ہماری قومی و ریاستی بے حسی کے باعث انڈس ڈولفن کی معدوم ہوتی ہوئی نسل

آصف رضا موریو

دریائے سندھ اپنے سینے پر ہونے والی دہشت گردیوں اور قبضہ گیریوں کی وجہ سے کئی دہائیوں سے سکرات کے عالم سے گزر رہا ہے۔ اس کا پیٹ سال کے کئی مہینے بھوک و پیاس کی وجہ سے سوکھا رہتا ہے اور تب اس کی زرخیز چھاتی پر پانی کی بپھری ہوئی موجوں کی جگہ حدِ نگاہ ریت کا سمندر کروٹیں بدلتے ہوئے ملتا ہے اور جگہ جگہ خشکی کے بادل امڈتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بیراحوں، شاخوں اور کینالوں کے لمبے لمبے بازو سمٹ کر کناروں سے لگ جاتے ہیں۔

انڈس فلائی زون کے لئے سرد ملکوں سے آنے والے خوشنما پرندوں کی لاکھوں اقسام اپنی پسندیدہ جگہ پر ریت اڑتی دیکھ کر یہاں سے کہیں اور چلے جاتے ہیں۔ اپنوں کی لاتعلقی اور بیگانگی کے باعث دنیا کی تہذیبوں میں ماں کا درجہ رکھنے والا یہ شیر دریا اپنی بقا کی آخری جنگ بھی ہارتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اب جہاں بذاتِ خود اس اَن داتا کی جھولی سوکھ رہی ہے تو اس قیامت خیز صورتحال میں اس کے پانیوں سے سیراب ہونے والے میدانوں، زمینوں، باغات، جھیلوں یا اس میں پلنے والی آبی و زمینی مخلوقات کا کیا حشر ہورہا ہوگا، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

پاکستان میں دریائے سندھ انڈس ڈولفن کی واحد رہائش گاہ ہے۔ اب جبکہ اس دریا کا وجود بذاتِ خود خطرے میں ہے تو اس کے پانیوں میں پلتی ہوئی حیاتیات، نباتیات اور سرزمینِ سندھ پر آباد لاکھوں انسان، چرند و پرند اور ماحول بھی اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یوں دریائے سندھ میں پائی جانے والی دوسری مخلوقات کی طرح سندھ کی یہ نابینا ’بلہن‘ جسے انڈس ڈولفن بھی کہا جاتا ہے، کی معدوم ہوتی ہوئی نسل بھی دنیا کی باشعور قوموں کو ’SOS‘ سگنل دے رہی ہے۔

ڈولفن کی دیگر تمام نسلوں کی طرح سندھی بلھن کی وجہ شہرت اس کا دوستانہ ہے، لیکن در حقیقت یہ ایک خونخوار آبی جانور ہے، جس کے ساتھ احتیاط اور احترام برتاؤ کیا جانا چاہئے کیونکہ چھیڑخانی یا شرارت بازی سے ڈولفن اپنا رویہ تبدیل کرتی ہے، جیسا کہ عموماً کہا جاتا ہے کہ آبی حیات خطرناک ہو سکتی ہے۔ اکثر اوقات سائنس دان اور ذمینداران دیکھنے، کھانا کھلانے اور تیراکی کے پروگراموں میں اضافے کے سبب ڈالفن کے زخمی ہونے یا انسانوں کو ہلاک کرنے کے اندیشے میں مبتلا رہتے ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ دریائے سندھ میں ڈولفن کا متحرک آغاز قدیم ٹیتھس سمندر میں سے ہوا تھا۔ ہزاروں سال پہلے یہ سمندر سوکھنے کے سبب یہاں کی باسی ڈالفنز مجبور ہوئیں کہ وہ اپنی رہائش گاہ دریاؤں کو بنالیں اور تب سے وہ دنیا بھر کے نہری نظام کا حصہ بنی ہوئی بھٹک رہی ہیں۔ پاکستان میں آج وہ دریائے سندھ کے نچلے حصوں اور پنجاب، بھارت میں دریائے بیاس میں پائی جاتی ہیں۔

