بارش تو رک گئی تھی مگر دھرتی پر بہتے پانی کا شور ابھی باقی تھا۔
اس نے کھڑکی کو کھول کر دیکھا۔ دھلے ہوئے درخت پر ایک خوبصورت پرندہ اپنے پروں کو چونچ سے خشک کر رہا تھا۔ اس کے قریب ایک گلہری اداس بیٹھی تھی۔ پیپل کے اس درخت کے قریب پام کا بوڑھا پیڑ بہت ہلکی سی ہوا میں بھی اپنے پتوں کو تھکے ہوئے رقاص کی طرح ہلا رہا تھا۔ اس نے اپنا سر کھڑکی سے باہر نکالا تو پرنالے سے گرتی ہوئی پانی کی پتلی سی دھار اس کے بالوں میں جذب ہو گئی۔ اس نے گہری سانس لی اور اوپر آسماں کو دیکھا، جہاں بادلوں کے ٹکڑے سوکھے کپڑوں کی طرح اڑ رہے تھے۔ فضا میں سوندھی مٹی کی خوشبو اسے اچھی لگی۔ ایک موہوم سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے سوچا اب اندھیرا بہت جلد ہر منظر کو ڈھانپ لے گا۔
اس نے فلیٹ کی کھڑکی کھلی چھوڑ دی۔۔ اور کچن میں کافی بناتے ہوئے سوچنے لگا کہ ’’رات دن کیا ہیں؟ زندگی کیوں ہے؟ کیا وقت ایک دھوکہ ہے؟ اگر یادیں بے معنی ہیں تو پھر محبت کیا ہے؟ وفا کیا ہے؟ کسی چہرے میں خاص کشش کیوں ہوتی ہے؟ کیا ملاقات محض ایک حادثہ ہے؟ کیا جدائی مافوق الفطرت پلان کا حصہ ہوا کرتی ہے؟ لوگ کیوں ملتے ہیں؟ کیوں بچھڑتے ہیں؟ کیا انسان حالات کے بدتمیز بچے کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے؟ کیا پھول اس لیے کھلتے ہیں کہ جَھڑ کر بکھر جائیں؟ اور لذت کیا ہے؟ تمنا کیوں جنم لیتی ہے؟ دکھ کیا ہے؟ سکھ کیا ہے؟ سچ کیا ہے؟ جھوٹ کیا ہے؟ اور یہ سب کچھ کیا ہے؟ جو مجھے پریشان کر رہا ہے؟ کیا میں واقعی پریشان ہوں؟ یا پریشان ہونا میں نے اپنے آپ پر مسلط کیا ہے؟ کیا خواب حقیقت ہیں یا حقیقت ایک خواب ہے؟ عورت زیادہ حسین ہے یا اس کی خوشبو؟ کیا ہر عورت ایک خوشبو ہے۔۔۔۔۔۔!!؟‘‘
اس کو وہ لڑکی شدت سے یاد آ رہی تھی، جو خوبصورت نہ تھی مگر پرکشش تھی۔ وہ سانولی تھی، مگر حسین تھی۔ اس کے ریشمی بال اور اس کا رومانوی چہرہ!
کافی بن چکی تھی۔ وہ اپنی لکھنے والی میز کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ کافی کی مہک مسرور کن تھی۔ اس نے سگرٹ جلائی۔ دھوئیں نے ایک تصویر بنائی اور بہت جلد مٹ گئی!
کاش! وہ مصور ہوتا!!
اس نے سوچا اور کافی کی سپ کے ساتھ اس نے ایک اور کش لگایا۔
اسے اچھا لگا!
کڑواہٹ کا ذائقہ اسے کب اچھا لگا؟
اس نے سوچنا چاہا۔۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ اسے کام پر دھیان دینا چاہئیے!!
دھیان کہاں سے شروع ہوا؟
گیان کیا ہے؟
اور نروان!!؟
اسے فوری محسوس ہوا کہ اس کے دور کی سب سے بڑی ادیبہ اس موضوع کو باسی بنا چکی ہے۔ کچھ نیا ہونا چاہئیے!!
یہ اینگلو انڈین کلچر! یہ مختصر سا لباس پہننے والی مقامی لڑکیاں! ان کی ذہنی سطح!! یہ گمنام گورے! نیلی آنکھیں! بھوری مونچھیں!! اور آنکھوں میں ایک عجیب اداسی!!!
یہ ماڈرن راجہ کی حویلی!
اور پیانو پر بجتا ہوا ’’کریتزر سوناٹا‘‘
وہ عمر کے فاصلے میں پیدا ہونے والا شک!!
وہ خودترسی!
یہ خود فریبی!
ایک ادیب الجھن میں تھا۔ وہ اپنے آپ کو ابھی کافکا کے پاگل پن سے چھڑا نہ پایا تھا۔ اس نے کل ہی باتھ روم کے آئینے میں خود کو ایک عورت کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہ ڈر گیا تھا۔ اس نے جھک دیکھا تھا۔۔ اور پھر ڈر پر قابو رکھنے کے لیے وہ مسکرانے لگا تھا۔
اس کو ٹالسٹائی سے چڑ تھی۔ کون بُنتا ہے کوئی اتنی باریکیاں!!
