یہ کہانی ہے ہندوستان میں انیسویں صدی کے ان ٹھگوں کی، جو ٹھگوں کے بارے میں ہمارے ذہنوں میں موجود عام تصور کے بلکل برعکس ہے۔۔ جی ہاں! یہ صرف ایسے ٹھگ نہیں تھے، جو جھانسا دے کر کچھ قیمتی سامان ٹھگ لیتے تھے، بلکہ ان کی کاروائیاں اس حد تک ظالمانہ طرزِ عمل پر مبنی تھیں کہ ان کے بارے میں جان کر انسان کی سفاکی پر حیرت ہوتی ہے
ان ٹھگوں کے بارے میں سب سے جامع معلومات سنہ 1839 میں شائع ہونے والی ’کنفیشنز آف اے ٹھگ‘ نامی کتاب سے ملتی ہیں، جس کے مصنف پولیس سپریٹنڈنٹ فلپ میڈوز ٹیلر تھے، لیکن کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے ’اسے صرف قلم بند کیا ہے۔‘
دراصل، ساڑھے پانچ سو صفحات کی یہ کتاب ٹھگوں کے ایک سردار امیر علی خان کا ’کنفیشن‘ یعنی اعترافی بیان پر مشتمل ہے
فلپ میڈوز ٹیلر نے امیر علی خان سے جیل میں کئی دنوں تک گفتگو کی اور اس کو قلمبند کرتے گئے۔ ٹیلر کے مطابق ’ٹھگوں کے سردار نے جو کچھ بتایا، اسے میں تقریباً لفظ بہ لفظ لکھتا گیا، یہاں تک کہ اسے ٹوکنے یا پوچھنے کی ضرورت بھی کم ہی پڑتی تھی‘
فلپ میڈوز ٹیلر کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیا گیا امیر علی خان کا بیان اتنا تفصیلی اور دلچسپ تھا کہ وہ ایک ناول بن گیا اور چھپتے ہی اس نے دھوم مچا دی۔ رڈیارد کپلنگز کے مشہور ناول ’کم‘ (اشاعت:1901) سے تقریباً چھ دہائیاں قبل شائع ہونے والی اس کتاب کی ایک اور خاصیت تھی کہ یہ کسی انگریز کا نظریہ نہیں، لیکن ایک ہندوستانی ٹھگ کا ’فرسٹ پرسن اکاؤنٹ‘ یعنی اس کی اپنی کہانی ہے، جو اس نے خود سنائی
ٹیلر کا کہنا ہے کہ امیر علی خان جیسے سینکڑوں سردار تھے، جن کی سرپرستی میں ٹھگی کا دھندا چل رہا تھا۔ امیر علی خان سے جب ٹیلر نے پوچھا کہ تم نے کتنے لوگوں کو مارا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا ”اور صاحب، وہ تو میں پکڑا گیا، نہیں تو ہزار پار کر لیتا۔ آپ لوگوں نے 719 پر ہی روک دیا“
اس زمانے میں ٹھگی کی وارداتوں میں اس قدر اضافہ ہوا کہ انگریزوں کو ان سے نمٹنے کے لیے ایک الگ محکمہ بنانا پڑا تھا، وہی محکمہ بعد میں انٹیلیجنس بیورو یا آئی بی کے نام سے جانا گیا
ٹیلر کے مطابق ”اودھ سے لے کر دکن تک ٹھگوں کا جال پھیلا ہوا تھا، انھیں پکڑنا بہت مشکل تھا کیونکہ وہ بہت خفیہ طریقے سے کام کرتے تھے۔ انھیں عام لوگوں سے الگ کرنے کا کوئی طریقہ ہی سمجھ نہیں آتا تھا۔ وہ اپنا کام منصوبہ بندی اور بے حد چالاکی سے کرتے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو“
ٹھگوں سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ڈپارٹمنٹ کے سپریٹنڈنٹ کپٹن رینولڈز نے سنہ 1831 سے 1837 کے درمیان ٹھگوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کا 1838 میں تفصیلات بیان کی تھیں
