امریکہ میں آقا، ملازم اور غلام

ڈاکٹر مبارک علی

1620 میں پیورٹین فرقے کے لوگ امریکی ریاست میساچوسٹس میں آ کر آباد ہوئے تاکہ یہاں وہ اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزاریں۔ ان کی تعداد کم تھی جبکہ زمین وافر مقدار میں تھی، اس لیے انہیں نئے آبادکاروں کی ضرورت تھی جو ان کی روزمرہ کی ضروریات کو بڑھائیں۔ اس مقصد کے لیے کالونی کے بااختیار افراد نے آقا (ماسٹر) اور ملازمین کا ادارہ قائم کیا۔

ملازمین میں یورپ سے امریکہ آنے والے لوگ، آبائی امریکی باشندے اور افریقہ سے لائے گئے سیاہ فام شامل تھے۔ ملازمین میں سب سے آگے سفید فام تھے۔ اس کے بعد آبائی امریکی اور آخر میں سیاہ فام تھے۔

ملازمین میں وفاداری کے جذبات کو پیدا کرنے کے لیے اور ان میں ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے مذہب کو استعمال کیا گیا۔ بائبل کے حوالوں سے یہ ثابت کیا گیا کہ خدا نے کچھ لوگوں کو افضل اور کچھ کو کم تر پیدا کیا ہے، لہٰذا نچلے طبقے کے لوگوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اشرافیہ کے تابع رہیں اور ان کی اطاعت کریں۔

آقا اور ملازمین کے ادارے کو جن ذرائع سے مدد ملی اولین طور پر وہ کالونی کے غریب خاندان تھے اور نہ تو وہ اپنے بچوں کو تعلیم دِلا سکتے تھے اور نہ ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کر سکتے تھے۔ اس لیے یہ اپنے لڑکوں کو آقا کے سپرد کر کے اس کی شاگردی میں دے دیتے تھے۔

ان ملازمین کی تربیت کا پہلا مرحلہ آقا کی شاگردی اختیار کرنا تھا۔ تمام شاگرد آقا کے ساتھ ہی اس کے گھر میں رہتے تھے، اور آقا ہی ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتا تھا۔

سال میں دو مرتبہ ان کو کپڑوں کے دو نئے جوڑے دیے جاتے تھے۔ پورے ہفتے کام لیا جاتا تھا اور کوئی ہفتہ وار یا سالانہ چھٹی نہیں ہوتی تھی۔

شاگردی کی مدت چھ سے سات سال ہوا کرتی تھی۔ آقا اور ملازمین کے درمیان تحریری معاہدہ ہوتا تھا، جس کی شرائط کے تحت ملازمین کو آقا کے احکامات ماننے پڑتے تھے، اور انہیں یہ وعدہ کرنا پڑتا تھا کہ وہ آقا کے رازوں کو اَفشا نہیں کریں گے، جھوٹ نہیں بولیں گے۔ شراب خانے میں نہیں جایٔں گے۔ جنسی بےراہ روی سے پرہیز کریں گے۔

اس موضوع پر ایل ڈبیلو ٹاؤنٹر کی کتاب A Good Master Well Served میں تفصیل سے ان ذرائع کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے کالونی میں ملازمین آتے رہے اور اس ادارے کو مضبوط بناتے رہے۔

دوسرا اہم ذریعہ، جہاں سے ملازمین آتے تھے اور آقا کو اپنی خدمات سپرد کرتے تھے، وہ انگلستان آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ تھے۔ انگلستان سے وہ جنگی قیدی آتے تھے جو مختلف جنگوں کے نتیجے میں قید ہوئے تھے۔ اس کے بعد مجرموں کی ایک بڑی تعداد تھی جن سے انگلستان جان چھڑانا چاہتا تھا۔

