وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی میں ایک ایسے ایجنٹ کو گرفتار کیا ہے جو کئی شہریوں کو جعلی ڈالر فروخت کر چکا ہے۔ ان میں مختلف شبعوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ کراچی کے رہائشی احمد علی بھی ایسے ہی ایک ایجنٹ کے ہاتھوں دھوکا کھا چکے ہیں۔ احمد علی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، جنہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بیرونِ ملک کا سفر کرنا تھا
سفری دستاویزات کے مکمل ہونے کے بعد احمد علی نے ملک سے باہر خرچ کرنے کے لیے پاکستانی روپوں کے عوض امریکی ڈالر کی خریداری کے لیے دوستوں سے رابطہ کیا اور مختلف منی ایکسچینجرز سے ڈالر کا ریٹ معلوم کیا
احمد علی کے ہی ایک دوست نے انہیں مناسب قیمت پر ڈالرز کی خریداری کے لیے ایک رابطہ نمبر دیا۔ احمد نے اس نمبر پر فون کیا اور مارکیٹ ریٹ سے تین روپے فی ڈالر کم ریٹ ملنے پر عبداللہ نامی اس شخص سے پندرہ سو ڈالر خرید لیے
احمد علی کے مطابق انہوں نے عبداللہ سے مناسب ریٹ دیکھتے ہوئے ڈالرز خریدنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد اس کے اکاؤنٹ میں چار لاکھ روپے جمع کروائے
عبداللہ نے کہا کہ وہ کچھ ڈالر فوری طور پر دے گا اور باقی کچھ دنوں میں پہنچا دے گا۔ دونوں میں معاملات طے پا گئے تو عبداللہ نے 12 دسمبر کو پانچ سو امریکی ڈالر احمد علی کو گلستان جوہر میں واقع ان کے دفتر میں پہنچا دیے اور باقی ایک ہزار ڈالر 27 دسمبر تک دینے کا یقین دلایا
احمد نے پانچ سو ڈالر مارکیٹ ریٹ سے کم وصول کیے اور اپنے پاس رکھ لیے۔ وہ اس سودے سے مطمئن تھے کیونکہ انہوں نے نا صرف مارکیٹ سے کم ریٹ میں ڈالر لیے تھے بلکہ انہیں ڈالر کی خریداری میں کمیشن یا اضافی پیسے بھی ادا نہیں کرنا پڑے تھے
احمد علی ایک روز اپنے دوستوں کی محفل میں موجود تھے، جب بات کا رُخ ملکی حالات اور پھر ڈالر کی قدر میں غیرمعمولی اضافے کی جانب نکل گیا۔ احمد علی کے دوست نے کہا کہ ’ملک میں ایک بار پھر ڈالر کی خریداری مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘
تبھی احمد علی نے کہا ’ایسا نہیں ہے، مارکیٹ میں کام کرنے والے کچھ لوگ اچھے ریٹ پر ڈالر دلوا دیتے ہیں اور انہوں نے حال ہی میں اپنے ایک جاننے والے کے ریفرنس سے ڈالر خریدے ہیں۔‘
اس بات پر ان کا وہ دوست حیران ہوا اور احمد سے ڈالر دکھانے کے لیے کہا، احمد علی نے اپنے دوست کو ڈالر کے نوٹ دکھائے تو اس نے ان کے جرلی ہونے کا شبہ ظاہر کیا
احمد علی نے دوست کے شک کرنے پر اپنے جاننے والے منی چینجر کو ڈالر چیک کروائے تو معلوم ہوا کہ یہ ڈالر واقعی جعلی ہیں مگر بہت صفائی سے تیار کیے گئے ہیں
احمد علی کو جعلی ڈالر فروخت کرنے والے ایجنٹ عبداللہ کو ایف آئی اے گرفتار کر چکی ہے، جو احمد علی کے علاوہ دیگر سادہ لوح شہریوں کو بھی جعلی ڈالر فروخت کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے بجائے ایجنٹس سے ڈالر خریدنے والے شہریوں کا محتاط رہنا ضروری ہے
ایف آئی اے حکام کے مطابق سال 2023 کے آخری ہفتے میں کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں ایک شہری احمد علی کی جانب سے درخواست دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ درخواست گزار پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں، انہیں پاکستان سے زیارتوں کے لیے عراق، ایران جانا تھا جس کے لیے ڈالرز کی ضرورت تھی۔ انہوں نے اپنی درخواست میں لکھا کہ ایک دوست کے ریفرنس سے ایک ایجنٹ سے ڈالر خریدے، ایجنٹ نے انہیں دھوکہ دے کر جعلی ڈالر دے دیے ہیں
