سندھ سلطنت: سندھو کی کہانی، اسی کی زبانی (قسط75)

شہزاد احمد حمید

ایک اور یونانی مؤرخ ”ٹالمی“ لکھتا ہے؛ ”سندھو اپنی شاخوں میں جو جزیرہ بنا رہا ہے وہ پراسیان ہے اور یہی اس کا ڈیلٹا بھی ہے۔“

چینی سیاح ”سوانگ سانگ“ اپنے سفر نامے میں سندھ کے جن مقامات اور معاملات کا ذکر کرتا ہے، وہ بڑی حد تک قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ ان کا محل وقوع درست نہیں اور یہی پیچیدگی کا باعث ہے۔کہتے ہیں کہ حیدرآباد کے کچھ نشیبی علاقوں اور رن آف کچھ کے کچھ حصوں سے سندھو بہتا تھا، ان میں شاہ بندر، سجاول، جھوک وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ”سور بانو، گنجو ٹکر اور رنی کوٹ“ کی پہاڑیاں بھی نہ تھیں۔ یہ سمندر میں جزیرے کی مانند تھیں۔ ابھری بھی تو ان کے گرد سمندر ہی تھا۔ شاید یہ پتھر کے زمانے کی بات ہو۔“

سر جان مارشل کا خیال ہے؛ ”نئے ہجری زمانے کے آثار سندھ میں مکلی اور کھیرتھر کی پہاڑیوں اور روہڑی کے علاقے میں ملے ہیں۔ لگتا ہے ٹھٹہ کے پاس سمندر پیچھے ہٹ جانے سے یہ میدان اور پہاڑ ظاہر ہوئے۔ اس وجہ سے نئے ہجری زمانے میں لوگ یہاں آباد ہونے لگے۔ اس زمانے میں سیہون اور سندھو کے مشرق میں ٹھٹہ، جھوک، روہڑی وغیرہ آباد تھے۔ قدیم دور میں آج کا سجاول اور ٹھٹہ دراصل ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ ان دنوں سندھو ”نصر پور“ کے قریب سے بہتا تھا۔ 1768ء میں سندھو نے راستہ تبدیل کیا اور موجودہ گزر گاہ کو اپنا لیا۔ سندھو کے رخ بدلنے سے ہی یہ میدان وجودمیں آیا۔“

وہ مزید لکھتا ہے؛ ”کلہوڑوں نے سندھ میں کئی شہر آباد کئے تھے لیکن وہ سندھو کی نذرہو گئے۔ 1768ء میں حیدرآباد آباد ہوا۔ اس وقت تک سندھو نے گنجو ٹکر کے مغرب میں اپنی نئی گزرگاہ سے بہنا شروع کر چکا تھا۔ حیدرآباد سے چند میل پہلے سندھو کی ایک اور شاخ حیدرآباد کے مشرق سے گزرتی تھی اور ”پہیلی“ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ سترویں (17) صدی عیسوی میں اس ڈیلٹا کی بالا ئی نوک موجودہ حیدرآباد سے بیس (20) میل جنوب مشرق میں بائیں شاخ ”رین ندی“ کے نام سے مشہور تھی اور ”گوئی کنال“ کے راستے بدین سے ہوتی رن آف کچھ کے مغربی کنارے سے سمندر میں اترتی تھی۔ اس کے علاوہ ”بگھاڑ، ستو، پنیاری“ وغیرہ سندھو کی شاخیں مختلف مقامات سے بہتی سمندر میں گرتی تھیں۔“

عرب جغرافیہ دانوں کا خیال ہے؛ ”دیبل کی بندرگاہ ایک سمندری کھاڑی کے قریب آباد تھی۔ یہاں سندھو کی سب سے بڑی شاخ گرتی تھی۔“

مورخ المسعودی لکھتے ہیں؛ ”سندھو دو شاخوں میں بٹا سمندر میں اترتا ہے۔ دونوں شاخیں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں۔ ایک دہانہ ”لوہانی“ شہر کے پاس ہے تو دوسرا رن آف کچھ کے پاس ہے، یہ ”سندھ ساگر“ کے نام سے مشہور ہے۔“

