پاکستان میں ہر شعبہ کے حالات بگاڑ کا شکار ہیں۔ تباہ حال معیشت کے حامل ملک میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے لیکن حیران کن طور پر اس سب کے باوجود پاکستانیوں کی ذہنی صحت انڈیا اور کئی مغربی ممالک سے بہتر ہے۔۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس بارے میں آگے چل کر بات کرتے ہیں، پہلے ذکر سالانہ ہیپی نیس سروے کے نتائج کا
2024 میں دنیا کے خوش ترین ممالک کی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے، جس میں فن لینڈ سات سال بعد بھی خوش ترین ملک کا اعزاز برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے، جبکہ حسبِ معمول شمالی یورپ اور شمالی اٹلانٹک کے ممالک بالائی نمبروں پر آئے ہیں۔
امریکی ٹی وی چینل سی این این کے مطابق حالیہ رپورٹ میں پہلی بار مختلف عمر کے لحاظ سے گروپوں کی الگ الگ درجہ بندی شامل ہے، جس کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے کچھ حصوں میں نوجوان اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
شمالی امریکہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں خوشی کی شرح تیزی سے کم ہوتی دیکھی گئی ہے اور وہ زیادہ عمر کے افراد کے مقابلے میں کم خوش ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں:
فن لینڈ دنیا کا خوش ترین ملک کیوں ہے؟
خوشی کی کم ہوتی شرح کے باعث پہلی بار امریکہ ٹاپ 20 ممالک کی فہرست سے باہر ہو گیا ہے۔
فہرست میں امریکہ کے نیچے آنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ دوسرے ممالک، جن میں زیادہ تر کا تعلق مشرقی یورپ سے ہے، کے رہائشیوں کو ’خوش ہونے‘ کے زیادہ مواقع میسر آئے۔
رپورٹ کے مطابق فہرست اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کیے جانے والے ’یوم مسرت‘ کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ میں 140 سے زائد ممالک کے لوگوں کا ڈیٹا شامل کیا گیا ہے۔
اس میں 2021 سے 2023 تک کے تین برسوں کے دوران رہائشیوں کی اوسط عمر کے جائزے کی بنیاد پر خوشی کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
رپورٹ گیلپ، آکسفورڈ ویل بیئنگ ریسرچ سینٹر، اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پائیدار ترقی اور ادارتی بورڈ نے مل کر بنائی ہے۔
عالمی مسرت کی فہرست کے ایڈیٹر اور یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے پروفیسر جان ہیلی ویل کا کہنا ہے کہ سروے میں شرکت کرنے والے ہر فرد سے ان کے معیارِ زندگی سے متعلق سوال پوچھا گیا۔
جان ہیلی ویل نے کہا ”اس سے آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ فن لینڈ بہت سی خوبیوں سے مالامال ہے، جیسے گلی میں گرے بٹوے واپس کر دیے جاتے ہیں۔ لوگ ہر وقت ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار رہتے ہیں، وہاں اعلٰی معیار کے صحت اور تعلیم کے مواقع دسیتاب ہیں اور ان سے گزرنے والا ہر شخص کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔“
ان کے مطابق ”فن لینڈ میں جانے والے بھی زیادہ خوش دکھائی دیتے ہیں یعنی یہ وہی چیز ہے جسے وہاں کے رہائشی نئے آنے والوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔“
خوشی کی عالمی فہرست میں فن لینڈ کے بعد ڈنمارک دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کے بعد بالترتیب آئس لینڈ، سویڈن، اسرائیل، نیدرلینڈز، ناروے، لکسمبرگ، سوئٹزرلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کوسٹا رکا، کویت، آسٹریا، کینیڈا، بیلجیئم، آئرلینڈ، چیک ریپبلک، لتھوانیا اور برطانیہ کے نام آتے ہیں
