فلسطین اسرائیلی ہتھیاروں کی لیبارٹری ہے

وسعت اللہ خان

سات اکتوبر کے بعد پہلے چار ہفتے میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر پچیس ہزار ٹن سے زائد بارود برسا دیا، جس کی مجموعی طاقت دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔

جب کہ زمین پر پچھلی دو دہائیوں میں ایسے ایسے نئے ہتھیاروں کی فلسطینیوں پر ٹیسٹنگ ہوئی ہے، جو اکیسویں صدی میں اتنی بار اتنی مقدار میں شاید ہی کسی اور ریاست نے نہتے انسانوں کے خلاف استعمال کیے ہوں۔ گویا فلسطینی وہ جانور ہیں، جنہیں تختہِ مشق بنا کے ان ہتھیاروں کی عالمی مارکیٹنگ کی جاتی ہے

مثلاً حالیہ حملوں کے ابتدائی دو ہفتوں میں اسرائیل نے غزہ کی گنجان آبادیوں پر امریکی ساختہ فاسفورس بم استعمال کیے۔ یہ بم بین الاقوامی جنگی کنونشنز کے تحت ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست میں شامل ہے۔

جب یہ سفید گاڑھے دھوئیں کی شکل میں برستا ہے تو زمین تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہوا میں شامل آکسیجن اسے ایک شفاف سیال مادے میں تبدیل کر دیتی ہے اور اس کی زد میں جو جو بھی انسان آتا ہے، اس کا گوشت گلاتے ہوئے ہڈیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

یہ فاسفورس ندی نالوں کی تہہ میں جم جاتا ہے اور اس سے آبی مخلوق کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ اسرائیل غزہ میں یہ بم دو ہزار آٹھ، چودہ اور اٹھارہ میں بھی بلا ہچکچاہٹ استعمال کر چکا ہے، نیز جنوبی لبنان کی انسانی آبادیاں بھی دو ہزار چھ سے نشانہ بن رہی ہیں۔

دوسرا بم نما ہتھیار ڈائم (ڈینس انرٹ میٹل ایکسپلوسو) کہلاتا ہے۔ اسے ڈرونز کے ذریعے بھی گرایا جا سکتا ہے۔ یہ پھٹنے کے بعد انتہائی باریک دھاتی ٹکڑوں کی شکل میں جسم میں گھس جاتا ہے اور ان ٹکڑوں کو ایک عام آپریشن کے ذریعے نکالنا لگ بھگ ناممکن ہے۔

اس کی مار چار میٹر کے دائرے میں خاصی موثر ہے اس دائرے سے باہر کا متاثرہ شخص زندہ تو رہتا ہے مگر دھاتی ٹکڑے گوشت اور ہڈیوں میں اس طرح پیوست ہو جاتے ہیں کہ اعضا کو کاٹنا پڑتا ہے۔

تیسرا ہتھیار بھی ایک بم ہے، جو ویسے تو موٹی آہنی چادروں والی گاڑیوں اور کنکریٹ کے زیرِ زمین بنکرز تباہ کرنے کے لیے بنایا گیا مگر غزہ میں یہ بم اسرائیل نے رہائشی عمارتوں کے خلاف یہ کہہ کر بے دریغ استعمال کیا کہ ان عمارات کے نیچے حماس کے زیرِ استعمال سرنگیں ہیں۔ اس کے دھماکے کی شدت اتنی ہوتی ہے کہ ہدف کے ساتھ ساتھ اردگرد کی عمارات اور مکانات بھی زمیں بوس ہو جاتے ہیں۔

اسرائیلی فوج فلسطینیوں کی احتجاجی ریلیوں پر روائیتی گولیوں کے ساتھ ساتھ بٹر فلائی گولیاں بھی برساتی ہے۔

یہ گولیاں امریکی ریاست ساؤتھ کیرولائنا کی کمپنی بٹر فلائی ایمونیشن جنگلی سوروں کے شکار کے لیے بناتی ہے اور بظاہر یہ انسانوں پر استعمال نہیں ہوتیں، مگر اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں ایک عرصے سے یہ گولیاں انسانوں پر آزما رہا ہے کیونکہ اسرائیل کی قومی لغت میں فلسطینی ’جانور نما انسان‘ ہیں۔

