گزشتہ روز بحریہ ٹاؤن عمل درآمد کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے برطانیہ سے حاصل ہونے والی رقم ادائیگیوں میں ایڈجسٹ کرنے پر سوال اٹھایا ہے
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل بینچ نے بدھ کو بحریہ ٹاؤن کراچی کیس کی سات درخواستوں پر سماعت کی
سپریم کورٹ میں 21 مارچ 2019 کو بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے کی گئی 460 ارب روپے کی پیشکش پر عمل درآمد کے حوالے سے 28 ماہ کی تاخیر کے بعد سماعت مقرر ہوئی تھی
سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کراچی عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے عمل درآمد بینچز بنانے پر بھی سوالات اٹھائے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا قانون میں عمل درآمد بینچ کا کوئی تصور ہے، کیا سپریم کورٹ کے اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد بینچ بنایا جا سکتا ہے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سپریم کورٹ کے جج ساتھی ججوں کو اپنے ہی فیصلے پر عمل درآمد کرانے کا حکم دے سکتے ہیں، اگر عمل درآمد بینچ فیصلے پر عمل نہ کرا سکے تو کیاساتھی ججوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے کو حکم دے سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ بتائیں کہ کیا عمل درآمد بینچز بنائے جا سکتے ہیں، جو بینچ حکم دیتا ہے وہی اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کرا سکتا؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے بحریہ ٹاؤن کے وکیل سے دریافت کیا کہ بحریہ ٹاون نے جو رقوم جمع کرائیں، وہ آئیں کہاں سے تھیں؟ انہوں نے استفسار کیا ”کیا یہ درست ہے کہ بیرون ملک ضبط ہونے والی رقم بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی؟“
اس پر وکیل بحریہ ٹاون سلمان اسلم بٹ نے جواب دیا ”وہ سب ایک معاہدے سے ہوا“
چیف جسٹس: ”آپ وہ معاہدہ پیش کر دیں“
وکیل: ”اس معاملے پر نوٹس نہیں ہوا“
چیف جسٹس: ”پھر ہم نوٹس کر دیتے ہیں“
وکیل: ”وہ ادائیگیاں شیئر ہولڈرز نے کی تھیں۔۔ اجازت دیں پہلے میں اپنے مؤکل سے ہدایات لوں، پھر اس پر آگاہ کروں گا“
سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین کے عوض رقم جمع کرانے والے افراد کو نوٹس جاری کیے
عدالت نے حکم نامے میں لکھا ”جمع کرائی گئی تمام رقم بحریہ ٹاؤن نے ادا نہیں کی۔ سپریم کورٹ میں جمع شدہ رقم دیگر ذرائع سے بھی آئی ہے۔ وکیل کے مطابق اگر بیرونِ ملک کسی ادارے سے معاہدہ تھا تو اس پر مؤکل سے ہدایات لیں گے۔ بحریہ ٹاؤن کے وکیل نے معاہدہ یا اس سے متعلق تفصیلات کی فراہمی کے لیے وقت مانگا ہے“
عدالت نے ملیر ڈیولپمینٹ اتھارٹی اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے بحریہ ٹاؤن کو دی گئی تمام منظوریوں کی تفصیلات طلب کیں اور مقدمے کی سماعت آٹھ نومبر تک ملتوی کر دی
سماعت کے دوران بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان بٹ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ’سندھ حکومت نے پوری زمین نہیں دی تو رقم کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ پوری زمین نہیں دی گئی، زمین نہ دینے سے نہ میرا کام ہو رہا ہے نہ دوسری سائڈ نے اپنا کام کیا۔ مجھے کوئی آپشن لینے کے لیے مہلت دی جائے‘
اس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ”جائیں جا کر فیصلے پر عمل درآمد کروائیں۔ آپ کے پاس آپشن دستیاب ہیں۔ ادائیگیاں نہ کرکے آپ بھی عدالتی فیصلے پر عمل نہیں کر رہے“
سلمان اسلم بٹ نے مزید کہا ”قانون کہتا ہے میں ادائیگیاں نہ کروں“ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا, ”ادائیگی کرنے کا عدالتی حکم ہے“
