کورونا کی یاد دلاتی ویب سیریز ’کالا پانی‘ میں کیا ہے؟

ویب ڈیسک

کالا پانی کا لفظ سے برصغیر کی تقسیم سے پہلے کے دور کی ایک بھیانک یاد جڑی ہوئی ہے، یہ وہ وقت تھا جب راج برطانیہ کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو بطور سزا جزائر انڈمان میں قائم جیل بھیج دیا جاتا تھا اور وہاں سے واپسی ناممکن ہوتی تھی، اس سزا کو عرفِ عام میں ’کالا پانی‘ کی سزا کہا جاتا ہے

مستقبل قریب کے تناظر میں فلمائی گئی نیٹ فلیکس کی ویب سیریز ’کالا پانی‘ کی کہانی بھی انہی جزائر میں پھوٹ پڑنے والی ایک ایسی وبا کے بارے میں ہے کہ جس سے بچنا ناممکن نظر آتا ہے

ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سال 2027 کے دوران جزائر انڈمان میں ہونے والے ایک فیسٹیول سے ہوتا ہے، جس میں لوگ بڑی تعداد میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ اس دوران وہاں ایک ایسی وبا پھوٹ پڑتی ہے، جس سے مقامی لوگ تیزی سے متاثر ہونے لگتے ہیں

اگرچہ ڈاکٹر سنگھ اس خطرے کو بھانپ لیتی ہے، لیکن وہ انتظامیہ کو اس بیماری کی شدت کے بارے یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہو پاتی، نتیجتاً فیسٹیول منسوخ نہیں کیا جاتا اور ہزاروں افراد بے خبری میں موت کی طرف بڑھتے جاتے ہیں

ان جزائر کے انتظامی امور لیفٹیننٹ جنرل جبران قادری سنبھال رہے ہیں، جو اس کشمکش کا شکار ہیں کہ اس صورت حال کے بارے میں عوام اور دیگر ملکوں کو کس طرح آگاہ کیا جائے۔ اسی دوران یہ خبر پورے ملک میں پھیل جاتی ہے۔ اب یہ تمام جزیرے حقیقت میں ’کالا پانی‘ کا روپ دھار لیتے ہیں

ایک طرف ڈاکٹروں کی ٹیم اس وبا کا علاج ڈھونڈنے میں مصروف ہے، جنہیں پتہ چلتا ہے کہ ان جزائر کے ساٹھ ہزار سال سے آباد اصل باسی ’اوراکا‘ قبیلے کے باشندے، اس بیماری کا شکار نہیں ہوئے لہٰذا ان کی تحقیق کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے

دوسری طرف ہنگامہ اور افراتفری مچنے پر تفریح کی غرض سے آئے ہوئے سنتوش سالوا کی کہانی ہے، جو اپنے بچوں سے بچھڑ جاتا ہے۔ اسی دوران فیسٹیول منعقد کرنے والی کمپنی ’ایٹم‘ وبا سے ہونے والے نقصانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی پوری کوشش میں ہے اور کرپٹ پولیس افسر کیتن اس سلسلے میں ان کی پوری مدد کر رہا ہے

ویب سیریز میں وبا کے پھوٹ پڑنے پر مچنے والی افراتفری دیکھ کر کووڈ-19 کا زمانہ یاد آ جاتا ہے۔ احتیاطی تدابیر تقریباً ویسی ہی دِکھائی گئی ہیں، تاہم وبا کئی گنا زیادہ تیزی سے پھیلنے والی اور جان لیوا ہے

مشہور سائنسدان ڈارون کی ’تھیوری آف ایولوشن‘ کو اس ویب سیریز کی بنیاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ زمین پر جانداروں کی کوئی بھی نسل بدلاؤ لائے بغیر بقا حاصل نہیں کر سکی۔ فطرت سب کو ایک موقع ضرور دیتی ہے۔ اگر وہ جاندار رہن سہن اور عادات و اطوار میں تبدیلی لا کر خود کو فطرت کی ’ستم ظریفی‘ سے بچا لے تو بہتر ہے ورنہ وہ سفاکیت سے اس کا نام و نشان مٹا دیتی ہے

اس ویب سیریز میں کام کرنے والے اداکاروں کی شاندار کارکردگی نے اسے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔مشہور ڈرامہ سیریل ’جسی جیسی کوئی نہیں‘ سے شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ مونا سنگھ (ڈاکٹر سنگھ) نے اس ویب سیریز میں بطور مہمان اداکار کام کیا ہے

اگر کہا جائے کہ اداکار سکانت گوئل نے بطور ٹیکسی ڈرائیور ’چیرو‘ اور اداکار وکاس کمار نے بطور ایک باپ ’سنتوش سالوا‘ کے کردار کو ادا کرتے ہوئے شو کو چرا لیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ ایسی بہترین اداکاری آج کل کے دور میں مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کے علاوہ ویب سیریز ’آسور‘ سے شہرت پانے والے آمی واگھ کرپٹ پولیس افسر کیتن کے کردار میں نظر آئیں گے

’کالا پانی کی یہ کہانی‘ پانی کی طرح ہی روانی سے بہتی چلی جاتی ہے۔ پلاٹ مضبوط، تحقیق قابلِ داد اور اداکاری شاندار ہے۔ خوب صورت جزائر کی سینیماٹوگرافی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے

اس ویب سیریز کے اسکرپٹ رائٹر بسواپتی سرکار ہیں، جو خود بھی ٹی وی اور فلموں میں اداکاری کرتے ہیں۔ جبکہ ہدایت کار سمیر سکسینا ہیں جو اس سے پہلے ’پنچایت‘ نامی مشہور ویب سیریز کے تخلیق کار بھی ہیں

آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ 10 میں سے 8.2 ہے جبکہ نیٹ فلیکس پاکستان پر اس وقت یہ نمبر 1 پر موجود ہے۔ اس شو میں انسانی شناخت، ماحولیاتی استحصال، سیاسی بدعنوانی اور مقامی لوگوں کی فطرت سے ہم آہنگی جیسے موضوعات کو تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا کے تناظر میں پیش کیا گیا ہے

کالا پانی کے یہ جزیرے اب اپنے نام کی طرح ایک جیل کی صورت اختیار کر گئے ہیں اور اس جیل کی دیواریں مٹی اور گارے سے نہیں، پانی سے بنی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close