انڈیا کی تاریخ کے معروف ترین ٹھگ نٹور لال کی کہانی، جن پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔۔

ویب ڈیسک

نٹور لال انڈیا کے ان کرداروں میں سے ایک ہیں، جنہیں کئی کہانیوں کا موضوع بنایا گیا اور ان پر بالی وڈ نے کئی فلمیں بھی بنائیں۔ ان کی زندگی پر بنی ایسی ہی ایک فلم میں امیتابھ بچن نے بھی کام کیا

اگرچہ نٹور لال کے گاؤں والے انہیں ’رابن ہُڈ‘ قرار دیتے ہیں لیکن دیگر لوگ ایسا نہیں سوچتے، ان کے نزدیک وہ انڈیا کی تاریخ کے معروف ترین جعل ساز اور ٹھگ تھے، جو تاج محل کے علاوہ ایوانِ صدر، پارلیمنٹ ہاؤس اور ملک کی اہم عمارات فروخت کرنے میں بھی نہ ہچکچائے اور حیران کن طور پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے

پیرس میں وکٹر لسٹنگ نامی ایک شخص نے اگر ایفل ٹاور کو دو بار بیچا تھا تو انڈیا کے نٹور لال نے خود کو سرکاری افسر ظاہر کرتے ہوئے تاج محل کو ایک دو بار نہیں، بلکہ تین بار غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا

پولیس دستاویزات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ نٹور لال کا پیدائشی نام متھلیش کمار سریواستو تھا اور وہ انڈیا کی شمالی ریاست بہار کے ضلع سیوان کے بانگڑا گاؤں میں بیسویں صدی کی دوسری دہائی کی ابتدا میں پیدا ہوئے۔ کچھ دستاویزات کے مطابق ان کی پیدائش 1913ع کی ہے، جبکہ کچھ لوگ ان کی پیدائش کا سن 1912 بتاتے ہیں

نٹور لال پر اپنی ناقابلِ یقین مہارت اس وقت منکشف ہوئی، جب انہوں نے اپنے پڑوسی کے جعلی دستخط کیے۔ وہ پڑوسی انہیں اکثر اپنے بینک ڈرافٹ جمع کروانے کے لیے بینک بھیجا کرتے تھے۔
نٹور لال کو اُس دن پتہ چلا کہ بینک سے پیسے نکالنے کے لیے صرف بینک کے اکاؤنٹ ہولڈر کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر انہوں نے اپنی اس مہارت کو استعمال کرتے ہوئے ٹھگی کی ابتدا کی اور اپنے پڑوسی کے ایک ہزار روپے نکال لیے، جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی

پڑوسی کو اُن کی اس دھوکہ دہی کا پتہ چلتے چلتے نٹور لال بِہار سے ان کے پیسے لے کر کلکتہ رفوچکر ہو چکے تھے۔ کلکتہ آ کر انہوں نے کپڑوں کے کاروبار میں قسمت آزمائی کی، ناکامی ہوئی تو جعلی دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے حکومت کا نو ٹن لوہا بیچ دیا

تاہم اس بار وہ دھر لیے گئے اور انہیں مغربی بنگال کی پولیس نے سب سے پہلے اسی کیس میں پکڑا اور انہیں چھ ماہ قید کی سزا ہوئی

جیل سے نکلنے کے بعد نٹور لال نے طوائفوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ وہ انہیں ایک ایسی نشہ آور چیز فروخت کیا کرتے تھے، جسے ’طوائف زہر‘ کے نام سے جانا گيا۔ پولیس نے الزام عائد کیا کہ وہ طوائفوں کو منشیات کا عادی بناتے تھے اور آخر میں ان کے پیسے لے کر فرار ہو جاتے تھے

وہ دوسری بار پکڑے گئے لیکن اس بار انہیں جیل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔وہ ریلوے میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے لگے اور جعلی سرکاری دستاویزات، ریلیز آرڈرز اور سامان کو غائب کرنے کے لیے چیک جاری کرتے رہے

1940ع کی دہائی میں انہیں کپڑے کے لین دین میں ہیراپھیری کی وجہ سے بہت شہرت حاصل ہوئی اور اخباروں میں انہیں ’ٹیکسٹائل کنگ‘ کے نام سے جانا گيا۔ یہی وہ زمانہ تھا، جب متھلیش کمار نامی یہ نوجوان ’نٹور لال‘ کہلایا

