پالتو جانوروں اور پرندوں سے بیشتر لوگوں خاص طور پر بچوں کو قدرتی طور پر لگاؤ ہوتا ہے۔ پاکستان میں کم آمدنی والا طبقہ کبوتر، طوطے، مرغیاں پال کر اچھا خاصا کما رہا ہے۔ کراچی میں فینسی طوطے، کبوتر اور مرغیوں کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔ خراب ترین معاشی حالات اور بے روزگاری کے شکار افراد گھروں کی چھتوں پر پنجرے رکھ کر ان کا کاروبار کر رہے ہیں۔
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں صدر ایمپریس مارکیٹ، شریف آباد اور کریم آباد مارکیٹ کو اس حوالے سے مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں پانچ سو روپے سے لاکھوں روپے تک کے جوڑے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ شہر میں 5 سال قبل تک اس کے تاجروں کی تعداد بہت کم تھی، جو اب پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
بعض پرندوں طوطوں کے تاجر اپنے یوٹیوب چینل بنا کر ان کو پالنے، بیماریوں سے محفوظ رکھنے اور کاروبار کے حوالے سے ترغیب دے رہے ہیں۔ بے روزگاری کے اس دور میں فینسی طوطوں (لو برڈز) اور دیگر پرندوں کا کاروبار خاصا بڑھ چکا ہے۔ نوجوان طبقہ موٹر سائیکلیں، گھر کے اضافی سامان فروخت کر کے یا قرض لے کر فینسی طوطوں اور پرندوں کا کام کرنے لگا ہے جو پچاس ہزار سے شروع کیا جا سکتا ہے اور گھروں کی چھتوں پر لکڑی کے پنجرے بنا کر لو ہے یا پلاسٹک کی جالی لگا کر جگہیں بنا رہے ہیں۔ ہر علاقے میں فینسی پرندوں اور طوطوں کی دکانیں کھل گئی ہیں جہاں ان کی خوراک ، دوائیں مل جاتی ہیں اور مختلف یوٹیوب چینل پر ان کے رکھنے، ان کے کاروبار کے حوالے سے ہدایات اور مشورے مل جاتے ہیں۔ صدر ایمپریس مارکیٹ، نارتھ کراچی ،نمک منڈی کے قریب، سرجانی، شاہ فیصل کالونی، کریم آباد، شریف آباد سمیت دیگر علاقوں میں پرچون کی دکانوں کی طرح ان کی دکانیں کھل گئی ہیں، جہاں صبح سے رات تک کاروبار چلتا ہے۔
آج کے اس فیچر میں ہم اسی حوالے سے لو برڈز کے کاروبار کے بارے میں معلومات فراہم کریں گے۔ کچھ کو برڈز کتنے بیش قیمت ہوتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مٹھی بھر حجم رکھنے والے لو برڈز کی قیمت 30 لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ ہے
واضح رہے کہ یہ براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے طوطے کی ایک قسم ہے جسے ’لو برڈ‘ کہتے ہیں۔ ان کو لو برڈ کا نام اس لیے بھی دیا گیا یہ طوطے ایک ہی جیون ساتھی کے ساتھ لمبے عرصے تک رہتے ہیں۔ ان کا جوڑا اکثر آپ کو گھنٹوں تک اکٹھے بیٹھا ملے گا۔ جنگل میں اس کی بہت سی قسمیں پائی جاتی ہیں لیکن پالتو لو برڈز میں فشرز زیادہ مقبول ہے
اس کی بڑی وجہ ہے ان کی رنگت ہے۔ جنگل میں پائے جانے والے فشرز لو برڈ کا بنیادی رنگ سبز ہوتا ہے لیکن اس کے اوپری حصے میں مزید رنگ ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھ کے گرد سفید دائرہ بھی ہوتا ہے، جو اس کی پہچان ہے
پالتو طوطے کے طور پر اس لو برڈ میں کئی دہائیوں کی تبدیلی تغیر یعنی جینیاتی تبدیلیوں کے باعث اتنے زیادہ رنگ آ چکے ہیں کہ ان کی گنتی مشکل ہے۔ رنگوں میں تبدیلیوں کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے
