ولیمائی (چلی کے ادب سے منتخب افسانہ)

ازابیل آئندے (مترجم: عقیلہ منصور جدون)

میرا نام ’ولیمائی‘ Walimai میرے والد نے رکھا تھا۔ شمال میں ہمارے بھائیوں کی زبان میں اس کا مطلب آندھی ہے۔ میں تمہیں اپنا نام پکارنے کی اجازت دیتا ہوں، کیونکہ اب تم میری بیٹی کی طرح ہو۔۔ لیکن یہ بھی اس وقت، جب ہم خاندان والوں کے ساتھ ہوں۔ اس لئے کہ اشخاص اور چیزوں کے نام عزت کے متقاضی ہوتے ہیں۔۔ کہ جب ہم کسی کا نام پکارتے ہیں تو ہم اس کے دل کو چھوتے ہیں۔۔ اور ہم ان کی زندگی کی توانائی میں شریک ہو جاتے ہیں۔ اس طرح ہم خونی رشتہ دار ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ میں کبھی سفید لوگوں کو نہیں سمجھ سکا کہ وہ کیسے اتنی آسانی اور لاپرواہی سے بغیر کسی خوف کے ایک دوسرے کے نام لیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ادب، لحاظ کی کمی کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس سے بہت نقصان پہنچتا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے بولتے ہیں۔ الفاظ اور اشارے انسان کی سوچیں ہوتی ہیں، ہمیں بلا وجہ نہیں بولنا چاہیے۔ یہ بات میں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سکھائی ہے، لیکن وہ ہر وقت میرے مشورے نہیں سنتے۔

بہت پہلے روایات اور ممنوعات کی عزت کی جاتی تھی۔ میرے دادا اور میرے دادا کے دادا ساری ضروری معلومات اپنے دادا سے حاصل کرتے تھے۔ کچھ نہیں بدلا، آج بھی اچھی یادداشت والا شخص وہ سب یاد رکھ سکتا ہے جو اس نے کبھی سیکھا تھا۔ اس علم کی وجہ سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی صورتحال میں اسے کیا کرنا ہے۔۔ لیکن پھر یہ سفید لوگ آ گئے۔۔ اور ہمارے اجداد کی حکمت و دانائی کے خلاف بولنے لگے۔۔ اور ہمیں ہماری زمینوں سے بے دخل کرنے لگے۔ ہم ہر دفعہ جنگل کی گہرائی میں اندر چلے جاتے ہیں، لیکن وہ وہاں بھی ہمارے پیچھے آ جاتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں آنے میں کچھ سال لگ جاتے ہیں لیکن بالآخر وہ آ ہی جاتے ہیں۔ تب ہمیں اپنی بوئی ہوئی فصلیں خود تباہ کرنی پڑ جاتی ہیں، بچوں کو اپنی پیٹھ پر لادنا پڑتا ہے، ہم جانوروں کو باندھتے اور روانہ ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، ایسا ہی ہو رہا ہے۔۔ ہر چیز چھوڑ کر چوہوں کی طرح بھاگ رہے ہیں۔ شاندار طاقتور جنگجوؤں اور دیوتاؤں کی طرح نہیں جو پرانے وقتوں میں ان زمینوں میں رہتے تھے۔ ہمارے بعض نوجوانوں میں ان سفید لوگوں کو جاننے کا تجسس پیدا ہو جاتا ہے، اس لئے جب ہم اپنے اجداد کے طریقہ کار کے مطابق گہرے جنگلوں کی طرف جاتے ہیں، یہ متجسس نوجوان ہمیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم انہیں مردہ تصور کر لیتے ہیں۔ اس لئے کہ پھر ان میں سے بہت کم واپس آتے ہیں۔۔ اور جو واپس آتے ہیں، انہیں ہم اپنے رشتہ داروں کے طور پر شناخت نہیں کر سکتے کیوں کہ وہ بہت زیادہ بدل چکے ہوتے ہیں۔