اس بیورو کے مطابق پکڑے گئے جن 1059 لوگوں کا جرم پوری طرح ثابت نہیں ہو سکا تھا، انہیں دور ملائشیا کے پاس پیناگ جزیرے پر لے جا کر چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ دوبارہ واردات نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ 412 کو پھانسی دی گئی اور 87 کو عمر قید کی سزائے ہوئی
ٹھگوں کی پراسرار زندگی
ٹھگوں کے لیے انگریزوں نے ’سیکرٹ کلٹ‘، ’ہائی وے روبرز‘ اور ’ماس مرڈرر‘ جیسے الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ ’کلٹ‘ کہلائے جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے رسم و رواج، اقدار، روایات، اصول اور طور طریقے تھے جن کا وہ بہت پابندی سے مذہب کی طرح احترام کرتے تھے۔ ان کی اپنی ایک الگ خفیہ زبان تھی جس میں وہ آپس میں بات کرتے تھے۔ اس زبان کو رماسی کہا جاتا تھا
انڈیا میں ٹھگوں کی کمر توڑنے کا سہرا میجر جنرل ولیم ہینری سلیمن کو دیا جاتا ہے، جنہیں انگریز حکومت نے ’سر‘ کے خطاب سے نوازا تھا
سلیمن نے لکھا ہے ”ٹھگوں کے گروہ میں ہندو اور مسلمان دونوں ہیں۔ ٹھگی کی شروعات کیسے ہوئی یہ بتانا ناممکن ہے، لیکن اونچے رتبے والے شیخ سے لے کر خانہ بدوش مسلمان اور ہر ذات کے ہندو اس میں شامل تھے“
ہر واردات کے لیے مہورت نکالا جاتا تھا
چاہے ہندو ہوں یا مسلمان، ٹھگ ’شبھ مہورت‘ دیکھ کر، پوجا پاٹھ کر کے اپنے کام پر نکلتے تھے، جسے ’جتائی پر جانا‘ کہا جاتا تھا۔ ٹھگی کا موسم عام طور پر درگا پوجا سے لے کر ہولی کے درمیان ہوتا تھا
تیز گرمی اور بارش میں رستوں پر مسافر بھی کم ملتے تھے اور کام کرنا مشکل ہوتا تھا۔ الگ الگ گروہ اپنے عقیدے کے حساب سے مندروں میں درشن کرنے جاتے تھے
زیادہ تر ٹھگ گروہ کالی ماتا کی پوجا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ہر اگلے قدم سے پہلے شگن اور اپشگن کا وچار کرتے تھے۔ الّو کے بولنے، کوّے کے اڑنے، مور کے چلّانے، لومڑی کے دکھائی دینے جیسی ہر چیز کا وہ اپنے حساب سے مطلب نکالتے تھے
جتائی پر جانے سے سات دن پہلے سے ‘ساتا’، شروع جاتا تھا۔ اس دوران ٹھگ ان کے خاندان کے ارکان کھانے پینے، سونے اٹھنے اور نہانے حجامت بنانے وغیرہ کے معاملے میں کڑے اصولوں کا خیال رکھا کرتے تھے
ساتا کے دوران باہر کے لوگوں سے میل جول، کسی اور کو بلانا یا اس کے گھر جانا نہیں ہوتا تھا۔ اس دوران کوئی دان نہیں دیا جاتا تھا، یہاں تک کہ کتّے بلّی جیسے جانوروں کو بھی کھانا نہیں دیا جاتا تھا۔ جتائی سے فارغ ہو کر لوٹنے کے بعد پوجا اور خیرات جیسے کام ہوتے تھے
اسی طرح ’اٹب‘ کے اصولوں کا احترام ہوتا تھا۔ ٹھگوں کا اس بات پر یقیقن تھا کہ کام پر نکلنے سے پہلے پوری طرح تیار ہونا بہت ضروری ہوتا تھا۔ گروہ کے کسی ٹھگ کے گھر میں کوئی پیدائش یا موت ہونے پر دس دنوں کے لیے، پالتو جانوروں کی موت ہونے پر تین دن کے لیے، اور اسی طرح جنم ہونے پر سات دن کے لیے یا تو پورا گروہ رک جاتا تھا یا وہ ٹھگ کام پر نہیں جاتا تھا، جس کے خاندان میں جنم یا موت ہوئی ہو
’کسی‘ کی اہمیت
مارے جانے والے لوگوں کی قبر جس کدال سے کھودی جاتی تھی، اسے ’کسی‘ کہا جاتا تھا۔ کسی سب سے زیادہ اہمیت کی چیز تھی
