آرکٹک: عالمی طاقتوں کا نیا محاذِ جنگ۔۔ ایک نئی سرد جنگ کیسے آرکٹک کی برف کو گرما رہی ہے۔۔

ویب ڈیسک

قطب شمالی پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پگھل رہا ہے، لیکن اب کی بار اس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ روس اور یوکرین کی جنگ کے اثرات بھی بنے ہیں

اس جنگ کے نتائج، اب تک، یورپ میں آب و ہوا کی کوششوں میں خلل سے کہیں آگے پہنچ چکے ہیں، جہاں گیس کی قلت نے حکومتوں کو کوئلے کے پلانٹس کو دوبارہ شروع کرنے پر اکسایا ہے۔ تنازعہ نے آرکٹک میں عروج کے لیے بڑی طاقتوں کے درمیان دوڑ کو بھی تیز کر دیا ہے

یوں آرکٹک، جو کئی نسلوں سے دنیا کے لیے سائنسی تحقیق اور پر امن ماحول کا نمونہ رہا ہے، اب اس کی صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے

آرکٹک خطہ جیوسٹریٹیجک مقابلے میں اضافہ دیکھ رہا ہے۔ اس نے کئی اہم کھلاڑیوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی دلچسپی اور محرکات ہیں۔ مثال کے طور پر، روس آرکٹک کو وسائل کے حصول اور فوجی غلبے کے لیے ایک اسٹریٹجک علاقے کے طور پر دیکھتا ہے۔ دریں اثنا، امریکہ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور تزویراتی شمولیت کے درمیان خطے میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے بارے میں فکر مند ہے۔ ان قوموں کے مسابقتی مفادات آرکٹک میں جیوسٹریٹیجک مقابلے کو تشکیل دے رہے ہیں اور عالمی حرکیات کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں

منظرنامہ بدل رہا ہے۔۔ یوکرین پر روسی حملے کی گرمی اب دنیا کے شمالی علاقے میں محسوس کی جانے لگی ہے۔ تین براعظموں پر پھیلے اس وسیع علاقے میں آٹھ ممالک اور قطب شمالی شامل ہیں

آرکٹک میں روس کے ساتھ تعاون اب قصہِ پارینہ بن چکا ہے ۔ یوکرین کی جنگ میں روسی صدر پیوٹن نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہیں اور واضح طور پر چین ان کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے

روس یوکرین جنگ اور آرکٹک کی پگھلنے والی برف کی وجہ سے عالمی سیاست میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے آرکٹک کی برف کے نیچے دبے ہوئے معدنیات اور تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے اور وہاں سے نئے سمندری راستے بنانے کے لیے ایک قسم کا مقابلہ شروع ہو گیا ہے

 کہانی کا آغاز

منظرنامے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آئیے اس کہانی کا آغاز دنیا کی سب سے شمالی بستی سوالبارڈ سے کرتے ہیں

اوسلو کے فرتزوف نینسنس انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر اور سینیئر محقق آندرے اوستھاگن کے مطابق ”سوالبارڈ جتنی پرکشش جگہ ہے، اتنی ہی مشکل بھی ہے۔۔ سوالبارڈ جزائر پر تقریباً ڈھائی ہزار لوگ رہتے ہیں جن کی آبادی قطبی ریچھوں سے کم ہی ہے۔ یہاں صرف ایک ہوائی اڈا ہے۔ باہر نکلتے وقت لوگوں کو بندوقیں ساتھ لے کر چلنی پڑتی ہیں۔ موسمِ گرما میں درجہِ حرارت چار سے پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے اور دن بھر روشنی رہتی ہے۔ پہاڑوں پر برف اور ہموار علاقوں میں کیچڑ ہوتی ہے۔ جیسے جیسے اکتوبر قریب آتا ہے، درجہِ حرارت انتہائی سرد ہو جاتا ہے اور ہر طرف برف کی چادر بچھ جاتی ہے“

سوالبارڈ یورپ اور قطب شمالی کے درمیان واقع ایک اہم علاقہ ہے۔ آندرے اوستھاگن کہتے ہیں ”لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ آرکٹک صرف پگھلتی برف والا علاقہ ہے۔ اگر آپ نقشے کو دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آرکٹک سرکل کے شمال میں پورا علاقہ آرکٹک ہے۔ اس خطے میں امریکہ اور روس سمیت آٹھ ممالک آتے ہیں۔ اس کا ایک بڑا حصہ برف سے ڈھکا ہوا سمندر ہے“

