اشرفے گرو نے کہا کہ ’اب مختلف ہیں تو زبان بھی مختلف ہوگی نا‘
’فل کچی‘ تھی، سب ’بیلاگان‘ موجود تھے، بس ہم فوراً ’گوگل‘ ہو گئے۔ ہاں۔۔۔ میں نے آخری کونے میں دیکھا تو سب ’تال‘ میں تھے۔ ایسے پروگراموں کے لیے تو میری طرف سے ’ناٹو‘ ہی سمجھو۔ جب کام خراب ہو جائے تو ’ڈانگور خانے‘ کے چکر الگ سے کاٹنے پڑتے ہیں۔
یہ پشاور کا گل بہار ہے اور دو خواجہ سرا ’سیگی ناگی‘ یعنی مخصوص زبان میں بات چیت کر رہے ہیں۔
میں بھی یہ زبان سُن کر حیران ہوا تھا لیکن کیترینہ نے ہاتھ پکڑ کر تنگ سیڑھیوں پر اوپر چڑھنے کے لیے آگے کر دیا۔ اب یہ خواجہ سراؤں کا ڈیرا ہے، ہر طرف ’روشنی‘ ہے، پروگرام سے قبل تمام خواجہ سرا تیار ہونے کے لیے ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں تو اسے روشنی کہا جاتا ہے۔
پہلے تو کیترینہ نے ’ایچڑے‘ مطلب نوعمر خواجہ سراؤں کی آپس میں سیگی ناگی چام کر دی، یعنی بات چیت کی وضاحت کردی، خواجہ سراؤں کی زبان میں چام کی اصطلاح وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
کیترینہ بتاتی رہی کہ رات کے پروگرام میں فُل کچی یعنی ماحول خراب تھا، سب بیلاگان مطلب بدمعاش بیٹھے تھے اور ہم گوگل یعنی رفوچکر ہو گئے۔ کیونکہ وہاں سب تال میں تھے یعنی نشے میں تھے اور ناٹو کا مطلب بالکل انکار ۔کیترینہ مسکرائی اور کہا کہ ’ڈانگور خانہ ہم پولیس تھانے کو بولتے ہیں‘
پاکستان میں بیشتر زبانیں معدوم ہوتی جا رہی ہیں، مگر کمزور طبقہ سمجھی جانے والی خواجہ سرا برادری اپنی مخصوص زبان کی پکی ہے۔ یہ زبان خوف کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔ کیترینہ نے بتایا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہماری مبہم زبان کو سمجھے، کسی پر اعتبار نہیں رہا‘
مخصوص جنس میں پیدا ہونے والوں کی برادری میں شمولیت پر نام کے مذکر اور مونث کے لاحقے، ا، ی تبدیل ہوکر ’ے‘ ہو جاتے ہیں۔
ڈیرے پر اشرفے گرو سے ملاقات ہو گئی، مجھے دیکھتے ہی اپنے چیلے کیترینہ سے کہا یہ تو ’بانٹہ گے‘ ہے، میں نے اپنا نام دہرایا مگر بانٹہ گے ان کی زبان میں خوبصورت، گول مٹول اور خوش لباس لڑکے کو کہتے ہیں۔
گرو خاموش بیٹھا تھا، کیترینہ نے ان کے کان میں بتایا کہ صاحب تو ’فُل پکی صادقان‘ ہے یعنی اچھا شخص اور دل کا صاف ہے۔
’ہم اپنی مرضی سے تو پیدا نہیں ہوئے، اب مختلف ہیں تو زبان بھی مختلف ہوگی نا‘، اشرفے گرو نے پان کی پڑیا کھولتے ہوئے بتایا۔
ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اور باہر ایک بوڑھا بابا چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ اشارے سے پوچھا تو کیترینہ نے بتایا کہ ’کانسرا‘ ہے، بزرگ خواجہ سرا جب ریٹائر ہوجائے تو انہیں کانسرا کہا جاتا ہے۔
پچپن سالہ اشرفے گرو بتا رہے تھے کہ افغانستان، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش تک خواجہ سراؤں کی زبان کے زیادہ تر الفاظ ایسے ہی ہیں، سماجی رابطہ ایپ کے گروپس میں ہماری اس زبان میں باتیں ہوتی ہیں۔ خواجہ سراؤں کی تاریخ پُرانی ہے مگر ان کی زبان کی تاریخ اکبر بادشاہ کے زمانہ سے حساب ہو رہی ہے۔
’ہائے۔۔۔ کیترینہ آئی ہے۔۔ میری جام کاسہ‘، عابدے نے پہنچتے ہی کیترینہ کو گلے لگایا، ’جام کاسہ‘ یہاں دل جگر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