تحقیق کے بعد اردو اور ہندی میں لکھے گئے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں شمس الرحمان فاروقی نے کسی کی پوجا کا طریقہ کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
”ایک صاف ستھری جگہ پر تھالی میں پانی سے کدالی کو دھو دیا جاتا ہے۔ پھر پوجا کا طریقہ کار جاننے والا ٹھگ بیچ میں بیٹھتا ہے، باقی ٹھگ نہا دھو کر اس کے چاروں طرف بیٹھتے ہیں، کدالی کو پہلے گڑ کے شربت، پھر دہی کے شربت اور آخر میں شراب سے نہلایا جاتا ہے۔ پھر تل، اور پھول سے اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ کدالی کی نوک پر سندور سے سات ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ اس کدالی سے ایک ناریل پھوڑا جاتا ہے۔ ناریل پھوٹنے پر سبھی ٹھگ، چاہے ہندو ہوں یا مسلمان ‘جے دیوی مائی کی’ بولتے ہیں“
ٹھگوں کے درمیان ایسی کہانیاں مشہور تھیں کہ ان پر کدال دیوی کا مہربانی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور خاص بات یہ تھی کہ ٹھگوں کا یقین تھا کہ اگر وہ اصولوں کا احترام کرتے ہوئے اپنا کام کریں گے تو دیوی ماں کی ان پر مہربانی رہے گی
پہلا اصول یہ تھا کہ قتل میں ایک بوند بھی خون نہیں بہنا چاہیے، دوسرا کسی خاتون یا بچے کو کسی حال میں نہیں مارا جانا چاہیے، تیسرا جب تک مال ملنے کی امید نہ ہو، قتل بالکل نہیں ہونا چاہیے
ٹیلر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ امیر علی خان کو اپنے کیے پر ذرا بھی پچھتاوا نہیں تھا۔ دوسرا سبھی ٹھگوں کے بارے میں بھی میجر جنرل سلیمن نے لکھا ہے ”وہ مانتے ہی نہیں تھے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں، جن کی نظر میں یہ مختلف پیشوں کی طرح کا ایک پیشہ تھا اور ان کے من میں ذرا بھی پچھتاوا یا دکھ نہیں تھا کہ کس طرح معصوم لوگوں کو مار کر وہ غائب کر دیتے ہیں“
ٹھگوں کا طریقہ واردات
جتائی پر نکلنے والے ٹھگوں کا گروہ بیس سے پچاس تک کا ہوتا تھا۔ وہ عام طور پر تین دستوں میں چلتے تھے، ایک پیچھے، ایک درمیان میں اور ایک آگے۔ ان تینوں دستوں کے درمیان تال میل کے لیے ہر ٹولی میں ایک دو لوگ تھے جو ایک کڑی کا کام کرتے تھے۔ وہ اپنی چال تیز یا دھیمی کرکے آگے ہوتے یا ساتھ آ سکتے تھے
زیادہ تر ٹھگ، کئی زبانیں، گانا بجانا، بھجن کیرتن، نعت، قوالی اور ہندو مسلمان دونوں مذاہب کے طور طریقے اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ ضرورت کے مطابق یاتری، باراتی، مزار کے زائرین یا نقلی جنازہ نکالنے والے بن جاتے تھے
ایک راستے میں وہ کئی بار اپنا روپ بدل لیتے تھے۔ ظاہر ہے، وہ بھیس بدلنے میں بھی خاصے ماہر تھے۔ وہ بہت اطمینان سے کام کرتے تھے، اپنے شکار کو ذرا بھی بھنک نہیں لگنے دیتے تھے۔ کئی بار تو لوگ ٹھگوں کے ڈر سے ہی اصلی ٹھگوں کو شریف سمجھ کر ان کی گرفت میں آجاتے تھے
ٹھگوں کے سردار عام طور پر پڑھے لکھے عزت دار آدمی کی طرح دکھائی دینے والے لوگ ہوتے تھے اور باقی اس کے طرح طرح کے کارندے