سوالبارڈ کو ایک خاص سیاسی حیثیت حاصل ہے۔ کئی ممالک کے شہری یہاں رہ سکتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال کے مدنظر دنیا بھر سے کئی فصلوں کے بیج یہاں محفوظ کیے جاتے ہیں

ایک طویل عرصے تک کسی ایک ملک کو سوالبارڈ پر اختیار نہیں تھا، لیکن 1920 میں سوالبارڈ معاہدے کے تحت یہ علاقہ ناروے کے حوالے کر دیا گیا، لیکن معاہدے میں شامل تمام ممالک کو اس کے اقتصادی وسائل میں برابر کا حصہ دیا گیا ہے تاہم یہ شرط بھی رکھی گئی کہ اسے جنگ جیسی سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ نئے ممالک اس معاہدے میں شامل ہو رہے ہیں۔ ترکی نے گذشتہ سال ہی اس معاہدے پر دستخط کیا تھا

آندرے اوستھاگن بتاتے ہیں ”اب تک چھیالیس ممالک اس معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں۔ ان ممالک کے شہری اس جزیرے پر کام کر سکتے ہیں۔ اس علاقے کو سیاحت اور سائنسی تحقیق کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن سنہ 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد خدشہ ہے کہ روس اس علاقے پر ناروے کی خودمختاری کو چیلنج کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اس خوف کی وجہ سے تناؤ بڑھ گیا ہے“

یوکرین پر روسی حملے کے بعد آرکٹک ممالک کی تنظیم آرکٹک کونسل نے روس سے تعلقات ختم کر دیے ہیں۔ آٹھ ممالک کی یہ تنظیم 1946 میں قائم ہوئی اور اسے علاقائی تعاون کی ایک اچھی مثال کے طور پر دیکھا گیا

آندرے اوستھاگن کہتے ہیں ”یہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کے رشتے دار سرحد پار روس میں رہتے ہیں۔ لہٰذا روس کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے اس تانے بانے کو نقصان پہنچایا ہے، جس سے اقتصادی سرگرمیوں اور سائنسی تحقیقی کاموں میں باہمی تعاون متاثر ہوا ہے۔ آرکٹک کا ایک حصہ روس میں ہے۔ وہاں ہونے والے کاربن کے اخراج سے متعلق ڈیٹا اور آرکٹک پر اثرات بھی ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق تحقیق میں ضروری ہیں“

باہمی تعاون کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ ماہرین کے خیال میں آرکٹک کے خطے میں دوسرے خطوں کے مقابلے میں آب و ہوا کی تبدیلی زیادہ تیزی سے ہو رہی ہے

آندرے اوستھاگن کا کہنا ہے ”مثال کے طور پر، سوالبارڈ میں درجہِ حرارت بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سمندر کی برف جس رفتار سے پگھل رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 یا 2060 تک موسمِ گرما کی برف آرکٹک کے علاقے سے مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ فی الحال روس اور دیگر ممالک کے درمیان مذاکرات نہیں ہو رہے اور تمام تر توجہ فوجی کشیدگی پر مرکوز ہے“

سوالبارڈ آرکٹک خطے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے اور روس آرکٹک خطے کا ایک اہم ملک ہے، کیونکہ آرکٹک خطے میں تقریباً نصف ساحلی پٹی روس میں ہے۔ پہلے روس کے دیگر آرکٹک ممالک کے ساتھ تعلقات تعاون پر مبنی تھے، جو اب مسابقت اور دشمنی میں بدل چکے ہیں

 آرکٹک خطے کی اہمیت کا اجمالی جائزہ

آرکٹک خطہ قطب شمالی کے ساتھ پھیلی پٹی کو گھیرے ہوئے ہے، جس میں آٹھ ممالک شامل ہیں: کینیڈا، گرین لینڈ، روس، آئس لینڈ، ریاستہائے متحدہ، سویڈن، ناروے اور فن لینڈ۔ اس خطے کی نشاندہی آرکٹک اوقیانوس کے طاس سے ہوتی ہے جبکہ بحیرہ بیفورٹ خطے کے متنوع ماحولیاتی نظام کا ایک اہم عنصر ہے۔ اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی، آرکٹک کے خطے میں تزویراتی، جغرافیائی سیاسی، اور جیو اکنامک ڈومینز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور برف کے گرنے، گرم پانیوں، سطح سمندر میں اضافے، اور پرما فراسٹ پگھلنے کی وجہ سے بھی سرخیاں بنی ہیں ۔

