کسی بھی مہذب معاشرے میں منشیات کے استعمال اور ان کے اثرات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور حکومتیں اس لعنت کے سدباب کے لیے کثیر سرمایہ صرف کرتی ہیں۔
لیکن دوسری جانب اس طرف توجہ نسبتاً کم ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں، جن کی بنا پر منشیات کا استعمال کم ہونے کے بجائے بتدریج بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ بلکہ منشیات کی نت نئی اقسام بھی متعارف ہونے لگی ہیں۔
چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک اشتہار دکھائی دیا، جس میں ٹی شرٹس پر مختلف قسم کے کسی حد تک بولڈ فقرے درج تھے۔
بولڈ اور بے جھجک ہونے میں کوئی برائی نہیں لیکن جس چیز نے میری توجہ کھینچی، وہ منشیات کے استعمال اور اثرات کے متعلق بہ ظاہر مزاحیہ جملے تھے۔
ٹی شرٹس بیچنے والی یہ فرم یا آن لائن دوکان اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے نوجوانوں کی توجہ لینے کی کوشش میں شاید نادانستہ طور پر ایسے فقروں اور نعروں کی ترویج کر رہے ہیں، جن میں منشیات کے استعمال کو بڑھاوا ملنے کا امکان ہو سکتا ہے۔
جدید ادب، شاعری اور فلموں میں منشیات کے استعمال کو ایک ایسے طریقے سے بڑھاوا دیا جاتا ہے کہ نوجوان اس کا اثر لینے لگتے ہیں اور غیرمحسوس طور پر یہ بات ان کے نا پختہ اذہان میں بیٹھ رہی ہے کہ منشیات کا استعمال ذہین، دانشوروں اور مفکروں کا وطیرہ ہے۔
ماہرین کے نزدیک نشے کی عادت کا تعلق اس ماحول سے ہے، جس میں کوئی انسان پرورش پاتا ہے۔ ان مادوں کا اولین استعمال دوستوں یاروں کی محفل سے شروع ہوتا ہے اور جلد ہی دماغ ان کے اثرات کا عادی ہو جاتا ہے اور جسم کے لیے اسے ضروری قرار دے دیتا ہے۔
جب نشہ میسر نہ آئے تو دماغ توازن بر قرار نہیں رکھ پاتا، تاوقتیکہ اسے نشہ میسر نہ ہو جائے۔
محققین کے نزدیک منشیات سے انسانی جسم میں ایک دائمی خرابی پیدا ہو جاتی ہے، جو نشہ چھوڑنے کی کوشش میں رکاوٹ کھڑی کرتے ہوئے اس کی طلب کو برقرار رکھتی ہے۔
انسان اپنے دنیاوی دکھوں اور مسائل سے فرار ہوتے ہوئے سر مست رہنا چاہتا ہے۔ ایسے میں نشہ ہی ایک ایسی راہ فرار ہے، جس سے وقتی طور پر سب پریشانیوں سے نجات مل جاتی ہے۔ منشیات میں سب سے قدیم شے شراب ہے، جس کا ذکر مختلف آسمانی کتابوں میں بھی آیا ہے۔ تمام قدیم تہذیبوں میں شراب کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوجوان بطور فیشن شراب، چرس اور کوکین وغیرہ کا استعمال کر رہے ہیں۔ بڑے شہروں میں آئس، کرسٹل اور نت نئے نشوں کا استعمال لڑکے لڑکیوں دونوں میں بڑھ رہا ہے۔
پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق، اس وقت منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد 70 لاکھ کے قریب ہے، جن میں اکثریت نو جوانوں کی ہے۔
آئے روز اخبارات اور میڈیا کے دیگر ذرائع میں رپورٹ ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس رجحان میں کسی صنف کی بھی تخصیص نہیں ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہیروئین کا سالانہ استعمال امریکہ کی نسبت تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ منشیات کے باعث ہونے والی سالانہ اموات کی تعداد بھی 700 سے تجاوز کر چکی ہے۔
یعنی ملک میں روزانہ دو افراد نشے کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں۔ نشے کے باعث ہونے والی اموات کی یہ تعداد ٹریفک حادثات کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
شیشہ پینا اب مخلوط محفلوں میں فیشن بن چکا ہے۔ لڑکیوں میں بھی شیشے کا رجحان بہت بڑھ چکا ہے۔ گو کہ حکومت نے اس پہ پابندی لگا رکھی ہے، مگر یہ سب ایک عام سی پان، سگریٹ کی دکان سے بھی اب با آسانی دست یاب ہو جاتا ہے۔ جس کی دسترس جہاں تک ہے، وہ اس حساب سے منشیات کا استعمال کرتا ہے. متوسط طبقے کے نوجوان اگر فارماسوٹیکل ڈرگز پر انحصار کرنے لگے ہیں، جن میں مختلف قسم کی ادویات کو بہ طور نشہ استعمال کیا جاتا ہے تو بالائی طبقے کے افراد میں کرسٹل، ہیروئین اور کوکین کے ساتھ کیمیکل ڈرگز کا استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں جہاں اس ملک کے مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں، وہاں منشیات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ پوری دنیا میں اس بات پہ زور دیا جاتا ہے کہ نو جوان نسل کو منشیات سے دور رکھا جائے کیوں کہ اس سے ان کی قدرتی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
نئی نسل معاشرتی ردعمل اور درست رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نشے کو اپنا رہی ہے۔ جب تک منشیات کے بڑھنے کے اسباب و محرکات کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک اس کے خاتمے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔
نوجوانوں میں منشیات کو کم کرنے کے لیے سول سوسائٹی، والدین، اساتذہ اور حکومت کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ مل جل کر آنے والے کل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جا سکے۔
بشکریہ اردو نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)