میں نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ میری پیدائش سے قبل ہمارے قبیلے میں بہت کم عورتیں پیدا ہو تی تھیں۔ اس لئے میرے والد کو بہت ہی زیادہ دور جا کر دوسرے قبیلے سے بیوی ڈھونڈنی پڑی۔ اپنے سے پہلے اسی مقصد کے تحت چلنے والوں کے نشانات کی پیروی کرتے ہوئے وہ جنگلوں میں سفر کرتا رہا۔ اتنا سفر کرنے کے باوجود جب میرا والد اپنا جیون ساتھی ڈھونڈنے میں نا امید ہو رہا تھا تو اسے آسمان سے گرتے دریا، اونچی آبشار کے پاس کھڑی ایک لڑکی نظر آئی۔ تھوڑے فاصلے پر رکتے ہوئے تاکہ وہ لڑکی ڈر نہ جائے، وہ اس سے اسی طرح مخاطب ہوا جیسے شکاری اپنے شکار سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسے اپنی شادی کرنے کی خواہش بتائی۔ لڑکی نے اسے قریب آنے کا ا شارہ کیا۔ اسے غور سے دیکھا، شاید مسافر کا چہرہ اسے پسند آ گیا اسی لئے اسے شادی کرنے کا فیصلہ درست محسوس ہوا۔ میرے والد نے اپنے سسر کے لئے اس وقت تک کام کیا، جب تک اس لڑکی کی قیمت ادا نہیں ہو گئی۔شادی کی رسومات کی ادائیگی کے بعد وہ اپنے لوگوں میں آ گئے۔

میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ لمبے اونچے درختوں کی چھتر چھاؤں میں پلا بڑھا، کبھی سورج نہیں دیکھا۔ بعض اوقات کوئی زخمی درخت گر جاتا تو اس موٹے گنبد میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہو جاتا تو اس وقت ہم آسمان کی نیلی آنکھیں دیکھتے۔ میرے والدین نے مجھے کہانیاں سنائی تھیں۔ انہوں نے میرے لئے گیت گائے اور مجھے سکھایا کہ انسان کو اس وقت بھی زندہ رہنے کا گر آنا چاہیے، جب وہ اکیلا ہو اور اس کے پاس تیر اور کمان کے علاوہ کچھ بھی نہ ہو۔

میں آزاد تھا۔۔ ہم چاند کے بچے آزادی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ اگر ہم سلاخوں کی دیواروں کے پیچھے بند ہو جائیں تو ہم اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہم اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ ہی دنوں میں ہماری روح ہمارے سینے کی ہڈیوں کو چھوڑ جاتی ہے۔ اس وقت ہم بدنصیب خستہ حال وحشی جانور کی طرح ہو جاتے ہیں۔ تب ہم موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے گھروں کی چہاردیواری نہیں ہوتی، صرف ایک ڈھلوان چھت ہوتی ہے، جو آندھی اور بارش سے بچاتی ہے۔ اس کے نیچے ہم اپنے جھولن کھٹولے قریب قریب لٹکا لیتے ہیں کیونکہ ہم عورتوں اور بچوں کے خواب سننا پسند کرتے ہیں۔۔ اور بندروں، کتوں اور سوؤروں کے سانس سنتے ہیں، جو اسی پناہگاہ میں سوتے ہیں۔ پہلے ہم جنگلوں میں بغیر یہ جانے کہ ان ٹیلوں سے پرے بھی دنیا اور دریا ہیں رہتے تھے، دوسرے قبیلوں سے دوستوں نے آ کر بویا وسٹا / Boa Vista اور El plantanal کے بارے میں کہانیاں سنائیں تو بھی ہمارا یقین تھا کہ یہ سب ہمیں ہنسانے کے لئے گھڑی گئی ہیں۔۔

جب میں بالغ ہوا تو بیوی ڈھونڈنے کی میری باری آ گئی۔ میں ابھی کنوارا رہنا چاہتا تھا، اس لئے میں نے انتظار کرنا بہتر سمجھا۔ ہم خوش و خرم رہ رہے تھے، پھر بھی میں دوسروں کی طرح کھیلوں اور آرام کرنے سے مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ میرا خاندان کافی بڑا تھا۔ بھائی، بہنیں، کزنز، بھانجیاں بھتیجیاں۔۔ کھانے والے بہت تھے اور شکاری کے لئے بہت کام کا بوجھ۔