تزویراتی بنیادوں پر، آرکٹک خطے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور قدرتی گیس اور خام تیل جیسے وسائل سے مالا مال ہے، جو اس وقت عالمی طاقتوں کے قبضے کے لیے آسانی سے دستیاب ہیں۔ یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ خطہ جغرافیائی سیاست کے معیارات پر پورا اترتا ہے:

یہ ماہی گیری کے ذرائع، لوہے کی دھات، نکل، تانبا، زنک، سیسہ اور کوئلہ سمیت وسائل سے مالا مال ہے۔
یہ زمین کے غیر دریافت شدہ روایتی تیل کا 13٪ اور قدرتی گیس کا 30٪ احاطہ کرتا ہے۔
یہ عالمی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ امریکہ، چین اور روس خطے کے ہم عصر کھلاڑی ہیں

اس خطے کی انفرادیت جغرافیائی سیاسی پہلوؤں کے درمیان ہے۔ تاہم، گلیشیئرز کے پگھلنے کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ کی طرف عالمی توجہ خطے کی تزویراتی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے

آرکٹک شمال مغربی گزرگاہ کے لیے ایک ذریعہ ہے، جو جہاز رانی کے لیے اہم سمندری راستے فراہم کرتا ہے، جو تجارت کے لیے طویل راستوں کو کم سے کم کرتا ہے

بڑھتی ہوئی رسائی، علاقے کے قدرتی وسائل کی رغبت، اور جہاز رانی کے راستے آرکٹک میں "نئی سرد جنگ” کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں۔ آرکٹک میں بالترتیب معدنی ذخائر، مچھلی کے ذخائر اور میٹھے پانی کے بہت سے ذخائر ہیں۔ ان وسائل کو استعمال کرنے میں آرکٹک اور غیر آرکٹک حکومتوں کی دلچسپی ان کی عالمی مانگ میں اضافے کے ساتھ بڑھتی ہے۔ مزید برآں، سمندری برف پگھلنے کی وجہ سے آرکٹک میں نئے سمندری بحری مواقع ہیں، جو ایشیا، یورپ اور شمالی امریکہ کے درمیان شپنگ کے اوقات اور اخراجات کو ڈرامائی طور پر کم کر سکتے ہیں

 عظیم طاقتوں کے درمیان مقابلے کا ایک محاذ

بنیادی طور پر، معاہدے عظیم طاقت کے اسٹریٹجک نقطہ نظر کا ایک قدرتی حصہ ہیں اگر آرکٹک جغرافیائی سیاسی جدوجہد کا ایک زون رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے بحر آرکٹک اور اس کی قدرتی دولتیں زیادہ قابل رسائی ہوتی جا رہی ہیں، اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ، روس اور چین سبھی اپنے گزرنے کی نقل و حرکت اور خودمختاری کے دعوؤں کے لیے کوشاں ہیں اور ان کا مقصد محفوظ رہنا ہے۔

اس کے باوجود، آرکٹک پر چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور اس کے نئے دعوے، آرکٹک سمندری راستوں میں روسی عسکریت پسندی، چین اور روس کے درمیان بڑھتا ہوا انضمام، روس اور امریکہ کے درمیان جغرافیائی سیاسی تنازعات، اور امریکہ اور چین کے درمیان بین الاقوامی مقابلہ ہے۔ تمام آرکٹک کو عالمی طاقت کی جدوجہد کے ابھرتے ہوئے دور میں شامل کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے آرکٹک کا علاقہ تیزی سے اور بے مثال تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ آرکٹک کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ خطے میں دلچسپی رکھنے والے ممالک اس وقت ان پیش رفتوں کی وجہ سے نئے مواقع اور چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔

اسٹیٹسٹا کے ذریعہ "آرکٹک سی آئس کور 2023 میں ریکارڈ کم حد تک پہنچ گیا” CC BY-ND 4.0 کے تحت لائسنس یافتہ ہے ۔
محققین نے انتباہ جاری کیا ہے کہ آرکٹک خطہ جغرافیائی سیاسی دشمنی اور ممکنہ طور پر تنازعات، خاص طور پر روس، امریکہ اور چین کے درمیان ایک نیا محاذ بن رہا ہے۔ آرکٹک کے علاقے میں شامل کلیدی کرداروں اور مضمرات کے مطابق، وہاں ایک "نئی سرد جنگ” ہوگی۔ آرکٹک میں چین کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور موجودگی کی وجہ سے خطے میں سیکورٹی کی صورتحال بھی زیادہ پیچیدہ اور غیر واضح ہو گئی ہے۔

