پاکستان کے مختلف خطوں میں صدیوں سے افریقی نسل کے لوگ مقیم ہیں جنہیں سندھ میں ’شیدی‘ اور بلوچستان میں ’مکرانی‘ کہا جاتا ہے جبکہ بعض لوگ انہیں حبشی بھی کہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شیدی افریقی زبان کے لفظ ’سدی‘ کا بگڑا ہوا روپ ہے جو حقیقت میں عربی کے لفظ ’سیدی‘ سے نکلا ہے جس کے معنیٰ آقا کے ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سدی یا سیدی جو بعد میں شیدی کہلائے، آقا نہیں بلکہ وہ غلامی کے بدترین دور سے گزرے ہیں۔
سندھ اور بلوچستان میں موجود شیدی اب بھی سمندری علاقوں کے قریب بستے ہیں۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ افریقی نسل کے یہ لوگ ہزاروں کلومیٹر دور اپنے وطن سے یہاں کیسے پہنچے؟
کہا جاتا ہے کہ جب محمد بن قاسم نے سندھ پرحملہ کیا تو ان کے ساتھ غلام شیدی سپاہی بھی تھے جو محمد بن قاسم کی فتح کے بعد یہیں بس گئے۔ اس لیے یہ مانا جاتا ہے کہ عربوں کی آمد کے ساتھ شیدی سندھ آئے تھے۔
تاریخی اوراق کے مطابق افریقہ کے مشرقی سمندری کناروں پر غلاموں کی بڑی تعداد میں تجارت ہوا کرتی تھی جس پر عرب تاجروں کی اجارہ داری تھی۔ زنجبار اور مسقط میں غلاموں کی بہت بڑی منڈیاں ہوا کرتی تھیں جہاں سے عرب تاجر، شیدی غلاموں کو خرید کر ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں تھوک کے حساب سے فروخت کیا کرتے تھے۔
ہندوستان میں ان غلاموں کے بڑے خریدار، سلطان، نواب، راجا، رئیس اور جاگیردار ہوا کرتے تھے۔ آج کا کراچی ان دنوں ’کلاچی‘ جبکہ ممبئی ’کولابا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہاں کولھی ماہی گیروں کی بستیاں ہوا کرتی تھیں۔
خانہ بدوشوں پر تحقیق کرنے والے مصنف خورشید قائم خانی لکھتے ہیں کہ ’یورپی نو آبادکاروں کے زمانے میں جب ان دونوں بستیوں کو بندرگاہ کی حیثیت دی گئی تو اس بندرگاہ پر غلاموں کی بڑے پیمانے پر تجارت ہوا کرتی تھی‘۔ کیپٹن چارلس کے مطابق 1794ء میں کراچی بندرگاہ کا سالانہ محصول 21 لاکھ روپے ہوا کرتا تھا جو افریقی غلاموں کی فروخت سے حاصل کیا جاتا تھا۔
کراچی، ممبئی اور جنوبی ایشیا کی دیگر بندرگاہوں پر جو غلام فروخت ہوتے تھے، انہیں افریقہ سے لایا جاتا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سیاہ فام لوگوں کو ان کے اپنے والدین فروخت کرتے تھے یا انہیں اغوا کرکے ان علاقوں تک لایا جاتا تھا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اس کے 3 یا 4 طریقے ہوا کرتے تھے۔
ان میں سے ایک یہ تھا کہ عرب تاجر افریقی سمندر کے کناروں پر اپنے بحری جہاز لنگر انداز کرتے اور وہیں ڈیرہ جما لیتے تھے۔ یہ تاجر اپنے بحری بیڑوں سے اتر کر آس پاس کے گاؤں میں چلے جاتے اور بچوں کو ٹافیاں، گُڑ اور دیگر میٹھی چیزیں کھانے کے لیے دیتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ ان میں گُھل مل جاتے اور ایک دو ہفتوں کے بعد گاؤں والوں کو کہتے کہ ان کے جہازوں پر اور بھی بہت ساری کھانے پینے کی اشیا ہیں۔ اسی بہانے وہ ان کو بحری جہازوں تک لے آتے اور جب بڑی تعداد میں بچے، خواتین اور مرد بحری جہاز میں سوار ہوجاتے تو لنگر کھول کر جہاز کو لے جاتے۔ اس طرح انہیں اغوا کرکے فروخت کردیا جاتا تھا۔
محمد صدیق مسافر نے75 سال پہلے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’غلامی اور آزادی کے عبرت ناک نظارے‘ ہے۔ اس کتاب میں مسافر صاحب لکھتے ہیں کہ وہ افریقہ سے لائے گئے ایک غلام کے بیٹے تھے۔ ان کے والد کس طرح سندھ پہنچے اور فروخت ہوتے ہوتے کیسے ضلع بدین کی تحصیل ٹنڈوباگو پہنچے یہ انتہائی دلچسپ کہانی ہے۔