ایک دن پیلے لوگوں کا ایک گروہ ہمارے قبیلے میں آیا۔ وہ بہت دور سے ہی پاؤڈر سے شکار کرتے۔ نہ تو وہ ماہر تھے، نہ ہی انہیں شکار کرنے کی مہارت تھی۔ وہ نہ تو درختوں پر چڑھ سکتے اور نہ ہی نیزے سے مچھلی پکڑ سکتے۔ وہ جنگل میں اناڑیوں کی طرح چلتے۔ ہمیشہ اپنے سامان، ہتھیار اور پاؤں الجھا لیتے۔ وہ اپنے کپڑے ہماری طرح ہوا میں نہیں پھیلاتے بلکہ گیلے اور بدبودار کپڑے ہی پہن لیتے۔ وہ شائستگی کے آداب سے بھی نا واقف تھے۔۔ لیکن وہ ہمیں اپنے علم اور اپنے خدا کے بارے میں بتانے پر مُصر تھے۔۔ ہمیں جو کچھ سفید فاموں کے بارے میں بتایا گیا تھا، جب ہم نے اس کا موازنہ ان سے کیا تو ہمیں ان کے بارے میں کہی گئی باتوں پر یقین آ گیا۔ ہمیں جلد ہی پتہ چل گیا کہ وہ مشنری، سپاہی یا ربر اکٹھے کرنے والے نہیں ہیں۔۔ وہ پاگل تھے۔۔ انہیں زمین چاہیے تھی، وہ لکڑی لے کر جانا چاہتے تھے۔ وہ پتھروں کی تلاش میں بھی تھے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ جنگل ایسی چیز نہیں کہ پرندوں کی طرح کندھوں پر اٹھا کر لے جا سکیں۔۔ لیکن وہ ہمارے دلائل سننے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے ہمارے گاؤں کے قریب کیمپ لگا لئے۔ ان میں سے ہر ایک تباہی کی آندھی تھی۔جس چیز کو چھوتے، برباد کر دیتے۔۔ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کی داستان چھوڑ جاتے۔ انہوں نے لوگوں اور جانوروں کو بے چین کر دیا۔

شروع شروع میں ہم نے شرافت برتی اور انہیں خوش رکھا کہ وہ ہمارے مہمان تھے۔۔ لیکن وہ کسی طرح مطمئن نہیں ہوتے تھے، ہمیشہ مزید تقاضے کرتے۔ یہاں تک کہ ہم ان کی چالوں سے تنگ آ گئے اور تمام روایتی رسومات کے ساتھ جنگ کا اعلان کر دیا۔ وہ اچھے جنگجو نہیں تھے۔ ان کی نازک ہڈیاں ہماری لٹھ بازی برداشت نہیں کر سکتی تھیں، وہ با آسانی ڈر گئے۔ آخر کار ہم نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور مشرق کی طرف، جہاں جنگل ناقابلِ دخول تھا، چلے گئے۔ لمبے لمبے فاصلے درختوں کی چوٹیوں پر طے کیے تاکہ وہ ہمارا سراغ نہ پا سکیں۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ منتقم مزاج ہیں اور اگر ان میں سے ایک بھی لڑائی میں مر جاتا تو وہ پورے قبیلے کو بچوں سمیت فنا کر دیتے۔

ہم نے نیا گاؤں بسانے کے لئے جگہ ڈھونڈ لی، اگرچہ وہ بہت اچھی جگہ نہیں تھی۔ عورتوں کو صاف پانی کے لئے گھنٹوں چلنا پڑتا لیکن ہم وہاں ہی رک گئے۔ اس لئے کے ہمیں یقین تھا کہ اتنی دور ہمیں کوئی نہیں ڈھونڈ سکے گا۔ ایک سال بعد میں پینتھر کے نشانات کا پیچھا کرتے اپنے گاؤن سے کافی دور سپاہیوں کے کیمپ کے قریب پہنچ گیا تھا۔ میں بہت تھک چکا تھا، کافی دنوں کا بھوکا بھی تھا، اس وجہ سے غلط فیصلہ کر بیٹھا۔ اجنبیوں کو دیکھنے کے بعد بجائے واپس مڑنے کے، میں آرام کرنے لیٹ گیا۔ سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا۔انہوں نے مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں، جنہیں ہم نے لٹھ بازی سے مار دیا تھا، کچھ نہیں کہا۔ شاید انہیں ان کے بارے میں پتہ نہیں چلا تھا یا انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ولیمائی ہوں۔

