پچپن سے پڑھایا جاتا ہے کہ پودے، درخت جاندار ہوتے ہیں۔ سکھایا جاتا ہے کہ ان کی حفاظت کرنی ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ہے تاکہ یہ اچھے سے بڑے ہو سکیں، سایہ دیں اور پھل دیں۔
ایک اہم چیز جو بتلائی جاتی ہے، وہ یہ کہ انسانی زندگی کا بہت حد تک انحصار ان ہی درختوں پر ہے جو ہمیں آکسیجن فراہم کر کے سانس کا باعث بنتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اپنی زندگی کی ڈوریں اپنے ہی ہاتھوں سے رفتہ رفتہ کاٹ رہا ہے اور اسے جدید دور اور ماڈرن زندگی کا نام دے کر اپنا ہی دل بہلا رہا ہے۔
لیکن یہ بندہ ناچیز کبھی یہ تو سوچے کہ آخر اس ماڈرن زندگی کا انجام کتنا بھیانک ہوگا؟
2012 کے بعد سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں 21 مارچ کو اقوام متحدہ کی جزل اسمبلی کی طرف سے عالمی یوم جنگلات منایا جاتا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں جنگلات کی اہمیت سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں تمام ممالک کو بھی تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اس دن کو قومی سطح پر منائیں اور زیادہ سے زیادہ پودے لگائیں۔
یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے لیکن جب تک 21 مارچ آتا ہے، تب تک ہزاروں ایکڑ درخت کاٹ کر ان ہی لوگوں کی تزئین و آرائش کے لیے استعمال کر لیے جاتے ہیں، جو اس ایک دن میں بہت زور و شور سے جنگلات کی اہمیت بتانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔
جنگلات خدا کا وہ خوبصورت تحفہ ہیں، جو بلاشبہ مختلف انسانی ضرورتوں کے لیے ازل سے ہی استعمال ہوتا آ رہا ہے لیکن اس موجودہ دور میں انسانوں نے اپنی خواہشات کو بھی ضروریات کا نام دے دیا ہے، جس کی بھینٹ یہ درخت چڑھتے ہیں اور اس کا خمیازہ نہ صرف پوری قوم بلکہ پورے خطے کو ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی کی بدترین حالت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں درختوں کی کٹائی میں اضافے اور جنگلات کم ہونے سے ملک کو تباہ کن سیلاب اور مٹی کے تودے گرنے جیسے واقعات کا سامنا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور میں بلین ٹری منصوبہ متعارف کروایا تھا، جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر ماحولیاتی آلودگی سے جان چھڑوانا تھا لیکن بدقسمتی سے بہت سی ماحول دشمن چیزوں کو ضرورت بنالیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس طرح کے بڑے منصوبے بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔
اس سال عالمی یوم جنگلات کا موضوع ’جنگلات اور جدت‘ ہے، جس کا مقصد جنگلات کی بے جا کٹائی کے خلاف ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ جنگ ہے جس سے کم از کم درختوں کو محفوظ بنایا جائے کیونکہ ہر سال تقریباً 10 ملین ایکڑ جنگلات کٹائی اور تقریباً 70 ملین ایکڑ جنگلات آگ کے شعلوں کی نظر ہو جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فردِ واحد اس خوفناک وقت سے پہلے کہ جب موسموں کی شدید سختی ہوگی، جب گرین ہاؤس گیس پیدا کرنے والے ممالک کم ہوجائیں گے، خود پر لازم کرلیں کہ ایک معیاری زندگی کے لیے وہ درختوں کی حفاظت کریں گے۔
ہم ان درختوں کے مقروض ہیں، جن کی بدولت ہم ایک اچھے ماحول میں رہتے، سانس لیتے اور ان گنت فائدے اٹھاتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ آیا ہم نے اس ماڈرن زندگی کو معیاری بنا کر معیاد کو بڑھانا ہے یا ماڈرن کے نام پر غیر معیاری زندگی کو پروموٹ کرکے خود کو اندھے گڑھے میں ڈالنا ہے۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)