فلسطین؛ نئے ہتھیاروں کی سب سے بڑی تجربہ گاہ

وسعت اللہ خان

ایک جرمن آسٹریلوی یہودی محقق اینٹنی لینشٹائین کی کتاب ’’فلسطین لیبارٹری‘‘ بیسٹ سیلر فہرست میں شامل ہے۔ اس کتاب کی مقبولیت غزہ میں اسرائیل کی نسل کش مہم کے سبب اور بڑھی ہے۔

لینشٹائین کا خیال ہے کہ بہت کم ممالک ہیں، جنہیں واقعی مقبوضہ فلسطین کی آزادی سے کوئی حقیقی دلچسپی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطین نئے ہتھیاروں اور جنگی ٹیکنالوجی کو حقیقی جنگی حالات میں آزمانے کی لیبارٹری ہے۔ جیتے جاگتے انسانوں پر آزمائش کے بعد اسرائیل اپنا سامانِ مرگ اس اعتماد کے ساتھ دنیا کو فروخت کرتا ہے کہ یہ کوئی تجرباتی کھلونے نہیں، بلکہ میدانِ جنگ میں آزمودہ ہتھیار اور آلات ہیں۔

شاید آپ کو یاد ہو کہ دو ہزار چودہ میں غزہ کے ساحل پر فٹ بال کھیلنے والے چار بچوں کو ایک اسرائیلی ہرمیز ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔ بظاہر عالمی سطح پر اسرائیل کی مذمت کی گئی، مگر اس واردات کو بھی بطور تجارتی اشتہار استعمال کیا گیا اور مسلح اسرائیلی ڈرونز کی عالمی فروخت میں تب سے چھ فیصد سالانہ اضافہ دیکھا گیا۔

اسرائیلی ہتھیار ساز کمپنیوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ایک سے ایک تباہ کن ہتھیار، نگرانی کے نت نئے آلات اور مصنوعی ذہانت کے جنگی استعمال پر کام کرنے والی کمپنیوں میں اسرائیلی فوج کی مالی شراکت بھی بڑھ گئی۔

گزشتہ برس یہ خبر سامنے آئی کہ ہرمیز ڈرون کا ایک نیا ورژن (ہیرون) تیار کر لیا گیا ہے، جو ایک ٹن ایمونیشن کا لوڈ لے کر ایک ہزار کلومیٹر کے دائرے میں مطلوبہ اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ہیل فائر میزائلوں سے مسلح امریکی ریپرز اور پریڈیٹرز کے برعکس ہیرون کی بھنبھناہٹ بھی سنائی نہیں دیتی اور اس کے ذریعے سرسراہٹ سے پاک گریوٹی بم گرائے جا سکتے ہیں، جن کی آواز تب ہی سنائی دیتی ہے، جب وہ نشانے پر لگ جائیں۔

اسرائیل نہ صرف امریکا اور برطانیہ بلکہ بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش کو بھی ہرمیز ڈرونز فراہم کر رہا ہے اور اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ڈرون ٹیکنالوجی کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور آپریٹر ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلا ملک ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کو حقیقی جنگی مشنز میں بھرپور طریقے سے استعمال کر رہا ہے۔ غزہ میں اے آئی کی مدد سے اہداف کا انتخاب کیا جاتا ہے اور پھر انہیں انسانوں سمیت نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گویا جیتے جاگتے انسانوں کی زندگی اور موت کا فیصلہ اب مشینی ذہانت کے ہاتھ میں ہے۔

دو ہزار چودہ سے قبل اسرائیل کو پچاس ہدف چننے میں لگ بھگ ایک ماہ کا عرصہ لگتا تھا۔ اب یہی ڈیٹا اے آئی سسٹم کو فیڈ کر دیا گیا ہے تو ایک دن میں سو سے زائد ہدف چنے جا سکتے ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اب تک غزہ میں بیس ہزار اہداف کو ٹارگٹ بنایا ہے تاکہ حماس کا چھوٹے سے چھوٹے لیول کا جنگجو بھی نہ بچ سکے۔ بھلے ایک جنگجو کو ہلاک کرنے کے عوض سیکڑوں شہریوں کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔

