ٹی بی جوشوا۔۔ یہ نام ہے ایک بااثر اور مقبول نائجیرین پادری کا، جس نے نائجیریا کے شہر لاگوس میں دنیا کے سب سے بڑے ایونجیلیکل گرجا گھروں میں سے ایک کی بنیاد رکھی تھی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی جانب سے کی گئی تحقیقات، جو تین براعظموں پر محیط ہیں، کے مطابق اس نے بڑے پیمانے پر جنسی جرائم کا ارتکاب کیا۔ درجنوں متاثرین سے کیے گئے انٹرویوز کے نتیجے میں یہ انکشاف ہوا کہ پادری جوشوا نے دنیا بھر کی نوجوان خواتین کا متعدد مرتبہ ریپ کیا اور یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا
یہ سنہ 2002 کی بات ہے، جب برطانیہ میں موسمِ سرما کے وسط میں اکیس سالہ رے لاپتہ ہو گئیں۔ ان کے دوستوں نے انہیں آخری مرتبہ برائٹن میں اُن کی یونیورسٹی میں دیکھا تھا، جہاں وہ گرافک ڈزائن کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں اور ساحلِ سمندر سے پچیس منٹ کے فاصلے پر واقع ایک مکان میں دیگر افراد کے ساتھ رہ رہی تھیں، اپنے دوست احباب میں رے مقبول بھی تھیں اور ذہین بھی
رے کی اُس وقت کی بہترین سہیلی کارلا کو معلوم تھا کہ رے کہاں گئی ہیں، لیکن اس حوالے سے دوستوں کو سچائی کو بتانا بہت مشکل تھا۔ رے کے ’لاپتہ‘ ہونے سے چند ہفتے قبل کارلا اور رے اکٹھی نائجیریا گئی تھیں، ایک ایسے پُراسرار شخص کی تلاش میں، جس کے ہاتھوں میں ’جادوئی شفا‘ تھی اور وہ بظاہر اپنے ہاتھوں سے لوگوں کے دکھ درد اور بیماریوں کا علاج کر دیتا تھا
وہ پراسرار شخص ایک مسیحی پادری تھا، جس کے چہرے پر کالی داڑھی سجی تھی اور جو سفید چوغے میں ملبوس ہوتا تھا۔ یہ ٹی بی جوشوا تھا اور اُس کے ماننے والے اسے مبالغہ آمیز خطابات سے پکارتے تھے
اگرچہ رے اور کارلا نے ایک ہفتے کے لیے ٹی بی جوشوا کے چرچ ’دی سائناگاگ چرچ آف آل نیشنز‘ جانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن رے اس سفر سے کبھی واپس نہ آئیں۔ نائجیریا پہنچ کر وہ جوشوا کے کمپاؤنڈ میں رہنے لگیں
کارلا نے بہتے آنسو سے بتایا ’میں نے اسے وہیں چھوڑ دیا۔۔ میں نے کبھی بھی خود کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے معاف نہیں کیا۔‘
افریقہ کے سب سے بڑے شہر لاگوس کے ایک علاقے اکوتن میں یہ چرچ بظاہر ایک پُراسرار مندر کی طرح دِکھتا ہے۔ جوشوا نے اس چرچ کے ساتھ موجود کمپاؤنڈ (رہائشی عمارت) کی تمام بارہ منزلیں ڈزائن کی تھیں، جہاں وہ اپنے متعدد معتقدین کے ساتھ رہتا تھا
اس نے اپنے بیڈروم تک جانے والی متعدد سیڑھیوں کی تعمیر خود کروائی تھی۔ اس کمرے کے تین دروازے تھے۔ عمارت میں ایک خفیہ ’عبادت گاہ‘ بھی تھی، جس میں چھوٹے چھوٹے شیشے تھے اور اُن کا ایک اپنا ’کلینک‘ بھی
اس رہائشی عمارت کے مکین رہنے والے افراد کے مطابق یہ ایک کنکریٹ سے بنی بھول بھلیاں تھیں اور ایک ڈراؤنے خواب جیسی دنیا۔۔ جس میں حقیقت کہیں دور رہ جاتی ہے اور خوفناک واقعات پیش آتے ہیں۔