پاکستان اگرچہ اس فہرست میں کہیں نظر نہیں آتا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے ’گلوبل مائنڈ پروجیکٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں مجموعی ذہنی تندرستی میں پاکستان 71 ممالک میں 56 ویں نمبر پر رہا، جب کہ اس کا ہمسایہ ملک انڈیا 61 ویں اور برطانیہ اس فہرست میں 70 ویں نمبر پر رہا۔
جی ہاں، ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستانیوں کی ذہنی صحت برطانیہ اور انڈیا سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہتر ہے۔
حیران کن طور پر ڈومینیکن رپبلک، سری لنکا اور تنزانیہ جیسے ترقی پذیر ملک ذہنی صحت کے لحاظ سے سرفہرست تین ممالک ہیں جبکہ یورپ اور شمالی امریکہ کے ترقی یافتہ ممالک اس فہرست میں کافی نیچے دکھائی دیتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارے ’گلوبل مائنڈ پروجیکٹ‘ کی یہ سالانہ رپورٹ گذشتہ ہفتے شائع ہوئی تھی، جس میں پوری دنیا میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والی آبادیوں کی ذہنی صحت کے بارے میں رجحانات اور بصیرت فراہم کی گئی ہے۔
یہ نتائج نو خطوں میں پھیلے ہوئے 71 ممالک میں 13 زبانوں میں حاصل کیے گئے، جو پانچ لاکھ سے زیادہ شرکا کے ڈیٹا پر مبنی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2023 میں مجموعی ذہنی تندرستی میں پاکستان 71 ممالک میں 56 ویں نمبر پر رہا، جب کہ اس کا ہمسایہ ملک انڈیا 61 ویں اور برطانیہ اس فہرست میں 70 ویں نمبر پر رہا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 28 فیصد پاکستانیوں کو پریشانی اور جدوجہد کا سامنا ہے جبکہ انڈیا میں یہ شرح 30 فیصد اور برطانیہ میں 35 فیصد ہے۔
رپورٹ کے مطابق کرونا کی وبا کے دوران نوجوان نسل، خاص طور پر 35 سال سے کم عمر افراد کی ذہنی صحت تیزی سے گری جبکہ 65 سال سے زیادہ عمر والے افراد ذہنی طور پر مستحکم رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ذہنی صحت اور معاشی خوشحالی کے درمیان کوئی باہمی تعلق ظاہر نہیں ہوا، کیونکہ یورپ یا وسطی ایشیا کی کچھ امیر ریاستیں اس فہرست میں افریقہ اور لاطینی امریکہ کی غریب ریاستوں سے نیچے ہیں۔
اس رپورٹ میں وبائی امراض کے دیرپا اثرات کے بارے میں بھی اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں، جن میں ہمارے رہنے اور کام کرنے کے طریقے میں تبدیلی اور موجودہ عادات جیسے ریموٹ ورکنگ، آن لائن کمیونیکیشن، الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور سنگل یوز پلاسٹک کے استعمال جیسے عوامل نے مجموعی طور پر ہماری ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے۔
اس ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ذہنی صحت کیا ہے اور اسے جانچنے کا کیا پیمانہ ہے؟ مذکورہ بالا رپورٹ کے تناظر میں اس سوال کے جواب میں معروف ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر اسامہ بن زبیر کہتے ہیں ”ذہنی صحت دراصل جسم کے سب سے اہم عضو یعنی دماغ کی تندرستی کے بارے میں ہے کہ یہ کیسے کام کر رہا ہے، ذہنی صحت کسی شخص کے مزاج، اس کے رشتوں اور اس کے کام کو ظاہر کرتی ہے۔ کسی شخص کے چڑچڑے پن، رشتوں یا کام کو متاثر کرنے جیسے عوامل ذہنی صحت کی خرابی کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اگر کسی شخص کا معیارِ زندگی گر رہا ہو تو یہ بھی ذہنی صحت میں خرابی کی وجہ ہو سکتی ہے یا اس کے برعکس یعنی ذہنی صحت کی خرابی سے معیارِ زندگی گر سکتا ہے۔“
