جاپانیوں میں تعظیماﹰجھکنے کی رسم کی تاریخ اور پسِ منظر

ویب ڈیسک

جاپانی لوگوں نے تقریباً پانچ سو سے آٹھ سو سال پہلے جھکنا شروع کیا تھا جب چین سے بدھ مت متعارف ہوا تھا۔ اس زمانے میں جھکنا درجہ کی علامت تھا۔ مثال کے طور پر، جو لوگ اونچے درجے کے لوگوں کو سلام کرتے ہیں وہ اپنے آپ کو نیچی حالت میں ظاہر کرتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ دوسرے شخص کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ آج، یہ ایک ایسی کارروائی کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو دوسرے فریق کے لیے احترام، شکرگزار اور معافی کا اظہار کرتا ہے

ایک اور روایت کے مطابق اس کی ابتدا اسوکا سے نارا کے ادوار (710-714) میں ہوئی، جب چینی جھکنے کے آداب اپنائے گئے، لیکن اس سے پہلے لوگ گھٹنوں کے بل جھکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ تب اعلیٰ درجہ کے لوگوں کے سامنے جھکنے کا رواج تھا

موجودہ کھڑا کمان اس لیے ہے کہ 40 ویں شہنشاہ تیمو (664-686) نے زمین پر دونوں ہاتھوں سے گھٹنے ٹیکنے کے رواج پر پابندی لگا دی اور کھڑے کمان کے استعمال کا حکم دیا۔

سامورائے اگرچہ اب جاپان پر حکومت نہیں کرتے مگر ان کی رائج کردہ تعظیماً جھکنے کی رسم آج بھی وہاں برقرار ہے۔ یہ احترام اور عبادت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ سلام کرنے اور معافی مانگنے کا روایتی طریقہ بھی ہے۔ جاپانیوں کے دن کا آغاز ہی اس عمل سے ہوتا ہے۔

جھکنے کا استعمال جاپان میں مختلف احساسات کے اظہار کے لیے کیا جا سکتا ہے، بشمول تعریف، احترام، افسوس اور شکرگزاری۔ جاپانیوں کے لیے خوشیوں کا تبادلہ کرنے کا یہ ایک آسان طریقہ ہے کیونکہ یہ ایک قدرتی انسانی سرگرمی ہے۔ یہ احترام ظاہر کرنے کا ایک غیر جسمانی طریقہ بھی ہے۔ مختصراً، جاپانی لوگوں کے جھکنے کی وجہ یہ ہے کہ جھکنا ’میں آپ کا دشمن نہیں ہوں‘ ’شکریہ‘ یا ’میں آپ کا احترام کرتا ہوں‘ کہنے کا ایک طریقہ ہے۔

اسکولوں میں بچے اساتذہ کے سامنے تعظیماﹰ جھک کر ’اوہائیو گوزی ماسو‘ یا صبح بخیر کہتے ہیں۔ دفاتر میں اس کے بغیر میٹنگ کے آغاز کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کہنے کو یہ سلام کا ایک لطیف اور عاجزانہ انداز ہے، لیکن اس عمل میں ایک خاص نزاکت ہوتی ہے، جس کے ابلاغ میں مختلف معنی پنہاں ہیں

کیو موٹو اوگاساوارا اسکول آف ایٹی کیٹ یا ’ریہو‘ کے بتیسویں ہیڈ ماسٹر ہیں۔ اوگاساوارا کا خاندان 830 برس قبل اس اسکول کے قیام سے آج تک کئی نسلوں کی تربیت کر چکا ہے۔ وہ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعظیماً جھکتے ہوئے آنکھوں اور سر کو ایک خاص انداز سے جھکایا جاتا ہے، جو امن اور اعتبار کا پیغام ہوتا ہے

اوگاساوارا کے استاد ریہو کے آداب کے علاوہ تیز اندازی اور ہارس بیک آرچری (گھوڑے پر سوار ہو کر تیر اندازی) بھی سکھاتے ہیں۔ یہ ایک اہم فوجی مہارت اور شنٹو کے مزارات کی قدیم مذہبی رسم ہے۔

تاریخی حوالوں کے مطابق 593 سے 710 عیسوی کے درمیان بدھ مت ایشیا سے جاپان میں منتقل ہوا۔ جس کے ساتھ یہاں نئی نسل کے فنکارانہ، سماجی اور سیاسی اطوار میں تبدیلیاں آئیں۔ اسی دوران تعظیماً جھکنا سلام کرنے کا ایک مقبول انداز قرار پایا۔ آج کے جاپان میں یہی سلام کا منظور شدہ طریقہ ہے۔ اسکولوں میں کلاسوں کا آغاز اور اختتام ہو یا دفاتر میں میٹنگز اور تقریبات کا آغاز ہر جگہ یہی طریقہ رائج ہے