متعدد خواتین نے بتایا کہ جوشوا نے اُن پر جنسی حملے کیے، جبکہ بہت سی خواتین کا دعویٰ ہے کہ اس عمارت کے بند کمروں میں متعدد بار ان کا ریپ کیا گیا۔ کچھ کا دعویٰ ہے کہ انہیں ریپ کے نتیجے میں حاملہ ہونے کے بعد اسقاطِ حمل کروانے پر مجبور کیا گیا۔
آج کل رے انگلینڈ میں واقع اپنے گاؤں میں ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ بظاہر ان کے چہرے پر مسکراہٹ سجی رہتی ہے، لیکن اندر سے وہ خاصی بے چین ہیں، ان کے اپنے الفاظ میں ”بظاہر میں بالکل ٹھیک نظر آتی ہوں لیکن میں (ٹھیک) نہیں ہوں“
جب رے لاگوس میں گزرے اپنے وقت کے بارے میں بات کرتی ہیں، تو ان کے ہونٹ اکڑ جاتے ہیں۔ بات کرتے کرتے ان کی سانس پھولنے لگتی ہے۔ کبھی کبھار ان کے چہرے کا رنگ فق ہو جاتا ہے۔ انھوں نے بارہ سال جوشوا کے کمپاؤنڈ میں گزارے۔۔ وہ کہتی ہیں ”یہ کہانی ایک ڈراؤنی فلم کی طرح ہے۔ یہ ایسا ہے کہ آپ کوئی کہانی افسانے کے طور پر سُنیں لیکن حقیقت میں وہ سچ ہو۔“
اس ضمن میں دو سال پر محیط تحقیقات کو برطانوی نشریاتی ادارے نے بین الاقوامی میڈیا پلیٹ فارم ’اوپن ڈیموکریسی‘ کے اشتراک سے مکمل کیا گیا ہے، جس میں تین براعظموں میں ادارے کے پندرہ سے زیادہ صحافیوں کی خدمات شامل تھیں۔
انھوں نے پرانی ویڈیو ریکارڈنگز، دستاویزات اور سینکڑوں گھنٹوں کے انٹرویوز کر کے رے کی جانب سے دیے گئے بیان کی تصدیق کی ہے اور متعدد خوفناک کہانیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔
25 سے زیادہ عینی شاہدین جن کا تعلق برطانیہ، نائجیریا، گھانا، امریکہ، جنوبی افریقہ اور جرمنی سے ہے، نے جوشوا کے کمپاؤنڈ کے بارے میں بیانات دیے ہیں اور اس دوران ان کے تازہ ترین تجربات سنہ 2019 کے ہیں۔
جبکہ ’دی سائناگاگ چرچ آف آل نیشنز‘ نے ان الزمات پر کوئی ردِعمل نہیں دیا ہے لیکن کہا ہے کہ ماضی میں کیے گئے (اسی نوعیت کے) دعوے بے بنیاد ثابت ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ جوشوا کے سابق مریدوں نے ماضی میں اس زیادتی کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اُن کا کہنا ہے کہ انہیں چرچ کی جانب سے یا تو زبردستی خاموش کروا دیا گیا یا انہیں بدنام کروایا گیا۔ جوشوا کے دو سابق پیروکار ایسے بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے بعد ان پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا
جب ’بی بی سی افریقہ آئی‘ کی جانب سے چرچ کے باہر فلمنگ کی جا رہی تھی تو ایک سکیورٹی گارڈ نے فلم بنانے والوں کے سر کے تھوڑا اوپر فائر کیا کیونکہ وہ فلم کیا گیا مواد سکیورٹی گارڈ کو دینے کے لیے تیار نہیں تھے
اکثر افراد، جن کا انٹرویو کیا گیا، انھوں نے شناخت چھپانے کے اپنے قانونی حق کو استعمال نہیں کیا اور کہا کہ ان کا اصل نام تحریر میں شامل کیا جائے مگر خاندانی نام ظاہر نہ کیا جائے۔ دیگر افراد کی جانب سے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے کیونکہ انھیں سخت ردِعمل کا ڈر ہے۔
