کھیرتھر نیشنل پارک، ایک درد کتھا

حفیظ بلوچ

آج کی ایک خبر ہے جو سندھی اخبارات کی مین لیڈ اسٹوری میں چھپی ہے کہ نگراں سندھ حکومت نے سندھ کی 52 ہزار ایکڑ زمینیں وفاق اور مختلف کمپنیوں کو سونپنے کی منظوری دے دی ہے، جس میں کراچی کی زمینیں بھی شامل ہیں

اس سے پہلے سندھ کے جزائر، ملیر کی بچی کھچی زمینیں سیٹلائیٹ ٹاؤن کے نام پر دینے کی باتیں ہوئیں، کارونجھر کے پہاڑوں کو نیلام کرنے کی باتیں ہوئیں، سندھ کی زمینیں افواجِ پاکستان کو دینے کی تیاریاں بھی جاری ہیں، پورے سندھ کی زمینیوں کی نیلامی ہو رہی ہے۔ اس پر بات بھی ہو رہی ہے، سندھ کی مختلف سیاسی تنظیمیں احتجاج اور تحریک چلانے کا اعلان بھی کر رہی ہیں، مگر اس سارے منظر نامے پر دو نام غائب ہیں، ایک کراچی کا ملیر اور دوسرا کھیرتھر نیشنل پارک۔۔۔! سندھ کی زمینوں کی نیلامی کا سلسلہ ملیر سے شروع ہوا، مگر تب سے آج تک ملیر کسی یتیم کی طرح اپنی جنگ خود لڑتا آ رہا ہے۔

2014 سے سندھ کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا سلسلہ صحیح معنوں میں شروع ہوا، اس سے پہلے کوڑیوں کے مول ڈی ایچ اے کو ملیر کی زمینیں دی گئیں، یہ سب پیپلز پارٹی کی نام نہاد عوامی حکومت کے کارنامے تھے، وہیں سے سلسلہ شروع ہوا اور کھیرتھر نیشنل پارک تک پھیلتا چلا گیا۔ انڈیجینئس مومنٹ اور ان کے قائدین خاص طور پر ممتاز محقق تاریخ دان گل حسن کلمتی کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود سندھ کے اہلِ دانش اور اہل سیاست کی خاموشی نے یا مفاد پرست سیاست نے سندھ کو نیلام گھر میں تبدیل کر دیا ہے۔ سندھ کی قوم پرست پارٹیوں پر آئندہ کبھی بات کریں گے، ابھی اس پہ بات کرتے ہیں کہ کارونجھر پہ سلگنے والا سندھ کھیرتھر کی نیلامی اور تباہی پر کیوں چپ ہے؟ حالانکہ مرگلہ نیشنل پارک پہ جب بات آئی تو مزاحمت بھی ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس بھی ہوا اور مرگلہ نیشنل پارک کے لیئے کورٹ نے فیصلہ بھی دیا، مگر کھیرتھر نیشنل پارک کے لیئے نہ سندھ کی سیاسی دانش کے لبوں سے کوئی آہ نکلتی ہے، نہ ہی کورٹس نوٹس لیتی ہیں!

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں پچھلے دنوں کھیرتھر نیشنل پارک کا ذکر ہوا تھا، مگر جب فیصلہ آیا تھا تو کھیرتھر نیشنل پارک کے بارے میں ایک جملہ بھی شامل نہیں تھا! تو کیا کھیرتھر نیشنل کی کوئی بھی اہمیت نہیں!؟ نہ ریاست، نہ ادارے، نہ ہی اہل سیاست۔۔۔ سب چپ ہیں؟ اس کے باوجود کہ قوانین ہیں، اس کے باوجود کہ کھیرتھر نیشنل پارک ایک مکمل بائیولوجیکل اور ماحولیاتی ایکو سسٹم ہے، اس کے باوجود کہ کھیرتھر سندھ کا ایک انمول قیمتی اثاثہ ہے!