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ”بحریہ ٹاؤن نے کتنی رقم اب تک ادا کی ہے، اب تک کتنی اقساط دیں۔ آخری قسط کب ادا کی؟“
بحریہ ٹاؤن کے وکیل سلمان اسلم بٹ جواب دیا ”ہم نے اب تک 65 ارب ادا کر دیے ہیں“
اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ”عدالتی فیصلے میں لکھا ہے کہ دو اقساط نہ دینے پر تیسری قسط پر ڈیفالٹ ہوگا، آپ نے عدالتی فیصلے کا احترام نہیں کیا“
چیف جسٹس نے کہا ”آپ عمل درآمد کی کارروائی میں جائیں تو زمین نہ دینے والے عدالت دوڑے دوڑے آئیں گے۔ کیا اس کیس میں بحریہ ٹاؤن سے بینک گارنٹی مانگی گئی تھی؟ آپ سے پہلے اس کیس میں بحریہ ٹاؤن کا وکیل کون تھا؟ کیا پہلے وکیل بیرسٹر علی ظفر کو نہیں پتہ تھا کہ فیصلے میں کیا لکھا جا رہا ہے؟“
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ”عدالتی فیصلے میں لکھا ہے عمل درآمد نہ ہوا تو نیب ریفرنس دائر کرے۔ عدالتی فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ زمین نہ دینے والوں کے خلاف نیب ریفرنس کی بات کریں“
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا ”میں پھر بتا دیتا ہوں کہ اصل اسٹیک ہولڈرز سندھ کے عوام ہیں۔ کیا ہم سندھ کے عوام کو ہار جانے دیں؟“
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ نقشے سے دکھائیں کون سی زمین اب دستیاب نہیں؟ آپ ہر چیز زبانی بتا رہے ہیں۔ ہمیں نہیں دکھایا گیا، جس زمین کا ہم سے وعدہ کیا گیا
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ فیصلہ کے بعد ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے سولہ ہزار ایکڑ کا پلان منظور کرنا تھا۔ آپ ہمیں وہ لے آؤٹ پلان دکھائیں جو منظور کروایا گیا؟
جب وکیل نے جواب دیا کہ میں بتا دوں گا تو چیف جسٹس نے برہمی سے کہا ”یہ ایسے نہیں چلے گا کہ ہر بات پر میں بتا دوں گا، تو پھر آپ کام کیسے کر رہیں ہیں۔ اگر آپ کا جواب یہ ہے کہ بتا دونگا تو پھر آپ کی درخواستیں خارج ہو جائیں گی۔ آپ کے کلائنٹ کدھر ہیں۔ ان سے پوچھیں۔ اتنے اہم کیس پر آپ کے کلائنٹ کیوں نہیں آئے؟“
کیس کی دو برس قبل سماعت کا احوال
خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں کیس کی آخری مرتبہ سماعت 21 مئی 2021 کو ہوئی تھی جہاں بینچ کو بتایا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد اور کراچی میں کم قیمت پر مکانات تعیمر کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے
سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ کے سامنے یہ معلومات پیش کی گئیں جس کو ملیر (سندھ) میں بحریہ ٹاؤن ڈیولپرز کی زمین کے حصول کے لیے ادائیگی کا شیڈول کے ساتھ منجمد کردیا گیا تھا۔
قبل ازیں سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) میں 16 ہزار ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے 21 مارچ 2019 کو ڈیولپرز کی جانب سے 460 ارب روپے کی پیش کش قبول کی تھی لیکن چند شرائط و ضوابط مقرر کیے تھے۔
عدالت نے سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے پر عمل درآمد کی پیش کش قبول کی جس میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کو زمین کی منظوری، نجی لینڈ ڈیولپرز (بحریہ ٹاؤن) کی زمین کے ساتھ اس کا تبادلہ اور حکومت سندھ کی طرف سے کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی دفعات کے تحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا جس کا کوئی قانونی وجود نہیں تھا۔
فیصلے میں اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ زمین منافع بخش ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اس کے بجائے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ اس کا تبادلہ کیا