ایک گھوڑا۔ اس کا چھریرا بدن۔ اس کے جسم سے آنے والی پسینے کی بو! اس پر سوار ایک دیوتا جیسا سوار!! جو رکنا چاہتا ہے۔۔ مگر اس کو جانا ہوگا۔ باہر برفانی ہوا کا شور۔ اندر دہکتا ہوا آتشدان!! اور تصور میں بے وفا عورت کے مٹتے اور ابھرتے ہوئے خدو خال!!
اس کا حسن!
اس کی کشش!
اس کا وہ سفید اور باریک لباس میں ٹہلنا!!
اور بات بے بات پر کھنکھناتے ہوئے ہسنا اور فوری طور پر خاموش ہوجانا۔
اور پھر سلیقے سے بالوں کو الجھاتے ہوئے!
بوڑھے رئیس کے پاس آنا
اور اس کے کان میں کچھ کہنا!!
’’یہ سب کس قدر بور ہے؟‘‘
اس نے سوچا!!
اسے دوستووسکی بہت یاد آیا!
وہ اچھا شرابی
وہ برا پادری!!
ایک سودخور بڑھیا۔۔۔ ایک غریب خاندان۔۔۔ بھوک۔۔۔افلاس۔۔۔ سردی۔۔۔ بجھا ہوا چولہا۔۔۔ مایوسی۔۔۔ اندھیرا گھنا اندھیرا۔۔۔ رینگتا ہوا وقت۔۔۔ روتی ہوئی آنکھیں۔۔۔!!
’’میں تم سے پیار کرتا ہوں‘‘
’’میرے بہنیں اور میرے بھائی بھوکے ہیں‘‘
’’تم مجھے بہت یاد آتی ہو‘‘
’’میری ماں بیمار ہے‘‘
’’کیا تم مجھ سے کل شام ملو گی؟‘‘
’’کیا تم کسی ڈاکٹر کو جانتے ہو؟‘‘
’’میں نے تمہارے لیے بہت کچھ سوچا ہے۔ میں تم سے شادی کروں گا۔ ہم یہاں سے بہت دور چلے جائیں گے۔۔۔۔۔!!‘‘
’’بس! ایک مرتبہ مجھے صحت کا سرٹیفکیٹ مل جائے۔ پھر ہمارے حالات اچھے ہوجائیں گے۔ مجھے جسم فروشی سے نفرت ہے۔۔ مگر مجھ سے اپنوں کی بھوک دیکھی نہیں جاتی۔ جب حالات سدھر جائیں گے تو کیا تم مجھے قبول کرو گے؟ میری جوانی ذرا ڈھل جائے گی۔۔ مگر میں تم سے بہت محبت کروں گی۔ مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘
یہ ساری باتیں کرتے ہوئے ایک کمزور اور دبلی پتلی لڑکی کا رو پڑنا!!
دوستو وسکی میں دکھ کی گہرائی ہے؛ مگر کیا ادب محض درد کی بات ہے؟
وہ ایک اچھا ناول لکھنا چاہتا تھا۔ اس کا موضوع کیا ہونا چاہئیے!!؟
اس سوال پر سوچنے کے لیے اس نے بہت ساری بوتلیں خالی کیں۔ بہت سارے سگرٹ جلائے۔ بہت سارے مقامات پر ٹھہرا۔ بارشیں دیکھیں۔ پت جھڑ میں چلا۔ برف پوش وادیوں میں اسے ایک لارا کی کمی محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا تھا کاش! اس کی لارا اس کے ساتھ ہوتی تو وہ آتشدان کے پاس بیٹھ پر ایک طویل نظم لکھتا۔
اس نے مغربی ادب محبت کے ساتھ پڑھا تھا مگر کبھی کبھی اسے خیال آتا کہ ایک ادیب کے لیے زیادہ پڑھنا اچھا نہیں۔ کیوں کہ اس کے لکھنے پر ہمیشہ کسی نہ کسی رائٹر کی چھاپ جم جاتی ہے!
وہ تصوف کی طرف کبھی مائل نہیں ہوا۔ اسے خونی انقلاب سے وحشت ہوا کرتی تھی، مگر اس کو مغربی عورتیں اور مشرقی کھانے لذیذ لگتے تھے۔ وہ کچھ نئے کی تلاش میں تھا۔ اس نے بہت سارے کاغذ لکھ کر پھاڑے تھے۔ اس نے ہمیشہ سوچا تھا کہ اس کی محبوب ادیبہ کس طرح لکھتی ہے؟ اتنا زیادہ اور اس قدر اچھا!!