اس قصے کو آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور قصے کا ذکر کرتے چلیں۔ محمد صدیق مسافر اپنی اسی کتاب کے صفحہ 79-80 پر لکھتے ہیں کہ انہیں ایک عمر رسیدہ بزرگ نے بتایا تھا کہ عرب سوداگران کا ایک بحری بیڑا انہیں زنجبار سے اٹھا کر مسقط لایا تھا۔ دورانِ سفر بہت سارے غلام تھے جو بیمار ہوگئے تو انہیں زندہ ہی سمندر میں پھینک دیا گیا۔ جب بیڑا بندرگاہ پر پہنچا تو کافی لوگ ایسے تھے جو مرچکے تھے یا مرنے کے قریب تھے انہیں سمندر کنارے پھینک دیا گیا۔ باقی جو بچ گئے ان میں سے جو مرد تھے انہیں ایک سیٹھ کی کوٹھی پر لایا گیا۔ یہ سیٹھ ایک تخت پر ریشمی گدے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس بحری جہاز پر جو خواتین اور بچے تھے وہ کہاں گئے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔ تخت پر بیٹھے سیٹھ نے غلاموں کو گننے کے بعد حکم دیا کہ ان کو گوداموں میں داخل کردو۔
اس عمر رسیدہ بزرگ کے مطابق وہ جب گودام میں پہنچے تو پہلے ہی سیکڑوں کی تعداد میں وہاں شیدی غلام موجود تھے۔ یہ سیٹھ روزانہ صبح آتا اور غلاموں کو قطار میں کھڑا کرتا اور ان میں سے مضبوط جسم والے موٹے تازے غلاموں کی نشاندہی کرتا۔ ان کے بازو پیچھے پیٹھ پر باندھ دیے جاتے۔ انہیں باہر لاکر ایک احاطے میں بٹھایا جاتا۔ اس سیٹھ کے نوکر بڑے نیزے ہاتھوں میں پکڑ کر ان کے قریب آتے اور ایک ہی وقت میں سر پر اپنی تمام قوت کے ساتھ اتنی تیزی سے مارتے کہ یہ نیزے سر کو پار کرتے ہوئے نیچے تک آجاتے۔ ایک چیخ نکلتی اور شدید خون بہتا۔ وہاں آگ پر دیگیں پہلے ہی چڑھی ہوتی تھیں اور ان غلاموں کی لاشوں کو دیگوں کے اوپر ٹانگ دیا جاتا تھا۔ ان کے جسم سے جو چربی نکلتی وہ دیگ میں گرتی تھی اور اس سے مردانہ طاقت کی دوا بنائی جاتی جو بھاری قیمت میں فروخت ہوتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ شیدیوں کو غلام بناکر فروخت کرنے کی ابتدا مصر اور عرب کے سوداگروں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے بھی پہلے شروع کی تھی۔ محمد صدیق مسافر لکھتے ہیں کہ شیدیوں کی غلامی سے مصریوں اور عربوں کو بہت فائدہ ہوتا تھا۔ گدھے، گھوڑوں اور دیگر جانوروں کی سوداگری سے زیادہ شیدیوں کی خرید و فروخت سے فائدہ ہوتا تھا۔ یہ تاجر شیدیوں کو بھی جانوروں کی طرح فروخت کرتے تھے۔ جانوروں کی خریداری پر زیادہ جبکہ شیدیوں کی خریداری پر کم اخراجات ہوتے تھے۔ جو آدمی غلام خرید کر اپنے ساتھ رکھتا تھا، اس کا ملازم رکھنے کا خرچہ بھی بچ جاتا تھا۔ دوا فروش سوداگر، شیدیوں کے جسم سے انتہائی قیمتی دوا بناتے تھے۔ میدان جنگ میں لڑائی کے لیے بھی شیدی سپاہیوں کو پہلی قطار میں کھڑا کیا جاتا تھا۔
محمد صدیق مسافر کے والد کیسے سندھ پہنچے، اس بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’6 یا 7 برس کی عمر میں ان کے والد غلام بن کر مسقط پہنچے تھے۔ غلاموں کی تجارت کرنے والے شیخ حسین نامی تاجر نے غلاموں سے بھرا بیڑا خریدا تھا جس میں بچے خواتین اور مرد شامل تھے لیکن صدیق مسافر کے والد اس میں اکیلے تھے۔ شیخ حسین نے اس 7 برس کے بچے کو اپنے گھر کے کام کاج کے لیے رکھ لیا۔ اس نے اس بچے کی ختنہ کروائی اور نام بلال رکھا۔ بلال، شیخ حسین کے گھر میں دو سال رہا۔ اس کے بعد اس تاجر نے غلاموں کے ایک بڑے ٹولے کو فروخت کرنے کے لیے سندھ روانہ کردیا جس میں کمسن بلال بھی شامل تھا۔ سب غلام بک گئے اور بلال کو ٹھٹہ شہر میں ایک سنگ تراش غلام علی نے خرید لیا۔
