گزشتہ دنوں پچپن لاپتا طلبہ کی عدم بازیابی کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے وزیرِ اعظم ، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ دفاع کو عدالت میں طلب کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے لاپتا طلبہ کے لواحقین اور انسانی حقوق کے کارکنان نے کہا ہے کہ اپنے شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے، اس لیے اگر کسی ریاستی ادارے پر کوئی الزام لگتا ہے تو اس کی وضاحت کے لیے انہیں عدالت میں جواب دہ ہونا چاہیے
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبہ کو جبری لاپتا کرنے اور ان کی پروفائلنگ سے متعلق قائم کمیشن کی رپورٹ کے بعد ان طلبہ کی عدم بازیابی پر 29 نومبر کو وزیرِ اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کو عدالت میں طلب کیا تھا۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی طرف سے وزیرِ اعظم کو طلب نہ کرنے کی استدعا کو مسترد کر دیا تھا
پاکستان میں مختلف تعلیمی اداروں سے بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگیوں اور دیگر الزامات پر قائم کردہ کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے تردید کے باوجود اس بات کے زبانی اور تحریری شواہد ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خفیہ ایجنسیاں بلوچ طلبہ کو لاپتا کرنے میں ملوث ہیں
جبکہ پاکستان کی فوج اور سیکیورٹی ادارے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ بلوچستان میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کے اہلِ خانہ ہی جبری گمشدہ ہونے کے کیسز درج کراتے ہیں
سیکیورٹی ادارے بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے اور ان کی تعلیمی اداروں میں پروفائلنگ کی بھی تردید کرتے رہے ہیں
لاپتا طلبہ کے معاملے کے حوالے سے وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کی طبی پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی سمی دین بلوچ کہتی ہیں کہ ریاست کی طرف سے جو لوگ جنگی حکمتِ عملی بنا رہے ہیں، ضروری ہے کہ انہیں آئین اور قانون کے دائرے میں کام کرنے کا پابند بنایا جائے
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگر وزیراعظم اور وزرا کو بلایا ہے تو یہ درست سمت میں قدم ہے کیوں کہ یہ بلوچستان کے عوام کی زندگیوں کا مسئلہ ہے
سمی دین بلوچ کہتی ہیں کہ وزیراعظم اور دیگر افراد کی عدالت طلبی سے عدالتوں میں انصاف کی امید پیدا ہوگی، کیوں کہ ریاست اپنے شہریوں کی حفاظت کی ذمے دار ہے اور انہیں اپنے شہریوں کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے
سمی بلوچ نے کہا ”اسلام آباد ہائی کورٹ نے جن پچپن طلبہ کے لیے کہا ہے، ان میں زیادہ تر طلبہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان طلبہ کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن نے لواحقین سے ملاقات کی اور ان کا دکھ درد سنا، لیکن افسوس یہ کہ نگراں وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ یہ رپورٹ درست نہیں ہے۔ یہ لوگ کبھی بھی ان لاپتا افراد کے پاس نہیں گئے مگر کمیشن نے مسنگ پرسنز سے مل کر مسئلے کے حل کے لیے کوشش کی ہے“
انہوں نے مزید کہا ”اگرچہ عدالتوں کی طرف سے ایکشن لیا گیا لیکن اس کے باوجود بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ بدستور جاری ہے۔ گزشتہ دس دنوں میں تین مزید نئے واقعات سامنے آئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر بلوچ طلبہ کو حراست میں لیا جا رہا ہے“
سمی بلوچ کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ کو نہیں بلکہ بلوچستان ہائی کورٹ سمیت دیگر صوبوں کی عدالتوں کو بھی ان طلبہ کے مسئلے کو اٹھانا چاہیے اور اداروں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کو عدالتوں میں پیش کریں
انہوں نے کہا ”یہ کسی معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں کہ ان کے لوگ گھروں یا تعلیمی اداروں میں محفوظ نہ رہیں۔“
بلوچ طلبہ سے متعلق رپورٹ پر کمیشن کے رکن اور بلوچستان سے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو اگر زبان کی بنیاد پر دوسروں سے الگ کیا جائے گا تو نفرت مزید بڑھے گی۔ اگر صرف زبان کی بنیاد پر انہیں الگ کرنا ہے تو پھر دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے بھی یہ پیمانہ ہونا چاہیے