آخر میں بار بار یہ کہنے کی کوشش کیوں کرتا ہوں کہ ہمیں کھیرتھر کی تباہی پر لب کشائی کرنے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے؟ اس درد کو سمجھنے کے لیے اس بات کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ کھیرتھر نیشنل پارک کیا ہے، اور ماحولیاتی تباہی کی گہری کھائی کہ طرف بڑھتی آج کی اس دنیا میں اس کی کیا ماحولیاتی اہمیت ہے؟

کھیرتھر نیشنل پارک، جسے گئے وقتوں میں ’کوہِ باران‘ کہا جاتا تھا۔ سندھ کے جس خطے میں یہ واقع ہے ، کھیرتھر ہی کی نسبت سے اسے ’کوہستان‘ کہا جاتا ہے۔ ایک پہاڑی سلسلہ، جو کراچی سے جامشورو دادو اور خضدار بلوچستان تک پھیلا ہوا ہے، جس میں جنگلی حیاتیات کے ساتھ انڈیجینئس آبادی اور کئی ندیاں چشمے آبشار اور بیشمار وادیاں شامل ہیں، جہاں ایک تاریخ جا بجا بکھری ہوئی ہے، جو اس خطے کے شاہکار ماضی کی گواہی دیتی ہے۔

کھیرتھر نیشنل پارک 11992 اسکوائر میل ایراضی پر مشتمل ہے۔ کھیرتھر نیشنل کا 1.3 حصہ کراچی میں ہے۔ کراچی گڈاپ کے 16 دیہہ اس میں شامل ہیں۔ کھیرتھر نیشنل پارک 2.3 حصہ جامشورو اور دادو کے اندر آتا ہے، جس میں سندھ کا سب سے بلند ترین مقام دادو کا ’گورکھ ھل‘ بھی شامل ہے، جسے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے، جسے سندھ کا سرد ترین مقام بھی کہا جاتا ہے، جہاں موسم سرما میں برف پڑتی ہے۔

کھیرتھر نیشنل پارک صوبہِ سندھ کے دامن میں موجود پاکستان کا دوسرا نیشنل پارک ہے۔ سندھ کے شہر جامشورو سے آگے کرچات کے مقام پر واقع کھیرتھر رینج کا پہاڑی علاقہ ہے۔ اس پارک کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں نایاب جنگلی حیات پائی جاتی ہے، جسے دیکھنے کے لیے دور دراز سے سیاح آتے ہیں۔

کھیرتھر پارک میں کرچات سینٹر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہِ تراش کی وادی آج بھی انسانی تہذیب کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے ہے۔ کوہِ تراش فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں تراشنے والوں کا پہاڑ۔ پہاڑ اور اس کے نواح میں 3500 قبل از مسیح کے انسانی تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ یہ آثار ایک مکمل آبادی اور تہذیب کے بھرپور شواہدات فراہم کرتے ہیں۔ کھیرتھر پارک کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے خشک خطوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ علاقہ بارانی رہا ہے تاہم یہاں پر سالانہ بارش کی اوسط 6 سے 8 انچ رہی ہے۔ 1994ء سے یہ علاقہ مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہے۔ پہاڑوں پر سے گھاس پھونس، ترائی میں درختوں سے سبزہ اور موسمی ندی نالوں میں پانی خشک ہو گیا ہے اور صورت حال بدتر ہو چلی ہے۔

نایاب جنگلی حیات کی پناہ گاہ کی حیثیت رکھنے والے کھیرتھر نیشنل پارک کو عالمی حیثیت کے حامل ہونے کے علاوہ ملکی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے، سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں کسی بھی قسم کی کھدائی، کان کنی یا کسی بھی مقاصد کے استعمال کے لیے زمین کی صفائی یا ہمواری جیسے اقدامات پر پابندی عائد ہے۔ صوبائی حکومت کے ایک اور حکم مجریہ1970ء کے مطابق پارک میں تیل و گیس کے لیے کان کنی خصوصی طور پر ممنوع ہے