چین نے خود کو "قریبی آرکٹک ریاست” قرار دیا ہے اور اس نے علاقے کی سائنسی تحقیق، اقتصادی ترقی اور سفارتی شمولیت میں اہم سرمایہ کاری کی ہے۔ آرکٹک سمندری راستوں کے ذریعے، چین کا "پولر سلک روڈ” پروگرام ایشیا اور یورپ کو جوڑنے کے لیے نظر آتا ہے، جو اس علاقے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بالادستی کے لیے خطرہ ہے۔

روس نے علاقائی تعاون کے لیے بنائی گئی بیرینٹس یورو آرکٹک کونسل کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے تیل اور گیس کے کل ذخائر کا ایک چوتھائی سمندر کے نیچے ہے۔ اس کے پیشِ نظر یہ تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کون سا علاقہ اس کے استحصال کے لیے کس کے کنٹرول میں ہے

شمالی سمندری راستہ روس کی معیشت اور سلامتی کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ آرکٹک سمندر کے مشرقی اور مغربی حصوں کو ملاتا ہے، اس لیے روس اس راستے کو تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے

لیکن سویڈن کی اپسالا یونیورسٹی میں رشین اسٹڈیز کے پروفیسر اسٹیفن ہیڈلنڈ کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ چین ہے، کیونکہ چین کے لیے یہ بحر ہند اور نہر سوئز کے راستے یورپ پہنچنے کے مقابلے میں چھوٹا راستہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاز کے ذریعے سامان کو یورپ پہنچانے میں دو ہفتے کم لگیں گے

اسٹیفن ہیڈلنڈ کے مطابق یہ راستہ چین کے لیے اہم ہے کیونکہ امریکہ کے ساتھ تنازعے کی صورت میں امریکہ جنوبی راستے کی ناکہ بندی کر سکتا ہے۔ ایسے میں شمالی سمندری راستہ چین کے لیے ایک اور آپشن ہو سکتا ہے

لیکن روس کی طرف سے کریمیا کے الحاق اور بعد یوکرین پر حملے کے جواب میں مغربی ممالک کی طرف سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روس کی جانب سے اس راستے کو تیار کرنے کا عمل سست پڑ گیا ہے

اسٹیفن ہیڈلنڈ کہتے ہیں ”انہوں نے اس علاقے سے ہائیڈرو کاربن نکالنے کا موقع گنوا دیا ہے کیونکہ اب اس کام کے لیے کوئی مغربی کمپنی ان کی مدد نہیں کرے گی۔ میرے خیال میں یہ سمندری راستہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی کارگو کمپنی اپنے جہاز روسی راستے سے بھیجے گی“

مغربی ممالک کی اس کارروائی کی وجہ سے روس کو نئے اتحادیوں کی ضرورت ہے اور چین اس کے لیے تیار نظر آتا ہے

کیونکہ چین کے آرکٹک خطے میں بہت سے مفادات ہیں۔ سنٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینیئر محقق میتھیو فنوئیول کا خیال ہے ”چین قطبی خطے میں اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے اور اس کے چار مقاصد ہیں: پہلا مقصد اس علاقے میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں اپنی موجودگی کو قائم کرنا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کے اسٹریٹجک مفادات بھی خطے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چین اس خطے کو بہتر طور پر سمجھنا چاہتا ہے، اسی لیے وہ سائنسی تحقیق کے لیے بہت سے مشن آرکٹک بھیج رہا ہے۔ یہ آرکٹک کی انتظامیہ میں بھی اپنا کردار چاہتا ہے اور بالآخر اس خطے میں ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے“

میتھیو کا کہنا ہے کہ چین دنیا میں کہیں بھی فوجی کارروائی کرنے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تمام بڑی طاقتیں آرکٹک میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں اور چین بھی اس میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے

امریکہ میں جرمن مارشل فنڈ کی سینیئر محقق سوفی آرٹس کے مطابق ”روس چین کے ساتھ تعاون بڑھا رہا ہے۔ مستقبل میں یہ آرکٹک کے علاقے میں زمینی دعووں پر تناؤ اور تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ روس پہلے سے آرکٹک میں اپنی خودمختاری کے بارے میں فکر مند رہا ہے اور وہاں اپنے اقتصادی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اس سے قبل وہ چین کو اس خطے میں شامل کرنے سے کتراتا تھا لیکن اب روس کمزور ہو چکا ہے اور چین اسے معاشی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ایسی صورتحال میں مستقبل میں چین بھی اس خطے میں اپنے قدم جما سکتا ہے اور تصادم کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے“