فلپ میڈوز ٹیلر کی کتاب ’کنفیشنز آف اے ٹھگ‘ میں امیر علی خان نے تفصیل سے بتایا ہے کہ کیسے وہ بڑے سیٹھوں اور مالدار لوگوں سے ضرورت کے حساب سے کبھی کسی نواب کے سپاہ سالار کی طرح ملتا تھا، کبھی مولوی کی طرح تو کبھی یاتری کا روپ دھار کر پنڈت کی طرح
امیر علی خان نے بتایا کہ ٹھگوں کے کام بٹے ہوئے تھے۔ ’سوٹھا‘ گروہ کے سب سے سمجھدار رکن، لوگوں کو باتوں میں پھنسانے والے لوگ تھے جو شکار کی تاک میں سرائے کے آس پاس منڈلاتے تھے۔ وہ آنے جانے والوں کی ٹوہ لیتے تھے، پھر ان کے مال اسباب اور حیثیت کا اندازہ لگا کر اسے اپنے چنگل میں پھنساتے تھے۔ امیر علی خان کے گروہ کا سوٹھا گوپال تھا جو ‘بہت ہوشیاری سے اپنا کام کرتا تھا۔‘
شکار کی پہچان کرنے کے بعد کچھ لوگ اس کے پیچھے، کچھ آگے اور کچھ سب سے آگے چلتے۔ راستے بھر دھیرے دھیرے کر کے ٹھگوں کی تعداد بڑھتی جاتی لیکن وہ ایسا ظاہر کرتے جیسے ایک دوسرے کو بالکل بھی نہیں جانتے اپنے ہی لوگوں کو جتھے میں شامل ہونے روکنے کا ناٹک کرتے تھے تاکہ شک نہ ہو۔ یہ بہت صبر کا کام تھا، ہربڑاہٹ کی کوئی گنجائش نہیں تھی
امیر علی خان نے ٹیلر کو بتایا تھا کہ کئی بار تو ہفتہ دس دن تک صحیح موقعے کا انتظار کیا جاتا تھا۔ اگر کسی گربڑ کا اندیشہ ہو تو واردات ٹال دی جاتی تھی
ایک عجیب اتفاق
سب سے آگے چلنے والے دستے میں ’بول‘ یعنی قبر تیار کرنے والے لوگ ہوتے تھے۔ انھیں درمیان والے دستے میں سے کڑی کا کام کرنے والا بتا دیتا تھا کہ کتنے لوگوں کے لیے قبر بنانی ہے۔ پیچھے والا دستہ نظر رکھتا تھا کہ کوئی خطرہ ان کی طرف تو نہیں آ رہا۔ آخر میں تینوں بہت پاس پاس آ جاتے لیکن اس کی خبر شکار کو نہیں ہوتی تھی
کئی دن گزر جانے کے بعد جب شکار چوکنا نہیں ہوتا تھا اور جگہ معقول ہوتی تھی تب گروہ کو کارروائی شروع کرنے کے لیے پہلے سے طے شدہ اک اشارہ دیا جاتا تھا جو ایک فرضی نام ہوتا تھا۔ امیر علی خان نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کے لیے ‘سرمست خاں’، ‘لدن خاں’، ‘سربلند خاں’، ‘ہری رام’ یا ‘جے گوپال’ جیسے ناموں کا استعمال ہوتا تھا
یہ پہلا اشارہ تھا کہ اب کارروائی ہونے والی ہے۔ اس کے بعد ٹھگوں میں سب سے ‘عزت دار’ لوگوں کی باری آتی تھی جنھیں ‘بھتوٹ’ یا ‘بھتوٹی’ کہا جاتا تھا
ان کا کام بنا خون بہائے رومال میں سکہ باندھ کر بنائی گئی گانٹھ سے شکار کا گلا گھونٹنا ہوتا تھا۔ ہر ایک شکار کے پیچھے ایک بھتوٹ ہوتا تھا، پورا کام ایک ساتھ دو تین منٹ میں ہوتا تھا۔ اس کے لیے مستعد ٹھگ اپنے سرغنہ کی ‘جھرنی’ کا انتظار کرتے تھے۔
جھرنی کی اصطلاح کا مطلب
جھرنی آخری اشارہ ہوتا تھا کہ اپنے آگے کھڑے یا بیٹھے شکار کے گلے میں پھندا ڈال کر کھینچا جائے۔ امیر علی خان نے ایک جھٹکے میں بارہ سے پندرہ صحتمند مردوں کا کام تمام کرنے کا عمل بے حد آسانی سے کیا ہے
