’چاندنی تمہارے بن نہیں ہو گی‘، لفظوں سے تصویریں بنانے والے شاعر شیخ ایاز

علی عباس

ایک مصور اپنے جذبات و احساسات کی قوسِ قزح کے رنگوں سے کینوس پر شاعری کرتا ہے اور اس کے یہ رنگ باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ انقلاب کے گیت، رومان کے نغمے اور ہجر کی طویل راتوں کے قصے، وصل کے دلآویز لمحے۔ اس کے کینوس کی زینت بڑھاتے ہیں۔
دوسری جانب شاعر لفظوں سے تصویریں بناتا ہے۔ انسان پر بیتنے والے جبر کی تصویر، دُکھ اور افلاس کی تصویر، ٹوٹے خوابوں کی کرچیوں کی تصویر۔۔

اس کی ان اَن گنت تصویروں میں زیست کا ہر رنگ موجود ہوتا ہے۔ انقلاب کا رنگ، بغاوت کا رنگ، خامشی کا رنگ، ہجر کی اُداس راتوں اور وصل کی حسیں رُتوں کا رنگ،
شاعر لفظوں کی کاری گری سے وہ خواب دکھاتا ہے جو ہر آنکھ میں موجود تو ہوتے ہیں مگر لفظوں سے ان احساسات کو شکل دینا ہر کسی کے بس میں نہیں۔

یہ سندھی زبان کے شاعرِ بے بدل شیخ ایاز کی کہانی ہے، جو لفظوں کی وادی کا ایک ایسا بنجارا تھا، جس نے ایک عہد کو متاثر کیا۔

مجھے یاد ہیں وہ زمستاں کی راتیں
ستارے ٹھٹھرتے تھے بامِ فلک پر
مے آتشیں جام میں جم گئی تھی
میرے گرم کمرے میں شمعِ فروزاں
الجھنے لگی موت کی تیرگی سے
انگیٹھی کا ایندھن دہکنے لگا تھا
اچانک ہوادان سے ایک چڑیا
شب تار سے بھاگتی آگئی تھی
ننھی منی سی تھی، سراسیمہ سی تھی
گھڑی دو گھڑی گرم و روشن فضا میں
پھڑکتی رہی، پھر اڑی
جب سے میرے لیے ایک تمثیل سی بن گئی ہے
یہ وقفہ یہ عالم سراسیمگی کا
گھڑی دو گھڑی گرمی و روشنی کا
حیاتِ بشر ہے۔۔

یہ اس شاعر کا کلام ہے جنہوں نے اپنی زندگی انقلاب، تبدیلی اور عوام کو آواز دینے کے لیے تیاگ دی تھی۔

وہ سندھ کی عوام کا نمائندہ بن کر ابھرے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ وہ صرف سندھ یا پاکستان کے ہی شاعر نہیں تھے، وہ تو برصغیر کے قومی شاعر تھے۔ ان کی شاعری کے کینوس میں ہر رنگ تھا۔

شیخ ایاز کی پیدائش دو مارچ 1923 کو سندھ کے شہر شکارپور میں غلام حسین شیخ کے ہاں ہوئی۔
یہ شہر دنیا میں اپنے لذیذ اچار اور چٹنیوں کی وجہ سے مشہور ہے مگر اس کی شہرت کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ یہ اس دھرتی کے عظیم ترین شاعر کی جنم بھومی ہے۔
سندھ کے پیبلو نرودا کے نام سے مشہور شیخ ایاز کا رواں سال صد سالہ یومِ پیدائش گزرا ہے جس کی مناسبت سے سندھ کے علاوہ ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

شیخ ایاز کی وفات آج سے پورے 26 سال قبل 28 دسمبر 1997 کو ہوئی۔ ان کے والد محکمہ ریونیو میں ملازم تھے جنھوں نے تین شادیاں کیں۔
ان کی والدہ ایک ہندو بیوہ تھیں جو ان کے والد کے عشق میں گھر بار چھوڑ کر ان کے پاس آ گئیں اور نکاح کر لیا۔