یہی پروں اور سر کے رنگوں کی انفرادیت، آنکھوں کی سرخی اور اعلٰی شجرہ نسب ایک چھوٹے سے لو برڈ کی قیمت ہزاروں سے لاکھوں میں لے جاتا ہے۔ پاکستان ہی میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں، جو اس قدر پیسہ خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں روپے مالیت کے اس پرندے کے بھی ہزاروں خریدار موجود ہیں اور ان کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے پرندوں کی افزائش نسل کرانے والے بریڈرز بھی موجود ہیں اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے
لاہور کے رحیم علی ڈھلوں بھی ان میں سے ایک ہیں، جو ’لو برڈ سوسائٹی آف پاکستان‘ کے سینیئر نائب صدر بھی ہیں۔ وہ گذشتہ دس برسوں سے لو برڈز کی بریڈنگ کر رہے ہیں۔ ان کے لو برڈز کی پیڈگری یا شجرہ نسب مقامی منڈی میں مقبول ہے۔ وہ نئی میوٹیشنز یا رنگوں والے پرندوں کو بیرونِ ملک سے منگوا کر اپنے پاس بریڈ کرواتے رہتے ہیں
رحیم علی ڈھلوں کے مطابق لو برڈز یا پرندوں کا کاروبار ایسا کاروبار ہے، جس میں منافع بھی ہے اور اسے کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ایک گھریلو خاتون یا ایک طالب علم سے لے کر ایک سرمایہ دار تک سب کے لیے اس کاروبار میں کمائی کے مواقع موجود ہیں
صرف بیس ہزار یا اس سے کم میں کوئی گھر پر ایک دو جوڑے پرندوں کے رکھ سکتا ہے یا اگر کوئی سرمایہ دار لاکھوں خرچ کرنا چاہے تو وہ بھی کر سکتا ہے اور وہ دونوں ہزاروں اور لاکھوں کما سکتے ہیں۔ رحیم علی ڈھلوں اس پرندے کی اتنی زیادہ قیمت کی وجہ اس کا نایاب ہونا بتاتے ہیں
رحیم علی ڈھلوں بتاتے ہیں ”جب کوئی میوٹیشن نئی آتی ہے تو وہ نایاب ہوتی ہے۔ تو اس کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی قیمت لاکھوں میں چلی جاتی ہے۔لیکن جیسے جیسے یہ میوٹیشن بریڈ ہوتی ہے تو اس کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور ایک موقع پر آ کر اس کی سپلائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ اس کی قیمت گر جاتی ہے“
اس طرح وہ لوگ بھی اس کو خرید سکتے ہیں، جن کی قوتِ خرید اس سے پہلے اتنی زیادہ نہیں تھی۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد ایک نئی میوٹیشن سامنے آ جاتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ساتھ ہی لو برڈز کی کشش بھی۔ یہی کشش اس کاروبار کو بڑھاتی ہے
رحیم علی کہتے ہیں ”پاکستان میں کووڈ 19 کے دوران لو برڈز کی بریڈنگ اور عام طور پر غیر ملکی نسل کے پرندوں کے کاروبار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے
واضح رہے کہ کووڈ 19 اور اس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاون نے بہت سے لوگوں کی نوکریاں ختم کیں۔ بہت سے افراد کے کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔ جو لوگ اس وقت نئے کاروبار کر رہے تھے انھوں نے کاروبار ہی چھوڑ دیے۔ رحیم علی کے مطابق اس دور میں بہت سے نئے لوگ پرندوں کے کاروبار میں داخل ہوئے۔ بہت سی خواتین نے اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹانے کے لیے یہ کاروبار شروع کیا۔ ان کا کاروبار اتنا اچھا چلا کہ ان کے شوہر بھی اس میں آ گئے