ان دنوں سندھ پر تالپوروں کی حکمرانی تھی۔ میر باگو خان تالپور ان سپہ سالاروں میں سے ایک تھے جنہوں نے کلہوڑا حکمرانوں سے جنگ کی تھی۔ تالپوروں نے جب سندھ فتح کرلیا تو میر باگو خان نے حکومت میں حصہ دار بننے کے بجائے زیریں سندھ میں جاگیردار بننے کو ترجیح دی۔ انہوں نے ٹنڈوباگو شہر کی تعمیر کروائی اور اپنے خاندان سمیت وہاں منتقل ہوگئے۔ میر باگو خان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے بیٹے میر ولیہ خان کو اپنا نیا گھر بنوانا تھا، اس سلسلے میں انہوں نے ٹھٹہ سے سنگ تراش بلوائے جن میں غلام علی بھی شامل تھا۔ غلام علی اپنے عیال اور غلام بلال کے ساتھ ٹنڈوباگو پہنچا اور باگو نہر کے کنارے عارضی گھر بناکر قیام پذیر ہوا۔
ایک صبح غلام علی بازار سے مچھلی لایا اور اپنی اہلیہ کو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسے دوپہر کو کھائے گا۔ سنگ تراش کی بیوی نے مچھلی کاٹ کر دھونے کے لیے غلام بلال کو دی اور کہا کہ وہ اسے نہر سے دھوکر لائے، بلال نہر پر گیا اور وہ مچھلی سے بھری تھالی اس کے ہاتھوں سے پھسل کر نہر میں گر گئی، وہ روتا ہوا گھر پہنچا۔ سنگ تراش کی بیوی بھی پریشان ہوئی۔ دوپہر کو غلام علی پہنچا تو خالی روٹی سامنے دیکھ کر طیش میں آگیا اور پوچھا کہ مچھلی کہاں ہے؟ بیوی نے ساری کہانی سنائی تو غلام علی غصے سے لال ہوگیا۔ اس نے بلال پر تشدد کرنا شروع کردیا۔ کچھ دیر بعد جب وہ تھک گیا تو اسے کان سے پکڑ کر بازار کی طرف لے آیا۔
مار کھاتے غلام کو دیکھ کر اس وقت کے ٹنڈوباگو کے ایک معزز مخدوم حر علی جو وہاں راستے میں کھڑے تھے، انہوں نے سنگ تراش غلام علی سے بچے کو مارنے کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ یہ نکما ہے اور وہ اسے بیچنے جا رہا ہے۔ مخدوم حر علی نے اسی وقت غلام کے پیسے ادا کیے اور اسے اپنے گھر لے آیا۔
مخدوم صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے ان کی اہلیہ غلام کو اپنی اولاد کی طرح پیار کرتی تھیں۔ محمد صدیق مسافر لکھتے ہیں کہ ایک بار جب بلال بہت بیمار ہوا تو اس کا نام تبدیل کرکے گلاب رکھ دیا گیا۔ گلاب یہیں پلا بڑھا اور مخدوم حر نے ایک شیدی غلام عورت کو خرید کر اس کے ساتھ گلاب کی شادی کروادی۔
1843ء میں جب انگریزوں نے سندھ فتح کیا تو ایک عام اعلان کے ذریعے تمام غلاموں کو آزاد کرنے کا اعلان کردیا گیا۔ غلاموں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ گلاب سمیت سندھ بھر میں تمام غلام شیدی آزاد ہوگئے اور اس سیاہ فام نسل کو پہلی بار اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے ناقابلِ تصور خوشگوار احساس سے گزرنے کا موقع ملا۔
گلاب شیدی جس نے اپنے اجداد کی طرح نہ کبھی ماں دیکھی نہ باپ، اس پر نسلوں سے جاری غلامی کا یہ سلسلہ ختم ہوا۔ جہاں ایک جانب سندھ انگریزوں کے قبضے میں آچکا تھا وہیں دوسری جانب صدیوں سے غلامی کی زندگی گزارنے والی نسل اپنے آقاؤں کے قبضے سے آزاد ہوچکی تھی۔
