چند سائنسی ایجادات کی دلچسپ کہانی، جو حادثاتی اور اتفاقی طور پر ظہور پذیر ہوئیں

ویب ڈیسک

لیب میں غلط اندازہ لگانا یا غلط حساب لگانا تحقیقی ٹیم کے لیے بہت مہنگا ہو سکتا ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔۔بعض اوقات کوئی غلطی، اتفاق یا حادثہ سائنسی اصول یا پیش رفت دریافت کرنے کا بہانا بن جاتے ہیں جو بصورت دیگر نامعلوم ہی رہتا

جی ہاں ، بہت سی ایجادات جنہوں نے جدید معاشرے کو تشکیل دیا ہے، وہ کبھی بھی دن کی روشنی نہ دیکھ پاتیں، اگر چند غلطیاں یا اتفاقات نہ ہوتے۔۔ اور اگر سائنسدان دریافت کے ان غیر متوقع نئے راستوں کو تلاش کرنے کے لیے تیار نہ ہوتے

سائنسی تحقیق کے حوالے سے ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جب اتفاقیہ طور پر کچھ ایسا دریافت ہو گیا، جو آنے والے برسوں میں انسانی زندگی کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوا

ایسا ہی کچھ سنہ 1889 میں ہوا جب جرمنی کے دو ڈاکٹر ہاضمے کے نظام میں لبلبے کے کردار پر تجربات کر رہے تھے۔ انہوں نے اس مقصد کے تحت ایک کتے کا لبلبہ نکالا، لیکن وہ اس وقت چونک گئے، جب کتے کے پیشاب پر مکھیاں بیٹھنے لگیں اور وہ یوں اتفاقیہ طور پر انسولین دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے

آئیے سائنسی تاریخ کی چند ایسی ہی ایجادات کی دلچسپ کہانی جانتے ہیں، جنہوں نے اتفاق کی کوکھ سے جنم لیا

ایک گائے پالنے والی خاتون، ’لوک دانش‘ اور تاریخ کی پہلی ویکسین!

یہ اٹھارہویں صدی کے اواخر کی بات ہے، جب کیٹل فارمنگ سے منسلک ایک خاتون نے برطانوی طبیب ایڈورڈ جینز کو بتایا کہ ’کاؤ پاکس‘ کے مرض میں مبتلا افراد چیچک کے مرض سے متاثر نہیں ہوتے

خاتون کے اس انکشاف پر ڈاکٹر ایڈورڈ نے غور کرنا شروع کیا اور ایک مریض سے السر کا نمونہ لیا اور اسے ’جمیز فلپس‘ نامی آٹھ سالہ ایک لڑکے کو انجیکٹ کیا، جس کی وجہ سے اسے معمولی سا بخار ہوا اور تھوڑے سے دانے نکلے تاہم اس کی صحت متاثر نہیں ہوئی بلکہ اس میں بہتری دکھائی دی

چند ماہ بعد ڈاکٹر نے لڑکے کو دوسری خوراک دی، جس میں چیچک کے وائرس تھے۔ نتائج حیران کن تھے۔۔ کیوں کہ وہ چیچک کے وائرس سے متاثر نہیں ہوا تھا!

حلوہ اور مائیکرو ویو

سنہ 1945 میں امریکی انجینئر پرسی اسپینسر نے تعلیمی سلسلے کو خیر باد کہا مگر صنعت کاری میں ان کی دلچسپی نے انہیں انجینئر بنا دیا۔ وہ ’میگنیٹرون‘ کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے

ایک دن وہ ایک ایسی جگہ سے گزر رہے تھے، جہاں ’میگنیٹرون‘ کے آلات نصب تھے۔ اسپینسر کی جیب میں مونگ پھلی کے پیسٹ سے بنا ہوا حلوہ تھا۔ اسپینسر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی جیب میں رکھا ہوا حلوہ، جو ٹھوس حالت میں تھا، اچانک پگھلنے لگا

اس حیران کن انکشاف نے ان کو اپنی جانب متوجہ کیا اور یوں بالآخر مائیکرو ویو کی ایجاد کی راہ ہموار کی