مؤرخ البیرونی لکھتے ہیں؛ ”ساحل ہند مکران کے مرکزی شہر سے شروع ہوتا ہے۔ اس شہر اور دیبل کے درمیان ”خلیج توران“ (سون میانی) واقع ہے۔ خلیج کے بعد چھوٹا اور پھر بڑا دہانہ ہے۔ اس سے گزر کر ”بوراج“ آتا ہے اور رن آف کچھ کے علاقے سے گزر کر سومنات۔ سندھو کی مغربی شاخ چھوٹی اور مشرقی نسبتاً بڑی ہے۔ منصورہ کے قریب یہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور سمندر میں دو راستوں سے داخل ہوتا ہے۔ ایک لوہانی کے قریب اور دوسری رن آف کچھ سے ذرا اوپر سندھ ساگر کے نزدیک۔ چودھویں صدی کے وسط تک سندھو کی غربی شاخیں ایک دوسرے سے فاصلے پر تھیں۔ دایاں حصہ مکلی کی پہاڑیوں کے شمال میں موجود ”کلری کنال“ کے راستے بہتا تھا جبکہ آگے چل کر دونوں متحد ہو کر ایک شاخ بن جاتے تھے۔ ان دونوں کے درمیان ایک جزیرہ سو (100) میل تک پھیلا تھا جس میں پہاڑیاں بھی تھیں۔“

محمد بن قاسم کے سندھ پر حملے نے بہت کچھ واضح کر دیا اور شاید آنے والے وقت کے لئے راجہ داھر کی قسمت کا بھی۔ اُس کے دارالحکومت ”منصورہ“ کے کھنڈر شہدادپور سے سولہ (16) میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔

مؤرخ”بلازری“ کے مطابق؛
”اروڑ پہاڑی پر منصورہ کے آثار ہیں اور وہ اُسے ”بکھرور“ کے قریب ہی بیان کرتا ہے۔“ چچ نامہ بھی یہی کہتا ہے؛ ”اروڑ کا قلعہ بکھرور کے بالمقابل ہے۔“

سندھو بتاتا ہے ”1819ء کے بعد میرے بہاؤ کے راستے میں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے، اگرچہ عمومی طور پر میں چار پانچ میل دائیں بائیں بہتا رہا ہوں۔ جس سے بہت تھوڑا علاقہ کچھ فاصلے تک متاثر ہوتا رہتا ہے۔ آخری نصف صدی کے لگ بھگ آنے والی تبدیلیاں انسانی کوشش کی وجہ سے ہی ہوئی ہیں۔کوئی بھی دریا سمندر میں گرنے سے پہلے کئی شاخوں میں تقسیم ہو کر ہی سمندر میں گرتا ہے۔ دراصل ڈیلٹا وہ عمل ہے، جس سے دریا سمندر سے زمین حاصل کرتا ہے اور دریائی شاخیں اس عمل کی نشاندہی کرتی ہیں۔ سمندر کا پانی دریائی پانی کے بہاؤ کی رفتار سست کر دیتا ہے۔ یہی حال میرا بھی ہے مگر میدانی علاقوں کی طرح میں اپنے ڈیلٹا کی گزر گاہ کو بلند کرنے کا عمل جاری رکھے ہوں۔ اپنی لائی مٹی آخری مرحلے تک کناروں کے گرد پھیلاتا رہتا ہوں۔ یہ عمل سیلاب کے دنوں میں ہی نہیں بلکہ عام دنوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ میں جلد ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔“ سندھو کی آواز مشکل سے ہی سنائی دی ہے۔

(سندھو) کے سفر کے آخری سو (100) میل تکلیف دہ ہیں۔ کشتی بھی بڑی مشکل سے کھیئی جا رہی ہے۔ پانی کا بہاؤ بھی سست ہے اور گہرائی تو بمشکل پانچ سات فٹ ہوگی۔ میرا دل چاہا میں اس میں پیدل ہی چل پڑوں لیکن اس کے کنارے سوئے ایک مگر مچھ کو دیکھ کر میں نے اپنا ارادہ ہی نہیں بدلا بلکہ وہاں سے بہت دور ہٹ آیا ہوں۔ مجھے دور ہٹتا دیکھ کر رحیم کہنے لگا؛ ”سائیں! یہ بھول کر ادھر آ نکلا ہے ورنہ یہ تو گہرے پانی میں ہوتے ہیں، جہاں اللہ نے سندھو کی گہرائی میں ہی ان کی خوراک کا بندوبست کر رکھا ہے۔ ہاں کبھی کبھی دھوپ سینکنے کنارے پر یوں پڑا رہتا ہے جیسے مرا ہو۔ شکار قریب آیا تو اُس پر جھپٹا، دبوچا اور گہرے پانی میں اتر گیا۔ پانی کی دنیا بھی بڑی ظالم دنیا ہے کمزور کو تو بالکل بھی جینے نہیں دیتی ہے۔“

