سات مارچ کو غزہ کو خونی غسل دیے جانے کے چھ ماہ مکمل ہو گئے۔
گزشتہ برس اسرائیل کی نسل پرست حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں غاصب یہودی آبادکاروں کے لیے مزید اٹھارہ ہزار گھر بنانے کا اعلان کیا۔ ان میں سے ساڑھے تین ہزار گھروں کی فوری تعمیر کی پچھلے ہفتے منظوری دے دی گئی۔
اس مقصد کے لیے فلسطینیوں کی مزید سیکڑوں ایکڑ زمین سرکار نے اپنے قبضے میں لے کے وہاں سے مقامی باشندوں کو بزور نکالنے کی مسلح آبادکار مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس نئے اعلان کی مذمت کرنے والوں میں سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور اردن تو خیر ہیں ہی، اسرائیل کے جگری اتحادی جرمنی نے بھی پرائی زمین میں نئے گھروں کی تعمیر بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس منصوبے کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جب کہ اسرائیل کے سرپرستِ اعلیٰ امریکا کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی حیرت انگیز طور پر نئی آبادکار پالیسی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے اسرائیل مزید غیر محفوظ ہوگا۔
مگر اسرائیل ہمیشہ سے عالمی برادری کی تشویش و مطالبات جوتے کی نوک پر رکھتا آیا ہے۔ اسے اچھے سے معلوم ہے کہ یہ تشویش کس قدر عارضی اور کھوکھلی ہے۔
اگر اسرائیل کے مرید ممالک کو یہودی آبادکاری کا تازہ منصوبہ واقعی بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتا نظر آ رہا ہے تو اسے روکنے کے لیے اسرائیل کے خلاف تادیبی اقتصادی و عسکری پابندیوں کا اعلان کرتے یا کم از کم اس بابت دھمکی ضرور دیتے۔
بظاہر تشویش اور درحقیقت اسرائیل کی پہلے سے زیادہ بھرپور سفارتی ، اقتصادی اور فوجی حمایت کے مغربی رجحان میں رتی برابر کمی تو خیر کیا آتی نوازنے کا سلسلہ اور دراز ہو گیا ہے۔ مثلاً غزہ کے ادھ موئے فلسطینیوں پر فضا سے خوراک کے پیکٹ گرا کے ان کے زخموں پر ایک جانب امریکی نمک چھڑکا جا رہا ہے اور دوسری جانب جنگ بندی کی ہر قرار داد کو ویٹو بھی کیا جا رہا ہے۔
حتیٰ کہ زمینی راستے سے غزہ کو انسانی امداد پہنچانے کے لیے اسرائیل پر ضروری دباؤ بھی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ایک پیکٹ خوراک کے بدلے اسرائیل کو دس اسمارٹ بم سپلائی کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ غزہ کو اب یہ خونی اعزاز بھی مل چکا ہے کہ اتنے مختصر علاقے پر اتنی مسلسل بمباری انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی۔
موقر برطانوی اخبار گارڈین کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ کانگریس کی ریارکارانہ اسکروٹنی سے بچنے کے لیے اب اسرائیل کو چور دروازے سے مسلسل سامانِ حرب بھجوا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی کانگریس نے ساٹھ ارب ڈالر کی فوجی و اقتصادی امداد کا جو بل منظور کیا، اس میں اسرائیل کے لیے مزید ساڑھے چودہ ارب ڈالر مختص کیے جا چکے ہیں۔۔ مگر کہانی یہاں پر بھی نہیں رکی۔
اب معلوم ہوا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت اسرائیل کو لگاتار اسلحہ پہنچا رہی ہے۔ اس قانون کے تحت دوست ممالک کو پچیس ملین ڈالر تک کے انتہائی جدید آلات اور ایک سو ملین ڈالر تک کا روایتی اسلحہ فروِخت کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ کو کانگریس کی پیشگی منظوری درکار نہیں ہوتی۔