اسپینسر نے اپنے تجربے کو مزید آگے بڑھانے کے لیے مکئی کے دانوں کو ان میگنیٹک ریز کے قریب کیا تو ’بوم‘ کی آواز کے ساتھ مکئی کے دانوں نے ’پاپ کارن‘ کی شکل اختیار کر کر لی۔ یوں مائیکرو ویو کے ذریعے پہلی بار کھانا پکانے کے عمل کا آغاز ہوا۔

قصہ سونے میں ملاوٹ کا پتا لگانے کا۔۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب یونان میں بادشاہ پیرو دوم کی حکومت تھی، انہوں نے ایک روز اپنے سناروں کو حکم دیا کہ وہ ان کے لیے خالص سونے کا خوبصورت تاج تیار کریں

جب تاج تیار ہو کر آیا تو بادشاہ پیرو دوم کو شک گزرا کہ سناروں نے بد دیانتی سے کام لیا ہے اور ان کے لیے تیار کیے گئے تاج میں ملاوٹ والا سونا استعمال کیا گیا ہے

اپنے شک کو دور کرنے کے لیے بادشاہ نے سائنسدان ’آرکیمیڈیز‘ کو بُلایا اور اپنا شک بیان کرتے ہوئے تاج ان کے حوالے کیا اور کہا کہ وہ معلوم کریں کہ کیا تاج میں سونے کی جگہ کسی اور چیز کی ملاوٹ تو نہیں کی گئی؟

آرکیمیڈیز خاصے پریشان ہوئے کہ وہ اس کام کو کیسے سرانجام دیں۔۔ تاج کو پگھلانا بھی ممکن نہ تھا، جس سے یہ معلوم ہو کہ تاج میں ملاوٹ کی گئی ہے یا نہیں؟

وہ انہی سوچوں میں گم عوامی حمام گئے۔۔ وہاں جب وہ نہانے کے لیے حوض میں اترنے لگے تو ایک خیال نے انہیں چونکا دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ آرکیمیڈیز جیسے ہی حوض میں اترے تو پانی چھلک کر باہر نکل آیا۔ پانی کے باہر گرنے پر غور کرتے ہوئے انہوں نے وہ گتھی سلجھا لی، جس کے حل کے لیے وہ کئی دن سے پریشان تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حل دریافت ہونے پر وہ اتنے پرجوش تھے کہ حمام سے برہنہ حالت میں ہی ’پا لیا، پا لیا‘ کہتے ہوئے باہر کو دوڑ لگا دی

اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آرکیمیڈیز نے سونے اور چاندی کے دو ہم وزن نمونے لیے کیونکہ وہ اس بات سے باخبر تھے کہ سونے کا وزن چاندی سے زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے دونوں (سونے اور چاندی کے) نمونوں کو پانی سے بھرے ایک برتن میں رکھا۔ اگرچہ دونوں نمونے مقدار میں برابر تھے لیکن چاندی جو کہ سونے کے مقابلے میں کم کثافت کی حامل تھی، مگر اس کا حجم سونے سے زیادہ تھا، جس کا مطلب یہ تھا کہ چاندی والے کنٹینر سے پانی کی زیادہ مقدار باہر نکلے گی

اب آرکیمیڈیز کو تاج کے بارے میں اپنا تجربہ دہرانا تھا، جس سے یہ ثابت ہوتا کہ تاج میں ملاوٹ کی گئی ہے یا نہیں۔۔ انہوں نے بادشاہ کے لیے بنائے گئے تاج اور دوسرا سونے کا ٹکڑا، جس کا وزن اسی تاج کے مساوی تھا، دونوں کو الگ الگ پانی سے بھرے کنٹینر میں ڈبویا

اس تجربے سے جو نتیجہ برآمد ہوا، وہ حیرت انگیز تھا کیونکہ تاج کے مساوی خالص سونے کے ٹکڑے کے کنٹینر سے نکلنے والے پانی کی مقدار کم تھی جبکہ تاج والے کنٹینر سے زیادہ مقدار میں پانی باہر گرا، جس کا مطلب واضح تھا کہ بادشاہ کا شک بے جا نہ تھا