شمسہ ہاشمی پاکستان وومن کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ہیں اور سرکاری ملازمت کرتی ہیں۔ انہوں نے بھی کووڈ-19 کے ابتدائی دنوں میں چند لو برڈز رکھے۔ چار سال بعد وہ ایک اچھا کاروبار چلا رہی ہیں۔وہ بتاتی ہیں ”ہم نے سوچا تھا کہ یہ ہمارا ریٹائرمنٹ پلان ہوگا۔ ہم دو تین سال لگائیں گے، اس کو سیکھیں گے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد کے لیے یہ ایک بہترین مشغلہ بھی ہے“
شمسہ ہاشمی، جن کے پاس اب ایسے لو برڈز بھی ہیں جن کی قیمت چار لاکھ روپے تک بھی ہے، کا کہنا ہے ”میرے لیے لو برڈز ابتدائی طور پر میری بیٹی کی شادی کے بعد تنہائی دور کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ تاہم اس میں آنے کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہترین کاروبار بھی بن سکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ کام کرنے کے لیے آپ کو کوئی زیادہ جگہ نہیں چاہیے۔ آپ آٹھ جوڑے رکھ کر اس کا آغاز کر سکتے ہیں اور آٹھ جوڑوں کے لیے آپ کو صرف پانچ فٹ ضرب ڈھائی فٹ کی جگہ چاہیے“
ان کے مطابق ان کو دانہ پانی اور ادویات یا سپلیمنٹس وغیرہ دینے میں روزانہ آدھے گھنٹے سے زیادہ کا وقت نہیں لگتا اور ایک خاتون کے لیے روزانہ آدھا گھنٹہ وقت نکالنا کوئی مشکل کام نہیں ہے
طوطوں کا ایک جوڑا ایک بار میں چار سے پانچ انڈے دیتا ہے اور ہر سال بریڈنگ کے موسم میں وہ کم از کم دو یا تین مرتبہ انڈے دیتا ہے
اس طرح ایک جوڑے سے کئی پرندے مل جاتے ہیں۔ یوں جتنے زیادہ پرندے آپ کو ملیں گے اور وہ جتنی اچھی نسل کے ہوں گے، اتنے ہی پیسے آپ گھر بیٹھے کما سکتے ہیں
آسٹریلوی نسل کی چھوٹی چڑیا گولڈین کا کاروبار
لاہور کے رہائشی وقاص ملک گذشتہ کئی برسوں سے لو برڈز کے علاوہ آسٹریلوی نسل کی انتہائی خوبصورت چھوٹی چڑیا کو بھی بریڈ کروا رہے ہیں، اس فنچ یا چڑیا کو گولڈین کہا جاتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے یوں لگتا ہے کہ کسی نے ہاتھ سے اس پر پینٹنگ کی ہے۔ گولڈین اپنے رنگوں کی وجہ سے ایوی کلچر میں بہت مقبول ہے
وقاص ملک بتاتے ہیں ”لو برڈ کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ گولڈین ہی کی مانگ ہے۔ میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو کووڈ-19 کے دنوں میں گولڈین کے کاروبار میں ایک مرتبہ آئے اور وہ اتنا اچھا چلا کہ انہوں نے اپنے چلتے ہوئے کاروبار چھوڑ دیے اور فل ٹائم اسی کاروبار میں لگ گئے۔ چونکہ دوسرے پرندوں کی طرح گولڈین میں بھی ایک سے سولہ اور سولہ سے 256 ہونے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تو یہ اچھا منافع دیتی ہے“
اس کاروبار میں نقصان کے بارے میں انہوں نے بتایا ”مجھ سے کوئی پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اس میں نقصان کا خدشہ سو فی صد ہے لیکن اس میں منافع پانچ سو فیصد ہے“
وہ خود یورپ کے معروف بریڈرز سے پرندے درآمد کرتے ہیں اور اپنے پاس اپنے گھر میں بنے ایک کمرے میں پنجرے رکھ کر اس کی افزائشِ نسل کرتے ہیں۔ وقاص کے خیال میں ان کے پاس ’اب ورلڈ کلاس گولڈین فنچ تیار ہو چکی ہیں جو بذاتِ خود نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں بھی نایاب ہیں‘