شیخ ایاز اپنی خودنوشت سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ’کامریڈ سوبھو (سوبھو گیانچندانی) ایک مرتبہ انھیں نشاط سینما کے قریب رہائش پذیر کمیونسٹ رہنما آئی کے گجرال (جو بعد میں انڈیا کے وزیراعظم منتخب ہوئے) کے پاس لے گئے اور تعارف کرواتے ہوئے کہا ان سے ملیے یہ ہیں ہمارے سُرخ شاعر۔
گجرال نے کہا کہ ’سندھی نظم سناؤ تاکہ میں اس کی روانی اور موسیقی کا اندازہ لگا سکوں۔‘
’میں نے ان کو ’او باغی اور راج دروہی‘ سنائی تو وہ کافی خوش ہوئے اور کہا کہ تم شاعری کے چندر شیکھر آزاد ہو۔‘

خیال رہے کہ چندر شیکھر بھگت سنگھ کے ساتھی اور انقلابی تھے۔

ان کی شاعری کا ایک اور آہنگ دیکھیے:
سخی پیا کو ملنا تو کہنا
چاندنی تمہارے بن نہیں ہوگی،
تم کو آنا ہے تو اماوس کی راتوں میں ہی آجاؤ،
دوسری رات پھر نہ ہوگی۔۔

ایک اُردو اخبار کے لیے سحر حسن ایک مضمون میں لکھتی ہیں، ’جدید سندھی شاعری کے افق پر شیخ ایاز ایک ایسا روشن ستارہ ہیں، جن کے بنا سندھی شاعری کا وجود بے نور سا لگتا ہے۔ ایاز اپنے لفظوں کی بنت کاری سے ایسا جادو جگاتے ہیں کہ پڑھنے والے ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ شیخ ایاز کی شاعری کے بنا سندھی شاعری ایسے ہی ہے جیسے میر تقی میر اور غالب کے بغیر اردو شاعری۔‘

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شیخ ایاز دنیائے ادب کا گہرا مطالعہ رکھنے والے، ادب شناس شاعر اور تخلیقی نثر نگار تھے۔ شیخ ایاز کو اپنی زندگی ہی میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا یہ طرّہ تھا کہ انہوں نے آمریت کے طویل دور میں تشبیہات و استعارات کا سہارا لینے کے بجائے بلا خوف و خطر ’بھگت سنگھ تختہ دار‘ جیسا منظوم ڈرامہ لکھا۔

صحافی حسن مجتبیٰ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’اپنی مطالعہ گاہ میں بلی اور لینن کا مجسمہ اپنی میز کے کونے کھدرے میں پھینک کر اپنے گھر کے دروازے پر ’نمستے‘ لکھے ہوئے دو جڑے ہوئے ہاتھوں والی مورتی لگانے کے متعلق جب میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا ’یہ برِصغیر میں آنے والی اس صبح کے کے خیرمقدم کے لیے ہے جو ابھی آئی نہیں لیکن آئے گی ضرور۔‘

شاعرہ اور کالم نگار زاہدہ حنا اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، ’ایاز ایک غیرمعمولی شاعر تھے۔ شاعری کی ابتدا اردو سے کی لیکن بعدازاں انہوں نے اپنی مادری زبان سندھی کو تخلیقی اظہار کا ذریعہ بنایا اور اتنی عظیم شاعری کی کہ انہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بعد سندھی زبان کا سب سے بڑا شاعر کہا جانے لگا۔‘

مزید لکھتی ہیں، ’وہ ایک ایسے دور میں شاعری کر رہے تھے جب سندھ میں ایک انقلاب جنم لے رہا تھا۔ ملک کے مغربی حصے پر جبراً ون یونٹ نافذ کیا جا چکا تھا۔ قومی و جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا، ایسے حبس زدہ زمانے میں شیخ ایاز نے تخلیقی شاعری کی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے جو نظمیں لکھیں وہ سندھ میں ہونے والے جلسوں میں گائی جانے لگیں۔‘

زاہدہ حنا مزید لکھتی ہیں، ’اس زمانے میں ان کی ایک نظم کا شعر بڑا مقبول ہوا بلکہ ایک نعرہ بن گیا۔ وہ شعر کچھ یوں تھا کہ ’سندھ پر کون اپنی زندگی نہیں وارے گا، کون ہوگا جو ایسا نہ کر کے شرمندگی کا بوجھ اٹھائے گا۔‘