اس نے ٹیلر کو بتایا کہ ’اشارہ یا جھرنی عام طور پر تمباکو کھا لو، حقہ پلاؤ یاگانا سناؤ جیسا چھوٹا واقعہ ہوتا تھا۔ پھر پلک جھپکتے ہی بھتوٹ شکار کے گلے میں پھندا ڈال دیتے تھے اور دو تین منٹ میں آدمی تڑپ کر ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔‘
اس کے بعد لاشوں سے قیمتی سامان ہٹا کر، انہیں پہلے سے کھودی ہوئی قبروں میں ’ایک کے سر کی طرف دوسرے کا پیر‘ والی ترکیب سے ڈال دیا جاتا تھا تاکہ کم سے کم جگہ میں زیادہ لاشیں آ سکیں
اس کے بعد جگہ کو ہموار کر کے اس کے اوپر کانٹے دار جھاڑیاں جو پہلے سے تیار رکھی ہوتی تھیں، لگا دی جاتیں تھیں تاکہ جنگلی جانور قبر کو کھودنے کی کوشش نہ کریں۔ اس طرح پورا قافلہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتا تھا اور ٹھگ بھی
ٹھگ کچھ الگ ہی طرح کے انسان تھے
امیر علی خان نے اپنے بیان میں بتایا کہ آج کے اترپردیش کے ضلع جالون میں وہ اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ زیادہ تر لوگ اسے مسلمان زمیندار یا سوداگر سمجھتے تھے۔ سال کے سات آٹھ مہینے وہ گھر پر ایک عزت دار مسلمان کی طرح رہتا اور صحیح وقت پر پوجا کرنے چار مہینے کے لیے ’جتائی‘ پر نکل جاتا تھا
بہت کم لوگ جانتے تھے کہ کون ٹھگ ہے، لیکن ایک پورا نیٹ ورک تھا۔ امیر علی خان کے مطابق کئی چھوٹے بڑے زمیندار اور نواب ٹھگوں سے نذرانہ وصول کرتے تھے اور مصیبت کے وقت انھیں پناہ بھی دیتے تھے لیکن انگریزوں کو اس کی بھنک نہیں لگنے دیتے تھے
اسی طرح، کئی زمینداروں نے ٹھگوں کو اپنی غیر زرعی زمین استعمال کرنے کی چھوٹ دے رکھی تھی جن میں وہ اجتماعی قبریں کھودتے تھے۔ اس کے بدلے میں انھیں ٹھگوں سے حصہ ملتا تھا
اسی طرح ہر جگہ ٹھگوں کے مخبر اور ان کے مددگار موجود تھے۔ مدد کرنے والے ان لوگوں کو تو کئی بار پتا بھی نہیں ہوتا تھا کہ کس کا ساتھ دے رہے ہیں
کون ٹھگ تھا اور کون نہیں، انگریز اس پہیلی سے لگاتار نبرد آزما رہے تھے۔ فلپ میڈوز ٹیلر نے اپنی کتاب کے آغاز میں 1825-26 کا ایک دلچسپ قصہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ‘میری تعیناتی ہنگولی میں تھی وہاں ہری سنگھ نام کا ایک بیوپاری تھا۔ ہم اس سے لین دین کرتے تھے۔ ایک دن اس نے ممبئی سے کچھ کپڑا لانے کا پرمٹ مانگا، جو اسے دے دیا گیا۔ وہ کپڑا لے آیا اور اس نے ملٹری کینٹونمنٹ میں کپڑا بیچا۔ دراصل، وہ کپڑا کسی اور بیوپاری کا تھا۔ ہری سنگھ نے اسے اور اس کے کارندوں کو مار کر کپڑا لوٹ لیا تھا۔ ہری سنگھ دراصل ٹھگ تھا۔’
انگریزوں کو ہری سنگھ کے ٹھگ ہونے کا پتا کئی سال بعد چلا جب اس نے پکڑے جانے کے بعد انگریزوں کا مذاق اڑایا اور بتایا کہ ‘کیسے کپڑے کا پرمٹ لے کر اس نے ‘گورے صاحب کو اُلّو بنایا تھا۔’
سنہ 1835 کے بعد کے سالوں میں جب ٹھگ پکڑے جانے لگے اور ان کے پول کھلنے لگے تو پتا چلا کہ ٹھگی کتنے بڑے پیمانے پر جاری تھی۔ فلپ میڈوز ٹیلز نے لکھا ہے کہ ‘میں مندسور میں سپریٹنڈنٹ تھا۔ جب ہم نے وعدہ معاف سرکاری گواہ بنے ایک ٹھگ کی نشاندہی پر زمین کھودنا شروع کی تو اتنی اجتماعی قبریں ملیں کہ ہم نے پریشان ہو کر کھدائی کرنا ہی بند کر دی۔’