انہوں نے مجھے ربر جمع کرنے والوں کے ساتھ کام پر لگا دیا۔ وہاں اور قبیلوں کے لوگ بھی تھے۔ مردوں نے پتلونیں پہنی ہوئی تھیں اور ان کی مرضی کے خلاف کام پر ہانک دئے جاتے تھے۔ ربر کا کام بہت احتیاط طلب تھا لیکن لوگ بہت کم تھے۔ اس لئے وہ ہمیں زیادہ محنت پر مجبور کرتے۔ یہ وقت پابندیوں کا تھا اور میں اس کے بارے میں زیادہ کچھ کہنا نہیں چاہتا۔۔ میں وہاں کچھ نیا سیکھنے کے لیے رک گیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں واپس اپنے لوگوں میں پہنچ جاؤں گا۔ ایک جنگجو کو اس کی مرضی کے خلاف کوئی نہیں روک سکتا۔

ہم سورج سے سورج تک کام کرتے۔۔ کچھ درختوں کو زخم لگا کر ان کی زندگی قطرہ قطرہ نچوڑتے، کچھ اس مائع کو پکا کر گاڑھا کرتے اور پھر اس سے بڑے بڑے گیند بناتے۔ باہر کی ہوا اس جلی ہوئی رطوبت کی بو سے بوجھل تھی اور اندر سونے والے حصے کی ہوا میں لوگوں کے پسینے کی بدبو ملی ہوئی تھی۔ کوئی بھی اس جگہ گہرا سانس نہیں لے سکتا تھا۔ کھانے میں ہمیں مکئی اور کیلے ملتے اور کچھ عجیب سی چیزیں، ڈبوں میں ڈالی ہوئی، جو ہم نے پہلے کبھی نہیں چکھی تھیں۔۔ کیمپ کے ایک سرے پر ایک بڑی ساری جھونپڑی بنائی ہوئی تھی، جہاں عورتوں کو رکھا ہوا تھا۔ دو ہفتے ربر کا کام کرنے کے بعد نگران نے مجھے ایک کاغذ دیا اور عورتوں کی طرف بھیجا۔ اس نے مجھے ایک کپ شراب دی، جو میں نے زمین پر گرا دی، کیونکہ مجھے علم تھا یہ پانی کیسے انسان کے ہوش و حواس گم کرتا ہے۔ وہاں میں دوسروں کے ساتھ قطار میں کھڑا ہو گیا۔ میں آخر میں تھا۔ جب جھونپڑی میں جانے کی میری باری آئی تو سورج غرب ہو چکا تھا۔ مینڈکوں اور طوطوں کے شور شرابے کے ساتھ رات ہو گئی تھی۔