اس طرح ’آرکیمیڈیز کے قوانین‘ منظر عام پر آئے اور ان کے ذریعے نیا ضابطہ مقرر ہوا، جس سے یہ جانچنا آسان ہو گیا کہ کس چیز میں کیا ملاوٹ کی گئی ہے

دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹیک

یہاں ڈاکٹر الیگزینڈر فلیمنگ کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا، جو 28 ستمبر 1928 کو اپنی چھٹیاں گزار کر وطن واپس لوٹے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی لیبارٹری، جہاں وہ مختلف نوعیت کے بیکٹیریاز پر تحقیق کر رہے تھے، کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے

وہ جس بیکٹیریا پر تحقیق کر رہے تھے، اس کی پلیٹ پر ’پینسیلینیم‘ فنگس نے حملہ کر دیا تھا، جس سے پلیٹ کی حالت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔۔

ڈاکٹر فلیمنگ نے ہر طرف سے فنگس لگی اس پلیٹ کا تجزیہ کرنے کا سوچا اور پلیٹ کو ایک طاقتور خوردبین کے ذریعے جانچنے لگے۔ اس کا جو نتیجہ برآمد ہوا اس سے دنیائے طب میں ایک ایسا انقلاب برپا ہوا، جس نے طبی شعبے کی تاریخ ہی بدل ڈالی

ڈاکٹر فلیمنگ نے خوردبین کے ذریعے جو مشاہدہ کیا، وہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ فنگس نے نقصان دہ بیکٹیریا کو بڑھنے سے روکا اور اسے پھیلنے نہیں دیا۔ اس طرح انہوں نے دنیا کی پہلی اینٹی بائیوٹک تیار کر لی

انسولین کی دریافت

اگرچہ دو ڈاکٹروں فریڈرک بینٹنگ اور جان میکیوڈ کو 1923 میں ذیابیطس کے علاج کے لیے انسولین پر تحقیق کرنے پر نوبل انعام دیا گیا، تاہم یہ درست نہیں کہ انسولین ان ڈاکٹروں کی دریافت ہے

دراصل اس کہانی کے آغاز کا سہرا 1889ع میں جرمنی کے دو ڈاکٹروں جوزف وان میرنگ اور آسکرمنکووسکی کے سر ہے، جنہوں نے ایک صحت مند کتے پر اپنا تجربہ کیا، جس میں انہوں نے کتے کے لبلبے کو نکالا، جس سے انہیں یہ دیکھنا تھا کہ ہاضمے کے نظام میں لبلبے کا کیا کردار ہوتا ہے؟

کتے کا لبلبہ نکالنے کے چند دن بعد ڈاکٹروں نے دیکھا کہ کتے کے پیشاب پر مکھیوں کا غول جمع ہونا شروع ہو گیا، جس کے باعث ان کے تجسس میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے پیشاب کا معائنہ کیا تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ مکھیاں کیوں پیشاب پر جمع ہو رہی ہیں؟

پیشاب کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ مکھیاں شوگر کی رطوبت کی وجہ سے اس پر جمع ہو رہی ہیں، جس پر ڈاکٹروں نے لبلبے اور ذیابیطس کے درمیان تعلق کو دریافت کیا، کیونکہ جیسے ہی کتے کے جسم سے لبلبے کو نکالا گیا، اس کے پیشاب میں شوگر کی مقدار رطوبت کی صورت میں ظاہر ہونے لگی

انہوں نے مزید معائنے کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ لبلبہ ایک ایسا مادہ خارج کرتا ہے، جو جسم میں شوگر کے میٹابولزم کو کنٹرول کرتا ہے، بعدازاں انکشاف ہوا کہ یہ پراسرار مادہ انسولین ہے

اس طرح انسولین کے بارے میں پہلی بار 1889 میں دریافت عمل میں آئی تھی، جس پر بعد ازاں تحقیق کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا اور ذیابطیس کے علاج کے لیے انسولین دریافت ہوئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close