حال ہی میں انڈیا کی ریاست اروناچل پردیش میں ایک میوزیم کا افتتاح کیا گیا ہے، جہاں دوسری عالمی جنگ کے دوران ہمالیہ میں گر کر تباہ ہونے والے جنگی طیاروں کی باقیات رکھی گئی ہیں
اَسّی سال قبل گر کر تباہ ہونے والے سیکڑوں طیاروں کی یہ باقیات انڈین اور امریکی ماہرین کی ایک ٹیم کی ملی ہیں، جو 2009 سے اروناچل پردیش کے پہاڑوں میں انہیں کھوجنے کی مہم پر ہے
خیال ہے کہ لگ بھگ چھ سو امریکی مال بردار طیارے ہمالیہ کے دور افتادہ علاقے میں گر کر تباہ ہوئے، ان حادثات کے نتیجے میں کم از کم پندرہ سو عملے کے ارکان سمیت مسافر ہلاک ہوئے
واضح رہے کہ دوسری عالمی جنگ بیالیس ماہ تک جاری رہی اور یہی وہ وقت تھا، جب یہ طیارے ہمالیہ کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہوئے تھے
ہلاک ہونے والوں میں امریکی اور چینی پائلٹ، ریڈیو آپریٹرز اور فوجی شامل ہیں
آسام اور بنگال سے چینی فوج کو جنگی ساز و سامان فراہم کیا گیا تھا۔ اس وقت ان طیاروں کا فضائی راستہ ہمالیہ کے اونچے پہاڑوں سے گزرتا تھا۔
دوسری عالمی جنگ میں ایک جانب جرمنی، اٹلی، اور جاپان تھے تو دوسری جانب فرانس، برطانیہ، امریکہ، سوویت یونین اور چین تھے، ان تمام ملکوں کے درمیان جاری جنگ ایک وقت میں انڈیا کے شمال مشرق تک پہنچ چُکی تھی
یہ وہ وقت تھا، جب جاپان کی فوج انڈیا کی سرحد پر اپنی پیش قدمی مکمل کر چُکی تھی
تب سے ہمالیہ کے اوپر سے گزرنے والا یہ فضائی راستہ اتحادیوں کے لیے ایک لائف لائن کی حیثیت اختیار کر چُکا تھا۔ کیونکہ میانمار کا زمینی راستہ اس وقت ان کے لیے بند تھا
اپریل 1942 میں امریکہ نے فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
اس عرصے کے دوران طیاروں کی مدد سے ساڑھے چھ لاکھ ٹن گولہ بارود کامیابی کے ساتھ منتقل کیا گیا
اس جنگی سامان یا مواد کی رسد نے اتحادیوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا
پائلٹوں نے خطرناک فضائی راستے کو ’دی ہمپ‘ کا نام دیا تھا، جو بنیادی طور پر موجودہ اروناچل پردیش سے مشرقی ہمالیہ میں چین تک جاتا تھا۔ اسے دنیا کے خطرناک ترین فضائی راستوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
میجر جنرل ولیم ٹرنر اُس وقت امریکی فضائیہ کے پائلٹ تھے۔ انھوں نے سی-46 کارگو طیارہ اڑایا، جنہیں واضح طور پر پہاڑوں کی ڈھلوانوں، چوڑی اور گہری وادیوں، تنگ ندیوں اور گہرے بھور والے دریاؤں کے اوپر دیہاتوں کے بھی اوپر سے پرواز کرنا اب بھی یاد ہے۔
اس طیارے میں پائلٹوں کو شدید موسمی حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان طیاروں کے پائلٹ اکثر نوجوان اور نئے تربیت یافتہ ہوا کرتے تھے۔
ٹرنر کے مطابق ہمپ روٹ پر موسم ہر منٹ اور ہر میل کے فاصلے کے بعد تبدیل ہوتا ہے۔
ایک طرف انڈیا کا جنگل تھا، دوسری طرف مغربی چین کا سطح مرتفع تھا۔
طوفان میں پھنسے بھاری سامان کو لے جانے والے طیارے فوری طور پر پانچ فٹ نیچے آئیں گے اور اسی رفتار سے پرواز کریں گے۔
ٹرنر ایک طوفان کے بعد اپنے طیارے کو تقریباً پچیس ہزار فٹ نیچے لائے، تب اُن کے طیارے کا ٹائر آسمان کی جانب اور اُن کے سر زمین کی جانب ہو گئے اور ایسا کُچھ وقت تک کے لیے رہا۔
وہ لکھتے ہیں ”سب سے بڑا چیلنج موسم بہار کے طوفانوں، تیز ہواؤں، ژالہ باری اور ژالہ باری میں طیاروں کو قابو میں رکھنے کا تھا“
لائف میگزین کے صحافی تھیوڈور وائٹ اس مسئلے پر کہانی لکھنے کے لیے پانچ مرتبہ ایئر لائن کا سفر کر چکے ہیں
وہ لکھتے ہیں ”بغیر پیراشوٹ کے چینی فوجیوں کو لے جانے والے طیارے کے پائلٹ نے برف سے ڈھکے ہوئے اپنے طیارے کی ہنگامی لینڈنگ کا فیصلہ کیا“
ساتھی پائلٹوں اور ریڈیو آپریٹرز کے ساتھ مل کر، وہ گرم ٹراپیکل درختوں پر اترنے میں کامیاب رہے