ڈاکٹر اسامہ نے کہا ”ہم اچھی خوراک، ورزش اور لائف اسٹائل میں تبدیلی لا کر ذہنی صحت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ تحفظ کے احساس، بہتر کام کے ذرائع اور رشتوں یا پیار کرنے والوں کی موجودگی بھی مزاج اور ذہنی صحت میں بہتری کا سسب بن سکتی ہے۔“
اگر ایسا ہے تو پھر آخر پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے حالات کیسے نسبتاً ساز گار رہے؟
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں دماغی امراض مجموعی بیماریوں کے چار فیصد سے زیادہ ہیں۔ دماغی صحت کی خرابی میں مبتلا خواتین کا تناسب مردوں سے زیادہ ہے۔
ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً ڈھائی کروڑ افراد کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے، لیکن دماغی صحت کے امراض کی سکریننگ اور علاج کے لیے مختص وسائل بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فی ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں جو دنیا میں سب سے کم تعداد میں سے ایک ہے۔
لیکن اس کے باوجود پاکستان اس فہرست میں کیسے کئی ملکوں سے بہتر رہا، اس بارے میں ماہر نفسیات ڈاکٹر اسامہ بن زبیر نے کہا ”اس رپورٹ میں پاکستان میں بہتر ذہنی صحت کے حوالے سے مثبت پیش رفت کے کئی پہلو ہیں۔“
ان کے مطابق ”چونکہ یہ رپورٹ کرونا وبا سے متاثرہ عرصے کے دوران مرتب کی گئی تھی، اس لیے پاکستان میں دیگر ممالک خاص طور پر مغربی اور ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں حالات اس لیے زیادہ ساز گار تھے کہ یہاں جوائنٹ فیملی سسٹم اور قریبی رشتوں نے انہیں اعتماد اور تحفظ کا احساس دلایا، جب کہ اس کے برعکس مغربی معاشروں میں رشتوں میں دوریاں مزید بڑھ گئیں، جس سے لوگوں کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مزید گہرے ہو گئے۔“
ڈاکٹر اسامہ نے کہا ”مغرب میں ’کووڈ بے بیز‘ یعنی وہ بچے جو اس عرصے میں بڑے ہو رہے تھے، نے سخت ترین لاک ڈاؤن میں اپنے والدین کو لڑتے جھگڑتے، انہیں الکوحل اور منشیات کا استعمال کرتے دیکھا، جس سے کئی گھرانے ٹوٹ گئے اور بچوں پر اس کا گہرا اثر ہوا۔“
ڈاکٹر اسامہ کہتے ہیں ”پاکستان میں ذہنی مسائل باقی دنیا کی طرح ہی ہیں یا شاید ان سے بھی بدتر۔۔ کیوں کہ یہاں ماہرینِ نفیسات کی تعداد بھی کم ہے اور ان سے مشورہ لینے کا رواج بھی۔۔ لیکن یہاں جو فرق پیدا ہوا، وہ سماجی رشتوں کی مضبوطی کا تھا، جس نے رشتوں کو جوڑے رکھا اور ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ اور شفقت ایک حفاظتی عنصر تھا جو بچوں اور خاندان کے افراد کے لیے اس حوالے سے مدد گار ثابت ہوا۔“
انہوں نے کہا ”اس کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی طرح کچھ قومیں زیادہ مزاحمت رکھتی ہیں، جیسا کہ پاکستان میں لوگ کئی قسم کے ٹراما سے گزرتے ہیں اور کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، جس سے ان میں دباؤ کو برداشت کرنے اور دماغ کو زیادہ متاثر کرنے سے روکنے کی صلاحیت بڑھ گئی ہے۔“
اس سوال پر کہ مالی آسودگی کے باوجود ترقی یافتہ ممالک کیوں زیادہ متاثر ہوئے؟ ڈاکٹر اسامہ نے کہا: ”ہماری کتابیں اور سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ مالی آسودگی کا خوشی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ خوشی کا تعلق آپ کے رشتوں، پیار کے جذبے اور خاندان سے ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کے مطابق مالی خودمختاری یا آسودگی ایک خاص حد تک اہم ہے لیکن یہ ذہنی صحت کے لیے اتنی اہم نہیں ہے۔ اہم آپ کے تعلقات، رشتے، خوراک، ورزش اور لائف سٹائل ہے۔“