چرچ کا مرکزی کردار دراصل افریقی تاریخ کا سب سے زیادہ بااثر پادری ٹی بی جوشوا تھا۔ جون 2021 میں اچانک اس کی موت ہو گئی۔ اس کی آخری رسومات کے دن لاگوس میں سوگواران کے ہجوم کے باعث گلیوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں تھی
لگ بھگ پچاس ہزار سے زیادہ ماننے والے جوشوا کی ہفتہ وار سروسز میں شرکت کرتے تھے اور اُس کا قائم کردہ چرچ نائجیریا آنے والے غیر ملکیوں کے لیے بھی ایک مقبول جگہ بن گئی تھی۔ اس کا گلوبل ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر مقبول چینلز اور پیجز دنیا میں مذہبی مسیحی نیٹ ورکس میں سب سے مقبول تھا اور کروڑوں دیکھنے والے یورپ، امریکہ، جنوب وسطی ایشیا اور افریقہ سے اسے دیکھتے تھے۔ اس کے یوٹیوب چینل پر نشر ہونے والی ہر وڈیو کو دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں تھی
اس کا چرچ آج بھی خاصا مقبول ہے اور اب اسے اُس کی بیوہ اویلن جوشوا شاگردوں کی ایک ٹیم کے ساتھ مل کر چلا رہی ہیں۔
سنہ 2013 میں نیلسن منڈیلا کی بیٹی سے کیے گیے انٹرویو میں جوشوا کی تصویر سابق جنوبی افریقی صدر کے ڈیسک پر پڑی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی زندگی میں جوشوا درجنوں سیاست دانوں اور مقبول شخصیات کو اپنے چرچ میں مدعو کرنے میں کامیاب رہا، جن میں چیلسی فٹبال کلب کے لیجنڈ ڈڈیئر ڈرگبا، اور نو افریقی صدور بھی شامل ہیں
اس کے اکثر مداحوں کو اس کی جانب سے کیے گئے فلاحی کام اپنی جانب راغب کرتے تھے لیکن زیادہ تر کو ان کی جانب سے دکھائے جانے والے ’کرامات‘ میں دلچسپی تھی۔ جوشوا نے اپنے پورے کریئر میں حیرت انگیز طور پر لوگوں کا ’صحتیاب‘ ہوتے ہوئے فلمایا۔ جوشوا کی جانب سے ان کے بارے میں دعا کرنے کے بعد متعدد افراد نے کیمرے پر یہ کہا کہ انہیں کینسر، ایچ آئی وی/ایڈز اور آدھے سر کے درد اور بینائی کی کمزوری اور اندھے پن سے نجات ملی
افریقہ میں مذہب پر رپورٹ کرنے والے صحافی سولومن اشومز کہتے ہیں ”ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس کی پراسراریت اور اُس کے راز ہی وہ چیزیں تھیں، جن کے باعث لوگ ان کی پیروی کرتے تھے“
متعدد وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایسے مرد حضرات، جن کے عضو تناسل شدید انفیکشن کا شکار تھے، جوشوا کی جانب سے دعا کی غرض سے ہاتھ فضا میں اٹھاتے ہی مکمل طور ٹھیک ہو جاتے۔ دیگر وڈیوز میں خواتین کو بچے پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا اور جوشوا کے آتے ہی وہ بچہ پیدا کر دیتیں۔ ہر ایسے واقعے کے بعد ان وڈیوز میں موجود افراد بیان ریکارڈ کرواتے کہ کیسے انہیں بچا لیا گیا
جوشوا کی جانب سے لوگوں کے صحتیاب کرنے کے حوالے سے وڈیوز سنہ 1990 اور 2000 کے اوائل میں افریقہ اور یورپ کے ایونجیلک گرجا گھروں سے شیئر کی جا رہی تھیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی رے کا بچپن ایک قدامت پسند مسیحی ماحول میں گزرا تھا اور اس نے یہ وڈیوز دیکھنے کے بعد لاگوس جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ وڈیوز پہلی مرتبہ اسے اُس کی جنوبی افریقی دوست نے دکھائی تھیں