ہندوستان کی آزادی کے بعد پچاس اور ساٹھ کی دہائی کا عہد نٹور لال کے عروج کا دور تھا

سنہ 1957 میں نٹور لال نے جب کانپور جیل سے راہِ فرار اختیار کی تو یہ انڈیا کی تاریخ میں جیل توڑنے کا مقبول ترین واقعہ بن گیا

راجیو گاندھی کے دورِ حکومت میں اُس وقت کے وزیر خزانہ نارائن دت تیواری کے اسسٹنٹ بن کر نٹور لال دِلی کے ایک تاجر کے پاس پہنچے اور وہاں جا کر یہ کہا کہ بیرون ملک سے آئے مہمانوں کو تحفے میں گھڑیاں دی جانی ہیں، لہٰذا انہوں نے وہاں سے 93 گھڑیاں لیں اور انہیں ایک فرضی چیک تھما کر نکل گئے۔ چیک کے فرضی ہونے کا علم نٹور لال کے جانے کے بعد ہوا

کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس دوران اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ وکالت کی ڈگری بھی لی

وکالت کی ڈگری کیا ملی، مانو اب تو نٹور لال کے ہاتھ الہ دین کا چراغ لگ گیا تھا۔ انہوں نے اپنی قابلیت کی بنا پر سرکاری دستاویزات میں جعل سازی شروع کر دی۔ انہوں نے سینکڑوں دکان داروں، جوہریوں، بینکاروں اور بیرونِ ملک سے آئے افراد کو لُوٹا۔ یہاں تک کہ انڈیا کے پہلے صدر جمہوریہ راجندر پرساد، معروف صنعت کار ٹاٹا اور دھیرو بھائی امبانی جیسی شخصیات کو بھی نہ بخشا

نٹورلال نے ان کے دستخطوں میں بھی مہارت حاصل کر لی۔ 50 کی دہائی کے اوائل تک ان کی جعل سازی کی داستانیں اخباروں کی زینت بننے لگی تھیں

انہوں نے پٹنہ، میرٹھ، الہ آباد، حیدرآباد اور ممبئی جیسے شہروں میں اپنی دھاک جما لی تھی لیکن ہر جگہ ان کی شناخت مختلف ہوا کرتی تھی

نٹور لال کی کہانی میں تاج محل کی فروخت کا واقعہ تو سب سے دلچسپ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ سرکاری دستاویز بنانا ان کے لیے مشکل نہیں تھا، انہوں نے اپنی اس مہارت کو استعمال کرتے ہوئے تاج محل کو ہی بیچ دیا۔ اس سودے کی دستاویز میں تاج محل کے بارے میں تمام کاغذات موجود تھے

سونے پر سہاگا یہ کہ انہوں نے اس طرح ایک نہیں، دو نہیں بلکہ تین مرتبہ تاج محل کو غیر ملکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا اور اپنی ماہرانہ صلاحیت کی وجہ سے اس معاملے میں کبھی پولیس کے ہاتھ کچھ نہ لگا

انہوں نے بنیادی طور پر تاج محل کو تین بار بیچنے پر ہی بس نہیں کی۔۔۔ بلکہ اس مائی کے لال نے لال قلعہ کو دو بار، راشٹرپتی بھون یعنی ایوان صدر کو ایک بار اور انڈین پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اس کے 545 ارکان کو انڈیا کے صدر راجندر پرساد کے فرضی دستخط نقل کر کے غیر ملکیوں کے ہاتھوں بیچ دیا

نٹور لال انڈیا کی آٹھ ریاستوں میں ایک سو سے زیادہ پولیس مقدمات میں مطلوب تھے۔ ریاست بہار کے دربھنگہ ضلع کی عدالت نے انہیں سترہ سال کی سزا سنائی، سنگھ بھوم کی عدالت نے انہیں انیس سال کی سزا سنائی، پٹنہ کے جج نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی۔ یوں ان چودہ فیصلوں میں ان کی مجموعی سزا ایک سو تیرہ سال بنتی ہے

متعدد جرائم میں مطلوب نٹور لال جیل میں جانے کے بعد بھی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے تھے اور پھر اخباروں کی سُرخیاں جہاں لوگوں میں سنسنی پیدا کرتیں، وہیں پولیس کی ناکامی کا اشتہار بھی ہوتی تھیں