اسے الوداعی تقریبات اور شکریہ، ہمدردی یا تعریف کرنےاور معافی مانگنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جاپان میں مذہبی تقریبات اور مارشل آرٹس کی تربیت کا بھی ایک لازمی جزو ہے۔

جاپان کے کاروباری حلقوں میں تعظیماً جھکنے کی تین اقسام ہیں۔ ہر ایک میں کمر اور پاؤں کو بلکل سیدھا اور مضبوط رکھا جاتا ہے تاکہ جھکاؤ بے ہنگم نہ ہو۔ اس کے بعد ہلکا سا اگے جھکتے ہوئے سانس اندر کی طرف کھینچا جاتا ہے اور دوبارہ سانس لینے کے وقفے تک اسی پوزیشن میں جھکے رہنا ہوتا ہے۔ پھر سیدھے ہوکر سانس خارج کی جاتی ہے۔

تعظیماً جھکنے کی مختلف اقسام ہیں، ان میں سے ایک قسم ’ایشاکو‘ (روشنی کمان) ہے، جس میں ایک ہی حیثیت کے لوگ آمنے سامنے ہوتے اور رسومات زیادہ اہم نہیں ہوتیں، لہذا صرف 15 ڈگری کے زاویے تک چند سیکنڈ کے لیے جھکا جاتا ہے

اس کی دوسری قسم ’کیری‘ (درمیانی کمان) ہے، جو جاپانی کاروباری حلقوں میں عام ہے۔ اس میں 30 ڈگری کے زاویے پر جھک کر پاؤں کی انگلیوں سے آگے زمین پر ایک میٹر پر نگاہ رکھی جاتی ہے

تیسری قسم ’سائیکیری‘ (گہری کمان) کہلاتی ہے۔ اس میں 70 ڈگری تک کمر کو کئی سیکنڈ تک جھکایا جاتا ہے، جو سامنے والے کے لیے انتہائی ادب و احترام اور خلوص کو ظاہر کرتا ہے۔

تعظیماً جھکتے ہوئے مرد اپنے بازوؤں کو ٹانگوں کے ساتھ سختی سے باندھ کر رکھتے ہیں، جبکہ خواتین پیٹ کے سامنے کے حصے پر ہاتھ باندھتی ہیں

جاپان میں چائے یا مارشل آرٹس کی تقریبات روایتی تاتامی مَیٹس پر ہوتی ہیں۔ یہاں بیٹھے بیٹھے تعظیماً جھکنے کے عمل کو ’زاری‘ کہا جاتا ہے، جس میں پاؤں، ہتھیلیوں اور پنڈلیوں کو ایک خاص پوزیشن پر رکھنا ہوتا ہے۔ یہ پوزیشن غیر ملکیوں کے لیے کافی تکلیف دہ ہوتی ہے لیکن جاپانی ادب و احترام کو پسند کرتے ہیں

اس کی ایک اور نایاب قسم صدیوں پرانی ہے۔ ماضی میں مجرمان معافی مانگنے کے لیے طاقتور حکمرانوں کے سامنے کمر کو جھکا کر سرزمین پر لگاتے اور زندگی کی بھیک مانگتے تھے

اوگاساوارا کہتے ہیں کہ تعظیماً جھکنے کی قدیم رسم ابلاغ کے خاص معنی رکھتی ہے، مگر جاپانیوں کی نئی نسل اسے صحیح سمجھ نہیں پاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس رسم کی روایتی تربیت گھروں پر دی جاتی ہے، لہٰذا تھوڑی سی تحقیق کر کے ہر کوئی اس کے تمام پہلوؤں کو سمجھ سکتا ہے۔

جاپانی لوگ کب جھکتے ہیں؟
کسی شخص کو سلام کرنا
الوداعی بولی۔
میٹنگ، سبق، یا تقریب سے پہلے یا بعد میں
کسی کا شکریہ ادا کرنا، معافی مانگنا اور مبارکباد دینا
کچھ مانگ رہا ہے۔
کسی چیز کی پوجا ہو رہی ہے۔
اظہار ہمدردی یا شکر گزاری کے لیے
ایک رسمی تقریب کے آغاز کے وقت
مارشل آرٹس ڈوجو میں داخل ہونے یا باہر نکلتے وقت

وہ اس باڈی لینگویج کو روزانہ بہت سے حالات میں استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ لوگوں کو سلام کرنا، شکریہ کہنا، معافی مانگنا، درخواست کرنا، مندروں اور درگاہوں پر جانا وغیرہ۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کے سامنے نہ ہوتے ہوئے بھی فون پر جھک کر سلام کرتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close