اپنی ایک گولڈین کو دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا ”اس کے سر کا کلیجی رنگ، سرخ آنکھیں، پروں کا پیلا رنگ اور چھاتی کے رنگوں کا امتزاج اسے منفرد اور نایاب بنا دیتا ہے۔ اس سر کے رنگ کے ساتھ یہ گولڈین صرف پاکستان ہی میں نہیں، دنیا میں بھی نایاب ہے۔ اس کے نر کی قیمت لگ بھگ تین لاکھ روپے ہو گی“
وقاص ملک کہتے ہیں ”پاکستان میں گولڈین اور دیگر غیر ملکی فنچز کو پالنے والوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔
بڑے طوطوں اور کنیری کا کاروبار
فنچز اور چھوٹے طوطوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بڑے طوطوں کی بریڈنگ بھی اچھے خاصے بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے۔ لاہور سے عدیل چوہدری نے اپنی ایک آئیوری بنا رکھی ہے، جس میں انہوں نے غیر ملکی نسل کے میکاؤ طوطے، کیکاٹوز، گرے پیرٹس، ایمازون، گرے نیک اور کونیور نسل کے طوطوں کی بہت سے میوٹیشنز پال رکھی ہیں
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے طوطوں کے کاروبار جن طوطوں کی قیمت سب سے زیادہ ہے، وہ بنیادی طور پر جنوبی ایشیائی خطے سے تعلق رکھتا ہے۔ مقامی سطح پر اسے را طوطا کہا جاتا ہے جو الیگزینڈرین کے نام سے دنیا میں جانا جاتا ہے
’الیگزینڈرین میں جتنی بھی میوٹیشنز یا رنگ ہیں وہ سب سے زیادہ مہنگی ہیں۔ مثال کے طور پر الیگزینڈرین کی ایک نایاب میوٹیشن کا ایک طوطا چالیس سے پچاس لاکھ روپے تک جا سکتا ہے۔‘
عدیل چوہدری کی بریڈنگ ایوری جو انہوں نے خصوصی طور پر خود ڈیزائن کر کے آؤٹ ڈور بنائی ہے الیگزینڈرین کی کئی میوٹیشنز موجود ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ”میں نے پہلے عام طوطے رکھ کر اس کام کو سیکھا اور اب میں مہنگے طوطوں کی طرف آ رہا ہوں۔ اب یہ ایک صنعت ہے اور اس کے ساتھ بھی صنعتیں بن چکی ہیں“
محمد جنید خان اسلام آباد میں گزشتہ پندرہ سالوں سے آسٹریلوی نسل کی چڑیا ’کنیری‘ پال رہے ہیں۔ کنیری خاص طور پر اپنی سنگنگ یا گانے کے لیے مشہور ہے۔ کنیری کے نر بہت دلفریب دھنیں گاتے ہیں۔ جنید خان کہتے ہیں کہ انہوں نے بھی ابتدائی طور پر کنیریز باہر ملک سے منگوائیں اور ان کی اپنے پاس افزائشِ نسل کی۔ ساتھ ہی وہ پرندوں کا سامان بیچنے کا کاروبار بھی کرتے ہیں
وہ بتاتے ہیں ”یہ اب ایک مکمل صنعت بن چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ دوسرے پرندوں کا سامان بنانے کی صنعت بھی قائم ہو چکی ہے۔ بہت سے لوگ یہ سامان بنا کر برآمد بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ چار سے پانچ برسوں میں بہت اچھی نسل کے ایگزوٹیک پرندوں کی افزائشِ نسل ہوئی ہے اور یہ صنعت مزید بڑھ رہی ہے پاکستان سے لوگ پرندے باہر بھی بھیجنا چاہتے ہیں لیکن کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے۔“