کھیرتھر نیشنل پارک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ 1974ء میں قائم ہونے والا کھیرتھر نیشنل پارک ہنگول نیشنل پارک کے بعد پاکستان کا دوسرا قدرتی پارک ہے،جو 3؍ ہزار 87؍ کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کھیرتھر پہاڑی سلسلے کا پہلا حصہ 11؍ سو 29؍ مربع میل اور ان پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی 8؍ ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے شمال میں تاریخی اور انسانی ہاتھوں کا تعمیر کردہ رنی کوٹ قلعہ بھی واقع ہے، جسے ’’دیوار سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رنی کوٹ قلعہ سندھ کے قوم پرست رہنما اور سابق وزیر تعلیم جی ایم سید کے آبائی گائوں ’’سن‘‘ سے 30؍ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پارک کی جنوبی سمت بلوچستان کا علاقہ حب، مشرق میں شکار کی رکھ، سمبگ، سورجانو، اری اور ہوگیانوں کے علاقے، جب کہ مغرب میں لسبیلہ اور خضدار کے ویران علاقے واقع ہیں۔

1997ء کے بعد کئے جانے والے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اس پارک میں 22؍ ہزار خاندانوں پر مشتمل 118؍ مستقل گاؤں تھے، بعد ازاں کراچی کے علاقے ملیر کے 70؍ ہزار گھر بھی اسی پارک کی آبادی میں شامل کردیے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ لاکھوں سال پہلے یہ کوہستانی خطہ سمندر کے نیچے تھا، مگر پھر موسمی تغیرات کے سبب سمندر سیکڑوں کلومیٹر پیچھے ہٹ گیا تو یہ خوب صورت اور پرسکون علاقہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بعد ازاں اس خطے میں زندگی نمودار ہوئی اور لوگوں نے اسے رہائش کا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ سندھ کے اس طویل پہاڑی سلسلے میں ہزاروں سال قدیم زندگی کے آثار کے علاوہ معدوم نسل کے جانوروں کے فوسلز بھی پائے جاتے ہیں۔

ان بستیوں میں کوہستان کا کرچات، بچانی، بالی تھاپ، ریک اور تونگ خاصے مشہور ہیں۔ 1926ء کے میں آثار قدیمہ کے ماہر ایم، این، جے موجمدار نے کنبوہ، بدھار، بھٹ کے درمیانی علاقے (جسے گاج کابند) میں واقع ایک پہاڑی سلسلے میں ’’کوہ تراش‘‘ نامی علاقہ دریافت کیا تھا، جو موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی قدیم تہذیب سے بھی دو ہزار سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ محققین کےمطابق ان علاقوں کے باشندوں کی قدیم نسلیں آج ملیر کراچی کے علاقے میمن گوٹھ، چوکنڈی اور منگھوپیر کے علاقوں میں آباد ہیں۔

تونگ یہ پارک کا قدیم گاؤں ہے جس میں کولہی، شورو، گبول، جمالی، چانڈیو، ملک و دیگر برادری کے باشندے آباد ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ـ اس گاؤں کی مجموعی آبادی 10؍ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

1941ء میں ایچ ٹی لمبرگ، 1981ء کے دوران لوئس فلیم اور 1997ء میں ان کی ٹیم نے ملبورن کی ٹیم کےساتھ دورہ کیا اور انہوں نے مشترکہ طور پر تونگ میں آبادی، کھیرتھر پہاڑی سلسلے اور قدیم قبرستان پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی تھی، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’تونگ کے مکینوں کی زندگی کا انحصار بارش، گاج اور باران جیسی صاف پانی کی ندیوں پر منحصرہے‘‘ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کے مطابق تونگ کے قریب بارش کے پانی کو زراعت و دیگر کاموں کے لئے استعمال کرنےکے لئے قدیم دورمیں تعمیر کیا جانے والا ’’کبر بند‘‘ موجودہ دور میں بھی اپنی افادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس بستی کے لوگ انتہائی جفاکش ہیں۔

زراعت ان کا پسندیدہ ذریعہ معاش ہے، لیکن مویشیوں کی افزائش اور دیکھ بھال میں بھی خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔ مہمان نوازی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ جب کہ پرندوں کے شکار کو معیوب سمجھتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں چیتے بھی موجود تھے، لیکن شکاریوں کے ہاتھوں ان کی نسل معدوم ہوتی گئی۔ پارک کا آخری چیتا 1977ء میں شکاریوں نے شکار کیا تھا۔ تونگ بستی کے گرد خاردار درختوں اور جھاڑیوں کی بھرمار ہے۔
یہاں املتاس، کیکر، قیمتی و نایاب جڑی بوٹیوں، جنگلی پودے عام ملتے ہیں۔ فاختاؤں، بلبل، عقاب سمیت 276 مختلف نسل کے پرندے بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ اس پارک میں امریکا کی ریاست ٹیکساس کی جانب سے تحفے میں دیئے گئے پہاڑی بکروں کی نسل اٹھکیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہے۔