وہ ایلا قبیلے کی تھی۔ شریف لوگوں کا قبیلہ، جس کی لڑکیاں نزاکت کے لئے مشہور تھیں۔۔ کچھ مرد ایلا عورت ڈھونڈنے کے لئے مہینوں سفر کرتے تھے۔ وہ انہیں تحائف دیتے، ان کے لئے شکار کرتے، اس امید پر کہ ان کی کوئی عورت حاصل کر سکیں۔ وہ وہاں لیٹی چھپکلی کی طرح نظر آ رہی تھی۔ وہ ایک نوجوان لڑکے کے سائز کی تھی۔ میں نے اسے اس لئے پہچان لیا کہ میری ماں بھی ایلا تھی۔ اس کی ہڈیاں دریا کے چھوٹے پتھروں جیسی مدھم آواز دیتی تھیں۔ ایلا عورتیں اپنے جسم کے سارے بال یہاں تک کے آنکھوں کی پلکیں بھی اتارتی ہیں۔ وہ اپنے کانوں کو پروں اور پھولوں سے سجاتی ہیں۔ اپنے ناک اور گالوں میں چھید کر کے چمکدار تیلیاں ڈالتیں، اپنے سارے جسم پر ڈزائن پینٹ کرتیں، جس کے لئے سرخ رنگ اناٹو (چھوٹا سا امریکی درخت) سے، پام سے گہرا جامنی اور کوئلے سے کالا رنگ لیتیں۔۔ لیکن اس کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ بھوسے کی چٹائی پر بلکل ننگی لیٹی تھی۔ ایک ٹخنہ زنجیر سے بندھا تھا۔ میں نے اپنا چاقو زمین پر رکھا اور اس سے ایک بہن کی طرح ملا۔ ہرنوں کے گیت اور دریاؤں کے پانی کی آوازیں نکالیں، لیکن اس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا اس کی روح اس کی پسلیوں کے پنجرے میں گونجتی ہے، میں نے اس کی چھاتی کو تھپتھپایا۔۔ لیکن کوئی بازگشت سنائی نہین دی۔ اس کی روح بہت کمزور ہو چکی تھی اور جواب نہیں دے رہی تھی۔ میں گھٹنے ٹیک کر اس کے پاس بیٹھ گیا، اسے پینے کے لئے پانی دیا۔ اپنی والدہ کی بولی میں بات کی۔ اس نے آنکھیں کھول کر کافی دیر مجھے گھورا۔۔ میں سمجھ گیا۔

سب سے پہلے میں نے صاف پانی ضائع کیے بغیر اپنے آپ کو صاف کیا، پانی کا ایک بڑا گھونٹ بھرا، پھر چھوٹی چھوٹی پھوار یں ھاتھوں پر ڈالیں، احتیاط سے ہاتھ رگڑے اور ان سے اپنا منہ گیلا کر کے صاف کیا۔۔ پھر میں نے اس کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا، تاکہ اس کے جسم سے مردوں کا پانی دور ہو سکے۔ میں نے نگران افسر کی دی گئی پتلون اتاری۔ میری کمر کے ساتھ آگ جلانے کی تیلیاں، تیروں کی انیاں، تمباکو، لکڑی کا چاقو جس کی نوک پر چوہے کے دانت بندھے تھے، ایک چمڑے کا مضبوط تھیلا جس میں بلکل قلیل مقدار میں زہر تھا، بندھے ہوئے تھے۔ میں نے تھوڑا سا زہر چاقو کی نوک پر لگایا، لڑکی پر جھکا اور زہر آلود چاقو کے ساتھ اس کے گلے میں زخم لگایا۔۔

زندگی خدا کی طرف سے تحفہ ہے۔ شکاری اپنی فیملی کو کھلانے کے لئے مارتا ہے۔ وہ اپنے شکار کا گوشت خود کھانا پسند نہیں کرتا بلکہ اگر دوسرا شکاری پیش کرے تو کھا لیتا ہے۔ بعض اوقات جنگ میں دوسروں کو مارتا ہے لیکن کبھی عورت اور بچے کو تکلیف نہیں دیتا۔ لڑکی نے اپنی شہد کی طرح پیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ مجھے لگا اس نے شکر گزاری کے لئے مسکرانے کی کوشش کی۔ اس کے لئے میں نے چاند کے بچوں کی ممنوعات کو توڑا تھا۔ اب مجھے اپنی اس حرکت کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ مجھے کفارہ ادا کرنے کے لئے بڑی مشقت کا سامنا کرنا ہوگا۔۔

میں نے اپنا کان اس کے منہ کے قریب کیا، اس نے اپنا نام مدھم آواز میں بڑ بڑایا۔ میں نے اسے دو دفعہ اپنے دماغ میں دہرایا لیکن اونچا نہیں بولا، اس لئے کہ مردے کو نام لے کر پکارنا، ان کا سکون برباد کرنا اچھا نہیں ہوتا۔۔ اور وہ تو کب کی مر چکی تھی، صرف اس کا دل دھڑک رہا تھا۔۔ جلد ہی میں نے اس کے پیٹ کے عضلات دیکھے۔ اس کا سینہ، اس کے بازو فالج سے اکڑ گئے تھے، اس نے سانس لینا چھوڑ دیا تھا۔۔ اس کا رنگ بدل گیا، ایک آہ نکلی اور اس کا جسم بغیر مزاحمت کے مر گیا۔ ایک چھوٹی سی مخلوق مر گئی۔

