انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سالگرہ پر ان کے سابق اسپیشل سکیورٹی فورس افسر خسرو فرامرز رستم جی اپنے وزیر اعظم کو ان کے یوم پیدائش کا تحفہ دینے کے لیے بے چین تھے۔ وہ انہیں ایک خبر دینا چاہتے تھے اور یہ خبر تھی ایک بدنامِ زمانہ ڈاکو کی موت کی، جسے دنیا گبر سنگھ کے نام سے جانتی ہے
یہ کہانی ہے اسی انتہائی خطرناک ڈاکو اصلی گبر سنگھ کی، جو اس وقت دہشت کی علامت بن چکا تھا اور جس نے وسطی ریاست مدھیہ پردیش، راجستھان اور اترپردیش کے خطے پر محیط چنبل کے پورے علاقے میں کشت و خون کا بازار گرم کر کے پولیس کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ انڈین حکومت نے اس کے سر پر پچاس ہزار کا انعام رکھا تھا، جو اُس وقت تک کسی کے سر کی سب سے زیادہ قیمت تھی
گبر سنگھ جب پولیس کے ساتھ ایک خونی جھڑپ میں 13 نومبر 1959 کو مارا گیا تو جواہر لعل نہرو کے سابق نائب نے ان کی موت کی خبر کو وزیراعظم کے یوم پیدائش 14 نومبر کے لیے ایک تحفے کے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے یہ بات اپنی مشہور تصنیف ’دی برٹش، دی بینڈت اینڈ دی بورڈر مین‘ میں لکھی ہے
کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ انڈیا کی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ کا شہرہِ آفاق کردار ’گبر سنگھ‘ اسی اصلی گبر سنگھ پر مبنی ہے۔ فلم شعلے کے اسکرپٹ رائٹر سلیم جاوید نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ جب وہ گبر سنگھ کا تعارف کراتے ہیں تو خود اس کے منہ سے وہ بات کہتے ہیں، جو حقیقت پر مبنی ہوتی ہے
فلم میں گبر سنگھ اپنے گینگ کے ساتھی سانبھا سے پوچھتا ہے: ’ارے او سانبھا! سرکار نے ہم پر کتنے کا انعام رکھے ہیں؟‘ تو سانبھا جواب دیتا ہے: ’سردار، پورے پچاس ہزار۔‘ اس کے بعد وہ اس کی تاویل بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ ’سرکار نے یہ انعام اس لیے رکھے ہیں کہ یہاں سے پچاس پچاس کوس (یعنی سو سو میل) دور جب رات کو کوئی بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ بیٹا سو جا، ورنہ گبر آ جائے گا‘
کہنے والے کہتے ہیں کہ شعلے فلم میں گبر کی دہشت کا جو عالم دکھایا گیا ہے، دراصل حقیقی زندگی میں وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھا
انڈین میڈیا کے مطابق گبر سنگھ برطانوی راج 1926ع میں مدھیہ پردیش کے ضلع بھنڈ کے ڈانگ گاؤں میں ایک گوجر خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام پریتم سنگھ تھا لیکن اسے پیار سے گبرا کہہ کر بلاتے تھے
غریب خاندان میں پیدا ہونے والا گبر بچن سے ہی تندرست تھا۔ اس کے والد کے پاس کچھ زمین تو تھی لیکن گزر بسر کے لیے محنت مزدوری بھی کرنی پڑتی تھی
جب پریتم سنگھ عرف گبرا بڑا ہوا تو وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ پتھر نکالنے اور توڑنے والی کان میں مزدوری کرنے لگا۔ اسی دوران زمین کے تنازع کے ایک معاملے میں گاؤں کے بااثر لوگوں نے اس کے والد کو خوب مارا پیٹا۔ اس معاملے پر پنچایت بلائی گئی لیکن گبرا کے باپ کو انصاف نہ ملا اور پنچایت نے اس کی زمین اپنے قبضے میں لے لی
اس ناانصافی پر گبرا کا خون کھول اٹھا اور اس نے اپنے والد کو مارنے والوں میں سے دو افراد کا قتل کر دیا۔ قتل کرنے کے بعد وہ گاؤں سے فرار ہو گیا اور وہاں سے سیدھا چنبل پہنچا، جو کہ ایسے لوگوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ اس وقت کے مشہور ڈاکو کلیان سنگھ کے گروہ میں شامل ہو گیا، جہاں اس نے بندوق چلانے سمیت ڈاکا ڈالنا بھی سیکھ لیا لیکن جلد ہی اس نے اپنا علیحدہ گروپ قائم کر لیا اور علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا
آئے دن اس کی لوٹ مار نے پولیس کی نیندیں حرام کر دیں اور پولیس نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا، لیکن اس کے خوف اور دہشت کی وجہ سے کوئی بھی دوسرا گروہ اس کی مخبری کرنے پر راضی نہ ہوا
پولیس نے جب اس کے متعلق بچوں کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تو یہ بات کسی طرح گبرا کو پتا چل گئی، جو کہ اب سردار گبر سنگھ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ظلم کی انتہا کرتے ہوئے 1957 میں ایک ہی گاؤں کے اکیس بچوں کو مخبری کے شبے میں گولیوں سے بھون دیا