پرندے برآمد کرنے میں رکاوٹ کے بارے میں عدیل چوہدری کہتے ہیں ”پاکستان سے پرندوں کی برآمد بہت ضروری ہے اور ان کے خیال میں اس کی وجہ کیا ہے اس کو لو برڈز کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ لو برڈز کیونکہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں بریڈ کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں، اس لیے ان کی نسل بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔ جب کسی خاص میوٹیشن کی زیادہ افزائش ہوتی ہے تو اس کی سپلائی بڑھ جاتی ہے۔ برآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مانگ میں کمی آ جاتی ہے اور اس کی قیمت بہت نیچے گر جاتی ہے۔ اس لیے قیمت کو متوازن رکھنے کے لیے برآمد بہت ضروری ہے“
لو برڈ سوسائٹی آف پاکستان کے نائب صدر رحیم علی ڈھلوں کہتے ہیں ”پاکستان سے پہلے بھی پرندے برآمد ہو رہے ہیں جو کئی ملین روپے کی صنعت ہے۔ تاہم برآمد کرنے کے لیے لوگوں کے پاس سہولیات موجود نہیں ہیں۔ کوالٹی میں اگر ہم یورپ کو دیکھتے ہیں تو پاکستان میں اب یورپ کے برابر یا ان سے بہتر کوالٹی کے پرندوں کی افزائش ہو رہی ہے۔ اور یورپی بریڈرز جب پاکستان آتے ہیں تو وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں“
رحیم علی ڈھلوں نے بتایا ”بہت سے بریڈرز پاکستان میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ پرندوں کی برآمدات کی راہ ہموار کی جائے۔ انھوں نے اور ان کے کچھ ساتھیوں نے حال ہی میں لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداران سے اس ضمن میں بات چیت کا آغاز کیا ہے۔ ہم نے ان سے کہا ہے کہ ایک تو ہمیں وائلڈ لائف میں سے نکال کر لائیو سٹاک میں شامل کیا جائے اور دوسرا ہمیں برآمدات کرنے کے لیے لائسنس دینے میں آسانی پیدا کی جائے۔ پرندوں کا کاروبار کرنے والے پاکستان میں زرِ مبادلہ لا سکتے ہیں۔“
نیا کاروبار شروع کرنے والوں کے لیے مشورہ
پرندوں کے کاروبار میں منافع اور کمائی کے مواقع بہت ہیں تاہم تجربہ کار بریڈرز خبردار کرتے ہیں کہ اس کاروبار سے بھی ’شارٹ کٹ‘ کے ذریعے پیسے کمانے میں نقصان کے امکانات بھی موجود ہیں
گولڈین بریڈر وقاص ملک کہتے ہیں ”اس کاروبار میں اگلا قدم تب اٹھائیں، جب آپ کا پہلا قدم اوکے ہو جائے۔ یہ کاروبار کرنے کے لیے پہلے کچھ عرصہ یہ سمجھنے میں لگائیں کہ آپ کے پرندوں کو بیماریاں کیا ہو سکتی ہیں، ان کی خوراک کی ضروریات کیا ہیں، وہ کب اور کیسے بریڈ کرتی ہیں وغیرہ۔۔ جب آپ کا پہلا قدم مستحکم ہو جائے گا تو اس کے بعد آپ کے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے۔ پھر آپ مہنگے پرندے بھی آرام سے رکھ سکتے ہیں“
شمسہ ہاشمی کہتی ہیں کہ نئے آنے والوں اور خاص طور پر خواتین کو چاہیے کہ وہ پہلے ایک دو سال اس کاروبار کو سمجھنے میں لگائیں اور اس کے بعد سب سے مہنگی میوٹِشنز کی طرف جائیں
ان دنوں سوشل میڈیا پر اتنا مواد موجود ہے کہ آپ باآسانی یہ کام سیکھ سکتے ہیں اس بات سے قطع نظر کہ آپ مرد ہیں یا عورت
جب بات پرندے پال لینے کے بعد بیچنے کی آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے بہت سے پلیٹ فارمز موجود ہیں۔ تاہم وہی چیز اچھی فروخت ہوگی، جو اچھی کوالٹی کی ہوگی۔ ساتھ ہی جتنی دیانت داری سے آپ کام کریں گے، اتنا اچھا آپ کا نام ہوگا اور آپ کے پرندے اچھے فروخت ہونگے۔