فلسطین۔۔ عالمی ضمیر کی قبر کا کتبہ بن چکا ہے۔۔ جس پر اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر دنیا کی خاموشی کا نوحہ کندہ ہے۔ دہائیوں سے جاری اسرائیلی مظالم پر اگر یہ مظلوم فلسطینی مزاحمت بھی کریں تو ’مہذب دنیا‘ ایک آواز ہو کر ’اسرائیل کے حقِ دفاع‘ کی وہ دھول اڑاتے ہیں کہ فلسطینیوں کا قتلِ عام اس کی اوٹ میں مدھم پڑ جاتا ہے
غزہ میں اسرائیلی فورسز کی ظالمانہ بمباری سے شہید ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ حملوں میں عمارتیں زمین بوس ہو جاتی ہیں، سینکڑوں لوگ ملبے تلے دب جاتے ہیں، ان کی لاشوں کی شناخت اور بازیافت کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے
بڑی تعداد میں شہید ہونے والے افراد کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا جارہا ہے۔ ان میں سے اکثر افراد کی شناخت نہیں ہو پا رہی ہے، جس کی وجہ سے انہیں نامعلوم قرار دے کر نام کے بجائے محض ایک شناختی نمبر کے ساتھ اجتماعی قبروں میں دفن کیا جا رہا ہے
اس عالمِ بے بسی میں شاید زندگی کی امید بھی دم توڑ رہی ہے اور اس ’مہذب دنیا‘ میں فلسطین ایک ایسا دیس بن چکا ہے، جس کے لوگوں کی بس اتنی خواہش ہے کہ بمباری میں مارے جانے کے بعد پہچانے جائیں۔۔
بے نامی کی اس صورت حال سے بچنے کے لیے بہت سے فلسطینیوں نے کلائیوں میں ایسے شناختی بینڈز پہننے شروع کر دیے ہیں، جن پر نام اور پتہ درج ہے تاکہ اگر وہ مارے جائیں، تو ان کے عزیز اور پیارے انہیں شناخت کر لیں اور انہیں بے نام اجتماعی قبروں میں نہ دفنایا جائے
اسرائیلی حملوں میں شہید ہو جانے والوں کی یاد میں خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ خاندان کے تمام افراد اپنے ہاتھوں پر خصوصی شناختی کڑے باندھ رہے ہیں۔ اس طرح کے بریسلٹ اس لیے پہنائے جا رہے ہیں تاکہ ملبے تلے دب جانے یا مرنے کی صورت میں ان کی فوری شناخت ہو سکے۔ ”ہم یاد نہیں کر سکتے کہ ہمارے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔۔ اسی لیے ہم نے اس راستے کا انتخاب کیا“ فلسطینی شہری بڑے درد سے کہتے ہیں۔
غزہ کے ایک رہائشی الضبہ کا خاندان اسرائیل کی جانب سے تاریخ کی سب سے ظالمانہ اور شدید بمباری کا نشانہ بننے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے
فلسطینیوں کی سر زمین پر قابض اسرائیل دہائیوں سے فلسطین پر مظالم ڈھا رہا ہے۔ غزہ کو ایک ایسی جیل بنا دیا گیا ہے، جہاں زندگی ایک عذاب کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ آئے دن کی موتمار بمباری اور ان مظالم سے تنگ فلسطینیوں کی مزاحمتی تنظیم حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیل کے اندر گھس کر اچانک کارروائی کی گئی، جس پر اسرائیل کو اپنا حق دفاع یاد آگیا اور جواب میں وہ اس وقت مسلسل بمباری سے ساڑھے سات ہزار فلسطینیوں کو شہید اور غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر چکا ہے۔ یہاں ہسپتالوں میں علاج کی سہولت نہیں ہے غزہ پانی، بجلی، ادویات اور خوراک سے محروم ہو چکا ہے
چالیس سالہ علی الضبہ نے بتایا انہوں نے بمباری کے واقعات کے بعد ایسی لاشیں بکھری ہوئی دیکھی ہیں، جو ناقابل شناخت ہو چکی تھیں
اس سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اگر خاندان کے تمام افراد ایک جگہ ہوں تو وہ سب حملوں میں مر جاتے ہیں۔ وہاں کے شہریوں نے سب کو مرنے سے بچانے کے لیے ایک راستہ چنا ہے۔ ہر کوئی اپنا سر کہیں نہ کہیں چھپا رہا ہے۔ والدین ایک جگہ رہتے ہیں، بچے دوسری جگہ رہتے ہیں۔ اگر یہ سننا بہت مشکل ہے… آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کس قدر تکلیف میں ہیں۔ یہ تشویشناک ہے کہ خواتین اور بچے خاص طور پر ان حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں
علی نے بتایا کہ بمباری کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنے خاندان کو مختلف حصوں میں بانٹنے کا فیصلہ کیا، تاکہ پورا خاندان کسی ایک ہی بمباری میں مرنے سے محفوظ رہے
علی الضبہ کی بیالیس سالہ بیوی لینا اپنے دو بیٹوں اور بیٹیوں کے ساتھ غزہ کے شمالی علاقے میں ہے، جب کہ وہ اپنے بقیہ تین بچوں کے ساتھ جنوبی قصبے خان یونس منتقل ہو گئے ہیں
علی کا مزید کہنا تھا کہ وہ بدترین صورت حال کا سامنا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کے لیے نیلے رنگ کے بینڈز خریدے ہیں اور انہیں دونوں کلائیوں میں باندھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ”اگر کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو اس طرح میں انہیں پہچان لوں گا۔۔“
دوسرے فلسطینی خاندان بھی اپنے بچوں کے لیے شناختی بینڈز خرید رہے ہیں یا خود بنا رہے ہیں یا ان کے بازؤوں پر ان کے نام لکھ رہے ہیں
غیرمعمولی حالات کی وجہ سے مقامی مسلمان علما نے اجتماعی تدفین کی اجازت دی ہے۔ تدفین سے قبل، طبی عملہ مرنے والوں کی تصویریں اور خون کے نمونے لیتا ہے اور انہیں نمبر دے دیتا ہے
اسرائیل کی جانب سے مسلسل جاری وحشیانہ بمباری کے بعد اب قابض اسرائیلی فورسز نے زمین کاروائی بھی شروع کر دی ہے۔ سات اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد آٹھ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں تقریباً تین ہزار بچے شامل ہیں۔