پاکستان میں آبپاشی کے نظام کی تعمیر کے بعد ان کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ انڈس ڈولفن دریائے سندھ کے 750 میل کے فاصلے تک محدود ہیں اور چھ بیراجوں کے ذریعے الگ تھلگ آبادی میں منقسم رہتے ہوئے انہوں نے دریا کے گدلے پانی میں زندگی کو ڈھال لیا ہے، جہاں جھینگے، کیٹفش اور کارپ اس کی پسندیدہ غذا مانے جاتے ہیں۔

انڈس ڈولفن کی آنکھوں میں موجود روشنی منعکس کرنے والے عضو کمزور ہونے کے سبب یہ اندھیرے اور روشنی یا دن اور رات میں فرق محسوس نہیں کر سکتی ہے، جس کے سبب سندھی زبان میں اسے ’اندھی بلہن‘ کہا جاتا ہے۔ جینیاتی طور پر یہ ڈولفن نابینا نہیں تھی مگر وقت کے ساتھ دریائے سندھ کے ہونے والے کھارے، آلودہ اور میلے پانی کے سبب اس کی آنکھوں کی بینائی نور سے محروم ہوتی چلی گئی۔

مجموعی طور پر بھورا رنگ رکھنے والی انڈس ڈولفن کا درمیانی جسم کالا سا بھورا نما ہوتا ہے اور یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی تمام ڈولفن کی چار نایاب نسلوں میں سے ایک ہے جو دریائے سندھ کے ساتھ انڈیا، نیپال، بنگلادیش کے پانیوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ڈولفن کی دوسری قسم چائنا کی یانگری ڈولفن، تیسری اورینوکو اور چوتھی قسم امیزوں دریاؤں کی شہزادی بوٹو ڈولفن ہے۔ ان چاروں نایاب نسلوں میں سے انڈس ڈالفن کے وجود کو ریاستی لاپرواہی اور سندھی لوگوں کی اپنے اثاثوں سے متعلق لاوارثی کے سبب سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

انڈس ڈولفن کی دریائے سندھ میں موجود تعداد جانچنے کے لئے 1974 میں جی پلیری نامی ایک محقق جب ابھیاس کرنے آیا تھا تو اس نے یہاں صرف ڈیڑھ سو کے قریب ڈولفن کی قلیل تعداد نوٹ کی اور اس کی جوڑی گئی رپورٹ پر IUCN نے انڈس ڈولفن کا نام دنیا سے معدوم ہوتی ہوئی آبی جاتوں سے متعلق ’ریڈ ڈیٹا بک‘ میں ڈال کر اسے بچانے کا عندیہ بھی دیا تھا، جس کا نوٹس لیتے ہوئے ’جنگلی حیات کھاتہ حکومت سندھ‘ نے دریائے سندھ پر گڈو بیراج سے سکھر بیراج کے درمیانی علاقے کو انڈس ڈولفن کے لئے مخصوص ’نرسری‘ قرار دے دیا تھا۔

بعد ازاں جنگلی حیات کے تحفظ کے بین الاقوامی ادارے ورلڈ وائیلڈ لائیف فنڈ (WWF) نے اپریل 2001ء میں اپنے دو نمائندے مسٹر رابرٹ اور جل بروک (جو پیشے کے لحاظ سے زرعی ماہر اور ہائیڈرولوجسٹ تھے) کو انڈس ڈولفن پر تحقیق کرنے بھیجا تھا، جنہوں نے اپنی رپورٹوں میں اس آبی جانور کی معدومیت سے متعلق بیشمار خدشات ظاہر کئے تھے، جنہیں (ان کے مطابق) اگر مناسب طور پر حل نہ کیا گیا تو اس ڈالفن کی نسل کچھ دہائیوں میں مکمل طور پر وشال آبی ذخیروں سے گم ہوجائے گی۔