یہ گولی جسم کے اندر گھس کے بٹر فلائی کے پروں کی طرح کھل جاتی ہے اور گوشت، رگیں اور ہڈیاں کاٹ دیتی ہے۔

اسرائیلی فوج عموماً فلسطینیوں کی ٹانگوں اور گھٹنوں کو نشانہ بناتی ہے تاکہ وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو جائیں۔ جو جو بٹر فلائی بلٹ کا نشانہ بنتا ہے بہت کم دیکھا گیا ہے کہ اس کی ٹانگ یا گھٹنا یا دیگر متاثرہ اعضا کاٹے بغیر اسے زندہ رکھا جا سکے۔

اگر یہ گولی پیٹ یا سینے پر لگے تو جسم کے اندر ایک دھماکے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اعضاِ رئیسہ بری طرح کٹ کے رہ جاتے ہیں۔

اس سے جو زخم بنتا ہے، اس کا سائز بند مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ ایسا ایمونیشن اٹھارہ سو ننانوے کے ہیگ کنونشن کے تحت استعمال نہیں کیا جا سکتا، جس کے ذریعے غیر ضروری طور پر بڑے حجم کے جان لیوا زخم بنیں، مگر اسرائیل کو سات خون معاف ہیں۔ یہ گولی زیادہ تر اسرائیل کے فوجی نشانچی فلسطینی سویلینز کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اسرائیل کراؤڈ کنٹرول کے لیے جو دیگر ہتھیار استعمال کرتا ہے، ان میں نارمل آنسو گیس شیلز کے ساتھ ساتھ ایسے گیس بم بھی شامل ہیں، جنہیں فائر کرنے کے ساتھ ساتھ ڈرونز کے ذریعے بھی مظاہرین پر گرایا جا سکتا ہے۔ان بموں سے نکلنے والی رنگ دار گیس سانس کی نالی سے داخل ہو کر کچھ دیر کے لیے دم گھونٹ دیتی ہے اور متاثرہ شخص بہت دیر تک تڑپتا رہتا ہے۔

اسرائیلی پولیس اور فوج نہ صرف یہ گیس بم غربِ اردن کے پناہ گزین کیمپوں پر یلغار اور مشتعل مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے بلکہ غزہ میں مارچ دو ہزار انیس میں حفاظتی باڑھ کے پاس جمع غزہ کے ہزاروں باشندوں پر بھی بٹر فلائی گولیوں اور گیس بموں کا کھل کے استعمال کیا گیا۔

فلسطینیوں پر تین برس سے ایک اور ہتھیار کا تجربہ بھی ہو رہا ہے۔ اسے اب دیگر حکومتوں اور کچھ امریکی ریاستوں کی پولیس کو بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ امریکی سرحدی محافظ میکسیکو سے متصل بارڈر پر جمع تارکینِ وطن کے خلاف بھی اکثر استعمال کرتے ہیں۔

اس ہتھیار کا نام ہے سکنک۔ فلسطینی اسے خرارہ کہتے ہیں۔ یہ ایک خاص طرح کا بدبو دار کیمیکل پانی ہے، جسے اسرائیلی کمپنی اوڈور ٹیک نے تیار کیا ہے۔

اسے مجمع کو منتشر کرنے کے لیے آبی توپوں سے تیز دھار کی شکل میں پھینکا جاتا ہے۔اس کی بُو ایسی ہے، جیسے گٹر کے پانی میں پھینکی گئی لاش سے آتی ہے۔

اسرائیلی پولیس سکنک کو اجتماعی سزا دینے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ جو انسان زد میں آ جائے، وہ تیز بُو کے سبب متلی، سر درد اور سانس کی شکایات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ متاثرہ جسم، عمارت یا علاقے سے بُو کئی کئی دن نہیں جاتی۔ چنانچہ مکینوں کو عارضی طور پر گھر اور کاروبار چھوڑنا پڑتا ہے۔

یہ تمام ہتھیار مقبوضہ عرب علاقوں کے لیے مخصوص ہیں۔ انہیں کبھی اسرائیلی شہریوں یا یہودی آباد کاروں کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close