کسی بچے کو بولیں پینٹنگ بنائے تو آپ کو اندازہ ہے کہ تصویر میں کیا چیزیں سامنے آئیں گی؟
ایک جھونپڑی نما گھر ہوگا، براؤن رنگ کا، ہرے رنگ کی گول چھتری جیسا درخت ہوگا، نہر نیلی ہوگی، ایک گول بل کھاتی سڑک ہوگی، جس پر لال رنگ کی چوکور سی گاڑی جا رہی ہوگی اور نیلے آسمان میں سفید بادل ہوں گے۔
پیچھے گول ایک پیلے رنگ کا سورج ہوگا۔ پرندے ہوں گے تو ایسے، جیسے اردو کے اعراب ہوتے ہیں۔ تشدید سمجھ لیں، ہاف ڈن تشدید!
تو اب اگر اس بچے سے یہ پوچھیں کہ بیٹا گاڑی لال کیوں بنائی، آسمان نیلا کیوں؟ درخت ہرا اور گولائی میں کس وجہ سے ہے اور سڑک بل کیوں کھا رہی ہے، سیدھی کیوں نہیں، تو وہ کیا جواب دے گا؟
اگر سیانا ہوا تو کہے گا، چاچا جی اپنے کم نال کم رکھو۔۔۔ اگر زیادہ معصوم بچہ ہوا تو کہے گا کہ وہ سب ہوتے ہی اسی طرح ہیں، تو بس اسی لیے ان رنگوں کی اور ایسی ہی تصویر بنائی۔
’ہوتا ہی اس طرح ہے۔‘
’سب یہی کرتے ہیں۔‘
’حل ہی یہی تھا!‘
’اور کیا ہو سکتا ہے؟‘
یہ ساری باتیں کرنا ہمیں اس لیے آسان لگتا ہے کیونکہ ہر روایتی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہم اسی دماغ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں، جس طرح بچہ اپنی جھونپڑی پینٹنگ میں سب چیزیں روایتی طریقے سے کر رہا ہوتا ہے۔
میں نے کم از کم پانچ چھ بچوں سے پوچھا کہ اگر تم لوگوں کو ایسی ایک پینٹنگ بنانی پڑے، جس میں پہاڑ، گھر، درخت ہوں اور سڑک پہ ایک گاڑی ہو تو وہ گاڑی کس رنگ کی بناؤ گے؟ سب کا جواب ’لال‘ تھا۔ اس کے بعد دفتر گیا تو چھت سے نیچے دیکھنے پر 95 فیصد گاڑیاں سفید نظر آئیں۔ انٹرنیٹ پہ ڈھونڈا تو پتہ لگا کہ دنیا بھر میں لوگ سب سے زیادہ سفید رنگ کی اور اس کے بعد کالی یا سرمئی گاڑی خریدنا پسند کرتے ہیں۔
اب کیا ہوا؟ یہ سب کون لوگ ہیں سفید گاڑیوں والے؟ وہ کہاں گئے، جو تصویریں بناتے تھے تو گاڑی لال ہوا کرتی تھی؟
وقت اور تجربہ رنگوں کی چوائس بدل دیتا ہے لیکن سوچنے کا ڈھنگ پھر بھی وہی ہوتا ہے ہمارا، پرانے والا۔۔ اب انہی بچوں سے چالیس برس کی عمر میں آپ گاڑی کا رنگ پوچھیں گے تو انہوں نے پھٹاک کر کے سفید بول دینا ہے یا شاید بہت کوئی مہم جو طبیعت والا ہوگا تو کالے رنگ کی گاڑی لے لے گا۔۔۔ باقی رنگ کدھر گئے؟
ہوتا یہ ہے کہ ہم بچپن سے ہر کام ایک ہی طریقے سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کون سا طریقہ۔۔۔ ’جیسے سب کرتے ہیں۔‘
اُس وقت اگر کوئی بڑا آپ سے کہتا کہ بیٹا، تصویر میں یہی چیزیں بنانی ہیں لیکن الگ بناؤ، دوسروں سے مختلف۔۔۔ تب شاید درخت آپ لمبا کرسمس ٹری جیسا بنا دیتے، پہاڑ نوکیلے ہونے کی بجائے گول ہو جاتے، پرندے تھوڑے خوبصورت ہو جاتے اور سورج پورے گول ہونے کی بجائے آدھا بادلوں کے پیچھے سے نکل رہا ہوتا۔
قسمت اور حالات کا منترا اپنی جگہ لیکن ہر چیز کو بنانے کے، زندگی کو شکل دینے کے، مسئلے کو حل کرنے کے، یا کسی بھی الجھن میں سے نکلنے کے طریقے ایک سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔
ان طریقوں تک پہنچنے کے لیے سب سے عمدہ تو یہ ہوگا کہ آپ کسی قابلِ اعتبار بڑے سے مشورہ کر لیں، جو کم از کم تیس سال آپ سے بڑا ہو، یا بات اگر بڑوں کو بتانے والی نہ ہو تو پھر کسی بالکل چھوٹے بچے سے پوچھ لیں۔ عموماً یہ دونوں آپ کو ٹھیک مشورہ دیں گے۔
اپنی عمر کے دوست یار چونکہ خود بھی انہی لانجھوں میں پھنسے ہوتے ہیں تو ان سے مشورہ مانگنا بالکل ایسا ہے، جیسے اپنے دل کی بات سن لینا!