اب ماہرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے سرجیکل اسٹرائکس میں کم سے کم جانی نقصان کو یقینی بنانے کے بجائے آس پاس کے پورے پورے محلوں کو ہی صفحہِ ہستی سے مٹانا ہے تو پھر جدید ٹیکنالوجی اور دوسری عالمی جنگ کی اندھا دھند بمباری میں کیا فرق ہوا؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اے آئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے بہانے اصل مقصد تیز رفتار صنعتی پیمانے پر انسانوں کی نسل کشی ہے۔

مقبوضہ علاقوں کو اپنے پنجے تلے رکھنے کے لیے اسرائیل نگرانی اور انفرادی ہلاکت کے لیے جو آلات دو عشروں سے استعمال کر رہا ہے، ان پر بھی محاذِ جنگ میں استعمال شدہ کا ٹیگ لگا کے لگ بھگ ایک سو تیس ممالک کو برآمد کیا جا رہا ہے۔

زیادہ تر ممالک ان آلات کو اپنے سیاسی و عسکری مخالفین کی نگرانی، بیخ کنی یا آزادانہ مواصلاتی رابطوں میں مجموعی رکاوٹ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

مثلاً ایک اسرائیلی کمپنی نے فون ٹیپنگ کے لیے دو ہزار گیارہ میں پیگاسس نامی جو سسٹم تیار کیا، اس کا اب تک موثر توڑ سامنے نہیں آ سکا۔ پیگاسس سسٹم کے ذریعے بند موبائل فون کو بھی آپ کے علم میں آئے بغیر ہائی جیک کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی اس وقت مصر، خلیجی ریاستیں، انڈیا اور میکسیکو سمیت متعدد ممالک استعمال کر رہے ہیں۔

اگرچہ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کی یلغار نے اسرائیل کے اس امیج کو زبردست جھٹکا دیا کہ وہ اے آئی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے عسکری استعمال کا امام ہے، مگر اسرائیل اس جھٹکے کی جھینپ مٹانے کے لیے جس طرح غزہ کے قتلِ عام میں نت نئے اسمارٹ بموں، ڈرونز اور سراغ رسانی کے آلاتی استعمال کو تجارتی تشہیر کے لیے استعمال کر رہا ہے، اس کا مقصد آمریت پسند ریاستوں کی مارکیٹ کو برقرار رکھنا ہے۔

دو ہزار چودہ میں غزہ کے مکینوں پر تین ماہ کی فوجی یلغار میں تقریباً نو ہزار فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے جو نئے ہتھیار اور ٹیکنالوجیز آزمائی گئیں اور ان کی جس طرح تشہیر کی گئی، اس کا فائدہ (اسرائیل کو) یہ ہوا کہ اسرائیلی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی برآمد میں پچپن فیصد کا اضافہ ہوا۔ سب سے بڑا گاہک انڈیا تھا، جس نے کل اسرائیلی عسکری ہتھیاروں اور آلات کی برآمد کا پینتیس فیصد خریدا۔ مودی حکومت اسرائیل سے خریدے گئے نگرانی کے آلات کو کشمیر اور شمال مشرقی ریاستوں کے علاوہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی چابک دستی سے استعمال کر رہی ہے۔

دو ہزار بائیس میں اسرائیل نے ساڑھے بارہ ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ اور ٹیکنالوجی فروخت کی۔ توقع ہے کہ غزہ کی جنگ میں عام لوگوں کو مٹانے کے لیے نئے آلات بالخصوص اے آئی کا عسکری استعمال اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کے لیے پہلے سے زیادہ زرِ مبادلہ لائے گا۔

فلسطین صرف اسرائیل کی ہی تجربہ گاہ نہیں بلکہ مغربی بالخصوص امریکی، برطانوی اور فرانسیسی ہتھیاروں کی بھی گزشتہ پچھتر برس سے ’’اصل حالات میں اصل آزمائش‘‘ کا میدان ہے۔ اور اس آزمائش کے لیے اسرائیل سے زیادہ سفاک آپریٹر بھلا کون ہو سکتا ہے اور فلسطین سے بڑی لیبارٹری اور کہاں ملے گی؟ اگر فلسطین خودمختار ہو گیا تو اسرائیل کہاں اتنی آزادی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی جنگی ٹیکنالوجی آزمائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کسی انسانی گروہ کے بارے میں فرض کر لیں کہ یہ نیم انسان ہیں تو پھر انہیں لیبارٹری میں استعمال ہونے والے جانوروں کی طرح برتنا آسان ہو جاتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس نیوز
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close