بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں گزشتہ چار ماہ سے جاری تنازع اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔ اختر مینگل اور شفیق مینگل کے حامیوں کے درمیان کشیدگی کے دوران دونوں جانب سے فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں اب تک مجموعی طور پر نو افراد ہلاک ہو چکے ہیں
بلوچستان کی نگراں حکومت نے فریقین کو مورچے خالی کر کے پرانی پوزیشن پر چلے جانے کے لیےچار دن کی ڈیڈ لائن دے رکھی ہے
واضح رہے کہ کہ وڈھ میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل کا شفیق مینگل کے ساتھ دیرینہ تنازع چلا آ رہا ہے۔ دونوں قبائلی رہنماؤں کے سینکڑوں حامی 18 جون سے مورچہ زن ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔
اس کشیدگی کی وجہ سے دکانیں اور مارکیٹوں کے ساتھ ساتھ وڈھ بازار، اسکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال بھی بند ہیں اور زرعی سرگرمیوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ علاقے میں کرفیو جیسی صورتحال ہے اور پچاس ہزار سے زائد کی آبادی گھروں میں محصور ہیں یا پھر ان میں سے اکثریت علاقہ چھوڑ کر خضدار، قلات، بیلہ، کراچی اور کوئٹہ نقل مکانی کر چکی ہے
وڈھ سے کوئٹہ کراچی شاہراہ بھی گزرتی ہے۔ دونوں فریقین کے درمیان گولیاں اور راکٹ گولے چلنے کی وجہ سے یہ شاہراہ ہر روز کئی گھنٹوں تک بند رہتی ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران کم از کم تین ڈرائیور فائرنگ کے واقعات میں ہلاک اور متعدد مسافر زخمی ہو چکے ہیں
اسسٹنٹ کمشنر وڈھ عصمت اچکزئی نے علاقے کی کشیدہ صورتحال کے حوالے سے بتایا ”کچھ دن قبل ایک مزدا ٹرک کا ٹائر گولی لگنے سے برسٹ ہوا، جس کے بعد ٹرک بے قابو ہو کر دوسری گاڑیوں سے جا لگا، اس حادثے میں دو افراد کی موت ہو گئی۔ اسی طرح چند روز قبل فائرنگ کے نتیجے میں ایک بچہ بھی ہلاک ہوا“
ان کا کہنا تھا کہ اب تک اس جنگ میں کم از کم سات افراد ہلاک اور درجن سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ غیر سرکاری طور پر مجموعی اموات کی تعداد نو بتائی جاتی ہے
اس تنازع کو حل کرانے کے لیے سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور سابق رکن قومی اسمبلی مولانا محمد خان شیرانی بھی ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں، تاہم انہیں اب تک خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی
نگراں صوبائی وزیر داخلہ کیپٹن ریٹائرڈ محمد زبیر جمالی کے مطابق وڈھ میں کافی مہینوں سے دو فریقین کے درمیان جاری صورتحال کی وجہ سے نیشنل ہائی وے متاثر ہو رہی ہے، اموات بھی ہوئی ہیں اور لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ وڈھ کے رہائشی لوگوں کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے
بدھ کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کے اجلاس بھی یہ ایجنڈا شامل کیا گیا، جس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی شریک تھے
ان کا کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ دونوں فریقین کو چار دن دیے جائیں گے، تاکہ وہ 18 جون سے پہلے والی پوزیشن پر چلے جائیں اور اس کے بعد فورسز اور ثالث اپنا کام کریں گے
تاہم سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے جمعرات کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومتی فیصلے کو مسترد کر دیا۔ ان کے بقول ”مخالف فریق چار مختلف مقامات پر مورچے بنا کر اختر مینگل کے گھر پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کر رہا تھا، جس کے بعد سردار اختر مینگل نے اپنی حفاظت کے لیے مورچے بنائے“
بی این پی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل ملک نصیر شاہوانی کے مطابق ”18 جون کی پوزیشن پر واپس جانے کا مطلب یہ ہے کہ مخالف فریق کے مورچے تو قائم رہیںش لیکن اختر مینگل کے محافظوں کے مورچے ختم کیے جائیں۔ حکومت مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنے کے بجائے یکطرفہ فیصلہ کر رہی ہے جو مخالف فریق کو تقویت دینے کے مترادف ہے“
ملک نصیر شاہوانی کا کہنا تھا ”اختر مینگل کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر بلوچستان کے عوام اور پارٹی خاموش نہیں بیٹھے گی۔ بی این پی نے پہلے بھی احتجاج کیا ہے اب بھی احتجاجی مہم چلائی جائے گی، جس کے تحت 15 اکتوبر کو بچوں اور خواتین، 18 اکتوبر کو صوبے بھر میں احتجاجی مظاہرے ، 20 اکتوبر کو بلوچستان بھر میں شٹر ڈاؤن اور 26 اکتوبر کو قومی شاہراہوں پر پہیہ جام ہڑتال کی جائے گی“
بی این پی شفیق مینگل گروپ کے خلاف پہلے بھی احتجاج کر چکی ہے، اسی طرح شفیق مینگل کے حامیوں نے بھی کوئٹہ اور اسلام آباد میں احتجاج ریکارڈ کرایا، جبکہ علاقے کی صورتحال سے تنگ آ کر وڈھ کے رہائشیوں نے بھی اگست میں احتجاج کیا تھا اور دونوں فریقوں سے تنازع ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
کوئٹہ سے تقریبا چار سو کلومیٹر دور کوئٹہ کراچی این 25 شاہراہ پر واقع بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا آبائی علاقہ ہے
سردار اختر مینگل کے والد خود اور ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلٰی رہ چکے ہیں جبکہ ان کے مخالف شفیق مینگل تحصیل ناظم جبکہ ان کے والد میر نصیر مینگل بلوچستان کے نگراں وزیراعلٰی، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں
مینگل قبیلے کےان دو خاندانوں کے درمیان کئی دہائیوں سے رسّہ کشی چلی آ رہی ہے، تاہم اس میں شدت 20 سال قبل سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں دیکھی گئی جب پہلی بار سردار اختر مینگل اور میر شفیق مینگل کے حامی زمین کے تنازع پر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے تھے۔ اس وقت قبائلی عمائدین کی مداخلت کی وجہ سے معاملہ تصادم تک نہیں پہنچا
2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا۔ اسی طرح 2011 جب کوئٹہ میں شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو نامزد کیا گیا
سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل ایک دوسرے پر ڈیٹھ اسکواڈ چلانے، قتل، اغوا اور بھتہ خوری کا الزام لگاتے ہیں۔ بہرحال اس سارے معاملے اصل نقصان وڈھ اور آس پاس کے عام لوگوں کا ہو رہا ہے اور ان کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