑیاں پلیٹس کے ٹکرانے کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں، ان علاقوں میں رسک زیادہ ہے اور جنوبی علاقوں میں یہ رسک کم ہوتا جاتا ہے۔ پنجاب اور سندھ کے پلین ایریاز میں بھی زلزلہ آسکتا ہے لیکن یہاں رسک کم ہے

پاکستان میں مانیٹرنگ کہاں کہاں ہو رہی ہے؟

زاہد رفیع کہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں 30 مانیٹرنگ اسٹیشن موجود ہیں، یہ گلگت بلتستان سے شروع ہوتے ہیں اور اس کے بعد کوہستان، چترال، تربیلا، اسلام آباد، کلر کہار، جہلم اور دیگر علاقوں سے ہوتے ہوئے سمندر تک پاکستان کے مانیٹرنگ اسٹیشن موجود ہیں

اُن کے مطابق پاکستان کے شمال مغربی ، مغربی اور بلوچستان کے علاقے زلزلہ کے حوالے سے رسک والے ایریا شمار کیے جاتے ہیں اور یہاں ہر وقت مانیٹرنگ کی جاتی ہے لیکن ان علاقوں میں کسی بھی زلزلے کی پیشنگوئی نہیں کی جا سکتی

کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ مانیٹرنگ مشینوں کی ریڈنگ چوبیس گھنٹے حاصل کی جاتی ہے لیکن وہ صرف نکلنے والی ویوز کی مانیٹرنگ کرتی ہے، آئندہ کا نہیں بتاسکتی اور جہاں تک ریٹرن پیریڈ کا تعلق ہے تو اس بارے میں مختلف رائے سامنے آتی ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اس کا دورانیہ دس سے پندرہ سال تک ہو سکتا ہے

پاکستان میں 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزلہ میں 80 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ملک کے شمالی علاقوں میں بہت بڑی تباہی دیکھنے میں آئی تھی

زلزلے کی پیشنگوئی کرنے والے ایک طرف لیکن بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ زلزلہ کی پیش گوئی کے بجائے زلزلہ سے محفوظ رکھنے والی عمارتوں پر توجہ دینی چاہیے تاکہ نقصان سے بچا جا سکے

اینڈرائڈ فون پر زلزلے سے متعلق گوگل الرٹ کیسے ممکن ہوتا ہے؟

گوگل کے کرائسز رسپانس سینٹر کی جانب سے زلزلے سے متعلق الرٹ جاری کرنے کے طریقہ کا کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے کہ تمام سمارٹ فونز میں چھوٹے ایکسلرومیٹرز ہوتے ہیں، جو رفتار اور تھرتھراہٹ محسوس کر سکتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کر سکتے ہیں کہ ممکنہ زلزلہ ہو سکتا ہے

جب ایک علاقے میں جہاں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں، وہاں موجود صارفین کے فونز اگر کسی ایسی چیز کا پتہ لگاتے ہیں جس کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ یہ زلزلہ ہو سکتا ہے، تو گوگل کے زلزلے کا پتا لگانے والے سرور کو زلزلے کے اس مقام سے متعلق کے ایک سگنل بھیجتا ہے

اس کے بعد سرور کئی فونز کی معلومات کو یکجا کرتا ہے تاکہ یہ معلوم کر سکے کہ آیا زلزلہ آ رہا ہے۔ گوگل اس طریقہ کار کو دنیا کے سب سے بڑے زلزلے کا پتہ لگانے کے نیٹ ورک کو تشکیل دینے کا کام کرتا ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں لگ بھگ دو بلین اینڈرائیڈ فونز کو منی سیسمومیٹر کے طور پر استعمال کرتا ہے

فونز زلزلے کے جھٹکوں کی شدت اور رفتار کا پتہ لگاتے ہیں اور اس کے مطابق متاثرہ قریبی علاقوں میں اینڈرائیڈ صارفین کو الرٹ کرتے ہیں

گوگل کے مطابق اینڈرائڈ دو قسم کے نوٹیفیکیشنز یا الرٹ جاری کرتا ہے جو صارفین کو زلزلے سے آگاہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ الرٹ کے دونوں پیغامات صرف 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے لیے بھیجے جاتے ہیں

ایک پیغام جسے ’بی آویر الرٹ‘ کہا جاتا ہے زلزلے سے متعلق 15 سے 20 سیکنڈز پہلے اطلاع دینے کا کام کرتا ہے اور آپ کو ممکنہ جھٹکوں کے لیے تیار رہنے اور محفوط مقام پر منتقل ہونے کے موقع دیتا ہے

تاہم یہ پیغام 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ تاہم اگر آپ کے فون پر رنگ ٹون کی آواز بند ہے یا ڈو ناٹ ڈسٹرب اور نوٹیفکیشن بند ہیں تو یہ صرف آپ کی سکرین پر نمودار ہوگا

جبکہ دوسری قسم کا پیغام آپ کو زلزلے سے چند سکینڈز قبل فوری طور پر حرکت میں آنے اور محفوظ مقام پر منتقل کرنے سے متعلق اطلاع دے گا۔ اس کو ’ٹیک ایکشن الرٹ‘ کہا جاتا ہے

یہ پیغام بھی صرف 4.5 یا اس سے زیادہ شدت کے زلزلوں کے وقت صارفین کو بھیجا جاتا ہے۔ تاہم یہ پیغام آپ کے فون پر ڈو ناٹ ڈسٹرب کی سیٹنگز کو توڑتے ہوئے آپ کی فون سکرین پر نہ صرف نمودار ہوتا ہے بلکہ اونچی آواز میں رنگ ٹون بھی بجاتا ہے

تاہم یہ دونوں طرح کے پیغامات آپ کو صرف اس وقت محسوس ہو سکتے ہیں جب آپ کے موبائل فونز پر نہ صرف لوکیشن سیٹنگز آن ہو، بلکہ آپ کا فون وائی فائی یا موبائل ڈیٹا کے ذریعے انٹرنیٹ سے بھی منسلک ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close