امریکہ میں پہلی بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا میدان سج رہا ہے اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے زیراہتمام انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی کے مقابلے ہونے جا رہے ہیں جس کے لیے یہاں بہت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
امریکی روایتی طور پر فٹ بال اور بیس بال کو پسند کرتے ہیں، لیکن اس وسیع و عریض ملک میں ایسے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہو چکی ہے جو کرکٹ کے دیوانے ہیں جن میں خاص طور پر پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔
کرکٹ کے میدان میں پاکستان اور بھارت کو بڑے حریفوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور دنیا میں جہاں کہیں بھی ان دونوں ٹیموں کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اسٹیڈیم میں تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں رہتی اور دنیا بھر میں کرکٹ کے دیوانے ٹیلی وژن اسکرینز سے جڑ جاتے ہیں۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت 9 جون کو نیویارک میں ایک دوسرے کا سامنا کریں گے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کہا ہے کہ اس میچ کو دیکھنے کے لیے اس قدر جوش و خروش ہے کہ اسٹیڈیم میں نشستوں کی تعداد کے مقابلے میں ٹکٹوں کی طلب 200 گنا زیادہ ہے۔
لانگ آئی لینڈ پر واقع ناساو کاؤنٹی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں 34 ہزار نشستوں پر مشتمل عارضی اسٹیڈیم ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے، تاہم 9 جون کو ہونے والے میچ کے لیے تمام ٹکٹیں فروخت ہونے کی یقین دہانی کروائی جا چکی ہے۔
ورلڈ کپ کے لیے نیویارک، فلوریڈا اور ٹیکساس میں تین مقامات پر عارضی کرکٹ اسٹیڈیم تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔
نیویارک میں عارضی کرکٹ اسٹیڈیم لانگ آئی لینڈ کے علاقے کی ناسا کاؤنٹی میں بنایا جا رہا ہے۔ یہاں 34 ہزار نشستیں رکھی گئیں ہیں۔ یہاں پہلا میچ 9 جون کو ہونے جا رہا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ ابھی ٹکٹوں کی فروخت شروع نہیں ہوئی، لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے لیے سبسکرپشن 200 گنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی امریکہ اور ویسٹ انڈیز مشترکہ طور پر کر رہے ہیں۔
اگرچہ ویسٹ انڈیز میں کرکٹ بہت شوق سے کھیلا اور دیکھا جاتا ہے اور وہاں ان مقابلوں میں بڑے ہجوم کی آمد کوئی انہونی بات نہیں ہے، لیکن امریکہ میں پہلی بار ہونے والی ان گیمز کے لیے دیوانگی دیدنی ہے۔
یہ پہلا موقع ہوگا کہ امریکہ میں کوئی بین الاقوامی ٹورنامنٹ منعقد ہوگا، جس میں 16 میچز ہوں گے، جن میں لاؤڈرہل، جنوبی فلوریڈا اور ڈیلاس کے قریب گرینڈ پریری اسٹیڈیم کے میچز بھی شامل ہیں۔
امریکہ میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے چیف ایگزیکٹو بریٹ جونز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام مقابلے امریکہ میں ہی ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان دونوں ملکوں کی ٹیموں کا امریکہ آنا اور انہیں اس سرزمین پر کھیلتے ہوئے دیکھنا بہت خوش آئند ہے۔ ”ٹکٹوں میں دلچسپی حیرت انگیز ہے۔ بیلٹ کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مانگ بہت زیادہ ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ ہر ورلڈ کپ میں بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ان دونوں ممالک کو امریکہ میں دیکھنا واقعی خوشی کی بات ہے۔“
بریٹ جونز کہتے ہیں کہ ہم امریکہ میں اپنے کرکٹ شائقین اور کرکٹ سے پیار کرنے والوں کو انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ کرکٹ کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ ہم اس کھیل کو یہاں فروغ دینا چاہتے ہیں اور اسے کمیونٹی کی سطح پر پھیلانا چاہتے ہیں۔