غلام گلاب شیدی کے بیٹے محمد صدیق مسافر کی اعلیٰ تعلیمی خدمات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔ محمد صدیق مسافر اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ’1919ء میں ترک موالات کی تحریک کے وقت وہ حیدرآباد میں ٹریننگ کالج میں ملازمت کیا کرتے تھے۔ اس تحریک کے بارے میں ایک نومسلم ملازم کے ساتھ بات چیت کرنے کو بنیاد بناکر ان کے خلاف شکایت کی گئی اور وہ چھٹی لےکر ٹنڈوباگو آگئے۔ حسبِ عادت وہ وہاں کے جاگیردار خان بہادر میر غلام محمد خان تالپور سے ملنے گئے اور سارا قصہ بیان کیا تو میر صاحب نے محمد صدیق مسافر کو کہا کہ میں تو ایسے موقع کی تلاش میں تھا جو اب مل گیا ہے۔ تم جاؤ، چھٹی لو، باقی کام میں دیکھ لوں گا‘۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’میں اپنا سامان حیدرآباد سے لےکر واپس ٹنڈوباگو آیا تو میر صاحب اپنے پڑوس میں ایک جگہ کرائے پر لے چکے تھے۔ لکڑی کے چار پانچ بینچز بنوائے اور اس طرح یکم جنوری 1920ء کو ایک انگریزی اسکول قائم ہوا۔ اس اسکول میں ابتدائی طور پر 15 شاگرد تھے لیکن 1921ء میں یہ تعداد بڑھ کر 40 تک پہنچ گئی۔ بعدازاں اس اسکول کے لیے ہاسٹل بھی بنایا گیا جس میں میر غلام محمد تالپور کتابوں سے لےکر کھانے پینے کے تمام اخراجات اٹھاتے تھے‘۔
1914ء میں میر غلام محمد تالپور نے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر انگریز حکومت کو ایک لاکھ روپے جنگی قرضہ دیا تھا جو انہوں نے واپس نہیں لیا تھا۔ انہوں نے سود سمیت یہ رقم واپس لی اور اسکول کے انڈوومنٹ فنڈ میں رکھوائی۔ اسکول کی عمارت کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔ اب انڈوومنٹ فنڈ میں ڈھائی لاکھ روپے جمع ہوچکے تھے۔ یہ اسکول آج بھی ٹنڈوباگو میں موجود ہے جو میر غلام محمد تالپور اور محمد صدیق مسافر کی تعلیمی خدمات کا گواہ ہے۔
غلامی کی تاریخ ہزاروں سالوں پر مشتمل ہے اور اس کی ہزاروں کہانیاں ہیں۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ سیاہ فام نسل کو آزادی دلانے کی ابتدائی تحریک سفید فاموں نے ہی شروع کی تھی اور اب جب انسان ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ صدیوں کی غلامی کے آثار ذہن کے کسی گوشے میں اب بھی شیدیوں کا پیچھا کرتے ہیں۔
آج 21ویں صدی میں بھی امریکا ہو یا سندھ و مکران، سیاہ فام لوگوں کو اپنی چمڑی کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اس سیاہ فام سندھی اور بلوچ نسل کی تعداد موجودہ آبادی میں بہت کم ہے لیکن حسِ مزاح رکھنے والے یہ لوگ آج بھی بہت سے لوگوں کی حقارت کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک مثال کراچی کی قدیم بستی لیاری میں دہائیوں سے عالمی سطح کے بہترین فٹبالرز پیدا ہوئے ہیں لیکن ریاست کی پشت پناہی نہ ہونے کے باعث صلاحیتوں سے بھرپور یہ نوجوان ضائع ہوجاتے ہیں۔
غلامی کو ختم ہوئے ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہ گزر گیا ہے لیکن گندمی چمڑی کے آقاؤں کے مزاج کے اثرات اب بھی باقی ہیں جو ان لوگوں کو برابر کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
مگرمان جسے انگریزی میں میسنڈو کہا جاتا ہے، یہ افریقی ڈھول ایک بیرل کی طرح ہوتا ہے جس کی آواز سن کر آج بھی شیدی بے خود ہوجاتے ہیں۔ مگرمان کے چاروں طرف آگ جلاکر اسے بجایا جاتا ہے اور شیدی اس ڈھول کے چاروں طرف گھوم کر رقص کرتے ہیں۔
خورشید قائم خانی کے مطابق رقص کے دوران یہ صدیوں پرانا گیت دہراتے ہیں۔ عربی اور افریقی زبان سے وہ واقف نہیں لیکن اس گیت کے ذریعے وہ اپنے اجداد کو یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بچھڑ رہے ہیں، کون جانے پھر کب ملیں، وٹو ما۔ یہ ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں، اے طوفان! ہماری مدد کر۔ سمندر میں ہم ساتھ رہیں گے اور ساتھ ہی ڈوب مریں گے‘۔
بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)