گزشتہ ماہ ایک ڈیموکریٹ رکنِ کانگریس نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لیے جو ترمیمی بل پیش کیا، وہ بھاری اکثریت سے مسترد ہو گیا۔ چنانچہ پچھلے چار ماہ کے دوران امریکا نے اسرائیل کو پانچ سو تہتر ملین ڈالر کا اسلحہ اس رقم کے سو ٹکڑے کر کے بجھوایا ہے، تاکہ معاملہ کانگریس کے سامنے جائے بغیر ’’قانونی حدود‘‘ میں رہتے ہوئے نپٹتا رہے۔
چونکہ اتنی محدود مالیت کے دفاعی آلات کی فراہمی کی کانگریشنل اسکروٹنی بھی نہیں ہوتی، لہٰذا بائیڈن انتظامیہ یہ بتانے کی بھی کسی کو پابند نہیں کہ امداد میں کیا کیا بھیجا جا رہا ہے۔
مگر میڈیائی کھوجیوں کا کہنا ہے کہ اس ’’قانونی چور دروازے‘‘ سے اسرائیل کو وہ تمام اشیا بھجوائی جا رہی ہیں، جو وہ غزہ کو بالکل ہموار کرنے اور بھوکے پیاسے مکینوں کو زندگی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ مثلاً اسمارٹ بم، چھوٹے دائرے میں زیادہ تباہی پھیلانے والے بم، بنکر تباہ کرنے والے بم، چھوٹے ہتھیار اور بموں اور گولوں کی درست نشانے تک رہنمائی کرنے والا سسٹم۔۔
البتہ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے محدود قانونی حدود میں اسرائیل کو قسط وار عسکری سپلائی کے معاملے پر کانگریس کی متعلقہ کمیٹی کو بند کمرے میں بریفنگ دی ہے۔
آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ میں پوشیدہ چور دروازوں کا استعمال کوئی نئی بات نہیں۔دو ہزار سترہ تا انیس ٹرمپ انتظامیہ نے اسی ترکیب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو چار ہزار دو سو اکیس مالیاتی ٹکڑیوں میں گیارہ اعشاریہ دو ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔
اسرائیل کو اسلحے کی جو پوشیدہ سپلائی مسلسل ہو رہی ہے، وہ تین اعلان کردہ سپلائیز کے علاوہ ہے۔ مثلاً بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کی منظوری سے نومبر میں تین سو بیس ملین ڈالر مالیت کے ’’پرسیٹرن بم‘‘ کی بھاری کھیپ بھجوائی۔ جب کہ دسمبر میں ایک سو چھ ملین ڈالر مالیت کے ٹینکوں کے گولے اور ایک سو اڑتالیس ملین ڈالر کے ایک سو پچپن ملی میٹر کی توپوں میں استعمال ہونے والے گولے فروخت کیے۔
حالانکہ خود بائیڈن کی جماعت کے تیس ڈیموکریٹ ارکانِ کانگریس نے صدر کے نام ایک مشترکہ خط میں اسرائیل کی غزہ مہم کی غیر مشروط حمایت کی پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے مگر محکمہ خارجہ کی ڈھٹائی اپنی جگہ قابلِ داد ہے۔
ترجمان میتھیو ملر کے بقول ’’اسرائیل کو اسلحے کی بلاتعطل ترسیل اسرائیل کے ترجیحی دفاع کی بنیادی امریکی پالیسی کا تسلسل ہے۔ اس کا مقصد اسرائیل کی ان کوششوں کا ساتھ دینا ہے، جن کا مقصد آیندہ سات اکتوبر جیسے حملوں کی روک تھام یقینی بنانا ہے۔ ہم بین الاقوامی انسانی قوانین کے دائرے میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی کی حمایت کرتے رہیں گے۔‘‘
محکمہ خارجہ کے ترجمان کے اس بیان کے بعد بھی اگر کوئی سادہ لوح توقع باندھے بیٹھا ہے کہ امریکا محض زبانی نہیں، بلکہ عملاً بھی ایک خودمختار و آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں کر رہا ہے تو ایسے شخص کو فوراً کسی اچھے معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)