خواجہ سراؤں کی زندگی پر کتاب لکھنے والے لکھاری حیات روغانے نے بتایا کہ سکندر اعظم سے لے کر بعد تک خواجہ سرا درباروں میں رہے ہیں، بلکہ درگاہوں پر ان کے آستانے ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’معاشرے میں غیر محفوظ ہونے پر خواجہ سرا ایک دوسرے سے کوڈ ورڈز میں بات کرنے لگے‘
پیروں میں گُھنگھروؤں کی چَھن چَھن کی آواز سُنائی دے رہی تھی، یہاں بھی اندھیرے میں سیڑھیاں چڑھ رہا ہوں، اوپر دہلیز پر ساجدے سے ملاقات ہوئی، ’کوڈی‘ میں داخل ہوئے تو ایک کمرے سے آواز آئی کون آئے ہیں؟ ساجدے نے بے ساختہ کہہ دیا ہے ’دنیادار‘ ہے، مجھ سے ملنے آیا ہے۔ جو لوگ خواجہ سرا نہیں ہوتے تو انہیں دنیادار کہا جاتا ہے۔ خواجہ سرا گھر کو کوڈی کہتے ہیں۔
’ہم نے تو دنیادار کا خطاب دیا مگر ہمیں ناچ، گانے والے کہتے ہیں، عزت دینے میں دنیاداری تو نبھاتے‘، ساجدے نے یہ کہتے ہوئے مجھے کہا کہ ’ٹیس‘ جاؤ یعنی بیٹھ جاؤ۔ پھر ملازم کو آواز لگائی ’تِن‘ لے آؤ۔ یہاں چائے، ناشتہ اور کھانے کو تِن ہی کہا جاتا ہے۔ ملازم تِن کے ساتھ چھوٹا سا بیگ بھی لے آیا۔ اب ساجدے اور ملازم آپس میں گزشتہ رات کے پروگرام سے متعلق بات کرنے لگے۔
’پروگرام تو ’گلولہ نخرہ‘ تھا یہ پانچ ’کاٹکے‘ تم پکڑو، عیش کرو، یہ تین ’وڈمے‘ لو اور سگریٹ کی ڈبی لانا‘، ساجدے تالیاں بجا کر کہہ رہی تھی۔ جس پروگرام میں ایک لاکھ روپے کمائے جائیں تو اُسے گلولہ نخرہ کہتے ہیں، کاٹکے ایک ہزار روپے اور وڈمہ سو روپے کو کہتے ہیں۔ یہاں نوجوان خواجہ سراؤں کی ’توڑ‘ شروع ہونے والا تھا، توڑ ناچنے کو کہتے۔
واپسی پر راستے میں دو خواجہ سرا غصے میں ایک دوسرے کو سُنا رہے تھے۔ ’منگڑی‘ کروں لیکن ’چیکڑ‘ نہ کروں‘ خواجہ سرا نے سمجھایا کہ منگڑی، بھیک اور چیکڑ، چوری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ یعنی بھیک مانگوں، لیکن چوری نہ کروں۔
اسی طرح دوسرے ڈیرے پر ایک اور گرو کو یہ کہتے ہوئے سُنا ’سب ’تڑاوا‘ کریں اور جلدی سے ’فرقہ‘ ہو کر نیچے گاڑی میں بیٹھ جائیں‘۔ تڑاوا سے مراد میک اپ اور فرقہ زنانہ لباس پہن کر تیار ہونے کو کہتے ہیں۔
یہاں ایک کمرے میں ’خصوصی سیگی ناگی‘ یعنی اہم میٹنگ چل رہی تھی۔ ”دیکھ بچو تم ’گناہ گارہ‘ دو“ ، بزرگ خواجہ سرا ایک ہی رفتار میں بول رہا تھا۔ گناہ گارہ جرمانے کو کہتے ہیں۔
”گرو میں نے تو ’جُبرو‘ کیا ہے کہاں سے گناہ گارہ ادا کروں“ نم آنکھوں سے خواجہ سرا بول رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کے جسم کے مخصوص اعضا کے خصوصی آپریشن کو جُبرو کہا جاتا ہے۔
حیات روغانی کہتے ہیں کہ زبان کے لیے گرامر اہم جز ہوتا ہے لیکن درحقیقت خواجہ سراؤں نے اپنے لیے الگ کوڈ ورڈز کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس منفرد اصطلاح کو راز میں رکھنے کے لیے تفصیل اور وضاحت سے گریز کرنا چاہیے۔ اس زبان کا سب سے خوبصورت لفظ سُننے کو ملا کہ یہاں بھائی، بہن، دوست، گورو اور مائی باپ کی بجائے ایک دوسرے کا تعارف ’یہ میرے بدن کا حصہ ہے‘ سے کیا جاتا ہے۔
بشکریہ: ڈان نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)