خوش قسمتی سے طیارہ بحفاظت لینڈ کر گیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن وہ پندرہ دن تک جنگل میں یہاں وہاں گھومتے رہے اور بالآخر دور دراز دیہات کے لوگوں نے اُن کی مدد کی
یہاں کے مقامی لوگوں نے اکثر حادثے میں بچ جانے والے زخمیوں کو طبی امداد بھی دی اور اُن کی جانیں بھی بچائیں
ٹرنر براتے ہیں ”ایک طوفان میں نو طیارے گر کر تباہ ہوئے جس میں عملے کے ستائیس افراد اور مسافر ہلاک ہوئے۔ طوفان اتنے شدید تھے کہ میں نے اس سے پہلے دنیا میں کہیں بھی اس طرح کی صورتحال نہیں دیکھی تھی“
لاپتہ ایئرمین کے والدین نے سوچا کہ ان کے بچے اب بھی زندہ ہیں۔ ایسے ہی ایک لاپتہ ایئر مین جوزف ڈنوے کی والدہ پرل ڈنوے نے 1945 میں ایک نظم لکھی تھی:
”میرا بیٹا کہاں ہے؟ میں اور دنیا جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ان کا مقصد پورا ہوا ہے؟ یا اس نے زمین چھوڑ دی ہے؟ یا وہ زمین پر ہی کہیں ہے؟ یا وہ اب بھی انڈیا کے جنگلوں میں گھوم رہا ہے؟“
دوسری عالمی جنگ کا آپریشن، جو انڈیا کی سرحد تک پہنچا، کو اب بھی اور شائد رہتی دُنیا تک ہوائی نقل و حمل میں واقعی ایک دلیرانہ کارنامہ سمجھا جاتا رہے گا۔
ہمالیہ کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہونے والے ان امریکی طیاروں کی باقیات کو تلاش کرنے کے لیے گزشتہ چودہ سالوں سے انڈیا اور امریکہ کے کوہ پیماؤں، طلبا، ڈاکٹرز اور فرانزک ماہرین کی ایک ٹیم نے میانمار اور چین کی سرحد سے متصل اروناچل پردیش کے گھنے جنگلات میں سرچ آپریشن کیا
اس سرچ آپریشن میں امریکی ڈیفنس پی او ڈبلیو / ایم آئی اے اکاؤنٹنگ ایجنسی (ڈی پی اے اے) کے ارکان بھی شامل تھے، جو ایک امریکی ایجنسی ہے، جو جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کو ڈھونڈنے کا کام کرتی ہے
مقامی قبائل کی مدد سے ٹیم کئی ماہ کی کوششوں کے بعد جائے حادثہ پر پہنچی، جہاں کم از کم بیس طیارے اور متعدد لاپتہ ایئرمین کی باقیات ملی ہیں
یہ ایک اعصاب شکن مہم تھی، جس میں چھ دن کا پیدل سفر اور دو دن کا سفر براستہ سڑک تھا، اور ان تمام مُشکلات سے گُزرنے کے بعد ٹیم جائے حادثے کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوئی
برفانی طوفان کی زد میں آنے کے بعد ٹیم تین ہفتوں تک پہاڑوں میں پھنسی رہی
اس علاقے کا نقشہ فرانزک ماہر ولیم بیلچر ان الفاظ میں کھینچتے ہیں ”یہ علاقہ مشکلات سے بھرا پڑا ہے، ہموار زمین سے لے کر برف پوش چوٹیوں تک آپ کو سب یہاں ملتا ہے۔ اس سب کے بعد جو چیز آپ کے سفر کو مزید مُشکل اور تکلیف دہ بناتی ہے، وہ یہاں کا موسم ہے“
ان مہمات میں حصہ لینے والے فرانزک ماہر ولیم بیلچر نے کہا ”ہم یہ کام صرف موسم سرما اور خزاں کے آخر سے پہلے کر سکتے ہیں“
سرچ آپریشن کے دوران آکسیجن ٹینک، مشین گنز، طیاروں کے ڈھانچے، انسانی کھوپڑیاں، ہڈیاں، جوتے اور گھڑیاں بھی ملی ہیں
فی الحال متاثرین کی شناخت کے لئے ڈی این اے کے نمونے جمع کیے جارہے ہیں۔
یہاں ایک مقامی دیہات کے باشندے کے پاس سے لاپتہ ایئر مین کے بریسلیٹ کی باقیات اور تیز دھار ہتھیار بھی ملے
دراصل مقامی دیہاتیوں نے
حادثے کے کچھ مقامات کا پہلے ہی دورہ کیا تھا۔ انہوں نے وہاں سے ملنے والی ایلومینیم کی باقیات کو کباڑ کے طور پر بیچ دیا تھا
لیکن اب باقیات اور اس کے ساتھ جڑی یادوں کو محفوظ کرنے کے لئے ایک عجائب گھر تعمیر کیا گیا ہے، جو ہمالیہ کے دامن میں واقع اروناچل پردیش کے خوبصورت قصبے پاسی گھاٹ میں کھولا گیا ہے۔ اور اس کا نام ’ہمپ میوزیم‘ ہے۔ اس کا افتتاح 29 نومبر 2023 کو انڈیا میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے کیا تھا۔
عجائب گھر اس فضائی راستے پر پرواز کے خطرات کو واضح طور پر اجاگر کرتا ہے۔