میرے دوست سندھو کی حالت تو یہاں قابل رحم ہے۔ وہ قطرہ قطرہ سمندر میں گر رہا ہے۔ میں اس کی سسکیوں میں اس کا دم نکلتا دیکھ رہا ہوں۔ یہ اس کی آخری سانسیں ہیں۔ مجھے اس کی سسکی میں آہ اور نجیف سی آواز سنائی دی ہے۔ ”میں نے تمہیں کہا تھا ناکہ میرا بڑھاپا دن بدن تکلیف دہ ہو تا جا رہا ہے۔ کچھ میرا مگر زیادہ قصور تمہارا ہے۔ میرا قصور یہ ہے کہ میں ہر سال لاکھوں ٹن مٹی ساتھ لاتا رہا ہوں جو میری سانس میں رکاوٹ کا باعث بنتی جا رہی ہے لیکن تم لوگوں نے تو سیوریج کا پانی مجھ میں گرانا شروع کیا تو میرا سانس لینا ہی دوبھر ہو گیا ہے۔ دیکھو کبھی میں چونتیس سو (3400) کلو میٹر کا ڈیلٹا بنا کر سمندر میں اترتا تھا جو اب سمٹ کر یہ صرف دو سو چالیس (240) کلو میٹر رہ گیا ہے۔ اپنے ڈیلٹا میں، میں انتہائی سست رفتاری سے بہتا ہوں۔ کبھی میں بڑی شان سے سمندر میں اترتا تھا۔ میں اب اس بوڑھے کی مانند ہوں جو ایک قدم اٹھانے کے لئے دو بار اپنی لاٹھی آگے گھیسٹتا ہے اور بمشکل ایک قدم آگے بڑھتا ہے۔اس کی بڑی وجہ وہ مٹی ہے جو ہزاروں سال سے میں اپنے ساتھ لا رہا ہوں۔ جبکہ دیگر وجوہات میں گھنی دلدلی جھاڑیاں ہیں۔ دیکھو جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔“

سندھو اپنی بات جاری رکھے ہوئے ہے ”میرے پانیوں اور اس کی جھیلوں پر ان گنت پرندے رنگ رنگ کا لباس پہنے سائبیریا اور قازکستان کے برفانی علاقوں سے پرواز کرتے افغانستان، ایران سے ہوتے تقریباً چھ سات ہزار کلو میٹر سے زائد کا سفر طے کر کے پاکستان میں داخل ہو کر میرے گرم پانیوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان پرندوں اور میرا ساتھ اتنا ہی پرانا ہے، جتنا خود میں ہوں۔ دوستوں کا دوست ہوں میں۔۔ میرا پانی انسانوں کو ہی نہیں پرندوں کو بھی جیون دیتا ہے۔ یہ انسانوں کے ساتھ ساتھ ان خوبصورت پرندوں کا بھی خیال رکھتا ہے۔ پر خلوص اور مخلص ہوں میں تمہاری طرح۔“ سندھو اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا ہے۔