جونز نے بتایا کہ اسٹیڈیمز کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ ہمیں ابھی بہت کام کرنا ہے اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ہم اپنے کرکٹ کے شائقین تک پہنچ سکتے ہیں اور انہیں اس ملک میں اس کھیل کی تمام سہولتیں مہیا کر سکتے ہیں۔
ٹورنامنٹ کا آغاز یکم جون کو ٹیکساس میں امریکہ اور کینیڈا کی ٹیموں کے درمیان مقابلے سے ہوگا۔
اگرچہ منتظمین کو امید ہے کہ وہ کچھ امریکیوں کو کھیل کی جانب راغب کر سکیں گے، لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تارکینِ وطن کی آبادی میں اس کھیل کے حوالے سے پہلے ہی بہت زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے اور ان کی توجہ انہی شائقین پر ہے۔
بریٹ جونز نے کہا، ”میرے خیال میں سب سے پہلے، ہمیں ان لوگوں کی خوشی میں شامل ہونا چاہیے جو پہلے سے ہی کرکٹ کے جنونی اور شوقین ہیں۔ وہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کو اپنے ملک میں دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ موقع ان کے پاس ہے۔ لہٰذا پہلے تو ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ایسا ہو اور انہیں ویسا ہی محسوس ہو، جیسا کھیل وہ چاہتے ہیں۔ دوسرا مجھے لگتا ہے کہ کھیل میں تجسس بڑھانا ہے۔“
امریکی کبھی بھی کرکٹ کے سحر میں مبتلا نہیں ہوئے اور اپنے بیٹ اور بال ایکشن کے لیے وہ بیس بال کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس کھیل کو ملک میں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے ساتھ ایک بے مثال پلیٹ فارم ملنے والا ہے، جس میں چار سال کے عرصے میں لاس اینجلس اولمپکس بھی شامل ہیں۔
بریٹ جونز کا مزید کہنا تھا ”بلاشبہ 2028 میں لاس اینجلس میں ہونے والے اولمپکس اور پھر 2032 میں برسبین میں ہونے والے اولمپکس گیمز کرکٹ کے لیے بہترین موقع ہیں۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہمارے فائدے میں ہیں۔“
انہوں نے کہا: ”ہم امریکہ میں اپنے کرکٹ شائقین اور کرکٹ سے محبت کرنے والوں کو انعام دینا چاہتے ہیں، جو ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ پھر ہم چاہتے ہیں کہ اس کے بعد تجسس بڑھے اور امید کرتے ہیں کہ کمیونٹی کی سطح پر کھیل اور اس کے فوائد کے بارے میں ایک بات چیت شروع ہوگی۔“
آئرلینڈ، سری لنکا، جنوبی افریقہ، نیدرلینڈز، بنگلہ دیش اور کینیڈا بھی میزبان ملک کے ساتھ امریکہ میں کھیلیں گے۔
چونکہ دلچسپی کی کوئی کمی نہیں ہے، منتظمین کو اب بھی عالمی ٹورنامنٹ کے لیے ضروری سہولیات اور بنیادی ڈھانچہ کھڑا کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔
فورٹ لاؤڈرڈیل کے بالکل باہر واقع لاؤڈرہل اسٹڈیم میں پہلے ہی بین الاقوامی کرکٹ میچ کھیلے جا چکے ہیں لیکن اس میں نمایاں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔
گرینڈ پریری اسٹیڈیم کو گذشتہ سال نیو ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میجر لیگ کرکٹ کے میدان کے طور پر کھولا گیا تھا، لیکن ٹورنامنٹ کے لیے اس کو بڑھایا جا رہا ہے۔
جونز نے کہا: ”ہمیں ابھی بھی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت کام کرنا ہے تاکہ ہم اپنے کرکٹ شائقین کو رسائی فراہم کر سکیں۔ ہم لوگوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ کھیلوں کے شوقین ملک میں جہاں تفریح کی ضرورت ہے، کرکٹ ایک بہترین تفریح فراہم کرنے والا کھیل ہے۔“
ٹورنامنٹ کا آغاز یکم جون کو ٹیکسس میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان میچ سے ہوگا۔
امریکہ کی ٹیم کے نائب کپتان ایرون جانز کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کی اچھی پرفارمنس سے ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، جو اس کھیل کی طرف آنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ”ہم دنیا میں ہر کسی کو دکھانا چاہتے ہیں کہ امریکہ بھی کرکٹ کھیلنے والا ملک اور آنے والے بچوں کے لیے رول ماڈل بن سکتا ہے۔“