آئرلینڈ میں جہاں بےانتہا غربت اور افلاس تھا، اس کے غریب لوگ بھی کالونی میں آ کر تربیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اسکاٹ لینڈ سے بھی نادار لوگ اس میں شامل تھے، جنہیں بحری جہازوں میں بھر کر لایا جاتا تھا اور ان سے یہ معاہدہ کیا جاتا تھا کہ وہ اپنی تربیت کے دوران جو معاوضہ مِلے گا، اس کا ایک حصہ جہاز کے سفر کی قیمت کے طور پر ادا کریں گے۔

بحری جہازوں کی آمد سے پہلے کالونی کے اخباروں میں یہ خبریں شائع ہو جاتی تھیں کہ اتنی تعداد میں لوگ چاہییں اور جن جن کو ضرورت وہ تیار ہو جائیں۔ نئے آنے والوں کو بھی پہلے شاگرد کے طور پر رکھا جاتا تھا، ان سے بھی تحریری معاہدہ کیا جاتا تھا اور آقا انہیں اپنے گھر میں رکھ کر کام کے عوض ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتا تھا اور یہ لوگ کاریگری کے کسی فن میں تربیت پا کر معاشرے کے لیے سودمند ہو جاتے تھے۔

تیسرا ذریعہ، جو ملازمین فراہم کرتا تھا، وہ آبائی امریکی باشندوں کے ساتھ کالونی کی جنگیں تھیں، لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ آبائی امریکی باشندوں کو ان کے علاقوں میں محصور کر کے رکھا جائے۔ ملازمین کے حصول کا آخری ذریعہ اٹھارہویں صدی میں آنے والے افریقی غلام تھے، جنہیں افریقہ سے لا کر منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تھا۔

یہ نسلی تعصب کا شکار لوگ تھے اور بحیثیت ملازم ان کی عزت نہیں کی جاتی تھی۔ چرچ میں جہاں عبادت کے لیے سب لوگ جمع ہوتے تھے، وہاں سیاہ فاموں کی نشستیں علیحدہ ہوتی تھیں، اور پادری اپنے وعظ میں بار بار بائبل کا حوالہ دے کر کہتا تھا کہ ملازمین کو اپنے آقا کا وفادار ہونا چاہیے، یہ خدائی احکامات ہیں، جس کا اَجر انہیں آخرت میں مِلے گا۔

ملازمین کو اجازت نہیں تھی کہ وہ آقا کی محفلوں میں شریک ہوں، اس لیے یہ علیحدہ سے اپنی محفلیں منعقد کیا کرتے تھے اور علیحدہ سے مختلف کھیل کھیلا کرتے تھے۔

اگرچہ اس ادارے کو بےانتہا منظم رکھا گیا لیکن ملازمین کی جانب سے آقا کی سختی اور تشدد کی وجہ سے مزاحمتیں بھی ہوئی۔ کچھ ملازمین نے تنگ آ کر آقاؤں کو قتل بھی کیا۔ کچھ ملازمین چوری بھی کرتے تھے اور کام میں سستی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ کچھ فرار ہو کر سختیوں سے نجات پانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔

فرار ہونے کی وجہ سے آقا کو نقصانات اٹھانے پڑتے تھے۔ ایک تو اس کا ایک ملازم کم ہو جاتا تھا دوسرے فرار ہونے والا ملازم آقا کی کئی چیزیں ساتھ لے جاتا تھا۔

فرار ہونے والے ملازم کو پکڑنے کے لیے آقا کو کافی کوشش کرنی پڑتی تھی۔ اگر ملازم پکڑا جاتا تھا تو واپسی پر اسے سخت سزا دی جاتی تھی۔ اس کے برہنہ جسم پر کَوڑے مارے جاتے تھے اور اسے کئی طرح کی اذیتیں دی جاتی تھیں۔

کالونی کے بااَختیار افراد بے حد مذہبی تھے، اس لیے مذہب کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرتے تھے۔

آقا اور ملازمین کے ادارے نے کالونی کے معاشرے کو تبدیل کر کے اسے ترقی دی۔ کچھ ملازمین کو آخر میں بطور معاوضہ زمین بھی دی گئی، جہاں انہوں نے آزادانہ زندگی اختیار کر کے اپنی سماجی زندگی کو خوش گوار بنایا۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close