تونگ بستی میں واقع 59؍ مربع میل پر محیط شفاف پانی کی’’ ٹِکو باران جھیل‘‘ کیرتھر نیشنل پارک کا دل ہے۔

یہ ہے کھیر نیشنل پارک کے حقائق اور اس کی حیثیت مگر اب کھیرتر نیشنل کے پارک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، وہ سچ دنیا کے نظروں کے سامنے سے اوجھل ہے!

جیسے کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں درخت کاٹنے سے لے کر شکار اور کسی بھی قسم کی کھدائی، کان کنی یا کسی بھی مقاصد کے استعمال کے لیے زمین کی صفائی یا ہمواری جیسے اقدامات پر پابندی عائد ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک ان فیصلوں پر سختی سے عمل بھی کرایا جاتا تھا، وائیلڈ لائیف کے اہلکار ہر وقت ان علائقوں میں موجود رہتے تھے اور کوئی بھی اگر ایسا کرتا تو اسے پکڑ کر جرمانہ کر دیتے تھے ـ اس لیئے 2015 سے پہلے تک یہاں جو کچھ بھی تھا، وہ سب محفوظ تھے مگر اس کے بعد شروع ہوتی ہے ترقی کے نام پر ایک ایسی تباہی، جو آگے چل کر اس پورے خطے کو تباہ و برباد کر دے گی۔۔

2013 کے بعد اس خطے میں دو بڑے کمرشل پراجیکٹ لانچ کیئے گئے بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے ـ جس میں ملیر کے بارانی اور زرعی زمینیں متاثر ہونی تھیں، جس میں ملیر کے پہاڑ اور ندیوں کو تاراج ہونا تھا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کراچی کا یہ مضافاتی علائقہ زرعی اور ماحول کے نسبت سے کراچی کا ایکو سسٹم ہے، کراچی کو آکسیجن مہیا کرتا ہے ـ ان دونوں کمرشل پراجیکٹ کے لیئے نہ تو پاکستان کے مروجہ قوانین کی پاسداری کی گئی، نہ ہی یہاں پہ صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی یہاں کے جنگلی حیاتیات کے تحفظ کا خیال رکھا گیا۔

ان سالوں میں ان دونوں منصوبوں کے لیئے ہر جائز ناجائز طریقے استعمال کر کے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو تاحال جاری ہے۔ ان طریقوں میں زمینوں کی غیر قانونی منتقلی سے لے کر زور زبردستی سے زمینوں پر قبضہ کرنا شامل تھا۔ پہاڑ کاٹے گئے اور ندیوں کو برباد کیا گیا، اب یہ سلسلہ ملیر سے نکل کر کھیرتھر نیشنل پارک کے پروٹیکڈیڈ ایریا سے ہوتا ہوا کھیرتھر نیشنل پارک تک پہنچ چکا ہے۔

ایک طرف ڈی ایچ اے ان زمینوں کے سروے کر رہا ہے جو کھیرتھر نیشنل پارک کے رینج میں آتے ہیں۔ سنا ہے کہ ان علائقوں میں ڈی ایچ اے انڈسٹریل زون بنانے کا منصوبہ بندی کر رہا ہے اور دوسری طرف بحریہ ٹاؤن کراچی دیھ مول کے ان علائقوں می ریتی بجری نکالنے کے لیئے مائینگ کر رہا ہے، جو کھیرتھر نیشنل پارک میں آتے ہیں۔ کریش کے پتھروں کے لیئے پھاڑوں کو کاٹا جا رہا ہے، یہ وہ علائقے ہیں جہاں جنگلی حیاتیات موجود ہیں جن میں جنگلی ھرنیں اور دوسرے جاندار شامل ہیں ـ دیھ مول کے خوبصورت وادی پاچران کو مول ندی کو بھی کھود کر وہاں بڑے گڑھے بنائے جا رہے ہیں، جس سے یہاں کے مقامی لوگ اور آگے چل کر پورا ملیر قحط سے تباہ برباد ہو جائیں گے۔