میں نے فوراً محسوس کیا کہ اس کی روح اس کے نتھنوں سے نکل کر میرے اندر داخل ہو کر میرے سینے کی ہڈی کے ساتھ لنگر انداز ہو گئی۔ اس کا سارا وزن مجھ پر آن پڑا۔ میں نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی۔۔ آہستہ آہستہ حرکت کی، جیسے میں پانی کے نیچے ہوں۔ میں نے اس کے جسم کو آخری آرام دہ پوزیشن میں ترتیب دیا۔ اس کے گھٹنے اس کی ٹھوڑی کو چھونے لگے۔ چٹائی کے ریشے سے اسے باندھا، باقی بھوسے کا ڈھیر لگایا۔ اپنی تیلیوں سے آگ سلگائی۔ جب یقین ہو گیا کہ آگ اچھی طرح جل اٹھی ہے تو میں آہستہ آہستہ جھونپڑی سے باہر نکلا۔ بہت ہمت کر کے کیمپ کی باڑ پھلانگی کیونکہ وہ مجھے نیچے کھینچ رہی تھی۔ جنگل میں گھسنے کے لئے جب پہلے درخت تک پہنچا تو الارم کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔

پورا ایک دن بغیر رکے چلتا رہا۔ دوسرے دن تیر اور کمان تیار کی تاکہ میں اس کے لئے کچھ شکار کر سکوں۔ ایک جنگجو، جو کسی دوسری انسانی زندگی کا بوجھ اٹھاۓ ہو، اسے دس دن کا روزہ رکھنا چاہیے، اس طرح مردے کی روح کمزور پڑ جاتی ہے اور وہ اسے چھوڑ کر روحوں کی دنیا کی طرف سفر شروع کرتی ہے۔ اگر وہ یہ روزے نہیں رکھتا تو روح موٹی ہو جاتی ہے اور اس انسان کے اندر بڑھنے لگتی ہے، جس سے اس کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ میں نے بہت بہادروں کو اس طرح مرتے دیکھا ہے لیکن یہ شرائط پوری کرنے سے پہلے مجھے ایلا کی روح کو گھنے جنگل میں لے کر جانا تھا، جہاں سے وہ ڈھونڈی نہ جا سکے۔ میں بہت تھوڑا کھاتا، صرف اتنا کہ وہ دوسری دفعہ نہ مر جائے۔۔ ہر نوالہ خراب گوشت کا ذائقہ دیتا اور پانی کا ہر قطرہ تلخ گھونٹ ہوتا لیکن میں دونوں کو توانا رکھنے کے لئے نگلنے کی کوشش کرتا۔ چاند کا ایک چکر مکمل ہونے تک میں جنگل کے اندر گہرائی کی طرف سفر کرتا رہا۔ اس لڑکی کی روح اپنے اندر لئے ہوئے، جو دن بہ دن وزنی ہوتی جا رہی تھی۔ ہم اکثر بات چیت کرتے۔ ایلا کی آواز اجاڑ درختوں کے نیچے لمبی بازگشت کی طرح گونجتی۔ ہم اپنے جسم، آنکھوں، کمر اور اپنے پاؤں کے ساتھ گاتے ہوئے گفتگو کرتے۔ میں نے وہ تمام عظیم قصے، کہانیاں جو اپنے والدین سے سنی تھیں، اسے سنائیں۔۔ اسے اپنا ماضی بتایا۔ اس نے مجھے اپنی زندگی کے پہلے حصے کے بارے میں بتایا، جب وہ ایک خوش باش لڑکی تھی، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیلتی تھی۔ مٹی میں لڑھکتی اور اونچی شاخوں سے جھولتی۔ شائستگی کے باعث اس نے اپنے موجودہ ماضی کی بدقسمتی اور ذلت کو بیان نہیں کیا۔ میں نے ایک سفید پرندہ پکڑا اور اس کے خوبصورت پر نوچ کر اس کے کانوں کی زیبائش تیار کی۔ رات کو آگ جلاتا تاکہ وہ ٹھنڈی نہ ہو جائے اور سانپوں اور تیندوں سے محفوظ رہے۔ میں اسے دریا میں بڑی احتیاط سے راکھ اور پسے ہوئے پھولوں سے رگڑ رگڑ کر نہلاتا تاکہ اس کی بری یادداشت ختم ہو جائے۔۔