کافی عرصہ پہلے امریکہ کی جانب سے UNDP پروگرام کے تحت لاہور کے چڑیا گھر کی معرفت پچاس ہزار ڈالر کی امداد ملنے کے بعد بھی اس آبی جانور کو بچانے کے لئے ریاستی، قومی اور ادارتی پس منظر میں کوئی خاص اور عملی کام دیکھنے میں نہیں آیا۔

انڈس ڈولفن کی ختم ہوتی ہوئی نسل کا اس وقت تک خاص ترین سبب دریائے سندھ پر انگریزوں کے بنائے ہوئے بیراجوں کو قرار دیا جا رہا ہے، جو اس دور میں سندھ کے میدانی علاقوں کو قابلِ زراعت بنانے کے لئے بنائے گئے تھے۔ آبپاشی کے اس نظام سے سندھ کے میدان تو آباد ہو گئے مگر انڈس ڈولفن کی افزائشِ نسل کافی متاثر ہوئی اور اس کے شکار کئے جانے کا خطرہ بھی بڑھ گیا، جس کے سبب اس کی کم ہوتی ہوئی تعداد کے ساتھ اس کی افزائش بھی وقت کے ساتھ آہستہ ہوتی رہی۔ اکثر اوقات یہ خبریں یا رپورٹیں سامنے آتی رہتی ہیں کہ دریائے سندھ سے نکلنے والی مختلف نہروں جیسا کہ کھیرتھر کینال، دادو کینال، رائیس کینال وغیرہ میں سے ہر سال انڈس ڈالفن کی ساٹھ ستر کے قریب تعداد بہہ کر آگے تنگ آبی راستوں میں پھنس کر رہ جاتی ہے، جن میں سے بیشتر موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں، جبکہ کچھ کو بازیاب کر کے پھر سے گہرے پانی میں ڈالا جاتا ہے۔

انڈس ڈولفن کی سست بڑھوتری کی رفتار کا اندازہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی اس رپورٹ اور انڈس ڈالفن پر ہونے والی دیگر بیشمار اداروں کی رپورٹوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1974ء میں اس کی تعداد قریباً 150 تھی، جو دس سال بعد 1984ء میں بڑھ کر 370 ہو گئی۔ 1994ء میں یہ تعداد پانچ سو، 2001ء میں 549، 2006ء میں 2441 تھی ۔ 2010ء میں آنے والے سیلابوں کے دوران ہونے والی اس ڈولفن کی ہلاکتوں کے سبب گھٹ کر اب یہ تعداد صرف ایک ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2011ع میں 82 انڈس ڈالفن ہلاک ہوئیں اور شکار الگ ہوئیں۔

انڈس ڈولفن کی کم ہوتی ہوئی نسل کے اسباب دریائے سندھ میں آبی قلت، پانی کی آلودگی کے ساتھ، مختلف ادوار میں آنے والے سیلاب، ضرورت سے زیادہ شکار کے لائیسنس اور کیڑے مار زرعی ادویات کا استعمال بھی مانے جاتے ہیں، جس سے پانی زہریلا ہو جاتا ہے۔ اس خوبصورت آبی مخلوق کی گھٹتی ہوئی نسل کو بچانے اور اس پر تحقیق کے لئے سندھ وائیلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے بین الاقوامی ادارے IUCN اور تحفظِ حیوانات کرنے والے ایک خانگی ادارے ’وولکر فائونڈیشن‘ کے تعاون سے ایک پروگرام بنایا تھا، جس پر کچھ عرصہ کام بھی ہوا مگر 1980ء میں جب غیر ملکی کمپنیوں نے اپنا ہاتھ کھینچ کر امداد دینا بند کردی تو خیرات پر چلنے کے عادی ہمارے سرکاری اداروں نے اس پروگرام کے بچے کھچے معاملات اپنی بری عادتوں کی نظر کر کے فنڈز کو بھی خرد برد کر دیا تھا۔