ہاں اس میں ایک مسئلہ ہو سکتا ہے، جیسے بچے کی گاڑی ہمیشہ لال ہوگی، اسی طرح بزرگ کا مشورہ ہمیشہ سفید ہوگا۔ بردباری والا، تحمل والا، مٹی پاؤ قسم کا۔۔۔ وہ ہمیں سمجھ نہیں آئے گا اور ہو سکتا ہے کہ ہم چڑ جائیں۔
یہ کیا ہوا کہ ہر کسی کو ہر معاملے میں معافی دیتے پھرو؟ اس طرح تو ہر کوئی ہمارے اوپر پاؤں رکھ کے گزرے گا، بدلہ نہ بھی لے سکیں تو معاف کیسے کر دیں؟ بالکل کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ کریں؟
اب یہ بڑی گہری کیمسٹری ہے۔ ستر سال کا بزرگ کوئی بھی ہو، آپ نے جوشیلا بہت ہی کم دیکھا ہوگا۔ ان کی جسمانی طاقت اب بھی جھگڑنے جتنی ضرور ہوتی ہے لیکن طبیعت میں سکون آ چکا ہوتا ہے۔
وہ لڑ چکے ہوتے ہیں، انہوں نے گریبان بھی پھاڑے ہوتے ہیں، کچھ نے گولیاں بھی ماری ہوتی ہیں، لوگوں سے مکے بھی کھائے ہوتے ہیں لیکن اتنے بہت سارے سال گزار کے ان کو آئیڈیا ہو چکا ہوا ہوتا ہے کہ یار۔۔۔ یہ سب مسئلے کا حل نہیں ہے، تو ان کا مزاج سفید ہو جاتا ہے۔
جس طرح سفید رنگ سب رنگوں کو پی جاتا ہے اور ظاہر بھی کر دیتا ہے، اسی طرح بزرگ انسانی رویوں سے گزر گزر کے فوم بن چکے ہوتے ہیں۔ جو کچھ ڈال دو جذب ہو جائے گا، پھر سوکھ جائے گا ایک رات میں، اگلے دن ویسے کے ویسے۔
باقی رہ گیا بچے کا مشورہ۔۔۔ اگر آپ یقین کریں تو انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ دیکھ کر یہ لال گاڑی والا تجربہ میں نے کوئی چھ بچوں کے ساتھ دہرایا، سب نے یہی کہا کہ ہم اس پینٹنگ میں گاڑی ریڈ بنائیں گے۔ اب یہ رنگ کوئی بڑا نہیں بھر سکتا تھا۔ تو سفید مشورہ بزرگوں کا اور سرخ ہو گیا بچوں کا۔۔۔ ہاں کالے والے مشورے آپ کو اپنی عمر کے دوستوں سے ملیں گے، آزمائش شرط ہے!
- دستک (روسی ادب سے منتخب افسانہ)
- عینک لگانے والے اسے ہٹا کے تصویر کیوں کھچواتے ہیں؟
- ”مبارک ہو پاکستانیو! ’ایکس‘ کے بعد ’بلیو اسکائی‘ بھی فتح کر لیا گیا!“
- ماضی کا احیا اور تاریخ میں لوگوں کی بڑھتی دلچسپی
- مشتاق علی لاشاری: انوکھا مصور، جو چائے اور کافی سے فن پارے تخلیق کرتا ہے۔
بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)