جیل سے ہر بار منفرد طریقے سے فرار ہونے کے ہُنر کی بدولت انہوں نے اپنی سزا کے بمشکل بیس سال ہی جیل میں گزارے۔ انہیں مجموعی طور پر نو بار گرفتار کیا گیا اور ہر بار وہ اپنے گرفتار کرنے والوں کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہے

سنہ 1957 میں نٹور لال نے جب کانپور جیل سے راہِ فرار اختیار کی تو یہ انڈیا کی تاریخ میں جیل توڑنے کا مقبول ترین واقعہ تھا۔ انہیں آخری بار 1987 میں گرفتار کیا گیا اور بیس سال قید کی سزا سنائی گئی

وہ 1996ع میں ایک بار پھر جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، جب ان کی عمر چوراسی سال تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ ٹانگوں سے معذور ہونے کی وجہ سے پولیس انہیں علاج کے لیے کانپور جیل سے دِلی کے مشہور ہسپتال ایمس لے جا رہی تھی کہ دِلی اسٹیشن پر پولیس افسر یہ سوچ کر کسی کام میں مصروف ہو گئے کہ ایک معذور کیا بھاگ سکے گا۔
لیکن سامنے بھی نٹور لال تھے۔۔ کیونکہ پولیس افسر کو اس وقت خفت کا سامنا کرنا پڑا، جب وہ ایک بار پھر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی نظر نہیں آئے

وہ ایک بار پولیس افسر کی وردی چُرا کر پولیس انسپکٹر کا لباس پہن کر جیل سے فرار ہوئے تھے

کبھی تو اپنی کال کوٹھری کے گارڈ کو رشوت دے کر جیل کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو جاتے تو کبھی کسی اور طریقے سے۔ جیل سے فرار ہونے کے بعد متھلیش کمار عرف نٹور لال اکثر یہ کہا کرتے کہ کوئی بھی جیل انہیں روک نہیں سکتی کیونکہ وہاں ہمیشہ ایک بے ایمان پولیس والا ہوتا ہے

نٹور لال کی اس دھوکہ دہی کے فن نے بالی وڈ کی تین فلموں کو متاثر کیا، دو فلمیں تو ان کے عرفیت کے نام پر ہی بنائی گئیں۔ 1979 میں ریلیز ہونے والی فلم ’مسٹر نٹور لال‘ میں تو امیتابھ بچن نے ان کے کردار کو نبھایا جبکہ دوسری فلم 2014 میں ریلیز ہوئی جس کا نام ’راجا نٹور لال‘ تھا، اور اس میں عمران ہاشمی نے ان کا کردار ادا کیا۔ اس فلم کا مکالمہ نٹور لال کی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ ’میں پیدائشی 420 ہوں، جمورا نہیں، کرتب دِکھا کر ہاتھ نہیں پھیلاتا، جال پھیلاتا ہوں اور پھر اس جال پر مال۔‘

ایسی ہی ایک اور فلم ’بنٹی اور ببلی‘ بھی اُن سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ اس فلم میں امیتابھ کے بیٹے ابھیشیک بچن نے نٹور لال کا کردار ادا کیا

نیوز چینل ’آج تک‘ نے 2009 میں جب نٹور لال کے گاؤں کا دورہ کیا تو ایک رپورٹر کے بار بار نٹور لال کہنے پر مقامی افراد ناراض ہو گئے اور سخت لہجے میں اُنہیں نام سے پہلے مسٹر لگانے کی تاکید کی

گاؤں والے نٹور لال کو رابن ہُڈ کی طرح دیکھتے ہیں اور ان کا مجسمہ نصب کرنے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں

نٹور لال 1996 کے بعد دوبارہ 2009 میں اس وقت شہ سرخیوں میں آئے، جب اُن کے وکیل نے اُن کی موت کے بعد اُن کے سارے مقدمات کو بند کرنے کی عرضی ڈالی،جس میں وکیل کا کہنا تھا ”اُن کی موت 25 جولائی 2009 کو ہوئی“ جب کہ ان کے بھائی کا دعویٰ تھا کہ ”انہوں نے 1996 میں رانچی میں اپنے بھائی کی آخری رسومات ادا کی تھیں“

بہرحال نٹور لال۔۔۔ معاف کیجیے گا۔۔ مسٹر نٹور لال کی زندگی کی طرح اُن کی موت بھی ایک راز ہے، جس سے کبھی پردہ نہیں اُٹھ سکا۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close