21 مئی 2021 میں ہونے والی سماعت میں عدالت کو بتایا گیا تھا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم اسلام آباد اور کراچی میں کم قیمت پر مکانات تعمیر کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے
اس سے قبل سپریم کورٹ کے عمل درآمد بینچ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں 16 ہزار ایکڑ زمین کی خریداری کے لیے 21 مارچ 2019 کو 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کی گئی تھی، لیکن اس کے لیے چند شرائط و ضوابط مقرر کیے تھے
سپریم کورٹ کے 4 مئی 2018 کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو زمین کی منظوری، بحریہ ٹاؤن کی زمین کے ساتھ اس کا تبادلہ اور سندھ حکومت کی طرف سے کالونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912 کی دفعات کے تحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ غیر قانونی تھا
مزید کہا گیا تھا کہ زمین منافع بخش ہاؤسنگ اسکیم کے لیے دی گئی تھی لیکن ایم ڈی اے نے اس کے بجائے اپنی نجی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ زمین کا تبادلہ کیا
بحریہ ٹاؤن کراچی نے کورونا وائرس کی وجہ سے کساد بازاری کے پیش نظر سپریم کورٹ سے ادائیگی کا منصوبہ منجمد کرنے کی درخواست کی تھی اور استدعا کی کہ 2.5 ارب روپے کی ماہانہ اقساط کی ادائیگی سات ستمبر 2020 سے ستمبر 2023 تک مؤخر کر دی جائے
16 دسمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے متعلق معاشی کساد بازاری کی وجہ سے 2.5 ارب روپے کی ماہانہ قسط کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کو تین سال کی چھوٹ دینے کی درخواست مسترد کر دی تھی
اس کے بعد سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2020 کو بحریہ ٹاؤن کراچی کی طرف سے جمع کرائے گئے فنڈز جاری کرنے کے لیے اعلیٰ کمیشن بھی تشکیل دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن سے 460 ارب روپے ادائیگیوں کے بعد یہ رقم سندھ ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کی جائے گی
کیس دو سال بعد مقرر ہونے کے بعد رواں برس 17 اکتوبر کو سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن پراجیکٹس کیس میں ملک ریاض حسین نے متفرق درخواست کر دی
ملک ریاض نے 460 ارب کی ادائیگیوں سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے متفرق درخواست میں کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی منصوبے کے لیے 460 ارب کی ادائیگی ناممکن ہے
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اتنی بڑی ادائیگیوں کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پا رہا، لہذا بحریہ ٹاؤن کراچی کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت متفرق درخواست پر حالات و واقعات کی روشنی میں مناسب احکامات جاری کرے
کیس کا پسِ منظر
برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی تحقیقات کے نتیجے میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے مقدمہ لڑنے کے بجائے برطانوی تحقیقاتی ایجنسی سے تصفیہ کر لیا تھا، جس کے بعد این سی اے نے 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے دی تھی
معلومات کے مطابق یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اُس اکاؤنٹ تک پہنچی، جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 بلین روپے ایک تصفیے کے تحت قسطوں میں ادا کر رہے ہیں اور یوں برطانیہ سے ریاست پاکستان کو منتقل ہونے والی رقم ملک ریاض کے اکاؤنٹ میں سپریم کورٹ کو ادائیگی کے لیے دے دی گئی
نیب کے مطابق الزام یہی ہے کہ لگ بھگ 40 ارب روپے جو کہ قومی خزانے سے تھے، بحریہ ٹاؤن کے قرض کی مد میں ایڈجسٹ کیے گئے۔