سندھ کے شہر رتودیرو کی رہائشی دس سالہ رضیہ (فرضی نام) ایڈز میں مبتلا ہیں۔ ان کی والدہ اس دکھ کو کیسے سہتی ہیں، یہ بتانے کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔۔ ”ایک ماں ہی جانتی ہے کہ اس کے دل پر کیا گزرتی ہے جس کی پھول جیسی بچی ایچ آئی وی کی مریض ہو”
بچی کی والدہ کہتی ہیں ”جب سے یہ وائرس میری بیٹی کو لگا ہے ہمارے خاندان نے ہم سے قطع تعلق کر لیا ہے۔۔ کوئی کہتا ہے کہ نہ جانے تم لوگوں کو کس گناہ کی سزا ملی، کوئی کہتا ہے کہ اس بچی کو کسی مزار پر چھوڑ آؤ۔ ایک عورت نے کہا کہ تم لوگ چھپاتے ہو یہ بیماری تم سب گھر والوں میں ہوگی۔۔ ہم متوسط طبقے کے لوگ ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے اس وجہ سے تین گھر بدلے“
اُنہوں نے بتایا ”میری بچی اس وقت چھ برس کی تھی، جب وہ ایچ آئی وی کا شکار ہوئی۔ وہ پیدائشی طور پر کمزور تھی، اسے اکثر بخار اور نزلہ ہو جاتا تھا ایک بار ڈاکٹر نے اسے کچھ روز انجیکشن لگائے۔ اس واقعے کے کچھ ماہ بعد رتودیرو میں جب آؤٹ بریک ہوا تو میری بچی کی بھی اسکریننگ ہوئی، اس میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہو گئی ہم پر تو جیسے آسمان گر پڑا“
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام پاکستان (این اے سی پی) کے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ سندھ میں اس وقت ایچ آئی وی/ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 21 ہزار 344 ہے، جس میں سے 10 ہزار 592 مریضوں کا تعلق کراچی سے ہے
ایڈز کو انسانی تاریخ کے مہلک ترین مرض کہا جاتا ہے۔ ایڈز کا مکمل علاج ابھی تک ایجاد نہیں ہوا ہے، تاہم معمولی اثر کرنے والی دوائیں موجود ہیں لیکن وہ ابھی پاکستان جیسے ممالک میں فراہم نہیں ہیں
طبی ویب سائٹ ہیلتھ لائن کی رپورٹ کے مطابق ایڈز کو سمجھنے کے لیے پہلے ایچ آئی وی کے بارے میں جاننا ضروری ہے، سادہ الفاظ میں کہا جائے تو ابتدائی طور پر ایچ آئی وی وائرس انسان کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے، جس سے جسم کے لیے انفیکشن اور بیماریوں سے لڑنا مشکل ہو جاتا ہے
وائرس کے حملے کے بعد جو بھی بیماری انسانی جسم میں داخل ہوتی ہے نہایت سنگین اور مہلک صورت حال اختیار کر لیتی ہے، اس جراثیم کو ایچ آئی وی کہتے ہیں
ایڈز کی طبی اصطلاح، ’ایکوائرڈ امیونو ڈیفیشنسی سنڈروم‘ کا مخفف ہے، یہ مرض ایچ آئی وی وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو مدافعتی نظام پر حملہ کرنے کے بعد اس میں موجود سی ڈی فور نامی خلیات کو ختم کرنا شروع کر دیتا ہے، یہ خلیات انفیکشن کے خلاف جسم کے دفاع میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو انسان زیادہ سنگین حالت ’ایڈز‘ کا باعث بن سکتا ہے
آبادی کے اعتبار سے ملک کے دوسرے بڑے سندھ بھر میں ایچ آئی وی سے متاثر بچوں کی تعداد 2470 ہے۔ صوبے میں بچوں کی بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کی نشاندہی 2019 میں تب ہوئی جب سندھ کے شہر رتودیرو میں ایک وبا پھوٹ پڑی، جس میں اسکریننگ کے دوران تقریباً نو سو سے زائد بچوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی
صوبے میں قائم بیس سینٹرز میں اب بھی سب سے زیادہ بچوں کی رجسٹریشن تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال رتودیرو میں ہے، جہاں 528 بچیاں اور 850 بچے رجسٹرڈ ہیں۔ جب کہ دوسرا نمبر لاڑکانہ کا ہے۔ جہاں شیخ زید چلڈرن اسپتال میں رجسٹرڈ بچوں کی تعداد 508 ہے۔ 2019 میں صوبے بھر میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد لگ بھگ اٹھارہ ہزار تھی، جو اب اکیڈ ہزار سے تجاوز کر چکی ہے
اس وائرس کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ استعمال شدہ الات جراحی، سرنجوں کا استعمال اور خون کی غیر محفوظ منتقلی بھی ہے