اس کے بعد آج تک اس معصوم جانور کی خیر خبر نہیں لی گئی، البتہ یہاں پر موجود شیرشکار کرنے والے گروہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کی تاک میں لگے رہتے ہیں، کیونکہ انڈس ڈولفن کی چربی سے نکلنے والا تیل انتہائی کارآمد ہونے کی وجہ سے کافی مہنگا بکتا ہے، جس کے حصول کی خاطر شکاری اس خوبصورت جاتی کو بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ سے مارتے رہتے ہیں۔

پانی کی کمی کے دنوں میں ہر سال دریائے سندھ کے مختلف علاقوں سے انڈس ڈالفن مردہ و زندہ حالت میں ہاتھ آتی رہتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ سال بھی پچیس مردہ اور اٹھارہ زندہ ڈولفن ہاتھ آئی ہیں، جن میں سے زندہ دس ڈولفن مختلف طاقتور سیاسی و سماجی افراد نے ہتھیالیں جبکہ بقایا کو مقامی لوگوں اور حکومتی اہلکاروں نے تحویل میں لے کر گہرے پانی میں چھوڑ دیا۔ اس طرح گزشتہ بیس برس کے دوران چار پانچ سو ڈولفن مری یا ماری جاچکی ہیں۔

خشکی کے موسم میں جب زمین اپنا پانی چوس لیتی ہے تو یہ ڈولفنز بچے کھچے تالابوں یا دیگر آبی ذخیروں میں نظر آتی رہتی ہیں، جن پر علاقے کے جاہل اور بے رحم لوگ بندوقوں، رائفلوں اور لاٹھیوں سے مشقیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بدقسمتی سے کہیں بھی پھنسی ہوئی ڈولفنز کو بچا کر انہیں ندی میں واپس چھوڑنے، اس کے بچاؤ سے متعلق ماہی گیری کے پائیدار طریقے متعارف کروانے، زرعی دوائوں سے پانی کی آلودگی کو کم کرنے، اس پر تحقیق کرنے یا اس کی اہمیت کے متعلق آگاہی دینے والے اداروں کی پاکستان میں بہت کمی ہے۔

باشعور ممالک میں جہاں انسانی حقوق کے ساتھ جان و مال کا بھی تحفظ دیا گیا ہے، وہیں ان لوگوں نے چرند و پرند کے تحفظ کو بھی قانونی کتابوں سے نکال کر اپنے سماجی، نفسیاتی اور ذاتی معاملات، یاداشتوں اور رویوں میں محفوظ کر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہاں ختم ہوتی ہوئی جانوروں اور پرندوں کی بیشمار نسلوں کو بچانے کے لئے بھی اجتماعی اور انفرادی طور پر عملی کام کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے بن مانس، کینگرو، سفید ریچھ، کالے ہرن، پانڈا اور بھالو وغیرہ کے ساتھ ڈولفن کی مختلف نسلوں کو بچانے کے لئے ایک عرصے سے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور اس مقصد کے لئے دنیا بھر میں اپنی تربیت یافتہ ٹیمیں بھیجی ہوئی ہیں، جو پوری تندہی کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی میں سرگرمِ عمل ہیں۔ ان ہی اداروں کی کوششوں کے سبب انڈس ڈولفن کو بچانے کے لئے اب سینکچوئری کے طور پر ’ورلڈ ہیریٹیج ایریا‘ بھی بنایا گیا ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ صدیوں کے ساتھ دریائے سندھ کے وشال آبی ذخیروں پر راج کرنے والی اس جل پری انڈس ڈولفن کے حسین و جمیل پیکر کو بچایا جا سکتا ہے کہ نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close