سینیٹر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں ”ریاست کو اس معاملے پر جواب دہ ہونا چاہیے۔ بلوچستان کا مسئلہ سنگین نوعیت کا ہے جس کا حل ممکن تو ہے لیکن اس کے لیے ارادہ ہونا چاہیے۔ اس مسئلےکے حل میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نیک نیتی کا ہونا ضروری ہے جو بدقسمتی سے ابھی نظر نہیں آتی“
کامران مرتضیٰ نے کہا ”اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ مسنگ پرسن کی درجہ بندی کی جائے۔ پہلی کیٹیگری میں وہ لوگ ہیں، جو مارے جا چکے ہیں۔ دوسری کیٹیگری ایسے افراد کی ہے، جن کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ کا موقف ہے کہ یہ لوگ لاپتا نہیں ہیں بلکہ وہ جان بوجھ کر چھپے ہوئے ہیں۔ تیسرا گروپ ایسے افراد کا ہے، جو لاپتا ہے لیکن مشکوک نہیں ہیں اور درجہ بندی میں چوتھا نمبر ایسے افراد کا ہے، جو لاپتا ہیں اور مشکوک بھی ہیں“
انہوں نے مزید کہا ”اس کے بعد سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ کون سے اقدامات کیے جائیں، جس سے یہ واقعات پیش نہ آئیں۔ ان تمام کیٹیگریز کو دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا، جس کے لیے ہر کیٹیگری کو اسی انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے“
بلوچ طلبہ سے متعلق کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ بلوچ نوجوان اس وقت ریاست سے متنفر ہو رہے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ زبان کی بنیاد پر ان کی پروفائلنگ اور انہیں دوسروں سے الگ کرنا ہے۔ آج اگر اس پروفائلنگ کے عمل کو روک دیا جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی کچھ غلط کر رہا ہے تو قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ بلوچ طلبہ کے لیے بھی وہی پیمانہ ہونا چاہیے، جو دیگر صوبوں کے طلبہ کے ساتھ رکھا جاتا ہے
کامران مرتضیٰ کے بقول اس وقت یہ معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ اگر اسے آج درست کرنے کی طرف قدم بڑھایا جائے تو بھی اس کی مکمل اصلاح کے لیے بیس سال کا عرصہ درکار ہوگا
دوسری جانب پاکستانی فوج کے سابق لیفٹننٹ جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ پراسیکیوشن کے نظام کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کو ’مسنگ پرسن‘ جیسے قدم اٹھانے پڑتے ہیں لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے
نعیم خالد لودھی کے مطابق، ہمارا نظامِ انصاف ایسا ہے کہ مجرموں کو پناہ دی جاتی ہے اور عام شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں
انہوں نے کہا کہ ایجنسیاں جب کسی پر شک کرتی ہیں تو ان کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو پکڑ کر کچھ دن کے لیے تحقیقات کر سکیں۔ ان کو کہا جاتا ہے کہ پولیس پکڑے اور وہی تحقیقات کرے
لیکن ان کے بقول پولیس میں کرپشن کی وجہ سے مشکوک شخص پیسے دے کر باہر آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر ایسے افراد کے خلاف عدالتوں میں کیس چلانا چاہئیں تو نچلی عدالتیں انہیں قانونی موشگافیوں کی وجہ سے رہا کر دیتی ہیں۔ ایسے میں ایجنسیز کے پاس بھی محدود مواقع ہوتے ہیں
نعیم خالد لودھی کہتے ہیں ”بدقسمتی سے اس وقت معاشرے میں گھٹن موجود ہے، جس کی وجہ سے کسی کی بات کا جواب دینے کے بجائے انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی کئی لوگوں کو صرف اپنی رائے کے اظہار پر پکڑا جارہا ہے، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرے میں بات کرنے اور سننے کو فروغ دیا جائے اور اگر کوئی ریاست کے خلاف بھی ہے تو اسے دلیل کے ذریعے قائل کیا جائے“
سابق لیفٹننٹ جنرل کے مطابق، ”بلوچ طلبہ کے لیے ملک بھر میں مواقع دیے گئے، مختلف یونیورسٹیز میں ان کے لیے الگ نشستیں مختص کی گئیں اور ملازمتوں کے کوٹے بھی دیے گئے، لیکن بلوچستان ایسا علاقہ ہے جہاں مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر بلوچستان جیسی سرزمین میں انہیں کاروبار اور دیگر ملازمتوں کے مزید مواقع فراہم نہ کیے گئے تو صورتِ حال مزید خراب ہوتی رہے گی۔“