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ چھ لاکھ عطائی ملک بھر میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے دو لاکھ صرف سندھ میں موجود ہیں، اس میں سے بھی چالیس فی صد کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں میں لوگوں کا ’علاج معالجہ‘ کر رہے ہیں
کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول (ایچ آئی وی) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر سکندر میمن کے مطابق رجسٹرڈ مریضوں میں زیادہ تر مرد اور خواتین سیکس ورکرز، نشے کے عادی افراد اور ٹرانس جینڈرز شامل ہیں، تاہم اب بھی ان مریضوں میں ان افراد کی تعداد کم ہے، جو عام آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس سوال پر کہ رتودیرو میں آوٹ بریک کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں عام افراد خصوصاً بچے شامل تھے، اس کے بعد حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ اس پر ڈاکٹر سکندر میمن کا کہنا تھا ”وہ آوٹ بریک ایک بچوں کے معالج کی لاپروائی کے سبب پیش آیا تھا، جو استعمال شدہ سرنجوں کا استعمال کر رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن نے ایسے دو سو ساٹھ سے زائد عطائیوں کے خلاف قانونی کارروائیاں کیں، جو استعمال شدہ سرنجوں سے لوگوں کا علاج کر رہے تھے
سندھ میں ایسے کیسز میں اضافہ کی وجوہات کے بارے میں ڈاکٹر سکندر کہتے ہیں ”سندھ میں آبادی دور دور آباد ہے اور ہر جگہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر دستیاب نہیں، جس کی وجہ سے اس بات کا فائدہ اٹھا کر عطائی اور جعلی ڈاکٹر ایسے لوگوں کو بآسانی اپنا ہدف بنا لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے مرض بڑھ رہا ہے، لیکن سندھ ہیلتھ کمیشن اپنا کام کر رہا ہے اور ایسے افراد کے خلاف کارروائیاں بھی کر رہا ہے اور ان کے دوا خانے بھی سیل کر رہا ہے“
بیماری سے قبل رضیہ اسکول جاتی تھیں، لیکن جب یہ واقعہ ہوا تو بہت سے بچوں کی طرح ان کو بھی اسکول چھوڑنا پڑا، اس کی وجہ آگاہی کی کمی اور سماجی رویے تھے، جس نے کئی بچوں سے ان کی تعلیم کا حق چھینا۔
رضیہ کی والدہ کے مطابق رضیہ ایک برس تک گھر پر رہیں اور بار بار سوال کرتی رہیں کہ وہ اسکول کیوں نہیں جا سکتیں؟ ’امی میرا اسکول اچھا ہے، میرے دوست بنے ہوئے ہیں، میں وہاں کیوں نہیں جا سکتی۔‘
والدہ کے مطابق، ”ہم نے دو تین اور اسکولوں میں بات کی۔ لیکن وہاں سے بھی منع کر دیا گیا علاقے میں ایک خوف سا پیدا ہو گیا تھا۔ پھر کچھ این جی اوز والے اور حکومت کے لوگوں نے اسکولوں میں بات کی تو رضیہ کے ساتھ اور بھی ایچ آئی وی والے بچے اسکول جانے لگے۔ لیکن لوگوں کی باتیں اب بھی جاری ہیں۔ ابھی تو میری بیٹی چھوٹی ہے، جب وہ بڑی ہوگی تو کتنا دکھ محسوس کرے گی۔۔ یہ سوچ کر میرا دل کٹتا ہے۔“
رضیہ کی والدہ کے بقول، ”آج بھی غریب والدین اپنے بیمار بچوں کو عطائیوں کے پاس لے کر چلے جاتے ہیں، ہم بھی اگر کسی جگہ علاج کے لیے جائیں گے تو ہمیں کیا معلوم ہوگا کہ سامنے بیٹھا شخص اصلی ڈاکٹر ہے یا نہیں؟ یہ کام تو حکومت کا ہے، وہ عطائیوں کو سخت سزائیں دیں تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل خراب تو نہ ہو“
واضح رہے کہ سندھ بھر میں کام کرنے والے 20 سینٹرز (اسپتالوں) میں ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے ادویات اور طبی ٹیسٹ مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ ادویات گلوبل فنڈ کا حصہ ہے تاہم اس سے جڑنے والی دیگر بیماریاں جن میں ہیپاٹائٹس، ٹی بی شامل ہیں ان کی ادویات کا کثیر فنڈ صوبائی حکومت کے پاس ہے
ڈاکٹر سکندر میمن کے مطابق، ”اس وقت اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ آٹو لاک سرنج کا استعمال کیا جائے جو ایک بار استعمال ہونے کے بعد دوبارہ استعمال کے قابل نہیں رہتی۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے پاس ایسی شکایات آ رہی ہیں کہ کچھ جگہوں پر اس کی خلاف ورزی ہوئی جس پر کاروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے“