سندھ میں احساس محرومی اپنے عروج پر تھا، نوجوان صورت حال سے انتہائی ناخوش تھے۔ ایسے میں ایاز نے اپنی شاعری میں محبت کا پیغام دیا اور عوامی مقبولیت سے مغلوب ہو کر اپنی شاعری کو نفرت سے آلودہ نہیں ہونے دیا۔

ماضی کے کچھ اور اوراق الٹیں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ سندھ دھرتی کے اس عظیم سپوت نے ہر موقع پر اپنے لفظوں اور عمل سے طاقت وروں کے خلاف مزاحمت کی اور ریاستی جبر کے باوجود اپنی سوچ اور فکر کو آزاد رکھا۔

یہ تقسیم کے دنوں کی بات ہے جب لہو کی ندیاں بہائی جا رہی تھیں اور ہر طرف موت کی وحشت طاری تھا۔ اس وقت بھی شیخ ایاز کا قلم نہیں رُکا۔

سندھ کے ترقی پسند مفکر ابراہیم جویو لکھتے ہیں کہ ’سنہ 1947 کی تقسیم کے بعد سندھ میں چاروں طرف خاموشی چھا گئی تھی ایسے میں شیخ ایاز کی شاعری اور نثر کی وجہ سے دوبارہ ہلچل پیدا ہو گئی۔ سندھی ادب نے بے مثل کلاسیکی شاعروں اور نثر نویسوں کی گود میں آنکھ کھولی تھی اِدھر اُدھر دیکھ کر دوبارہ آنکھیں بند کر لی تھیں اور ایسے میں اس نے ایاز کی آواز پر دوبارہ کروٹ لی، ایاز اس صبح صادق کا پہلا ندیم ہے۔‘

یہ شیخ ایاز کی خوش قسمتی ہی تھی کہ ان کا جنم ایک ایسے دور میں ہوا، جب دنیا بڑی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ دو عالمی جنگوں کے علاوہ دنیا بھر میں جاری قومی آزادی کی تحریکوں نے استعماری طاقتوں کو ہزیمت سے دوچار کر دیا تھا۔ ہر سو انقلاب کے خواب دیکھے ہی نہیں جا رہے تھے بلکہ انقلاب زندہ باد کے نعرے بھی بلند ہو رہے تھے جس کے لیے لاکھوں انسانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

ان حالات میں دنیا بھر میں اعلیٰ پائے کا ادب تخلیق ہوا۔ سندھی زبان میں بھی اس عہد میں بے مثل ادب تخلیق کیا جن میں شیخ ایاز کا مقام سب سے بلند ہے جو اُن کے کسی اور ہم عصر شاعر کو حاصل نہ ہو سکا۔

شیخ ایاز نے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی مگر وہ ایک تخلیق کار بھی تھے۔ ان کی پہچان اگرچہ ایک شاعر کے طور پر ہے مگر انہوں نے ادب کی ہر صنف میں اظہار کیا اور شاعری کے علاوہ مضامین، ناول اور افسانے بھی لکھے۔ اخبارات کے لیے کالم بھی تحریر کرتے رہے، صحافت اور ادارت کی ذمہ داری بھی ادا کی۔

انہوں نے بارہا جیل یاترا کی۔ ان پر غداری کے مقدمات بھی چلائے گئے اور موت کی سزا تک سنائی گئی۔

ان کی شاعری اور کتابوں پر پابندیاں لگیں، ریڈیو پر ان کی شاعری نشر کرنے پر پابندی لگ گئی مگر اس عظیم شاعر نے ہمت نہیں ہاری اور جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

شیخ ایاز اپنی ہمہ جہت اور متنوع شخصیت کا ادراک رکھتے تھے۔ انہوں نے اس کا اظہار اپنے ایک خط میں بھی کیا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں، ’میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی شخصیت کی بھرپور عکاسی کسی ڈاکٹر ژواگو جیسے ناول میں ہی کر سکتا ہوں۔ میری یہ آپ بیتی ایک گھومنے پھرنے سیلانی کی مانند ہے جس کے رنگارنگ آئینے منتشر رنگوں کے نقش ونگار تو بنا رہے ہیں مگر ان میں کوئی تسلسل نہیں ہے۔ شاعری میں تسلسل زلف جاناں کی علامت بھی ہے اور زنجیر کی بھی، مگر میں اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں کہ ان دونوں سے کنارہ کش رہوں تو بہتر ہے۔‘
سنہ1976 تک وکالت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر 13 جنوری 1976 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کر دیا۔ شیخ ایاز نے سندھ یونیورسٹی میں قائم انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی کی ترقی کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