ایک برطانوی خاتون انیکا کا کہنا ہے کہ وہ ان ویڈیوز سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ وہ اس وقت سولہ برس کی تھیں جب انھوں نے یہ ویڈیو ٹیپس دیکھی تھیں۔ انیکا نے بھی نائجیریا کا سفر کیا تھا۔
رے، انیکا اور دیگر نوجوان خواتین و مرد، جنہوں نے جوشوا سے ملنے کے لیے نائجیریا کا رخت سفر باندھا، انہیں اس سفر کے لیے اپنی جیب سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑا۔ انگلینڈ بھر سے چرچ گروپس نے فنڈ اکٹھے کیے اور لاگوس میں ان مغربی شہریوں کو بھیجا، تاکہ وہ افریقہ میں ہونے والے ان ’کرامات‘ کا خود مشاہدہ کر سکیں۔
چرچ میں رہنے والے سینیئر سابق اہلکاروں کے مطابق جوشوا نے اپنے چرچ کے چندے کے پیسے بھی اس کام میں ڈالے۔ تاہم جب چرچ کو بہتر انداز میں چلایا جانے لگا تو اس نے یہاں آنے والوں سے بھاری رقم وصول کرنا شروع کر دی
بسولا ایک نائجیرین خاتون ہیں اور انھوں نے اس جوشوا کے کمپاؤنڈ میں چودہ سال گزارے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ مغربی ممالک سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا سب سے اہم تھا۔ ’اس نے سفید فام افراد کو اپنے برانڈ کو مارکیٹ کرنے کے لیے استعمال کیا۔‘
چرچ کے سابق اہلکاروں کا اندازہ ہے کہ جوشوا نے یہاں آنے والے افراد اور دیگر ذرائع آمدن جیسے فنڈ ریزنگ، ویڈیوز کی فروخت اور بیرونِ ملک اسٹیڈیمز میں جا کر بھی کروڑوں ڈالر کمائے۔ وہ شدید غربت سے نکل کر افریقہ کے امیر ترین پادری بن گئے تھے
آگوموہ پال کو جوشوا کا نائب تصور کیا جاتا تھا، جنہوں نے کمپاؤنڈ میں دس سال گزارے، وہ کہتے ہیں ”وہ شخص ایک جینیئس تھا۔۔۔ وہ جو بھی کرتا وہ پہلے سے منصوبے کے تحت کرتا۔“
آگوموہ پال نے ان ’کرامات‘ کی فلمنگ کی نگرانی کی تھی، جو جوشوا کی جانب سے حقیقت کی طرح پیش کیے جاتے تھے اور اس کی جانب سے کی گئی منصوبہ بندی کا ایک بڑا حصہ یہی ’کرامات‘ ہوتی تھیں
آگوموہ اور دیگر افراد بتاتے ہیں کہ جنھیں ’شفا‘ ملتی انھیں دراصل اس دوران فنکاری کرنے یا مبینہ صحتیابی سے پہلے اپنی علامات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے پیسے دیے جاتے تھے۔ ان کے مطابق کئی مرتبہ تو لوگوں کو بتائے بغیر ادویات دی گئیں یا ایسی چیزیں پلائی گئیں کہ ان کے گرجا گھر میں رہتے ہوئے ان کی صورتحال بہتر ہو جائے اور پھر ان سے صحتیابی سے متعلق بیان ریکارڈ کروا دیا جاتا۔ کچھ کے ساتھ غلط بیانی کی جاتی کہ ان کا ایچ آئی وی/ ایڈز کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے اور پھر جوشوا کی وجہ سے اب وہ وائرس سے مکمل طور پر نجات پانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