اسلام آباد ھائی کورٹ نے تو مارگلہ ہل نیشنل پارک کے لیئے نوٹس لے لیا، احکام بھی جاری کر دیئے۔۔ مگر کھیرتھر نشنل پارک، جو عالمی ورثے میں شامل ہے، اسی کھیرتھر نیشنل پارک کو اب بلڈر مافیا اور ریتی بجری مافیا کے ہاتھوں میں دے دیا گیا، جہاں قانونی طور پر درخت کاٹنے سے لے کر مائینگ کرنا ممنوع تھا، پہلے درخت کاٹ کر اس خطہ زمین کی قدرتی خوبصورتی ختم کر دی گئی اب بڑے بڑے مائینگ کے لائینسیس دے کر اس خطے کو تباہ برباد کیا جا رہا ہے، اب اس کے لیئے کون نوٹس لے گا۔۔ کیونکہ صوبائی سرکار سے لے کر قومی سرکار تک سب بلڈر مافیا کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں!

کھیرتھر نیشنل پارک ہم سے جڑا ہوا ہے، مول ندی سے لے کر جرندو ندی، تھدو ندی، کھدیجی ندی، لنگھیجی ندی، لٹ ندی اور بہت سارے چھوٹے بڑے نالے ان میں مون سون کی بارشوں میں بہنے والا پانی ہماری زندگی کا حصہ ہیں، جو کھیرتھر نیشنل پارک کے پہاڑوں کے مرہون منت ہیں ـ پہلے ملیر اور اب کھیرتھر نیشنل پارک کی تباہی یہاں پہ صدیوں سے آباد لوگوں، یہاں پہ موجود جنگلی حیاتیات، چرند پرند اور کراچی کے ایکو سسٹم کی تباہی ہے ـ اب اس تباہی کو کون روکے گا۔۔ اس ریاست کے کون سے ادارے، کون سا قانون ان کو بچا سکتا ہے، یہ نہیں معلوم۔۔ مگر جن سے امیدیں تھیں کہ وہ آگے آ کر سندھ کے اس قیمتی اثاثے کو بچانے کے لیئے کردار ادا کریں گے، وہ تو آج بھی خوابِ غفلت میں اور اپنے مفادات سے ہٹ کر کچھ کرنے کو تیار نہیں۔

ہم کارونجھر کی اہمیت کو سمجھتے ہیں مانتے ہیں اور اس کے لیئے وہی کہتے ہیں جو کارونجھر کے باسی کہتے ہیں، مگر کوہ باران یا کھیرتھر کے باسی آج جس کرب اور تکلیف میں مبتلا ہیں، اس کے نصیب میں آج بھی سوائے اپنے ہرنوں چنکارا کی لاشوں کے سواء کچھ نہیں، کارونجھر کے لیئے تو کورٹ کے آڈر آ گئے مگر کھیرتھر کے دامن میں آج بھی بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے بلڈوزر شاول اور پہاڑ کاٹنے والے کٹر لکھے ہیں۔۔ کل کی خاموشی آج کی تباہی ہے اور آج کی تباہی مستقبل کی بربادی۔۔ مگر کون سمجھے!؟ آج بھی سندھ کی سیاسی دانش سندھ کے زمینون کے نیلامی خلاف انگڑائی لیتی نعرے لگا تو رہی ہے، مگر اب بھی ان کی زبانوں پر کھیرتھر یا ملیر کا نام صحیح طرح نہیں آتا۔۔ کوئی پوچھے تو لاپرواہی سے کچھ کہہ تو دیتے ہیں مگر وہ احساس نہیں آ پاتا، جیسے ہم، ہمارا کھیرتھر یا تو سندھ میں نہیں، یا ہم سب کی کوئی اتنی اہمیت نہیں۔ اس سیلکٹیو ایکٹیو ازم سے تحریک نہیں ابھر سکتی، بس وقتی شوق پورا ہو جاتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close