شیخ ایاز نے اردو شاعری بھی کی مگر وہ جلد اوب گئے اور سندھی شاعری کرنے لگے۔ انہوں نے اس بارے میں کہا تھا کہ ’میں نے محسوس کیا ہے کہ ہر لفظ کی روح ہوتی جو برسوں کے ارتقا سے گزرتی ہے اور یہ روح فقط مادری زبان کے ذریعے ہی گرفت میں آ سکتی ہے۔ اس لیے میں نے اردو شاعری ترک کی کیوں کہ اردو میری مادری زبان نہیں تھی۔ میں اپنے فن کو مادری زبان میں ہی منطقی انجام تک پہنچا سکتا تھا۔‘

ایک معاصر اردو روزنامہ میں سحر حسن لکھتی ہیں کہ ’سندھی میں نظم کی روایت کو اپنانے والے شاعر کشن چند بیوس نے مغربی صنف کو سندھی زبان کے سانچے میں ڈھالا تو وہ سندھی ادب اور ادبی روایت کا حصہ بن گئی۔ اسی تسلسل کو شیخ ایاز نے قائم رکھا۔ اس سے قبل جو سندھی شاعری تخلیق ہو رہی تھی وہ فارسی کے زیر اثر تھی۔ الفاظ سے لے کر فنی ترکیبات بھی فارسی زدہ تھیں، مگر ایاز نے ماضی کی تمام شاعری پر ضرب لگا کر اسے سندھی روپ دیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ سندھی زبان میں شاعری کی جائے تو وہ کسی بھی لحاظ سے عالمی ادبی معیار سے کم نہیں ہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان کے لکھے ہوئے گیت زبان زد عام ہونے لگے۔‘

فیضؔ، جالبؔ، بلوچ شاعر گل خان نصیرؔ اور پشتو شا‏عر اجمل خٹکؔ کی طرح ایاز بھی بارہا پابندِ سلاسل ہوتے رہے اور ان کی شاعری کا ایک بہت بڑا اور اعلیٰ حصہ ان کی جیل میں کی گئی شاعری پر ہی مشتمل ہے۔

ایاز کی نثر اور شاعری کی کتابوں پر حکومتوں کی جانب سے پابندی بھی عائد کی جاتی رہی۔ ان پر ملک دشمنی اور غداری کے الزامات بھی لگے اور کفر کے فتوے بھی لگائے گئے۔

انہوں نے دورانِ اسیری ’ساہیوال جیل کی ڈائری‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی، جس میں ایک جگہ لکھا کہ ’روز جمعدار مجھے ایک بلیڈ داڑھی بنانے کے لیے صبح دے جاتا ہے اور پھر بار بار پوچھنے آتا ہے کہ میں نے داڑھی بنائی ہے یا نہیں، آخرکار اس سے تنگ آکر داڑھی بنا لیتا ہوں اور بلیڈ اسے واپس کر دیتا ہوں۔ شاید اسے یہ خوف ہے کہ میں بلیڈ سے اپنا گلا نہ کاٹ لوں۔ اسے کیا پتہ کہ اس گلے میں ابھی ہزاروں گیت ہیں، جو کسی زندان کی دیوار کو لرزا کر ڈھیر کر سکتے ہیں۔ میں اسے کاٹنے کو تیار نہیں ہوں۔‘

دھرتی کا یہ عظیم شاعر 28 دسمبر 1997 کو کراچی میں دل کے عارضے کے باعث 74 برس کی عمر میں وفات پا گیا۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں بھٹ شاہ میں کراڑ جھیل کے قریب سپردِ خاک کیا گیا۔

اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ ان کی شاعری صرف سندھی قوم اور اس کے مستقبل کے لیے ہی آب حیات کا درجہ نہیں رکھتی بلکہ انہوں نے ہر اس انسان کے لیے شعر کہے جو جبر کا شکار تھا۔

بشکریہ: اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close