سوفی کا کہنا ہے کہ آرکٹک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور روس کی تنہائی خطرناک صورتحال پیدا کر سکتی ہے

سوفی آرٹس کے مطابق ”اس طرح کی بہت باتیں ہو رہی ہیں کہ روس یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے عسکری طور پر کمزور ہو رہا ہے، لیکن اس سے آرکٹک میں اس کی سرگرمیاں متاثر نہیں ہوں گی۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آرکٹک کونسل نے روس سے رابطہ منقطع کر لیا ہے۔ اگر کوئی بحران پیدا ہوتا ہے یا صورتحال حادثاتی طور پر بگڑ جاتی ہے تو فی الحال روس کے ساتھ ہم آہنگی کا کوئی ٹھوس ذریعہ نہیں ہے“

آرکٹک روس کے لیے بہت زیادہ اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے۔ یوکرین کی جنگ شروع ہونے سے پہلے روس آرکٹک کے علاقے میں اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا تھا

”روس نے آرکٹک میں سرمایہ کاری میں اضافہ جاری رکھا جبکہ گذشتہ دس سالوں میں امریکہ اور یورپ کے دیگر آرکٹک ممالک نے وہاں سرمایہ کاری کو ترجیح نہیں دی۔ اس وجہ سے آرکٹک کے ہر علاقے میں روس اور ان ممالک کی صلاحیتوں میں بہت فرق تھا“

یوکرین جنگ کی وجہ سے آرکٹک ممالک نیٹو کے قریب آگئے ہیں۔ فن لینڈ نیٹو میں شامل ہو گیا ہے۔ سویڈن بھی جلد اس میں شامل ہو جائے گا۔ اس کا مطلب ہے، آرکٹک ممالک میں روس ایسا واحد ملک ہے، جو نیٹو کا حصہ نہیں ہے

آرکٹک میں کئی تشویشناک سرگرمیاں سامنے آئی ہیں۔ جولائی میں نیٹو رہنماؤں نے روس اور چین کے درمیان تعاون کو مدنظر رکھتے ہوئے آرکٹک مشترکہ دفاعی منصوبے کا اعلان کیا۔ روس نے الزام لگایا کہ نیٹو ممالک آرکٹک کو فوجی تنازعے کے قریب لا رہے ہیں۔ یہاں روس، چین اور نیٹو کے کیمپ واضح طور پر آمنے سامنے آ چکے ہیں

ایسے میں یہ سوال بنتا ہے کہ کیا آرکٹک تنازعات کی آگ میں جل رہا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی جنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی گرمی سے آرکٹک خطے کا امن پگھل رہا ہے

مغربی ممالک اور روس کے درمیان عدم اعتماد اور چپقلش اپنے عروج پر ہے۔ جہاں پہلے آرکٹک میں ان دونوں کیمپوں کے درمیان تعاون تھا، اب سخت مقابلہ ہے۔ روس کے ساتھ تعلقات اور تعاون کی بندش کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کی کوششوں اور سائنسی تحقیقی کاموں کو پہنچا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک صورت حال ہے۔ لیکن اب بات اس سے بھی بڑھتے ہوئے طاقتور ممالک کے درمیان آرکٹک میں اثر رسوخ کی جنگ کے خدشے تک جا پہنچی ہے

 حرفِ آخر

آرکٹک خطے کی تزویراتی اہمیت، وسائل میں اس کی کثرت، اور گلوبل وارمنگ کے خطرے نے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی توجہ مبذول کرائی ہے جس کے تحت، وہ آرکٹک کے علاقے میں ماحولیاتی تحفظ کے تصور کو حکمت عملی کے ساتھ رکھتے ہیں۔ تاہم، حقیقت میں، بین الاقوامی اداکار اپنی اقتصادی حیثیت کو بڑھانے کے لیے منصوبے شروع کر کے خطے کا استحصال کر رہے ہیں۔

آرکٹک تھیٹر پر بنیادی تشویش امریکہ اور چین کا طاقت کا مقابلہ ہے جہاں چین ابھرتی ہوئی طاقت ہے، اور امریکہ حکمران طاقت ہے۔ اگر آنے والے وقتوں میں چین امریکہ پر غالب آجاتا ہے تو Thucydides ٹریپ کا پیش کردہ آئیڈیا کامیاب تصور کیا جائے گا۔ آخر میں، دلیل اس حقیقت میں مضمر ہے کہ آرکٹک میں خطے کے بڑھتے ہوئے اقتصادی امکانات اور سلامتی کے خطرات کی وجہ سے ایک "نئی سرد جنگ” کا بہت زیادہ امکان ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close