میرے لئے اس کی آخری آواز بہت دکھ کا باعث ہے۔ اس کے بعد وہ خاموش ہی ہو گیا، پھر کچھ نہیں بولا۔ صرف مجھے ہی اس کے آنسو نظر آ رہے ہیں۔ میرے لئے یہ منظر ایسا ہی ہے، جیسے میرا کوئی اپنا زندگی کی بازی دھیرے دھیرے ہار رہا ہو۔ تکلیف دہ اور ناقابل برداشت۔ زندگی کی اس ہار کے سامنے سبھی بے بس ہیں، لاچار ہیں دوست۔
سندھو کے ڈیلٹا میں کچھ جزیرہ نما مقامات ہیں، جیسے کیٹی بندر، سکھی بندر، کوچین وغیرہ۔ کوچین معروف نام ہے۔ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کے وقت کوچین مشہور بندر گاہ تھی۔ آج بھی یہاں زندگی کے آثار ملتے ہیں مگر یہ جزیرہ اب سکڑ کر اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ کھجور کے باغات کو سمندر کا نمکین پانی اجاڑ چکا ہے۔ زندگی کی رونقیں ماند پڑ چکی ہیں۔کچھ ایسا ہی حال قدیم کیٹی بندر اور سُکھی بندر کا ہے۔ سکھی سندھی زبان کا لفظ ہے مطلب ”امیر، خوشحال“۔ کبھی یہاں کے رہنے والوں پر خوشحالی تھی۔ لوگ عمدہ سوتی کپڑا تیار کرتے جو دور دور تک مشہور تھا۔ اب ماضی جیسا یہاں کچھ بھی نہیں رہا ہے۔ سمندر نے سب کچھ برباد کر دیا ہے۔ کسی حاسد کی بری نظر نے اس بستی کو اجاڑ کر ماضی کا قصہ بنا دیا ہے۔ یہاں بیتے دنوں کی یاد دلاتے کچھ اجڑے ہوئے ویران کھنڈر ہیں۔کیٹی کی بندرگاہ کو تو سندھو رخ بدل کر صفحہ ہستی سے ہی مٹا چکا ہے۔ میرا دوست سندھو بھی کمال ہے، کسی کو برباد کر دیتا ہے اور کسی کو زیادہ غصہ دکھا کر صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیتا ہے۔ کبھی خوش ہو تو کوئی نئی جگہ اگل دیتا ہے۔لوگ کل بھی اس سے ڈرتے تھے اور آج بھی اس سے خوف کھاتے ہیں۔

مشہور یونانی مورخ ”ہیرو ڈوس“ لکھتا ہے؛ ”جیسے مصر دریائے نیل کی بخشش ہے، کچھ ایسی ہی بات سندھو کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ پنجاب اور سندھ کے زرخیز میدان اسی کی بخشش ہیں۔ وادیِ سندھ میں لوگ آج بھی آباد ہیں اور کل بھی رہیں گے۔ اس کے کناروں پر دنیا کی قدیم ترین تہذیب آباد تھی۔ قدیم سندھ اور آج کے سندھ میں لوگوں کی کثیر تعداد کی خوشحالی اور استحکام کا واحد سبب بھی سندھو ہی ہے۔ اس کے کنارے آباد لوگوں کے دلوں میں اس دریا (سندھو) کی بڑی اہمیت اور تقدیس ہے۔ اس کا پانی جسمانی اور روحانی طہارت مذہبی رسومات اور مردوں کے غسل کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے اور رہے گا۔ قدیم دور میں تو اس کے پانی کو گندہ کرنا گناہ (پاپ) سمجھا جاتا تھا اور قدیم لوگ اس بات پر فخر بھی کرتے تھے کہ سندھو کا پانی پاک ہے۔“

آج یہ بھی بدل گیا ہے۔ میرا دوست سندھو زندگی کا اولین سر چشمہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لوگوں کا اس پر ایمان تھا اور شاید آج بھی ہے کہ سندھو خشک سالی سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ سندھو کے کنارے آباد مچھیروں کی اپنی موسیقی ہے، اپنے مخصوص آلات اور اپنے ہی گیت ہیں۔ سندھو کے گیت۔۔۔ کبھی اس کے سیلاب کو بھی مقدس خیال کیا جاتا تھا کہ دور دور تک اس کا پانی زرعی لحاظ سے عمدہ مٹی کھیتوں میں بکھیر دیتا ہے۔ اس کے سیلاب میں بھی زرخیزی ہے۔ دریائے نیل پر بھی قدیم مصری قربانی دیتے تھے اور سندھو پر قدیم سندھی اور ہندوستانی۔ البتہ اس قربانی کا مقصد ایک ہی ہوتا تھا کہ یہ دریا ان کو زیادہ خوش حالی، بھلائی اور استحکام بخشیں۔“

ان دونوں دریاؤں سے وابستہ بہت سی کہانیاں ہیں، کچھ حقیقت اور کچھ فسانے۔۔ فرعونوں کی تہذیب اہل مصر کو بیشمار رسم و رواج دے گئی، اسی طرح سندھو بھی وادیِ سندھ کو بہت سی رسوم دے گیا ہے، جیسے ”نیل کی دلہن“ کا تہوار 15اگست کو منایا جاتا ہے تو سندھو کا تہوار 15جون کو۔ (جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ’بُک ہوم‘ نے شائع کی ہے، جسے ادارے اور مصنف کے شکریے کے ساتھ سنگت میگ میں قسط وار شائع کیا جا رہا ہے. سنگت میگ کا لکھاری سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close