ٹھگ اور افریقی غلام
شمس الرحمان فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں 1843-44 میں رامپور کے نواب کے خاص درباری مرزا تراب علی کے ٹھگوں کے ہاتھوں مارے جانے کا قصہ ملتا ہے
اس میں بتایا گیا ہے کہ ریاست بہار کے شہر سونپور میں میلے سے ہاتھی گھوڑے خریدنے کے لیے جانے والے نواب کے سپہ سالار اور ان کے چھ ساتھیوں کو ٹھگوں نے مار ڈالا
مرزا تراب علی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے بارے میں جو تفصیل ملی، اس کے مطابق ٹھگوں نے ایک مسلمان راہگیر کی نماز جنازہ پڑھانے کے بہانے اسلحے سے لیس تراب علی اور ان کے ساتھیوں کو گھوڑوں سے نیچے اتارا تھا۔ جب وہ نماز پڑھ رہے تھے، تبھی ‘تمباکو کھلاؤ’ کی آواز آئی اور سات لوگ رومال سے گلا گھونٹ کر مار ڈالے گئے
جب تراب علی رامپور لوٹ کر نہیں آئے تو نواب کو شک ہوا کہ کہیں ٹھگوں کے شکار تو نہیں بن گئے۔ انھوں نے افریقہ سے غلام بنا کر گجرات کےساحل پر لائے گئے افریقیوں کی کہانیاں سن رکھی تھیں، جنھیں ‘شیدی’ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس کام کے لیے شیدی اکرام اور شیدی منیم کی مدد لی
شیدیوں کے بارے میں فاروقی لکھتے ہیں کہ انہیں: ’نسل کے لحاظ سے شیدی اور کام لحاظ سے کھوجیا کہا جاتا تھا۔ ان کے ہنر کی بات دور دور تک پھل چکی تھی۔ انھیں گجرات سے اودھ تک بلایا جانے لگا تھا۔ قدموں کے نشان، لاپتہ لوگوں کا پتا لگانا اور مفرور لوگوں کے سراغ ڈھونڈنے میں وہ ماہر تھے۔ آپس میں وہ سواہلی میں جبکہ دوسرے لوگوں سے ہندی میں بات کرتے تھے۔‘
رامپور کے نواب نے اپنے وفادار مرزا تراب علی اور ان کے ساتھیوں کا پتا لگانے کے لیے شیدیوں کو بھیجا۔ شیدی سارے راستے ہر چیز کی باریک پڑتال کرتے چلتے رہے۔ شمس الرحمان فاروقی لکھتے ہیں کہ ’وہ ایک بڑے چکور میدان میں پہنچے جہاں انھوں نے لکڑی سے لکیریں کھینچ کر بڑے بڑے چوکور خانے بنائے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک ایک کر کے ان خانوں کو سونگھنا اور ان کی مٹی کو کریدنا شروع کیا۔ وہ کسی کھوجی کتے سے بھی زیادہ توجہ سے اپنا کام کر رہے تھے۔‘
انھوں نے ایک جگہ پہنچ کر اواز لگائی ’جمعدار جی، وہ مارا، یہاں کھدائی کرواؤ۔‘ جب وہاں کھدائی کی گئی تو مرزا تراب علی سمیت نواب کے سبھی کارندوں کی لاشیں مل گئی۔
شیدی آج بھی گجرات ریاست کے کچھ علاقوں میں بسے ہوئے ہیں، لیکن ٹھگوں کا صفایا ہو چکا ہے
ٹھگ امیر علی خان کے بارے میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسے اس ٹھگ نے بہت پیار سے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا، جس نے اس کے باپ کو ایک واردات کے دوران مار ڈالا تھا۔ عامر کو گود لینے والے ٹھگ باپ سے ٹھگی کا سبق ملا تھا، اسی وجہ سے ٹھگی کو وہ ایک نیک کام سمجھتا تھا۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں راجیش پریادرشی کے ایک مضمون سے مدد لی گئی ہے۔