گزشتہ روز بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لانگ مارچ کے شرکاء کوئٹہ پہنچے اور ریڈ زون میں رکاوٹوں کے وجہ سے سریاب روڈ پر دھرنا دے دیا۔
لانگ مارچ کے رہنماؤں اور مقامی انتظامیہ کے درمیان گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات بےنتیجہ رہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک مطالبات پورے نہیں کیے جاتے
واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر اس احتجاج کا آغاز ضلع تربت میں 23 نومبر کو بالاچ بلوچ نامی نوجوان کے قتل کے بعد ہوا تھا۔ اس لانگ مارچ سے قبل قریب دو ہفتوں تک مظاہرین کی جانب سے تربت میں احتجاجی دھرنا بھی دیا گیا۔ لانگ مارچ میں خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد بھی شامل ہے
غیر سرکاری تنظیموں کے اعدادوشمار کے مطابق بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے، جبکہ حکومت اس تعداد کو مبالغے پر مبنی بتاتی ہے
بلوچستان کے شہر تربت سے شروع ہونے والے احتجاج نے لانگ مارچ کی شکل اختیار کر لی ہے، جو اس وقت کوئٹہ پہنچ چکی ہے
تربت سے کوئٹہ پہنچنے والے لانگ مارچ کی سربراہی کرنے والے وسیم سفر کے مطابق ان کا یہ لانگ مارچ کوئٹہ میں کچھ دن گزارنے کے بعد اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگا
لانگ مارچ میں شریک تربت کے علاقے ہوشاب سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ طفیل بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بلوچ سیاسی اور سماجی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے واقعات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں
انہوں نے کہا، ”ریاستی جبر کے خلاف بلوچ قوم اب انصاف کے لیے آواز بھی بلند نہیں کر سکتی۔ ہمارے اس پُر امن احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے راستے میں ہر شہر میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ بلوچ نوجوانوں کو مسلسل لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے لواحقین کو کوئی انصاف نہیں مل رہا۔ تربت میں قتل کا حالیہ واقعہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال کا عکاس ہے“
طفیل بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی سزا دی جا رہی ہے لیکن اس ناانصافی پر صوبے کے عوام خاموش نہیں رہیں گے
لانگ مارچ کے شرکاء کو ریڈ زون میں داخلے سے روکنے کے حوالے سے بلوچستان کے نگران وزیراطلاعات جان اچکزئی کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کے ریڈ زون میں دہشت گردی کا خطرہ ہے، اسی لیے لانگ مارچ کے شرکاء کو وہاں داخلے سے روکا گیا ہے
کوئٹہ میں نیوز بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا، ”تربت لانگ مارچ کے شرکاء کے اکثر مطالبات حکومت پہلے ہی مان چکی ہے۔ جن 4 سی ٹی ڈی اہلکاروں پر تربت واقعے کا الزام ہے، ان کو معطل کر دیا گیا ہے۔ سریاب روڈ پر دھرنا مظاہرین کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے بھی مذاکرات کیے ہیں“
لاپتہ بلوچ افراد کے لواحقین اور مظاہرین کے ساتھ اب تک ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کی جانب سے دو بار مذاکرات کیے گئے ہیں۔ مظاہرین نے ریڈ زون میں داخل ہونے کے لیے رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جس پر حکومت تیار نہیں
احتجاج میں شریک تربت کے رہائشی جہازیب بلوچ کہتے ہیں کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو بلاوجہ شہر کے مرکزی حصے میں داخلے سے روکا جا رہا ہے
انہوں نے کہا، ”حکومتی نمائندے اپنے روایتی فرضی بیانات دیتے ہوئے ہم پر احتجاج ختم کرنے کے لیے زور ڈال رہے ہیں۔ تھریٹ کا کا کوئی ایشو نہیں۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہمیشہ دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان واقعات میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ادارے خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں۔“
جہانزیب بلوچ کا کہنا تھا کہ دھرنا مظاہرین کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تواس احتجاج کا دائرہ کار ملک بھر تک پھیلا دیا جائے گا
دس دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تھی۔ سیمینار میں مقررین نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور لاپتہ افراد کی عدم بازیابی پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا
بلوچستان میں انسانی حقوق کی کارکن حمیدہ نور کا کہنا ہے کہ حکومتی بے حسی اور ماورائے آئین اقدامات نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کیا ہے
وہ کہتی ہیں، ”بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر ہونے والے اس احتجاج کے بنیادی پسِ منظر پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ ریاستی جبر کب تک برداشت کیا جائے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے اگر پر امن احتجاج کر رہے ہیں تو یہ ان کا آئینی حق ہے۔ حکومتی ادارے قانون سے بالاتر نہیں۔ سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل آج بھی بلوچستان میں جاری ہے“
حمیدہ نور کا کہنا تھا کہ زیرِ حراست افراد کی ہلاکت سے معاشرے کا ہر فرد تشویش کا شکار ہے، اس ظلم و جبر سے تنگ آکر لوگ لانگ مارچ پر مجبور ہوئے ہیں
انہوں نے کہا ”گزشتہ کئی دہائیوں سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ شہریوں کی جبری گمشدگی کے واقعات کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ عوامی غصہ کس طرح کم ہو سکتا ہے۔ اگر ریاستی ادارے کسی جرم میں لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں تو قانونی تقاضوں کے مطابق انہیں عدالتوں میں کیوں پیش نہیں کیا جاتا؟ اس صورتحال کو اگر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو انتشار مزید پھیل سکتا ہے۔ خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والے ریاستی اداروں کا بھی بلا تفریق احتساب ہونا چاہیے“
دوسری جانب بلوچستان میں انسداد دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کے دعوے کے مطابق، بالاچ بلوچ کا تعلق مبینہ طور پر کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے تھا، جس کی وجہ سے انہیں گزشتہ ماہ 20 نومبر کو تربت سے گرفتار کیا گیا تھا
سی ٹی ڈی کےبقول، بالاچ کی ہلاکت بی ایل اے کے ان ارکان کی فائرنگ سے ہوئی تھی، جنہیں گرفتار کرنے کے لیے ان کی ٹیم نے بالاچ کی نشاندہی پر 23 نومبر کو پسنی روڈ پر چھاپہ مارا تھا۔ اس واقعے میں تین دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے تھے، جن میں دو کی شناخت عبدالودود اور سیف اللہ کے طور پر کی گئی تھی
جبکہ مقتول بالاچ کے ورثاء نے حکومتی موقف کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ بالاچ کو جبری طور پر لاپتہ کر کے زیر حراست قتل کیا گیا۔ گزشتہ دنوں تربت کے مقامی عدالت نے بالاچ کے لواحقین کی درخواست پر مذکورہ واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی افسران کے خلاف درج کرنے کا حکم بھی دیا
بلوچستان حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی سکریٹری عمران گچکی کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے، تاہم اطلاعات کے مطابق اس کمیٹی نے اب تک حکومت کو کیس کی تحقیقات سے متعلق کوئی رپورٹ پیش نہیں کی ہے۔