جب رے لاگوس کی تپتی ہوئی گرمی میں چرچ پہنچیں، تو انہیں بھی وہاں یہی کرامات نظر آئیں۔ درجنوں افراد نے آ کر بیانات دیے کہ انہیں بیماری کے بعد شفا مل گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں ”اس پر میرا ردِعمل بہت غیر ارادی تھا۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا“
یہ وہ موقع تھا، جب رے کا انتخاب کیا گیا۔ جوشوا نے انہیں ان پیروکاروں کے ایلیٹ گروپ کے لیے چُنا، جو اُن کی خاطر تواضع کرتا تھا اور ان کے ساتھ کمپاؤنڈ میں رہتا تھا
رے کا خیال تھا کہ وہ جوشوا سے یہ تعلیم حاصل کریں گی کہ وہ اپنے ہم جنس پرستی کے مسئلے سے ’صحتیاب‘ ہو سکتی ہیں۔
حقیقت اس سے بہت مختلف تھی۔۔
وہ کہتی ہیں ”ہم سب نے سوچا کہ ہم جنت میں ہیں لیکن اصل میں ہم جہنم میں تھے۔۔ اور جہنم میں بہت ِخوفناک چیزیں ہوتی ہیں۔“
اکیسویں صدی کی سب سے زیادہ طاقتور شخصیات میں سے ایک کے کمپاؤنڈ میں متعدد افراد کا خوفناک بھول بھلیوں کا سفر، جس میں خوفناک تشدد کیا جاتا تھا
رے سمیت جن سابق پیروکاروں سے انٹرویو کیے گئے، انھوں نے جوشوا کی جانب سے ریپ اور جنسی تشدد کرنے کے الزامات عائد کیے۔ اکثر کا کہنا ہے کہ یہ ان کی کمپاؤنڈ میں موجودگی کے دوران متعدد مرتبہ ہوتا، کئی دفعہ ایک ہفتے میں دو سے چار مرتبہ۔ کچھ نے پرتشدد ریپ کی کہانیاں سنائیں، جس کے باعث انہیں سانس لینے میں دشواری ہوئی یا اُن کا خون بہنے لگا
اکثر خواتین کا ماننا تھا کہ وہ یہ سمجھتی رہیں کہ یہ جنسی تشدد صرف انہی پر کیا جا رہا ہے، چنانچہ وہ اپنی کہانیاں دوسرے پیروکاروں یا مریدوں سے شیئر کرنے کی جرأت نہیں کرتی تھیں، کیونکہ اُن سب کو ایک دوسرے کی شکایتیں لگانے کا کہا جاتا تھا۔
وکٹوریا، (فرضی نام) نے اس کمپاؤنڈ میں پانچ سال سے زیادہ کا عرصہ گزارا۔ وہ بتاتی ہیں کہ جوشوا چرچ میں عبادت کے عمل کے دوران جنسی تشدد کے لیے خواتین کا انتخاب خود کرتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں بھی چرچ کے سنڈے اسکول میں جاتے ہوئے ایک دن چن لیا گیا تھا اور ان کے والدین نے انہیں جوشوا کے زیرِ سرپرستی دینے کی اجازت دی تھی۔ پھر کئی ماہ تک جوشوا نے اپنے نجی کوارٹرز میں جا کر ان کا ریپ کیا اور اس کے بعد انھیں کمپاؤنڈ میں رہائش دے دی گئی۔
وکٹوریا کا کہنا ہے کہ جوشوا نائجیریا کے مقامی اور اپنے سب سے زیادہ بااعتماد لوگوں کو نئے متاثرین چننے کا کام دیتا تھا۔ اس گروپ کو غیر رسمی طور ’دی فشنگ ڈیپارٹمنٹ‘ کا نام دیا گیا تھا اور وہ کہتی ہیں کہ انھیں بھی اس ڈیپارٹمنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے مجبور کر لیا گیا۔
ایک اور پیروکار، جسے اس گھناؤنے چناؤ کا کام دیا گیا تھا وہ بسولا تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’ٹی بی جوشوا نے مجھے کنواری خواتین رکھنے کی ہدایت کی، تاکہ وہ انھیں اپنا شاگرد بنا کر ان کا کنوارپن ختم کر سکے۔‘
وہ اس کام میں حصہ دار دو وجوہات کی بنا پر بنیں: ایک تو یہ کہ ان کے ’ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی‘ اور دوسرا ان کو تشدد کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں بھی جوشوا نے متعدد مرتبہ ریپ کیا تھا۔