احمد علی کی درخواست پر ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر بینکنگ سرکل کراچی علی مراد کی زیر نگرانی انکوائری نمبر 171/2023 درج کی گئی اور تفتیش کا آغاز کیا گیا۔
ایف آئی اے نے درخواست گزار کی دی گئی معلومات پر 27 دسمبر کو گلستان جوہر میں ایڈووکیٹ احمد علی کے دفتر کے باہر سادہ لباس میں اہل کار تعینات کر دیے۔
ملزم کے دفتر پہنچنے پر جعلی ڈالر نکالنے پر اسے حراست میں لیتے ہوئے اس کے قبضے سے ڈالر برآمد کر لیے گئے۔ کارروائی میں ملزم کے قبضے سے موبائل فونز اور مختلف بینکوں کے کارڈز بھی برآمد ہوئے جنہیں ضبط کر لیا گیا
ملزم عبداللہ ایڈووکیٹ احمد علی کو پندرہ سو ڈالر کے بقایا ایک ہزار ڈالر دینے ان کے دفتر آیا تھا
ایف آئی اے کے مطابق ملزم نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ اس نے احمد علی کے علاوہ دیگر افراد کو بھی ڈالر سپلائی کیے ہیں، جن میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل ہیں
ملزم نے بتایا کہ اس نے یہ ڈالر سراج نامی شخص سے حاصل کیے، جس سے اس کی کراچی کے تجارتی علاقے بولٹن مارکیٹ میں ملاقات ہوئی تھی
ایف آئی اے کو ابتدائی تحقیقات میں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ سراج کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے مٹہ سے ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہے ہیں لیکن ملزم فی الحال قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا
دوران تفتیش یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عبداللہ کے فراہم کیے گئے ڈالر انتہائی مہارت سے تیار کیے گئے تھے کہ کرنسی کے کام کرنے والے افراد سمیت کرنسی میں مہارت رکھنے والوں کے لیے بھی ان کے اصل ہونے کی پہچان کرنا آسان نہیں تھا۔ سکیورٹی فیچرز کی پرنٹنگ کے ساتھ مائیکرو پرنٹنگ بھی امریکی ڈالر کی طرح ہی کی گئی تھی۔ ان ڈالرز کی اصل اور نقل کی پہچان دو سو پاور کی انفرا ریڈ شعاعوں کے آلے سے ہی ممکن ہے
ایک محتاط اندازے کے مطابق ان جعلی ڈالرز کو 85 سے 95 فیصد تک اصلی تصور کیا جا سکتا ہے
ایف آئی اے حکام کے مطابق ملزم کے خلاف دفع 420 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ملزم کے مزید ساتھیوں کی گرفتاری کے لیے بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں
اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ملک میں ڈالر کی خرید و فروخت کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔ منی چینجرز سے کرنسی لینے والوں کو کچھ سوالوں کے جواب دینا پڑتے ہیں، اس کے علاوہ مارکیٹ ریٹ کے مطابق پیسے دینے ہوتے ہیں تو لوگ سوال جواب سے بچنے اور پیسے بچانے کے لیے ایجنٹس کا رُخ کرتے ہیں
ظفر پراچہ نے مزید کہا ”یہاں یہ بات اہم ہے کہ ہمیں پروسیس تھوڑا سا آسان کرنا ہوگا کہ ڈالر کی خرید و فرخت کرنے والے بلا خوف قانونی طریقے سے کرنسی کی خرید و فروخت کر سکیں۔ کرنسی کی خرید و فرخت کا عمل جب سے سخت ہوا ہے، ایجنٹس مارکیٹ میں فعال ہو گئے ہیں۔ ایک ایجنٹ سے خریدی گئی کرنسی کے اصلی یا جعلی ہونے کی کم ہی جانچ کی جاتی ہے۔ عام شہری کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اصلی نوٹ لے رہا ہے یا جعلی نوٹ لے رہا ہے۔ نوٹ چیک کرنے کی مشینیں شہریوں کے پاس عموماً موجود نہیں ہوتیں“
ظفر پراچہ بتاتے ہیں ”ایجنٹس کے مارکیٹ میں فعال ہونے کے بعد جعلی کرنسی کے مارکیٹ میں آنے کے واقعات میں بھی روزافزوں اضافہ ہوا ہے۔ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں غیرقانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں قانون کی گرفت میں لائیں۔“