اس کو لوگوں میں مقبول ہونے کا فن آتا تھا۔۔ مگر اس کو تنہائی پسند تھی۔ لوگ اس سے محبت کرتے تھے اور وہ خود سے ناخوش تھا۔ اس کا لباس بہت سلجھا اور اس کا دماغ بہت الجھا رہتا تھا۔ کبھی کبھار اسے خیال آتا کہ وہ سب چھوڑ چھاڑ کر کہیں دور چلا جائے۔ کسی سرسبز مقام پر۔۔ جہاں پودے بوئے اور پھولوں کو چٔھوئے۔ جہاں ایک لکڑی کا گھر ہو۔ بہت کتابیں ہوں۔ اینٹیک لالٹین ہو۔ اور دروازے کے پاس بیٹھا ہوا ایک کتا ہو۔ جو کبھی آدھی آنکھیں کھولے اسے دیکھے اور پھر سے بند کردے!!
اگر اس کے پاس دولت ہوتی تو وہ دنیا دیکھتا۔ دریا کنارے بنے ہوئے ہوٹلوں میں بیٹھ کر دوستوں کو خط لکھتا۔ جب پہاڑی وادیوں میں بارش برستی تو مرحوم والد کو یاد کرکے روتا۔
اس کو سمندر کا سفر بھی بہت پسند تھا مگر سی سِکنیس کا سوچ کر وہ مایوس ہو جاتا۔
اس کو معلوم تھا کہ وہ ذہین ہے۔ اس کو شک تھا کہ وہ نفسیاتی مریض ہے۔
تصور میں رہنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا!
حقیقت کی دنیا سے وہ بہت مایوس تھا۔
اس کو خوش رہنے کی شدید خواہش تھی۔
مگر وہ ایک گمنام غم کے گھیرے میں تھا۔
’’وقت بہتا رہتا ہے‘‘ کبھی ڈان کی طرح
اور کبھی ڈالی کی تصویر کے مانند!!
غالب بہت اچھا ہے مگر بیحد عام ہے!
اقبال سے اسے نظریاتی اختلاف تھا!
وہ مشرقی معاشرے میں مغربی انداز سے جینا چاہتا تھا۔
بے راہ روی کے حدود کو چھونے والی آزادی کے ساتھ!
یہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ ہر روز کا معاملہ ہے۔ مگر اس ناول کا کیا ہوگا؟ جو اس کے سوچ کی مٹھی میں کبھی قابو نہیں ہوا۔ وہ کردار تخلیق کرتا اور پھر خود ہی ان سے بچھڑ جاتا۔ وہ مناظر قلمبند کرتا اور پھر انہیں فراموش کر دیتا۔
یہ نظریاتی کشمکش کا دور ہے۔ اس میں بغاوت کا بہت اچھا اسکوپ ہے۔ مگر بغاوت کب اور کیسے کی جائے؟
ابھی اندھیرے کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ رات کی ہوا میں سردی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ دور کسی گھر میں ریڈیو چل رہا تھا۔۔ مگر ایک اچھا اور بارش میں بھیگا ہوا گیت اسے تنگ کر رہا تھا۔ وہ کھڑکی بند کرنے کے لیے اٹھا اور دھلے ہوئے آسمان پر چمکتا ہوا چاند اسے اس قدر اچھا لگا کہ وہ کچھ دیر کے لیے وہاں رک گیا۔
’’کیا لکھنا ضروری ہے؟ کس قدر مسرور کن ہے؛ کھلے آسمان میں دھلے ہوئے چاند کو دیکھنا! بس انسان چاند کو دیکھتا رہے۔ جو اس کے من میں آئے سوچتا رہے۔ کبھی مسکراتا اور کبھی نمناک پلکوں کو خشک کرتا رہے۔ پرانی یادوں کے ساتھ جینے میں بھی تو لطف ہے۔ کیا زندگی کی کوکھ سے چند کتابوں کا جنم اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے انسان اپنے آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری کر دے؟
مگر انسان اپنی فطرت کا قیدی ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کام کرتا رہتا ہے جو کام اس کی فطرت کے مطابق ہو۔ اس لیے وہ سارے بکھرے ہوئے خیالات کو ڈپریشن کے ڈسٹ بن میں ڈال کر ایک ڈرنک بنانے لگا اور میز کے دراز سے سفید کاغذوں والا رائٹنگ پیڈ نکال کر اس نے پھر سے تصور کے کینواس پر گاؤں کی تصویر بنائی، جہاں بہت تھوڑے سے مکان تھے۔جہاں کی پگڈنڈیاں خاموشی سے تیز ہوا یا کسی سواری کا انتظار کیا کرتی تھیں۔ ان پگڈنڈیوں کے قریب گاؤں کے آوارہ کتے دن کو سوتے اور رات کو جاگا کرتے تھے۔۔ مگر کہانیاں تو ان چھوٹے گھروں میں تھیں، جہاں بڑی آنکھوں والی عورتیں ’’اداس نسلوں‘‘ کو جنم دینے اور انہیں پیار سے پال پوس کر بڑا کرنے میں ایسی مہارت کی مالک تھیں، جو انہیں سکھائی نہیں جاتی! بالکل ایسے، جیسے مچھلی کو تیرنا نہیں سکھایا جاتا۔۔ پرندے کو اڑنا نہیں سکھایا جاتا۔۔۔ جیسے جوانی کو محبت کا فن سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔۔۔۔۔۔!!