اکثر خواتین کا کہنا ہے کہ وہ رضامندی کی قانونی عمر، جو لاگوس میں اٹھارہ برس ہے، سے چھوٹی تھیں، جب انھیں ریپ اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نائجیریا میں ریپ کے جرم پر سزائے موت کی سزا دی جا سکتی ہے۔
جیسیکا کیمو اب نمبیا میں براڈکاسٹ صحافی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اس وقت سترہ سال کی تھیں اور کنواری تھیں، جب جوشوا نے انھیں اپنے پینٹ ہاؤس کے باتھ روم میں ریپ کیا تھا۔ انھیں جوشوا کی شاگردی اختیار کیے ابھی چند ہی ہفتے ہوئے تھے۔ ”میں چیخ رہی تھی اور وہ میرے کان میں سرگوشی کر رہا تھا کہ مجھے ایک بچی کے جیسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ میں بہت خوفزدہ ہو گئی تھی، میں رو بھی نہیں سکی۔“
جیسیکا کہتی ہیں کہ ایسا ان کے ساتھ بار بار ہوا، ان کے پیروکار رہنے کے پانچ سال تک۔۔ ان کی کہانی ان دیگر خواتین کی کہانیوں کے عین مطابق ہے، جنھوں نے اس بارے میں بات کی ہے۔ اس کے علاوہ جوشوا کے چار مرد نوکروں نے بھی ان کی کہانی کی تصدیق کی، جنھیں انھوں نے اس قسم کے تشدد کے شواہد مٹانے کے لیے رکھا ہوا تھا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جن افراد کے انٹرویوز کیے گئے ہیں، ان میں سے اکثر کے بیانات کی تفصیلات اس قدر افسوسناک ہیں کہ انھیں شائع نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں ایسی خواتین کی جانب سے دیے گئے بیانات ہیں جن میں انھیں ننگا کیا گیا اور انھیں مختلف چیزوں کی مدد سے ریپ کیا گیا۔ ان میں سے ایک خاتون کے مطابق ان کے ساتھ یہ پندرہ سال کی عمر سے پہلے دو مرتبہ کیا گیا۔
یہ خاتون اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت تکلیف دہ تھا، اس نے میرا استحصال کیا۔ میں الفاظ میں شاید کبھی نہ بتا پاؤں۔ اس نے مجھ پر زندگی بھر کے لیے ان مٹ نقوش چھوڑ دیے۔‘
متعدد خواتین جن سے انٹرویوز کیے گئے، انہوں نے بتایا کہ کیسے ان کا جوشوا نے ریپ کیا اور پھر انھیں کمپاؤنڈ میں ہی اسقاطِ حمل پر مجبور کیا گیا، جو ایک ایک ایسے ایریا میں کیا گیا جسے ’میڈیکل ڈیپارٹمنٹ‘ یا ’کلینک‘ کہا جاتا ہے۔
سہلی کا تعلق جنوبی افریقہ سے ہے اور وہ بھی جوشوا کی پیروکار رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں انھیں تین مرتبہ چرچ میں اسقاطِ حمل پر مجبور کیا گیا۔
ان کے مطابق ’یہ سب کچھ رازداری میں کیا جاتا تھا۔ آپ کو کوئی مشروب پینے کو دیا جاتا ہے اور پھر آپ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ یا وہ آپ کی اندام نہانی میں دھات کے ٹکڑے ڈالتے تھے اور باہر کچھ بھی کھینچ لیتے تھے۔ آپ کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کہیں انہوں نے (غلطی سے) آپ کی بچہ دانی تو باہر نہیں کھینچ لی۔‘
سہلی کے ساتھ جیسیکا بھی اپنے انٹرویو کے دوران روتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں پانچ مرتبہ زبردستی اسقاطِ حمل کے مراحل سے گزرنا پڑا۔