ڈاکٹر سکندر کہتے ہیں ”دنیا بھر میں یہ تاثر تھا کہ 2019 میں رتودیرو میں ہونے والا آوٹ بریک بہت بڑا تھا۔ ہم نے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے اسی برس اس علاقے کے ان دیہات، جہاں ایچ آئی وی کے مریض زیادہ ہیں، وہاں اسکریننگ کروائی تقریباً ایک سو چالیس سے زائد دیہات میں چوالیس ہزار لوگوں کی اسکریننگ ہوئی، جس کے بعد ستر نئے کیسز سامنے آئے۔“
رضیہ کی والدہ اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنانا چاہتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ صرف ان کی بیٹی ہی اس بیماری سے جنگ نہیں لڑ رہی بلکہ ان کا خاندان بھی اس میں شامل ہیں ”میں بس اتنا چاہتی ہوں کہ اور کوئی بچہ اس بیماری کا شکار نہ ہو جو ہو چکے ہیں وہ اپنی زندگی اسی طرح گزاریں اور اپنے خواب پورے کریں جیسے اور بچے کرتے ہیں گو کہ یہ سفر مشکل تو ہے لیکن ناممکن بھی نہیں۔“
ایڈز اور ایچ آئی وی میں کیا فرق ہے؟
ہیلتھ لائن کی رپورٹ کے مطابق ایچ آئی وی ایک چھوٹے جراثیم یا وائرس کی طرح ہے، جو لوگوں کو بیمار کر سکتا ہے، جب کوئی شخص اس وائرس کا شکار ہوتا ہے تو یہ ایڈز نامی سنگین حالت کا باعث بن سکتا ہے
ضروری نہیں کہ جو شخص ایچ آئی وی کا شکار ہو، وہ لازمی ایڈز کا شکار ہو، درحقیقت ایچ آئی وی کے شکار مریض ایڈز کے بغیر سالوں تک زندہ رہ سکتے ہیں اور جدید علاج کی مدد سے ایسے مریض معمول کی زندگی گزارنے کے قریب بھی پہنچ سکتے ہیں
تاہم اگر کسی شخص میں ایڈز کی تشخیص ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے پہلے سے ہی ایچ آئی وی وائرس ہے۔
کیا حاملہ عورت میں ایچ آئی وی وائرس بچے میں منتقل ہو سکتا ہے؟
جی ہاں، ایک عورت جسے ایچ آئی وی ہے، وہ اس دوران اپنے بچے کو وائرس منتقل کر سکتی ہے، تاہم اب ایسی دوائیں موجود ہیں، جو ایچ آئی وی کے ساتھ رہنے والی عورت حمل کے دوران لے سکتی ہے تاکہ بچے میں وائرس منتقل ہونے کے امکانات کو کم کیا جا سکے۔
ایڈز اور اس کی علامات
نیو یارک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آف ہیلتھ کی رپورٹ کے مطابق ایڈز ایچ آئی وی وائرس کے ذریعے پھیلتا ہے، یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں غیر محفوظ جنسی تعلقات کے ذریعے اور سوئی یا بلیڈ کے آپس کے استعمال یا انفیکشن والے خون سے منتقل ہو سکتا ہے
دوسری جانب ایڈز کی علامات ایچ آئی وی جراثیم پکڑنے کے کافی عرصے بعد واضح ہوتی ہیں اور ان کا دوسری بیماریوں کے علامات سے فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے
اس لیے اس بیماری کی پہچان خون کے ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے، تاہم ایڈز کی کچھ علامات میں سر درد بار بار بخار ہونا، رات کو پسینہ آنا، تھکاوٹ، متلی، اسہال، وزن میں کمی، جلد پر دھبے، نمونیا اور دیگر شامل ہیں
ایچ آئی وی کا بہتر علاج نہ کرنے پر ایک انسان دس سال کے اندر اندر ایڈز کا شکار ہوسکتا ہے، جبکہ ایڈز کا ابھی تک کوئی علاج سامنے نہیں آیا، رپورٹ کے مطابق ایڈز کی تشخیص کے بعد انسان کم از کم 3 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
کیا اس مرض سے بچاؤ ممکن ہے؟
چونکہ اس مرض کا کوئی مکمل علاج سامنے نہیں آیا، اس لیے جدید دوائیں ایڈز کے حملے اور اس کی علامات پر قابو پانے میں مددگار ہو سکتی ہیں
اس کے علاوہ صحت مند طرز زندگی مثال کے طور پر اچھی نیند، غذا، سگریٹ نوشی سے مکمل طور پر پرہیز ، کسی بھی قسم کے انفیکشن سے بچاؤ کی کوشش بھی ایڈز کے قابو پانے میں مدد دے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایڈز سے بچاؤ کا بہترین طریقہ خود کو جنسی تعلقات سے محدود رکھنا بھی شامل ہے، ماہرین لوگوں کو استعمال شدہ ٹیکے، سوئیاں اور بلیڈز دوبارہ استعمال نہ کرنے کی بھی تلقین کرتے ہیں۔