اخبار نوبھارت ٹائمز کے مطابق اس خبر نے نہ صرف علاقے میں دہشت کا ماحول پیدا کیا بلکہ دہلی میں اس وقت کے انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی اس خبر پر بے قرار ہو گئے اور اس قدر مشتعل ہوئے کہ اسے کسی بھی قیمت پر ختم کرنے کا حکم صادر کر دیا
اس وقت تک گبر سنگھ پر مختلف تھانوں میں قتل، لوٹ مار، ڈاکے اور اغوا کے دو سو سے زیادہ واقعات درج کیے جا چکے تھے
جواہر لعل نہرو کے حکم کے بعد ریاستی وزیراعلیٰ نے کسی بھی قیمت پر گبر سنگھ کو زندہ یا مردہ پیش کرنے کا حکم دے دیا، جس سے ریاستی حکومت پر دباؤ بڑھا اور اسے پکڑنے کے لیے سپیشل ٹاسک فورس بنائی گئی
نوبھارت ٹائمز کے مطابق اس کی گرفتاری پر مدھیہ پردیش حکومت نے پچاس ہزار کا انعام رکھا، جبکہ اتنے ہی انعام کا اترپردیش حکومت نے اعلان کیا۔ اس کے علاوہ راجستھان حکومت نے دس ہزار روپے کا انعام رکھا۔ اس طرح مجموعی طور پر ان پر ایک لاکھ 10 ہزار کا انعام تھا
سنہ 1955 میں ڈکیتی کی دنیا میں آنے والے گبرا نے صرف دو سال کے اندر لوٹ مار اور قتل غارت کا ایسا بازار گرم کیا، جو اس سے قبل کہیں نہیں دیکھا گیا تھا
امر ہونے یا امیر ہونے کی خواہش میں نہ جانے کتنے لوگوں نے کیا کیا برائیاں کی ہیں، اس کا تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن توہم پرست گبر سنگھ کے دل میں یہ بات گھر کر گئی اور اس نے اس سلسلے میں ایک سو سولہ کے بجائے ایک سو چھیاسٹھ لوگوں کے ناک کان کاٹ لیے، جن میں بہت سارے پولیس والے بھی شامل تھے
کہا جاتا ہے کہ وہ عام طور پر قتل کرنے کے بعد لاشوں کے ناک کان کاٹ لیا کرتا تھا، جس کی وجہ سے علاقے میں مزید خوف رہنے لگا تھا۔ اگر وہ کسی کو تاوان کے لیے اغوا کرتا تو اسے چھوڑنے سے پہلے اس کے ناک کان کاٹ لیا کرتا تھا
اس علاقے میں کوئی بھی شخص اگر ناک کان کٹا ملتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ وہ گبر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنا ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے پورے علاقے میں اس کی دہشت پھیل گئی تھی اور اس سے تین ریاستیں مدھیہ پردیش، اترپردیش اور راجستھاں زیادہ متاثر تھیں
اس وقت اس علاقے کے آئی جی خسرو رستم جی تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پولیس نے اسپیشل ٹاسک فورس بنائی اور ڈی ایس پی راجیندر پرساد مودی کو اس کا انچارج مقرر کیا۔ پولیس نے جنگل میں ڈیرہ ڈال دیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا
ہندی اخبار بھاسکر کے مطابق تین سال تک پولیس کو ایک بھی مخبر نہیں ملا لیکن پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے پولیس پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے میں مدد کی
ہوا یوں کہ بھنڈ کے ایک گاؤں میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ ایک مکان میں پھنسا رہ گیا۔ کسی میں اس کو بچانے کی ہمت نہیں تھی کہ اسی دوران ڈی ایس پی راجیندر پرساد وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے جان پر کھیل کر بچے کو بچایا
اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے پولیس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر ایک دن اسی بچے کے والد نے پولیس کو یہ خبر دی کہ ’آج گبر ہائی وے سے گزرنے والا ہے‘
پولیس نے اس خبر پر ہائی وے پر گھات لگا کر انتظار کرنا شروع کر دیا اور جب گبر کا گروہ وہاں سے گزرا تو پولیس نے اس پر فائرنگ شروع کر دی۔ گبر کے گینگ نے بھی پولیس پر جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ اسی دوران گبر پر دو گرنیڈ پھینکے، جس کی زد میں گبر آ گیا
اس کے بعد آئی جی رستم جی نے اس کے قریب جا کر گبر کو گولیوں سے بھون دیا۔ اس حملے میں گبر سمیت نو ڈاکو مارے گئے، باقی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تاہم اسی دن گبر کی دہشت اپنے اختتام کو پہنچی
اور پھر دوسرے دن رستم جی نے یہ خبر انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو ان کے جنم دن کے تحفے کے طور پر بھیج دی۔