بسولا کے مطابق انھوں نے چرچ میں چودہ سال کے دوران درجنوں مرتبہ اسقاطِ حمل ہوتے دیکھا۔ ”کئی مرتبہ میں کمپاؤنڈ کی سب سے اونچی منزل پر چڑھ کر رو دیتی اور خدا سے دعا کرتی کہ وہ مجھے بچا لے۔“
جوشوا کے پیروکار ان کی ہر ضرورت پوری کرتے۔ ان کی مالش کرتے، انھیں کپڑے پہنانے میں مدد کرتے، جب وہ کمرے میں داخل ہوتے تو ان پر پرفیوم چھڑکتے۔ وہ ان کے ہاتھوں پر پلاسٹک گلوز پہناتے تاکہ وہ بغیر کسی چیز کو چھوئے کھانا کھا سکیں۔
انھیں ان کے نام سے پکارنے کی بجائے انھیں کہا جاتا تھا کہ وہ انھیں ’ڈیڈی‘ کہہ کر پکارا کریں۔ نائجیریا میں پادریوں کو اس لقب سے پکارنا کوئی نئی بات بھی نہیں ہے لیکن ان کے پیروکاروں کے مطابق وہ اس بات پر زور دیتے تھے۔
انیکا کہتی ہیں ”میرا دماغ مکمل طور پر ہل چکا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے حقیقت میں بگاڑ پیدا ہو چکا تھا“
رے کہتی ہیں کہ وہ سیڑھیوں کی بھول بھلیاں تھیں۔ سنہ 2014 میں اس تعمیر کے باعث بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جب چھ منزلہ گیسٹ ہاؤس، جسے بین الاقوامی مہمانوں کے لیے بنایا گیا تھا، وہ منہدم ہوا اور ایک سو سولہ افراد ہلاک ہو گئے
مقامی حکومت کی جانب سے جاری کی گئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ ڈھانچے کی کمزوری اور ناقص تعمیر تھی، جس کی وجہ سے عمارت منہدم ہوئی۔ تاہم کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
جن افراد سے انٹرویو کیے گئے، انھوں نے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی اور متعدد ایسے مقامی افراد کا نام اس متاثرین کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا جو اس وقت گیسٹ ہاؤس پر کام کر رہے تھے۔ انھیں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ چرچ حکام کی جانب سے ریسکیو کرتے اکثر افراد کی لاشوں کو رات کے وقت چھپا دیا گیا تھا۔
ان کے مطابق جوشوا نے ایمرجنسی سروسز کو ریسکیو میں مدد کرنے سے روکے رکھا کیونکہ انھیں اپنی عوامی شناخت اور پروفائل خراب ہونے کا ڈر تھا۔ ہمارے ذرائع کے مطابق مواصلات پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہوتی تھی۔
رے کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے چرچ چھوڑا، تب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی فیملی اور دوست انھیں ای میلز بھیج رہے تھے، لیکن انھیں یہ کبھی نہیں ملیں۔
جوشوا اپنے پیروکاروں کی فون تک رسائی اور ای میل اکاؤنٹ کا استعمال محدود کر دیتے تھے۔ آگوموہ پال کہتے ہیں ”وہ ہر کسی کو اور ہر چیز کو کنٹرول کرنا چاہتا تھا۔ وہ دراصل لوگوں کے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا“
سابقہ پیروکار کہتے ہیں کہ انھیں ہر روز کئی گھنٹے بغیر تنخواہ کے کام کروایا جاتا تھا، جس دوران وہ چرچ کی تمام ذمہ داریاں نبھا رہے ہوتے تھے۔ انھیں نیند پوری کرنے کا وقت نہیں ملتا تھا اور ان کے سونے کے کمروں میں رات کو لائٹس جلا کر رکھی جاتی تھیں۔