آخر کار ایک دن ہم اس مناسب جگہ تک پہنچ گئے اور مزید چلنے کا کوئی جواز نہیں رہا۔ یہاں جنگل اتنا گھنا تھا کہ راستہ بنانے کے لئے مجھے اپنے چاقو سے اگی ہوئی جھاڑیاں اور چھوٹے چھوٹے درخت کاٹنا پڑے ، بعض اوقات دانتوں کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ ہم وقت کے سکوت کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے سرگوشیوں میں بات کرتے۔ میں نے پانی کے جھرنے کے قریب جگہ تلاش کر لی۔ جھولن کھٹولا بنانے کے لئے لمبی پتلی تیں شاخیں لیں، ان پر پتوں کی چھت ڈالی، اپنے چاقو سے اپنا سر مونڈا اور روزہ رکھ لیا۔

جتنا عرصہ ہم نے اکٹھا سفر کیا، اس دوران ہمیں ایک دوسرے سے انسیت ہو گئی تھی۔ اب ہم علیحدہ نہیں ہونا چاہتے تھے لیکن انسان کو زندگی پر کوئی اختیار نہیں، یہاں تک کہ اپنی زندگی پر بھی نہیں۔۔ اس لئے مجھے اپنی زمہ داری نبھانی تھی۔ ماسوائے پانی کے چند گھونٹ کے، میں بہت دن بھوکا پیاسا رہا۔ جوں جوں میں کمزور ہوتا گیا، وہ میری گرفت سے پھسلتی رہی۔ اس طرح اس کی روح لطیف ہوتی گئی۔ وہ پہلے جیسی وزنی نہیں رہی۔۔پانچ دنوں بعد جب میں اونگھ رہا تھا تو اس نے پہلا قدم اٹھایا، لیکن وہ اکیلے جانے کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ واپس آ گئی۔۔ اس طرح کے مختصر سفر اس نے بار ہا کئے۔ ہر دفعہ تھوڑا زیادہ ہمت کرتی۔۔ میرے لئے اس کی روانگی کا دکھ کسی گہری جلن جیسا تھا۔ مجھے اپنی ساری ہمتیں یکجا کرنا پڑیں۔ مجھے والد کی نصیحت یاد آئی کہ کبھی بھی اس کا نام نہ پکارنا، ورنہ وہ ہمیشہ کے لئے واپس آ جاۓ گی۔۔ بارہ دنوں بعد مجھے محسوس ہوا کہ وہ درختوں کی چوٹیوں کے اوپر ٹوکن (Toucan امریکی پرندہ) کی طرح اڑ رہی تھی۔۔ میں اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔میں نے رونا چاہا، وہ جا چکی تھی۔۔ میں نے اپنے ہتھیار اٹھائے اور کئی گھنٹے چلتا رہا، یہاں تک کہ دریا کی ایک شاخ تک پہنچ گیا۔ پانی میں اترا اور کمر تک پانی ڈوبا کھڑا رہا۔ تیز دھار چھڑی سے مچھلی کا شکار کیا اور اسے پورا چھلکوں اور دم سمیت نگل گیا۔ مجھے فوراً خون والی قے ہوئی، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔۔ میری اداسی اب ختم ہو چکی تھی۔ میں جان چکا تھا کہ بسا اوقات موت محبت سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے۔ تب میں شکار کرنے چل پڑا کیونکہ میں خالی ہاتھ گاؤں نہیں جانا چاہتا تھا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close