انیکا کے مطابق انھیں ایک وقت میں چار گھنٹے سے زیادہ سونے کا وقت نہیں ملتا تھا۔
اگر کوئی بغیر اجازت سوتا دکھائی دیتا یا جوشوا کے قواعد کی خلاف ورزی کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ انیس سابقہ پیروکاروں کی جانب سے ایسے پرتشدد حملے یا تشدد کے عینی شاہد ہونے کے بارے میں بتایا گیا، جو جوشوا کے احکامات پر کیے گئے۔
دیگر پیروکار بتاتے ہیں کہ کیسے ان کے کپڑے پھاڑے گئے انھیں بجلی کی تاروں اور چابک سے مارا گیا۔ جنہیں اس انداز میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان میں ٹریننگ کرنے والے پیروکار بھی تھے، جن کی عمریں سات سال تک کی تھیں۔
لاگوس کے کمپاؤنڈ میں بارہ فٹ لمبی دیوار تھی، جس پر مسلح چوکیدار بیٹھے تھے، لیکن جس چیز نے پیروکاروں کو وہاں رکنے پر مجبور کیا، وہ جوشوا سے وفاداری اور اس کی جانب سے پیدا کیا گیا خوف تھا کہ اگر وہ بھاگے تو کیا ہو سکتا ہے۔
رے کہتی ہیں ”وہ ایک نفسیاتی جیل تھی۔ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ کوئی اس حد تک نفسیاتی استحصال سہنے کے بعد کیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔“
رے کا کہنا ہے کہ ان کے لیے نفسیاتی تشدد وہ چیز ہے، جس نے ان پر گہرے نقوش چھوڑے۔ جوشوا نے ان پر ایک اسی قسم کا تشدد کیا، جسے ’اڈوب‘ کہا جاتا ہے اور ایسا اس نے دو سالوں تک کیا۔ اس عرصے میں ان پر کمپاؤنڈ سے نکلنے کی پابندی ہوتی اور اس کے اندر کسی کو بھی ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ”میں مکمل طور پر اکیلی تھی۔ میں ٹوٹ چکی تھی۔ میں نے پانچ مرتبہ خودکشی کرنے کی کوشش کی“
جب رے کی ہمت کا پیمانہ لبریز ہونے لگا تو ان کے ذہن میں اچانک کچھ بدل گیا۔ ان کو بارہ سال تک پڑھایا جانے والا سبق اب ان کے سامنے عیاں ہونے لگا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے بہت بڑی غلطی کی، اس کا مجھ پر موجود کنٹرول ختم ہو گیا۔‘
جب وہ چرچ کے لوگوں کے ساتھ میکسیکو کے دورے پر گئیں، تو وہ باقی پیروکاروں سے بچ کر نکل گئیں اور پھر کبھی واپس نہیں گئیں۔
اب ان کی زندگی بہت مختلف ہے لیکن انھیں اس مایوسی کے ساتھ جینا ہے کہ جوشوا کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا کوئی طریقہ نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹی بی جوشوا کی انصاف کے نظام کا سامنا کرنے سے پہلے ہلاکت بہت زیادہ مایوس کن ہے۔ اس سے ہم سب متاثرین کے دلوں میں ناانصافی کا احساس مزید ابھر آیا ہے۔‘
برطانوی نشریاتی ادارے نے چرچ سے تمام الزامات کے بارے میں رابطہ کیا۔ انھوں نے کسی بھی الزام کا جواب نہیں دیا، تاہم ماضی میں لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے لکھا ’ٹی بی جوشوا سے متعلق بے بنیاد الزامات لگانا کوئی نئی بات نہیں ہیں۔۔۔ ان میں سے کوئی بھی الزام کبھی بھی ثابت نہیں کیا گیا۔‘